JK URDU 10TH CLASS NOTES,10th class urdu guide,class 10th urdu,jkbose 10th urdu book,urdu notes 10th/baharistani urdu 10th/10th class urdu guige/

  داستان 
(1) سیر چوتھے درویش کی میر امن دہلوی
1۔میرامن دہلوی کی حالاتِ زندگی اورادبی خدمات پرایک روشنی ڈالیے؟



جواب: حالاتِ زندگی :
میرامن دہلوی کا اصلی نام میر امان اللہ تھا آپ کی پیدائش دہلی میں 1748ء میں ہوئی آپ پہلےپہل لطف تخلصؔ کیا کرتے تھے لیکن بعد میں اپنےلئے تخلص میر امن سداکے لئے استعمال کرنے لگے زندگی گزارنے کے لئے والدین کی کافی دولتیں وجاگریں تھیں لیکن احمد شاہ درانی کے حملے میں آپ کی ساری زمینیں وجائیدایں چلی گئیں آپ دہلی سےکلکتہ چلے آئے اور یہی پر رہنے لگے میربہادرحسینیکی بدولت سےفورٹ ولیم کالج کےپرنسپل جان گل کرسٹ نے ماہانہ چالیس روپیوں کےعوض فارسی کتابوں کر اردو میں ترجمے کے کام پرفورٹ ولیم کالج میں ملازم رکھا آپ کی وفات 1806ء میں ہوئی
ادبی خدمات:
میر امن دہلوی کی سب سے بڑی خدمت یہ ہے کہ انھوں نے فارسی کے مشہور "قصہ چہار درویش " کا اردو میں ترجمہ "باغ وبہار کے نام کے ساتھ کیا یہ کتاب اتنی مشہور ہوئی کہ فورٹ ولیم کالج نے یہ کتاب انگریزی آفیسروں کی تعلیم وتربیت کے سلسلے میں درسِ نصاب میں شامل کی لیکن باغ وبہار کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں جو پانچ قصے بیان کیے گیے ہیں وہ آسان اور دلنشین زبان میں ہیں اس میں سادگی کا حسن بھی ہے اور زبان کی شیرینی بھی۔میرامن دہلوی کاطرزتحریر اس قدر صاف،شیریں اوربامحاورہ ہے بقول سرسید احمد خان دہلوی کو اردو نثر میں وہیں مقام حاصل ہے جو میر تقی میر کو نظم میں حاصل ہے 
2۔ان فقروں کے معنی پرغور کریں
جملے.......................................معنی
  1. بہ خوبی تربیت ہوا...................اچھی طرح سےتربیت حاصل کی
  2. حادثہ روبکا ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حادثہ پیش آیا
  3. مالک اس تخت وچتر کا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔اس تخت اور تاج کا جومالک ہے
  4. تم اُس کی نیابت کیجیو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تم اس کی بھر پورمدر کرنا
  5. خاطرجمع رکھے اورپڑھےگا۔۔۔۔۔ دل خوش رکھ کر پڑھنا
  6. صندل کو سرکایا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کرسی کوہلایا
  7.  برزگی کا کام کیجیو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عقل سے کام لینا
  8. .سلطنت سےکنارہ پکڑنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حکومت کا کام کاج چھوڑنا
۳۔سوالات۱۔فرش پر پتھر ہٹانے کے بعد شہزادے نے زمین کے اندر کیا دیکھا؟
جواب:فرش پر پتھر ہٹانے کے بعد شہزادے نے زمین کے اندرایک تہہ خانہ میں چار مکانات دیکھے اور ہر مکان کے دالان پر دس دس مٹکے سونے کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے دیکھے سوائے ایک مٹکے کے۔ ہر مٹکے کے اوپر ایک ایک سونے کی اینٹ اور ایک ایک بندر نما بُت دیکھا۔اس کے علاوہ ایک حوض بھی دیکھا جو ہیرے جواہرات سے بھرا ہواتھا
۲۔ملک صادق کون تھا اور شہرادے کے ساتھ اُن کا کیا رشتہ تھا؟
جواب: ملک صادق ایک جن تھا اور وہ جنات کا بادشاہ تھاشہزادے کے والد کے ساتھ اُن کی گہری دوستی تھی اس واسطے ملک صادق کے ساتھ شہزادے کے والد کی دوستی کا رشتہ تھا
3.سوال:شہزادے کے چچا کے لئے کیوں کہا گیا ہے کہ وہ”بجائے ابوجہل“ کے تھا؟
جواب:شہزادے کے چچا کے لئے اسی لئے کہا گیا کہ وہ ”بجائے ابوجہل“ کے تھاکیوں کہ ابو جہل ایک کافر شخص تھا اور وہ حضرتِ محمد ﷺکاچچاتھاحضرتِ محمد ﷺکا آخری نبی بنے سے آپ ُﷺکا جانی دشمن بن بیٹھایہاں پر بھی شہزادے کا چچا اُس کی جان کا جانی دشمن بن گیااسی لئے اُسے کو اس نام کے ساتھ پکارا گیا
۴۔’سیر چوتھے درویش کی‘کو اپنے الفاظ میں تحریر کیجیے؟

۵۔جواب:”سیر چوتھے درویش کی“میر امنؔ دہلوی کاایک ترجمہ کیا ہوا ایک داستان ہے اس داستان کی کہانی کچھ اس طرح سے ہے چوتھا درویش اپنا حالِ زار یوں بیان کرتا ہے کہ میں چین کے بادشاہ کا بیٹا ہوں بڑے لاڑ وپیار سے میری پرورش ہوئی۔ایک دن تقدیر نے ایسا کھیل کھیلا کہ میرے باپ کا مرنے کاو قت قریب آیامیرے چچا کو بلایا اور مرنے کے قریب یہ وصیت فرمائی کہ میں جب اس دنیا سے رخصت ہوجاوں گا توتم میری اس وصیت پر عمل کرنا میرے مرنے کے بعد تم بادشاہ خود بننا اور میرے بیٹے کی اچھی طرح سے تعلیم وتربیت کا انتظام کر لینااور جب میرا بیٹا بڑا ہو جائے گاتو تم خود بادشاہت سے کنارہ ہوجانااور بادشاہت شہزادے کے حوالے کردینا اور اپنی پیاری بیٹی روشن اختر کا نکاح اس کے ساتھ کر دینااس طرح بادشاہت ہمارے ہی خاندان میں باقی رہے گی مگر ایک روز ایسا ہوا ایک کنیز نے میرے ماتھے پرایک زور دارطماچہ مار دیا میں روتا ہوا مبارک کے پاس گیا جو میرے والد مرحوم بادشاہ کا سچا وفادارنوکر تھامبارک مجھے میرے چچا جو اب بادشاہ بن گیا تھا کے پاس لے گیاچچا نے مجھے جھوٹی دل جوئی دکھا کر کہا شہزادے میں بہت جلد تمہارے باپ کی بادشاہت تیرے حوالے کر دوں گا اور اپنی بیٹی کی شادی تمہارے ساتھ کر دوں گامگر جب میں دو تین دن کے بعد اپنے باپ کے وفادار نوکرمبارک سے ملا تو وہ زار زار رونے لگا اور کہا شہزادے تیرا چچا تمہاری جان کا دشمن بن گیااُس نے مجھے تجھے مارنے کی سفاری دے دی شہزادے اب میں نے ایک ترکیب سوچی ہے جس سے تمہیں تیری بادشاہت بھی واپس ملے گی اور روشن اختر کے ساتھ تمہاری شادی بھی ہو جائے گی اہک روز مبارک مجھے ایک جگہ لے گیا وہاں ایک کرسی کے نیچے فرش ہٹایاتو مجھے وہاں ایک  تہہ خانہ نظر آیا پہلے میں یہ سمجھ کہ مبارک یہاں مجھے مارڈالنے کے لے لایا ہے مگرمیں بہت جلد سمجھ گیا کہ مبارک مجھے کوئی راز کی بات بتانے کے لے یہاں پر لے آیاہے میں نے تہہ خانےکے اندر چار مکان دیکھے اور ہر مکان کا ایک ایک دالان بنا ہوا دیکھا ہر دالان پر دس دس مٹکے لٹکے ہوئے دیکھے اور سوائے ایک مٹکے کے۔ ہر مٹکے کے اُوپر ایک ایک سونے کی اینٹ اور ایک ایک بندر نُما بُت بندھا ہوا دیکھا او ر ایک بڑاسا تالاب بھی دیکھا جو ہیرے  وجواہرات سے بھرا پڑاہوا تھامیں نے مبارک سے کہا چچا جان یہ ماجرا کیا ہے میری سمجھ میں تو کچھ نہیں آ تا مبارک نے کہا شہزادے یہ راز کی بات ہے تمہاراباپ بادشاہ مرحوم کی دوستی جنوں کے بادشاہ ملک صادق کے ساتھ تھی بادشاہ مرحوم ہر سال ملک صادق کے پاس تحفے وتحالف لے جایا کرتا تھا اور اس کے بدلےمیں بادشاہ جنات کے بادشاہ سے ایک ایک بندر نُمابُت لایا کرتا تھا اُن بندوں کی خاصیت یہ ہوتی اگر وہ چالیس جمع ہوجاتے تو ہر بندر کے ما تحت ایک ایک ہزار دیو ہو جاتے تو انسان جو چاہتا کر لیتابادشاہ مرحوم نے اُنتالیس جمع کئے  لیکن جس سال چالیسواں بندر لینا تھا اُسی سال بادشاہ کی موت واقع ہوگئی اگر ملک صادق تجھے وہ چالیسواں بندر دے دیتا تو تیری ہر مشکل حل ہو جاتی اس کے بعد مبارک مجھے ایک روزاپنے ساتھ لے گیاایک ماہ تک ہم مسلسل چلتے رہے آخر مبارک نے کہا اللہ کا شُکر ہمیں منزل مل گئی وہ جنوں کا لشکر دیکھتے ہو میں نے کہا مجھے تو کچھ دیکھائی نہیں دیتامبارک نے میری آنکھوں میں سُلیمانی سُر مہ لگایا تو مجھے بھی جنات کا لشکر صاف صاف دکھائی دینے لگاہم دونوں ملک صادق کے دربار میں حاضر ہوئے ہماری اچھی طرح خاطر داری کی گئی میرے شفیق ہمدرد مبارک نے بادشاہ سلامت کو سارا ماجرہ سنایا بادشاہ نے مجھے تسلی دی کر کہا تجھے بھی میرا ایک کام کرنا ہوگااگر تو اس کام میں کامیاب ہو جاتاہے تو تمہاری بھرپور مدد کی جائے گی جس طرح تمہارے کی باپ کی جاتی تھی

یا

۴۔’سیر چوتھے درویش کی‘ کو اپنے الفاظ میں تحریر کیجیے؟
جواب:”سیر چوتھے درویش کی“ میر امنؔ دہلوی کاترجمہ کیا ہوا ایک داستان ہے اس داستان میں چوتھا درویش اپنی کہانی یوں بیان کر تا ہے کہ میں شہزادہ چین ہوں مرتے وقت میرے والد نے میرے چچا کو وصیت کی تھی جب میں مر جاؤں گاتو تم خود بادشاہ بن جانالیکن جب میرا بیٹا بڑا ہو جائے گا تو تم بادشاہت اس کے حوالے کر دینا اور اپنی بیٹی روشن اختر کے ساتھ میرے بیٹی کی شادی کر دیناایک دن ایک کنیز نے مجھے تھپڑ مارا میں مبارک کے پاس چلا گیا جو میرے والد کا سچا وفادار نوکر تھا وہ مجھے میرےچچاکے پاس لے گیا اُس کو اپنے بھائی کی وصیت یاد دلائی اس کے بعد میرا چچا میری جان کا دشمن بن گیامبارک کو مجھے مارنے کی لالچ دے دی ایک روز مبارک  نے مجھے ایک تہہ خانہ دکھایاوہاں پر میں نے چالیس مٹکے دیکھے ہر مٹکے کے اُوپرایک ایک سونے کی اینٹ اور ایک ایک بندر نمابت بندھا ہوا دیکھاسوائے ایک مٹکے کے۔مبارک سے پوچھا یہ ماجرا کیا ہے اُ س نے جواب دے دیاتمہا را باپ ہر سال ملک صادق سے ایک ایک بندر لایا کر تا تھا جس سال چالیسواں بندر لینا تھا اسی سال بادشاہ کی موت ہوئی اگر یہ برابر چالیس بندر ہوجاتے تو تم پھر جوچاہیے۔ ہوجاتااس کے بعد ہم دونوں ملک صادق کے پاس وہ چالیسواں بندر لینے کے لئے جاتے ہیں ملک صادق نے ایک شرط رکھ کر کہا کوئی فکر کی بات نہیں آ ُ پ کی مدد کی جائے گی
٭3۔ خا لی جگہوں کو پُر کیجیے:
(ا)مُبارک شہزادے کا۔ہمدرد۔۔۔تھا(ہمدرد، دشمن،بھائی)
(ب)بادشاہ شہزادے کو۔۔مارنا چاہتا تھا۔۔۔۔(دامادبناناچاہتا تھا،مارناچاہتا،بادشاہ بناناچاہتا تھا)
(ج)ملک صادق نے شہزادے کو۔۔۔۔خوش۔۔۔کیا (ناراض،خوش،ختم)
(د)شہزادے۔۔۔چالیسواں َ۔۔۔بندر لانا چاہتا تھا(اکیسواں،دسواں،چالیسواں)
٭ؐؐ۶۔سیاق وسباق کے ساتھ مصنف کا حوالہ دے کر درج ذیل پراگراف کا ما حصل لکھیے:
”جب تلک شہزادہ جو مالک اس تخت وچتر کا ہے جو جوان ہو اور شعور سنبھالے اور اپنا گھر دیکھے بھالے تُم اس کی نیابت کیجیواور سپاہ ورعیت کو خراب نہ ہونے دیجو۔جب وہ بالغ ہو اُس کو سب کچھ سمجھا بُجھا کر حوالے کرنا اور روشن اختر،جو تمھاری بیٹی ہے،کی اُس سے شادی کرکے تم سلطنت سے کنارہ پکڑنا۔اس سلوک سے بادشاہت ہمارے خاندان میں قائم رہے گئی،کچھ خلل نہ آوے گا۔یہ کہکر آپ تو جاں بحق تسلیم ہوئے۔“
جواب: یہ اقتباس میر امنؔ دہلوی کی مشہورکتاب ” باغ وبہار“کے ایک داستان”سیر چوتھے دردیش کی“جو ہماری درسی کتاب ’اردو کی دسویں کتاب‘ کے حصے نثر  میں شامل ہے سے نکالا گیا ہے
درجہ ذیل اقتباس کا خلاصہ کچھ اس طرح سے ہے
مرحوم بادشاہ اپنے بھائی کو مرتے وقت یہ وصیت کرتا ہے کہ”جب ہمارا لاڑ لا بیٹا بڑا ہوجائے گاتو تم اس کی ہر طرح سے مدد کرنا،تعلیم وتربیت میں کوئی کمی باقی نہ رکھنا،بڑا ہوتے ہی بادشاہت اس کے حوالے کر دینا اور اپنی پیاری بیٹی کی شادی اُس کے ساتھ کر دینااور خود بادشاہت چھوڑ دینااسطرح بادشاہت ہمارے ہی کنبہ میں رہے گی اواس طرح  ہم کوئی چیز نہ کھوئے گئے یہ کہ کر بادشاہ انتقال گئے 
 ۸.: داستان کسے کہتے ہیں؟
جواب:داستان کہانی کو کہتے ہیں عالمی ادب میں داستان گوئی کا آغاز بہت  پہلے ہو چکا ہے اور یہ صنف ماضی قریب تک بہت معروف تھی بادشاہوں سے لیکرعام آدمی تک ہر کوئی داستان گوئی سے زبردست ذوق وشوق رکھتا تھاداستان بنیادی طورپرفارسی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی قصہ،کہانی،حکا یت، طویل افسانہ کے ہیں لیکن ادبی اصطلاح میں داستان اُس طویل اور مسلسل قصے کو کہتے ہیں جس میں حسن و عشق، رزم وبزم کی حیرت انگیز واقعات معرکہ آرائیاں،بعید ازقیاس واقعات،شہزادوں وشہزادیوں،دیو،جنوپری،مافوقُالفطری کردار((supernatural characters وغیرہ کے محیرالعقول واقعات دلچسپ انداز میں بیاں کئے جائیں 
اُردو کی پہلی منظوم داستان ”کدم راو پدم راو“ہے جس کی تخلیق 1460ء میں ہوئی اور پہلی نثری داستان”سب رس“ہے جس کو ملا وجہی نے1635ء میں تحریر کیااُردو کی سب سے زیادہ طویل داستان انشا اللہ کی”طلسم ہوش ربا“ہے جو چھیالیس جلدوں پر مشتمل ہے اُردو میں داستاں کو فروغ دینے میں فورٹ ولیم کالج نے ایک اہم رول ادا کیا اُردو کے مشہور و معروف ترین داستانوں میں الف لیلٰی،باغ وبہار،فسانہ عجائب،گلِ صنوبر،آرائش محفل،بیتال پچیسی،فسانہ آزاد وغیرہ نہایت ہی قابلِ ذکر ہیں
گرامر: 
مفرد:جب حروف سے لفظ بنتے ہیں اور لفظ سے ایک مطلب یا معنی سمجھا جاتا ہے تو مفردکہلاتا ہے جیسےلڑکا، لڑکی،بادشاہ،نوکر وغیرہ
مرکب:جب دو یا دو سے زیادہ لفظ آپس میں ملتے ہیں تو مرکب کہلاتے ہیں جیسے بڑا دن،اچھا انسان،نیک بندہ وغیرہ 
 مرکب کی دو قسمیں ہیں 
۱ مرکب تام 
۲ مرکب نا قص
۱۔مرکب تام:لفظوں کا ایسا مرکب ہے جس سے کسی بات کو پوری طرح سمجھ لیا جاتا ہے مرکب تام کو مرکب مفید بھی کہتے ہیں مثلاََ احمد اچھا کڑکا ہے،آج برف بھاری ہو رہی ہے وغیرہ
۲۔مرکب نا قص:لفظوں کا ایسا مرکب جس سے کسی بات کا پورا مطلب سمجھ میں نہ آ ئےسننے والا مزید کہنے یا سننے کا خواہاں رہتا ہے جیسے اکرم کا رشتہ دار،یہ درخت وغیرہ
۸ درجہ ذیل الفاظ کو ملا کر صحیح جملے بنائیے
 1۔تھا ، ملک  ، جنوں، کا   ، بادشاہ،
2- دسویں  ،پڑھتا  ، میں،  جماعت  ، ہوں،   میں
3۔ کنارے  ،   دریا  ،  مدرسہ ، واقع  ،  کے ، ہے
4۔ کشمیر  ،   بھر  ،   دنیا  ،  میں     ، مشہور    ،   ہے
5۔ داستان  ، میر امن  ، باغ وبہا ر  ، نے   ، لکھی،   ہے
جواب:
۱۔ملک صادق جنوں کا بادشاہ تھا   
 ۲۔میں دسویں جماعت میں پڑھتا ہوں 
۳۔میرا مدرسہ دریا کے کنارے واقع ہے
۴۔کشمیر دنیا بھر میں مشہور ہے
۵۔داستان ”باغ وبہار“میر امن دہلوی نے لکھی ہے

(2)اور مزاج دارلُٹ گئی
1۔ :لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے حجن کون سی چیزیں اپنے پاس رکھتی تھی؟
جواب: لوگوں کودھوکہ دینے کے لئےحجن اپنے پاس،تسبیح،خاکِ شفا، زمزمیاں،مدینہ منورہ کی کھجوریں،کوہ طورکاسرمہ،خانہ کعبہ کےغلاف کا ٹکُرا،عقیق البحر،مونگے کے دانے،نادعلی،پنجسورے اور بہت سی دوائیاں رکھا کرتی تھی.
۲۔حجن نے مزاج دار سے قیمت لئے بغیراسکو فیروزے کی انگوٹھی کیوں دی؟
جواب:حجن نے مزاج دار کو فیروزے کی انگوٹھی مفت میں اس لئے دی تھی تاکہ بعدمیں وہ اُسے آسانی کے ساتھ ٹھگ سکے
۳۔ مزاج دار بہو کو بے وقوف بنانے کے لئے حجن نے کیا کیا؟
جواب:حجن نے سب سے پہلے مزاج دارکو بہت سستے داموں ریشمی ازار بند بیچ دیاپھر اپنی میٹھی میٹھی باتوں کے ذریعےایسا بہلایا پھسلایا تاکہ وہ حجن کی کسی بھی بات کووہ بعد میں انکار نہ کر سکے اوراُس نے حجن کو اپنے گھرکے سارے راز بتا دیئے اس طرح حجن مزاج دار بہو کو وقوف بنانے میں کامیاب ہو گی.
۴۔ محمد عاقل حجن کی چال کیوں نہ سمجھ سکا؟
جواب:محمدعاقل نے کھبی حجن سے آمنے سامنے سے بات نہیں کی تھی حجن نے مزاج دار کے ذریعے ایسی چال چلی کہ محمد عاقل بھی حجن کا آسان سا شکار ہوگیااور حجن کی چال میں پوری طرح سے پھنس جاتا ہے.
۵۔ حجن مزاج دار کے زیورات لوٹ لینے میں کس طرح کامیاب ہوگئی؟
جواب:حجن نے مزاج دا کو جب ناک کا پہننے کا ایک قیمتی زیورسستے میں لینے کی فرمائش کی تو مزاج دار لالچ میں آگئی تو اُس نے اپنی کلائی کے زیور کے بدلے میں یہ نیا زیور خریدنا چاہااور جوں ہی مزاج دار کا زیورات سے بھرا پڑا ڈبہ حجن نے دیکھاتو اُن پر اپنا ہاتھ صاف کرنے کا من بنالیااورمزاج دار سے کہا کہ آپ کے زیورات میلے ہوچکے ہیں انہیں سنار کے پاس لیکر صاف کرنے کی ضرورت ہے اس طرح حجن زیورات کو لوٹنے میں کامیاب ہو جاتی ہے
۴۔درج ذیل بیانات صحیح ہیں یا غلط؟ اپنے جوابات کو صحیح ثابت کرنے کے لیے پانچ پانچ جُملے لکھیے۔
۱۔حجن مکارہ تھی کیونکہ:
(ا)وہ لوگوں کو نقلی تبرکات دکھا کر لوٹتی تھی
(ب)لوگوں کو آسانی کے ساتھ اپنا شکار بناتی تھی
(ج)وہ ایک دلالہ تھی
(د) سستے داموں ازار بند بیچ کر مزاج دار کا دل جیت کر ٹھگ گئی 
(ہ)زلفن سے آسانی کے ساتھ اپنا ساتھ چھوڑوایا۔
۲۔ مزاج دار بہو بے وقوف تھی کیونکہ:
(ا)حجن پر فوری طور پر بھروسہ کیا 
(۲) حجن کو اپنے زیورات دکھاگئی
(۳)وہ حجن کی جعلی چیزوں کو اصلی سمجھ بیٹھی
(۴)اُس نے سج دھج کے ایک لونگ کو اپنی چوٹی میں باندھ دیا
(۵)حجن کے سامنے اپنے شوہر کی شکایت کی
۳۔محمد عاقل کی عقل کام نہ کر سکی کیونکہ:
(۱)وہ یہ نہ سمجھ سکا کہ ایک انجان عورت اُس کے گھر میں کیوں کر آئی ہے
(۲)اُس نے یہ جاننے کی کبھی کوشش نہیں کی کیوں حجن نے مزاج دار کو سستے میں ازار بند فروخت کیا (۳)حجن کو اپنے گھر میں آ نے سے نہ روک سکا
(۴)وہ لالچ میں آ گیا
(۵)حجن کا گلی میں بار بارآنے کا سبب جاننے کی کبھی کوسش نہیں کی
۵۔ درج ذیل اقتباس کے آخر پر دیے گئے سوالات کے جوابات لکھیے؟
اگلے دن زلفن کو بھیج حجن کو بُلوایا۔آج مزاج دار بیٹی بنیں اور حجن کو ماں بنایا۔ محمد عاقل نے کہا”دیکھو ہوشہار رہنا۔اِس بھیس میں کُٹنیاں اور ٹھگنیاں بہت ہوا کر تی ہیں“ لیکن طمع نے خود محمد عاقل کی عقل پر ایسا پردہ ڈالدیا کہ اتنی موٹی بات وہ نہ سمجھا کہ دو روپے کا مال چار آنے کو کوئی بے وجہ بھی دیتا ہے
۱۔ درجِ ذیل اقتباس کِس سبق سے ماخوذ ہے؟
جواب: یہ اقتباس مولوی نذیر احمدکے ایک ناول”مراۃُالعروس“کے ایک مضمون ”اور مزاج دار لُٹ گئی“ سے ماخوذ ہے
۲۔ زُلفن کون تھی؟
جواب:زُلفن مزاج دار کی نوکرانی تھی
۳۔ ان جمع اسموں کے واحد لکھیے:کُٹنیاں، ٹھگنیاں 
جواب: 
واحد......جمع  
کُٹنی ....کُٹنیاں 
ٹھگنی ....ٹھگنیاں
۴۔دو روپے کا کون سا مال چار آنے میں بک گیا؟
جواب:دو روپے کا ازاد بند صرف چار آنے میں بک گیا۔
۵۔محمد عاقل کی عقل پر پردہ کیوں پڑ گیا؟
جواب:کیونکہ محمد عاقل بہت زیادہ لالچ میں آگیاتھا
۶۔درج ذیل بالا اقتباس کا ما حصل اپنے الفاظ میں لکھیے
یہ اقتباس مولوی نذیر احمدکے ایک ناول ”مراۃُالعروس“کے ایک مضمون ”اور مزاج دار لُٹ گئی“ سے ماخوذ ہے مزاج دار زُلفن کے ذریعےحجن کوگھربُلاتی ہے اور وعدہ کر دیتی ہے کہ وہ حجن کو دل سے اپنی ما ں مان لیتی ہے رات کے  وقت مزاج دار اپنے شوہر سے حجن کا ذکر کر دیتی ہے شوہر محمد عاقل ہشیار رہنے کا مشورہ دے دیتا ہے اورکہتاہے دیکھو۔ آج کل اس لباس میں بہت ساری ٹھگنیاں گھومتی پھرتی ہیں مگرخود اتنی بات نہیں سمجھتا ہے کہ کوئی بھلا دو روپے کی چیز صرف چار آنے میں کس لیے بیچ دیتا ہے
۷۔دیے گئے مونث اسموں کے مذکر بنائے:حجن ،عاقلہ  ،بیٹی
  1.  مذکر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مونث
  2.  حاجی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حجن،حاجن
  3.  عاقل ۔۔۔۔۔۔عاقلہ
  4.  بیٹا ۔۔۔۔۔۔۔۔بیٹی
سوال: شمشُ العماء مولوی نذیر احمد کی زندگی اور ادبی خدمات  کے بارے میں مختصر نوٹ لکھیے؟
۱
جواب: حالاتِ زندگی:شمش العلماءمولوی نذیرکی پیدئش ۶دسمبر1833ء میں ضلع بجنور کے ایک گاوں کے ایک شریف اور پڑھے لکھے خاندان میں ہوئی ابتدائی تعلیم اپنے والد مولوی سعادت علی سے حاصل کی اس کے دہلی میں عبدالحق اور مولوی نصر اللہ سے مزید تعلیم حاصل کی دہلی کالج میں اپنی تعلیم کو آ گے بڑھانے کے لئے داخلہ لے لیااردو، فارسی، عربی،انگریزی،سنسکرت،تلنگی زبانوں میں اعلی تعلیم حاصل کی۔ 1854اپنی تعلیم مکمل کر نے کے بعد آپ محکمہ تعلیم میں اُستاد کے عہدے پر کام کرنے لگے۔محکمہ تعلیم میں اپنی گہری چھاپ چھوڑنے کے بعدحکومت نے انہیں پہلے تحصیلدار پھر ڈپٹی کلکٹر کے عہدے پر فائز کیا1897ءمیں حکومت نے اُنھیں شمسُ العلماء خطاب دیا اورباآخر آپ اس دار الفانی سے 1912دہلی میں وفات کر گئے 
ادبی خدمات:شمشُ العلماء مولوی نذیر احمد اردو کا پہلا ناول نگار ہیں اُنھوں نے1869ءمیں اردو کا پہلا ناول ’مراۃُالعروس‘ لکھ کر اس کی بنیاد ڈالی آ پ کا طرز تحریر سادہ اور سلیس ہے آ پ نے دہلی کی زبان اور محاورے استعمال کئے اس لئے ہر جگہ روانی اور چاشنی ملتی ہے آ پ کے دوسرے ناولوں میں توبتہ ُ النصوح‘ ’بنات النعش‘ابن الوقت‘ و غیرہ قابلِ ذکر ہیں 
مندرجہ ذیل جملوں کی وضاحت کیجیے؟
جملے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔معنی
  1. ۱۔زُلفن حجن کو لِواکر لائی ۔۔۔۔۔۔۔۔زُلفن حجن کولے کر آئی
  2. ۲۔مزاج دار بہو کا ماتھا ٹھنکا۔۔۔۔۔ مزاج دار بہو کو شک ہوا
  3. ۳۔یہ عورت ڈھب پر جلد چڑھ جائے گی ۔۔۔۔یہ عورت بہت جلد جال میں پھنس جائے گی
  4. ۴۔روز تم کو دیکھ جایا کروں گی۔۔۔۔ ہر دن تم سے ملنے کو آیا کروں گی
۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہر ایک کردار کے بارے میں تیں تین جُملے لکھیے:
۱۔زُلفن 
۲۔حجن 
۳۔مزاج دار بہو
۴۔ محمد عاقل
۱۔زُلفن
:زُلفن محمد عاقل کی نوکرانی تھی اپنے مالک ومالکن کی ہر بات مانتی تھی حجن کے ساتھ سُنار کے دوکان کی طرح جاتی ہے
۲۔حجن:
حجن ایک ٹھگنی تھی لوگوں کو پھنسانے کے لیے کئی طرح کے تُبرکات اپنے پاس رکھا کرتی تھی مزاج دار کے سارے زیورات لے کے رفو چکر ہوجاتی ہے
۳۔مزاج دار بہو: 
مزاج دار بہو ایک بے سمجھ عورت ہوتی ہے محمد عاقل کی بیوی ہوتی ہے حجن کی باتوں میں آکر آخر پر لُٹ جاتی ہے
۴۔محمد عاقل:
محمد عاقل گھر کا خاندار ہوتا ہے مزاج دار اُس کی بیوی ہوتی ہے وہ یہ سمجھ نہ سکا کوئی دوروپے کا ازار بندکیونکر چار آنے میں بیچ دے گیا۔
۸۔ناول پر مختصر نوٹ لکھیے:
جواب: ”ناول“((NOVELانگریزی زبان کا لفظ ہے جو کہ اطالوی زبان کے لفظ ”ناویلا“ سے مشتق ہے جس کے معنی ”نئے“ کے ہیں اردو میں ناول انگریزی ادب کے راستے سے آیاہے  ناول اُس نثری تحریر کو کہتے ہیں، جس میں ایسی کہانی بیان کی گئی ہوجوزندگی کی ترجمانی کرتی ہوناول کے لئے چھ اجزائے ترکیبی درکار ہوتے ہیں جن میں قصّہ،پلاٹ،کردار نگاری،مکالمہ نگاری،منظرنگاری اور نقطہء نظر شامل ہیں 
ؑعالمی ادب میں رچرڈسن اور فلیڈنگ ناول کے موجد مانے جاتے ہیں اردو میں مولوی نذیر احمد نے اردو کا پیلا ناول ”مراۃُالعروس“لکھ کر اس کی بنیا د ڈالی۔اردو کے دوسرے ناول نگاروں میں منشی پریم چندر جی،عصمت چغتائی،راجندر سنگھ بیدی وغیر ہ قابلِ ذکر ہیں 
10۔’اور مزاج دار لُٹ گئی“اقتباس کا خُلاصہ لکھیے:
جواب:’اور مزاج دار لُٹ گئی‘ مولوی نذیر احمد کا ایک پُر جوش،پُر لطف اورسبق آمیز ناول ہے اِس ناول میں چار بڑے کردار ہیں جن میں مزاج دار بہو، محمد عاقل، حجن(کُٹنی) وزُلفن ہیں گھر کا خاندار محمد عاقل اپنی بیوی کو نصیحت کرتا ہے کہ ان دنوں شہر میں ایک کُٹنی داخل ہوئی ہے وہ کئی گھروں کو ٹھگ چکی ہے تم ہوشہار رہنا مگر دوسری طرف کُٹنی محمد عاقل کے گھر  میں داخل ہونے میں کامیاب ہو جاتی ہے  ایک روزحجن مزاج دار کو بہت سستے میں ازار بند فروخت کر تی ہے اور اپنی میٹھی میٹھی باتوں سے مزاج دار کو اپنا گرویدہ بنا لیتی ہے کئی روز بعد پھر حجن مزاج دار کے گھر آتی ہے اور اُس کوایک قیمتی ناک کا زیور بہت سستے میں بیچنے کی پیشکش کرتی ہے مزاج دار حجن کے سامنے زیورات کا ایک ڈبہ لے آتی ہے حجن کی نیت وہی پر خراب ہوجاتی ہے اور وہ ایک منصوبے کے تحت مزاج دار کے سارے زیورات کو ٹھگنے میں کامیاب ہوجاتی ہے آخر پرمزاج دار،محمد عاقل اور زلفن ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں 
مرکب اضافی:وہ مرکب ہے جس میں مضاف،مضاف الیہ،اور حرفِ اضافت ہوں جیسے:
 (۱)اکرم کا بیٹا  
 (۲) اللہ کا گھر
ان دو مثالوں میں اکرم اور اللہ مضاف الیہ۔ بیٹا اور گھر مضاف اور کا کا حرف اضافت ہیں
اردو میں مضاف الیہ اکثر پہلے آتا ہے اورمضاف بعد میں۔لیکن فارسی میں پہلے مضاف آتاہے اور مضاف الیہ بعد میں آتاہے جیسےروزِعید،دستِ شفاوغیرہ
حرفِ اضافت:اضافت کے معنی تعلق کے ہیں جب دو اسم آپس میں ملتے ہیں اور اُن کے درمیان ناتمام تعلق پیدا ہو جاتا ہے اس ادھورے نا تمام تعلق کو اضافت کہتے ہیں حرفِ اضافت کی کل تعدار نو ہیں جیسے  کا۔کے۔کی۔را۔رے۔ری۔نا۔نے۔نی
اب مثال دیکھ کر درج ذیل مرکبات میں سے مضاف الیہ،مضاف اور حروف اضافت الگ الگ کر کے لکھیے
  1. مرکب اضافی ۔۔مضاف الیہ۔ مضاف۔۔۔ حروف اضافت  
  2.  سونے کی انگوٹھی   سونے    انگوٹھی    کی
  3.  خدا کا بندہ           خدا         بندہ        کا
  4.   احمد کی ٹوپی      احمد      ٹوپی       کی
  5.  کاغذ کے پھول      کاغذ      پھول     کے
  6.  رشید کا بھائی       رشید     بھائی    کا 

(3)(عبرت)منشی پریم چند

سوال نمبر1۔ پنڈت چندر در جی اپنے پیشے سے کیوں بے زار تھے؟
جواب:پنڈت چندرجی اپنے پیشے سے اسی لئے بیزار تھے کیوں کہ اُن کی ماہانہ آمدنی صرف پندرہ روپئے کی تھی مشکل سے دووقت کی روٹی کا انتظام ہو پاتا تھا مگر دوسری طرف اس کی ہمسا ئیگی میں دو اور سرکاری ملازم ،ٹھاکر اتی سنگھ ہیڈ کانسٹیبل اور منشی بیج ناتھ سیاہیہ نویس تھے جورشوت لیکر عیش وعشرت کی زندگی گزارتے تھے
۲۔ دروغہ جی کا پنڈت چندر دھر کے ساتھ کیسا برتاوُ تھا؟
جواب:د روغہ جی کا پنڈت چندر دھر کے ساتھ حاکمانہ سابرتاو تھا کیوں کہ دروغہ جی خود غرضی کی بنا پر کھبی کبھا رپنڈت چندر دھرکے یہاں دودھ بھیجا کرتاتھا اور پنڈت جی کوا س کے بدلے داروغہ جی اور ٹھاکر اتی سنگھ کے بچے پڑھانے پڑھتے تھے
۳۔دورانِ سفر داروغہ جی کے ساتھ پیش آیا واقعہ اپنے الفاظ میں لکھیے؟
جواب داروغہ جی ریل کے جس ڈبہ میں اجودھیا کے لیے چڑھ جاتا ہے وہاں پہلے سے ہی دو آدمی لیٹ چکے ہوئے ہوتے ہیں اور داروغہ جی نے ان سے کچھ جگہ چھوڑنے کو کہتا ہے مگر اس پر وہ دونوں مسافر بھڑک جاتے ہیں ان میں ایک کہتا ہے کہ آپ تو وہی داروغہ ہوجس نے مجھے بلیک مارکیٹنگ کے الزام میں پھنسا کر مجھ سے پچیس روپے رشوت لئے تھے جبکہ دوسرے مسافر نے کہا کہ آپ نے مجھے میلے میں دوسرے پولیس والوں کے ہمراہ زبردست مارپیٹ کروائی۔اسی اثنا میں ٹرین گاڑی جوں ہی تیسرے ا سٹیشن پر پہنچ جاتی ہے وہاں یہ دونوں داروغہ کا سامان باہر پھنکنے کے بعد اس کو بھی دھکا دیکر باہر پھینک دیتے ہیں 
۴۔کر پا شنکر نے پنڈت جی، داروغہ جی اور منشی جی کے ساتھ کیسا سلوک کیا؟
جواب:اجودھیا پہنچ کر جب ان تینوں کو ٹھہر نے کے لئے کوئی جگہ نہ ملی تو کرپا شنکر نے اپنے اُستاد کو ندی کے کنارے پر پہنچان لیا اور ان تینوں کو اپنے گھر لے آیا اور ان کی خوب خاطرداری و مہمان نوازی کی
۵۔پنڈت چندر دھر کو اپنے پیشے کی عظمت کا احساس کس طرح ہوا؟
جواب:ریل گاڑی میں ٹھاکر اتی سنگھ اور ہسپتال میں منشی بیچ ناتھ کے ساتھ جو واقعات پیش آئے اور اجودھیا میں کرپا شنکر نے جو احترام وعزت اور مہمان نوازی کا ثبوت پیش کیا اس سے پنڈت چندر دھر کو اپنے پیشے کی عظمت و قار کا احساس دل سے ہوجاتا ہے
۶۔اس افسانے کا نام عبرت کیوں رکھا گیا ہے؟
جواب: ایک معلم یا استاد کا پیشہ ہمیشہ سے پیغمبروں،ریشی منیوں اور اچھے بھلے لوگوں کا رہا ہے اس لئے ہمیں اس پیشے سے کھبی بھی بیزار نہیں ہونا چاہیے رشوت خوری سے ایک انسان کو بے عزت جبکہ حق وانصاف سے کام کرنے سے وقار ملتاہے موجودہ افسانہ اس بات کو اُجاگر کرتا ہے اس مناسبت سے اس افسانہ کا نام ”عبرت“ موضوع ومناسب عنوان ہے
۴۔ درجہ ذیل اقتباس پڑھکر سوالات کے جوابات لکھیے؟
دروغہ جی نے منشاین سے روپے مانگے تب اُسے بکس کی یاد آئی۔چھاتی پیٹ لی، روپے اُسی میں رکھے تھے۔دروغہ جی واجبی خرچ لے کر چلے تھے کسی طرح دس روپے نکال کر چوکھے لال کی نذر کیے انھوں نے دوادی۔دن بھر کچھ افاقہ نہ ہوا۔مگر رات کو کچھ طبیعت سنھبلی۔دوسرے دن پھر دوا کی ضرورت ہوئی۔داروغہ نے بہت منت کی۔لیکن چوکھے لال نے ایک نہ سنی۔آخر منشائن کا ایک زیور جو چوبیس روپے سے کم کا نہ تھا بازار میں بیچا گیا تب چوکھے لال نے دوادی۔شام تک منشی جی چنگے ہوگئے
۱۔منشائن کیوں چھاتی پیٹنے لگی؟
جواب:جب داروغہ جی نے منشائن سے ڈاکٹر صاحب کی فیس ادا کر نے کے لیے روپئے مانگے تب منشائن کو وہ بکس یاد آیا جو ریل گاڑی سے اُتر تے وقت ریل گاڑی میں ہی رہ گیا تھااسی وجہ سے وہ چھاتی پیٹنے لگی
۲۔منشائن کا زیور کیوں بیچا گیا؟
جواب:منشائن نے اپنے شوہر منشی بیج ناتھ کی دوا خریدنے کے لئے اپنا زیور بیچ دیا۔
۵۔اوپری دی ہوئی عبارت میں یہ الفاظ مذکر استعمال ہوئے ہیں مونث، یاد،نذر،دوا، منت
جواب: یہ چاروں الفاظ مذکر استعمال ہوئے ہیں 
۶۔اقتباس میں موجود درجِ ذیل محاوروں کے معنی لکھیے:
محاوروں کے معنی:  نذر کرنا=پیش کرنا،حوالہ کرناایک نہ سننا=بات نہ ماننا ،چھاتی پیٹنا=دکھ اور ماتم کا اظہار کرنا، افاقہ ہونا=مرض کم ہونا
یہ اقتباس منشی پریم چند کے ایک افسانہ ”عبرت“ سے نکالا گیا ہے مصنف رقمطراز ہیں کہ جب منشی جی کو شفاخانہ پہنچایا گیا اور داروغہ جی نے جب منشی جی کی بیوی سے کمپونڈر کی فیس ادا کرنے کے لئے پیسے مانگے جس پر منشاین کو وہ بکسا یادآیا جس میں پیسے رکھے ہوئے تھے اور وہ ریل گاڑی میں چھوٹ گیا تھا منشائن رونے دھونے لگی داروغہ جی کو مجبورا اپنے ہی جیب سے دس روپئے دینے پڑے  جس پر چوکھے لال نے دوا دے کر کہا دن بھر کھانے سے پرہیز کرنا رات کو منشی جی کو آرام ہوا دوسرے دن دوا کی پھر ضرورت ہوئی داروغہ جی  نے چوکھے لال سے بہت ہاتھ جوڑ ے۔ دوا میں کچھ تخفیف کی جائے مگر چوکھے لال نے ان کی ایک بات بھی نہ مانی۔آ خر منشائن کو اپنا زیور بیچ کر منشی جی کے لئے دوا لانا پڑااور اس سے منشی جی شام تک بالکل ٹھیک ہوگئے
۸۔عبرت  افسانہ پڑھنے کے دوران آپ کو کس مو قعہ پر 
 ۱۔دُکھ محسوس ہوا؟
 ۲۔ہمدردی پیدا ہوگی؟ 
  ۳۔ ہنسی آگئی؟
دُکھ محسوس ہوا:افسانہ کے شروع میں جب پنڈت چندر دھر معلم کے پیشے سے بیزار ی کا اظہار کرتا ہے تو اُس کو پڑھنے سے بڑا دُکھ محسوس ہوتا ہے
۲۔ہمدردی پیدا ہوگی:جب منشائن اپنے شوہر کے لئے دوا لانا چاہتی ہے مگر اس کے پاس اتنے پیسے نہیں ہوتے ہیں جس سے وہ دوا خرید سکے اور مجبور اََ  پھراُسے اپنا ایک زیور بیچنا پڑتا ہے اس موقعے پر ہمدردی پیدا ہوجاتی ہے
۳۔ہنسی آگئی:جب داروغہ جی ٹرین میں لیٹے ہوئے ایک مسافر سے کہتاہے ہمیں بھی بیٹھنے کی کچھ جگہ دے دو اس پر ایک مسافر کہتا ہے کیوں اٹھ بیٹھیں جی۔کچھ تمہارے بیٹھنے کا ٹھیکا لیاہے اس کو پڑھنے سے ہنسی آجاتی ہے
۹۔آپ کو کون سا کردار زیادہ پسند آیا اور کیوں؟  
(۱) داروغہ یا منشی جی
 (۲) داروغہ یا پنڈت جی
(۱) داروغہ یا منشی جی:افسانہ پڑھنے کے بعدداروغہ اور منشی جی ایسے  دونوں کردار محسوس ہوتے ہیں کہ جن کو کوئی بھی قاری پسند نہیں کرے گاکیوں کہ یہ دونوں اپنے پیشے سے دغا کرتے ہیں اور لوگوں سے رشوت لیتے ہیں اس لئے میں ان دونوں کو نا پسند کرتا ہوں
۲۔داروغہ یا پنڈت جی:میں داروغہ جی کے مقابلے میں پنڈ ت جی کو ہی پسند کرتا ہوں کیوں کہ افسانہ میں وہ ایسا کردار نظر آتا ہے جو ہر وقت اپنے پیشے سے ہمیشہ سے انصاف کر تا ہوا دکھتا ہے اور جس کا پھل اُسے اجودھیا میں اپنے شاگرد کے ذریعے ملتا ہے
10۔ ان کرداروں کے بارے میں پانچ پانچ جملے لکھیے؟ کرپا شنکر، ۔چوکھے لال۔،پنڈت جی
کرپا شنکر💨
(i)کرپا شنکر آٹھ نو سال کی عمر میں بلہور اپنے باپ کے ساتھ آ یا ہوا تھا
(۲) پنڈت جی کی شاگردی حاصل کی ہوئی تھی
(۳)اجودھیا میں میونسپلٹی میں نوکری کرتا تھا
(۴) پنڈت جی کو ندی کے کنارے پہنچانتا ہے
(۵)گھر بلا کر اُس کی اور اُس کے دوستوں کی زبر دست مہمان نوازی کرتا ہے
چوکھے لال:(۱)چوکھے لال بھی بلہور کا رہنے والا ہوتا ہے
(۲)اجودھیا میں ایک سرکاری اسپتال میں ایک کمپونڈر کی نوکری کرتا ہے
(۳)بلہور میں اس کی زمینیں ہوتی ہیں
(۴)منشی جی کا اسے لگان لیتے وقت رشوت کی فرمائش کرنا اُسے یادآتا ہے
(۵)داروغہ جی سے دس روپئے کی فیس وصول کر تا ہے
پنڈت جی:(۱)پنڈت جی پیشے سے ایک اُستاد ہوتا ہے
(۲)پہلے اپنے پیشے سے خفا نظرآتے ہیں
(۳)اجودھیا جاتے وقت اُس کا رویہ مثبت رہتا ہے
(۴) بچوں کو ہمیشہ دل وجان سے پڑھاتے نظرآتے ہیں
 (۵)افسانہ کے خاتمے پر اُسے اپنے پیشے پر ناز ہوتا ہے
۱۱۔ ”عبرت“ افسانے کا خلاصہ تحریر کریں 
افسانہ ”عبرت“منشی پریم چندر جی کا لکھا ہوا ایک بہترین افسانہ ہے اس افسانے میں پریم چندر نے معلم کے پیشے کو اُجاگر کیا ہے اس افسانہ میں تین بڑے کردار نظر آ تے ہیں جن میں پہلا مرکزی کردار، پنڈت چندر دھرمعلم، دوسراٹھاکر اتی سنگھ ہیڈکانسٹیبل(داروغہ)تیسرا منشی بیج ناتھ سیاہیہ نویس کا ہوتا ہے اس کے علاوہ چوکھے لال،کرپا سنگھ اور دو انجان مسافروں کے کردار نظر آتے ہیں پنڈت جی شروع میں اپنے پیشے سے بیزار نظر آتے ہیں جبکہ اس کے یہ دو پڑوسی داروغہ جی اور منشی جی رشوت لے کر خوب عیش وعشرت کرتے ہیں ایک دن یہ تینوں اجودھیا جانے کا من بنالیتے ہیں دورانِ سفر داروغہ جی ریل کے ایک ڈبہ میں گھس جاتے ہیں جہاں پر دو مسافر اِن کے ساتھ زبردست بدتمیزی سے پیش آتے ہیں جب داروغہ جی انہیں کچھ جگہ دینے کو کہتا ہے جس پر ایک کہتا ہے یہ تھانہ نہیں ہے تم نے مجھ سے ایک روز پچیس روپئے رشوت لیے تھے دوسرا کہتا ہے تم نے مجھے میلے زبردست مارا۔ادھر منشی ریل میں بہت شراب پی کر بیمار ہوتا ہے دوسرے سٹیشن پر اُسے مجبورا علاج معالجہ کے لے اُتارنا پڑا۔چوکھے دس روپئے لیکرعلاج کرتا ہے یہاں تک منشائن کو اپنا ایک زیور بھی مچھی مہمان نوازی سے پیش آتا ہے
 گرامر:
وہ لفظ جس سے کسی کی بُرائی،بھلائی،خاصیت یا کیفیت ظاہر ہوجائے صفت کہلاتا ہے اور جس اسم کی بُرائی،بھلائی وغیرہ بیان کی جائے موصوف کہلاتا ہے مثلاََ۔خوبصورت پھول،اچھا آدمی،محنتی لڑکا۔ان تینوں،  خوبصورت،اچھا،محنتی صفت ہیں جبکہ پھول،آدمی اور لڑکا موصوف ہیں 
 مرکب توصیفی :وہ مرکب جو صفت اور موصوف سے مل کر بنے مرکب توصیفی کہلاتا ہے فارسی اور عربی میں موصوف پہلے اور صفت بعد میں آ تا ہے جبکہ اردو میں صفت پہلے اور موصوف بعد میں آتا ہے
۲۱۔مثال دیکھ کر مرکب توصیفی بنائیے:
چالاکؔؔ +  کوا=چالاک کوا
سفید + گھوڑا=سفیدگھوڑا
سُرخ + اونٹ=سرخ  اونٹ
اونچا + درخت=اونچا دخت
ٹھنڈا +پانی= ٹھنڈا پانی
کورا +کا غذ=کورا کاغذ
سوال : افسانہ کیا ہے؟
جواب: لفظ افسانہ ’فسوں‘ نے نکلا ہوا لفظ ہے جس کے معنی من گھڑت بات کے ہیں افسانہ بھی ناول کی طرح مغربی ادب کی دین ہے اردو میں شارٹ سٹوری((SHORT STORYکوافسانہ کہا گیا ہے افسانے سے مراد اُس نثری کہانی سے ہے جس میں کوئی واقعہ یا بہت چھوٹے واقعات منظم طریقے سے بیان کئے گئے ہوں کہ جن کی ابتدا ہو،ارتقاء ہو،خاتمہ ہو اور زندگی کی بصیرت میں اضافہ کریں
ؓؓHG WELLمختصر افسانہ کے بارے میں یوں لکھتے ہیں  ”قصے کی ایسی طوالت ہو۔جسے آدھہ گھنٹہ میں پڑھا جاسکے“
عالمی ادب کا پہلا افسانہ امریکہ کے ایک مصنف واشنگٹن ارون نے انیسویں صدی کے بالکل آغازمیں ”ا سکیچ بک“ لکھ کر اس کو بنیا د ڈالی اردو کا پہلا افسانہ ”دنیا کا سب سے انمول رتن“ پریم چند ر نے لکھایہ افسانہ”رسالہ زمانہ“کانپور میں شائع ہوااردو کے دوسرے مشہور افسانہ نگاروں میں سجاد حیدر،سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی، کرشن چندر وغیرہ قابلِ ذکر ہیں اردو کے مشہور ترین افسانوں میں کفن،سوتیلی ماں،بڑے گھر کی بیٹی،ٹھنڈا گوشت،دو ہاتھ وغیرہ قابل ذ کر ہیں 
سوال:منشی پریم چندر کی حالات زندگی اور ادبی خدمات پر روشنی ڈالیئے؟

جواب:حالات زندگی:پریم چند کا اصلی نام دھنپت رائے تھا آپ کو پیدائش 1880 ء میں بنارس کے ایک گاؤں میں ہوئی آ پ کے باپ کا نام منشی عجائب لال تھاجو کہ ایک ڈاکخانے میں ملازم تھے پانچ سال کی عمر میں ایک مولوی صاحب سے اردو اور فارسی پڑھنا شروع کیاآٹھ سال کی عمر میں ماں کا انتقال ہوگیاچودہ سال کی عمر میں گورکھپور میں ایک مشن اسکول میں داخلہ لیامیٹرک کا امتحان امتیازی نمبرات سے پاس کیااساتذہ کا پیشہ اختیا ر کیاملازمت کے دوران بی اے تک پڑھائی حاصل کی1950ء  میں کانپور میں تبادلہ ہوگیایہاں چار سال گذارنے کے بعدضلع ہمیر پور میں ڈپٹی انسپکٹرکے عہدے پر کام کیا1921ءمیں سرکاری نوکری سے استعفی دے دیامسلسل صحت خراب رہنے کی وجہ سے آ ُ پ کاانتقال 1936ٰءمیں ہوگیا 
ادبی خدمات:پریم چندر کا شمار اردو میں بحیثیت ناول و افسانہ نگار کے طور ہوتا ہے آ ُ پ اردو کے پہلے افسانہ نگار ہیں آ پ نے اردو کا پہلا افسانہ ”دنیا کا سب سے انمول رتن“لکھاآ ُ ُپ نے اپنے افسانوں وناولوں دیہاتی زندگی کو شدت سے اجاگر کیا ہے آ ُپ کی تحریر سادہ اور پر اثر ہے”اسرار معابد“ آپ کا پہلا ناول ہے لیکن ”گؤدان آ پ کا شاہکار ناول تصور کیا جاتا ہے کفن آپ کا مشہور ترین اٖفسانہ ہے آ ُپ کے افسانوی مجموعوں میں پریم بتیسی،پریم چالیسی،زادرہ، دودھ کی قیمت اور واردات وغیرہ کافی مشہور ہیں 
( 4)آسماں پھول اور لہو
سوالات:
1،سوال:دوکاندارلڑکے کو گڑیا کیوں نہیں بیچنا چاہتا تھا؟
جواب:دوکاندارلڑ کے کو اس لئے گڑیا نہیں بیچنا چاہتا تھا کیوں کہ لڑکے کے پاس گڑیا کو خریدنے کے لئے برابر پیسے موجود نہیں تھے
2۔سوال:لڑکے کے لئے گڑیا کا خریدنا کیوں ضروری تھا؟
جواب:کیوں کہ وہ اپنی فوت شدہ بہن کوگڑیا اپنی ماں کے ذریعے بھیجنا چاہتا تھاوہ یہ سمجھ بیٹھا تھا کہ اُس کی بہن آسمانوں میں رہتی ہے جہاں اب اُس کی بیما ر ماں جانے والی ہے
۳۔ لڑکا دیدی کو گڑیا کس کے ہاتھ بھیجنا چاہتا تھا؟
جواب:لڑکا اپنی دیدی کو گڑیا اپنی ماں کے ذریعے بھیجنا چاہتا تھا 
۴۔ افسانے میں موجود ”آنٹی“ کے کردار پر صرف ۵ جملے لکھیے
جواب: (۱) وہ ایک رحم دل عورت ہوتی ہے
(۲) دوسروں کے دُکھ کو اپنا دُکھ سمجھتی ہے
(۳) لڑکے کی مدد کرتی ہے
(۴) اُسے لڑکے کی معصومیت پر ترس آتا ہے
(۵) گڑ یا اور پھول لڑکے کو خریدکے دے دیتی ہے
۵۔ لڑکے کی کون سی دعا اللہ نے ْقبول کر لی؟
جواب:لڑکے نے اللہ سے یہ دُعا مانگی تھی کہ اے اللہ مجھے اتنے پیسے د ے دیں تاکہ میں جن سے اپنی دیدی کے لئے ایک گڑیا اور اپنی ماں کے لئے ایک سفید پھولوں کا گلدستہ خرید سکوں 
َؐ۶۔لڑکے کی ماں اور بہن کا کیا نام تھا؟
جواب:لڑکے کی ماں کا نام بی بی حلیمہ اور اُس کی بہن کا نام خالدہ تھا
۷۔اس افسانےکا نام ”آسمان پھول اور لہو“ کیوں رکھا گیا ہے؟
جواب: اس افسانے کا نام ”آسمان پھول اور لہو“ اسی لئے رکھا گیا ہے کیوں کہ اس افسانے میں یہ نام بہت باراستعمال ہوئے ہیں کیوں کہ ابتدا،نتہا،وسعت اور خاتمہ ان تینوں ناموں کے ساتھ ہوتا ہے
۸۔اس افسانے کا خلاصہ اپنے الفاظ میں لکھیے
جواب:اس افسانے کا نام”آسمان پھول اور لہو“ہے اس افسانے کو نورشاہ نے تحریر کیا ہے ایک عورت صبح کے وقت بازار کچھ جیزیں خریدنے کو نکلتی ہے وہاں اسے ایک لڑکا ایک گڑیوں کے دوکان پر ایک گڑیا خریدتا ہوا نظرآتا ہے مگر اس کے پاس اتنے پیسے موجود نہیں ہوتے ہیں جن سے وہ ایک گڑیا خرید سکے آنٹی اُسے پوچھتی ہے یہ گڑیا تم کیوں خریدنا چاہتے ہو وہ معصوم سا بچہ جواب دے دیتا ہے یہ گڑیا میں اپنی دیدی کے لئے خریدنا چاہتا ہوں جو آ سمانوں میں رہتی ہے اب میں یہ گڑیا اپنی دیدی کواپنی ماں کے ذریعے بھیجنا چاہتا ہوں جو بیمار ہے ابو کہتے ہیں اماں بھی آسمانوں میں جانے والی ہے آنٹی کو اس معصوم بچے پر ترس آتاہے اور وہ اُس بچے کو کہتی ہے یہ ریزگاری کے پیسے میرے پرس میں ڈال دوں پھر دیکھوں یہ جادوئی پرس کیا کمال کرے گاآنٹی دوکان دار کو کہتی ہے یہ پیسے لے لوں اور یہ دونوں چیزیں پیک کردوں۔یہ کہہ کر آنٹی بچے کواُس کے پیسے واپس کر کے کہتی ہے جاوٗں بیٹے اپنی اماں کے پاس وہ آ پ کا انتظار کرتی ہوگی چند روز بعد آنٹی ایک اخبار ہاتھ میں پڑھنے کو اُٹھاتی ہے اُسے اخبار کی ایک تصویر میں اُس بچے اور اُس کی ماں کی لاش،گڑیا اور سفید پھولوں کے گلدستہ کے ساتھ خون میں لت پت نظر آتی ہے جسے دیکھ کراُسے بڑا دُکھ ہوتا ہے اور اُسے یہ محسوس ہوتا ہے کہ جیساکہ ایک معصوم سا بچہ آسمانوں کی جانب پرواز کررہاہے
حروف کا بیان
حرف:حرف: وہ کلمہ ہے جو نہ کسی کام کو ظاہر کرتا ہے اور نہ ہی کسی کا نام ہوتاہے محض کلمات کے ساتھ مل کر کام دیتا ہے اسم وفعل بھی اسی کی وجہ سے آپس میں ملتے ہیں مثلاََ سے،میں ،تک ۔۔۔۔۔، وغیرہ
حروف کی دو قسمیں ہیں 
(۱) حروف ہجا
 (۲) حروف معنوی)
(۱) حروف ہجا:حروف ہجا وہ ہیں جو لفظ کی بناوٹ میں ا ستعمال ہوتے ہیں مثلاََ ا۔ب۔ج۔۔۔ وغیرہ
(۲) حروف معنوی):حروف معنوی وہ حروف ہیں جو خاص مطلب اور مقاصد کے لیے وضع کیے گیے ہوں مثلاََ پر، تک، میں و غیرہ
(۱)حروف جار:حروف جار(preposition) وہ حروف معنوی ہیں جو کسی اسم اور فعل کو آپس میں ملاتے ہیں اور ایک لفظ کا تعلق دوسرے لفظ سے ظاہر کرتے ہیں اُنھیں حروف جار کہتے ہیں اور جن اسموں کے بعد حروف جار واقع ہوتے ہیں اُن کو مجرور کہتے ہیں مثلاََ پر،سے،تک،تا،در،باہر،تلک،زیر،پاس،نزدیک، وغیرہ
(۲)حروف تنبیہہ: ایسے حروف ہیں جو کسی کو ڈرانے،دھمکانے،منع کرنے، خبردار کرنے یا روکنے کے موقعے پر بولے جاتے ہیں  جیسے  خبردار، دیکھو، سنو، سنو تو سہی ، دیکھنا وغیرہ
(۳) حروف شرط:وہ حروف جو شرط کے موقع پر بولے جاتے ہیں حروف شرط کہلاتے ہیں مثلاََ اگر، ورنہ،ہر چند، گو، جو، جوں ہی وغیرہ
(۴)حروف جزا: ایسے حروف جو شرط کے جواب میں بولے جاتے ہیں مثلاََ تو، تب،مگر  وغیرہ
(۵)حروف عطف وہ حروف ہیں جو دو کلموں کو آپس میں ملائیں مثلاََ اور،پھر، بھی وغیرہ
(۶) حروف اضافت: ایسے حروف ہیں جو دو اسموں میں نسبت پیدا کرتے ہیں ان کی کل تعداد نو (۹) ہیں مثلاََ  کا، کے، کی، را،رے،ری،نی،نے اور نا
(۷)حروف استدراک: ایسے حروف ہیں جو دو جملوں کے درمیاں آ کر پہلے جملے کے شک کو دور کریں۔ مثلاََ اگرچہ،لیکن،گو، الا، البتہ،پہ ،سو  وغیرہ
(۸)حروف استثنٰی:وہ حروف ہیں جو ایک جملے کو دوسرے جملے سے یا ایک شخص،چیز یا لفظ کو دوسرےشخص،چیزیا لفظ سے علیٰحدہ کریں۔جیسے سوا، ماسوا،جز لیکن، مگر وغیرہ
(۹)حروف تحسین آفرین: ایسے حروف جو تعریف یا شاباش کے موقع پر بولے جائیں۔ مثلاََ بہت خوب، مرحبا، کیا کہا،چشم بدور، واہ شاباش،زندہ باد وغیرہ
10(۱)حروف تاسف: ایسے حروف ہوتے ہیں جو افسوس،تکلیف یا گھبراہٹ کے موقع پر بولے جاتے ہیں مثلاََ اُف، ہائے،آہ، صد حیف، صد افسوس، حیف صد حیف، وغیرہ
(۱۱) حروف تعجب:ایسے حروف ہیں جو تعجب یا حیرانگی کے موقع پر بولے جاتے ہیں مثلاََ زہے قسمت، سبحان اللہ،اوفو، اف رے، اللہ اللہ وغیرہ
(12) حروف انبساط:ایسے حروف جو خوشی اور مسرت کے مو قع پر بو لے جائیں حروف انبساط کہلاتے ہیں مثلاََ ماشاء اللہ، واہ واہ، اوہو،آہا آہا وغیرہ 
(13) حروف ندا:ایسے حروف جو کسی کو پکارنے کے موقع پر بولے جاتے ہیں مثلاََ اوہ، اجی ،ارے، او، ابے، یا وغیرہ
(14) حروف ایجاب: ایسے حروف جو پکارنے کے جواب میں بولے جائیں مثلاََ جی ہاں، ہاں، درست، 
(15) حروف علت: ایسے حروف جو کسی امر کاسبب ظاہر کریں مثلاََ چونکہ، لہذا،پس، تاکہ وغیرہ
(16)حروف تاکید:یہ ایسے حروف ہوتے ہیں جن سے کلام میں زور پیدا ہو جائے حروف تاکید کہلاتے ہیں مثلاََ ہرگز، کبھی، کل، تمام، ضرور وغیرہ
(17) حروف نفرت: ایسے حروف جو نفرت کے موقع پر بولے جاتے ہیں مثلاََچھی چھی، تھو، تف،لعنت،دُردُر،دھتکار،ہش، وغیرہ    
(19) حروف تردید: ایسے حروف جو کسی بات کے رد کرنے کے لیے بولے جاتے ہیں جیسے خواہ، چاہے، یاتو، نہ، یا،کہ وغیرہ
(20)حروف استفہام: ایسے حروف ہوتے ہیں جو سوالات پوچھنے کے وقت بولے جاتے ہیں اردو میں یہ سوالات لفظ”ک“ سے ہی زیادہ بنتے ہیں جیسے کیوں، کب، کیوں، کیسا،کہاں،کتنے،کیا، کس،وغیرہ
(21) حروف بیان: وہ حرف جو کسی جملہ میں بیان سے پہلے آئیں۔دو جملوں کے درمیاں کسی بات کو واضح کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے اردو میں صرف ”کہ“  ہی حرف بیانیہ ہے
(22) حروف تاکید: وہ حروف ہیں جو تاکید کے موقع پر بولے جائیں جیسے ضرور، سب، کبھی،بے شک وغیرہ
(23) حروف تشبیہ:ایسے حروف ہیں جن سے ایک چیز کا دوسری چیز جیسا ہونا ظاہر ہو جیسے ہو بہو، ماخذ، جوں، جیسا، یوں، ویسا، تیسا، سا، کی طرح وغیرہ
۵۔ درج ذیل اقتباس کو غور سے پڑھیں 
 آ ج پھر وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا۔ جونہی وہ آیاہال میں سبھی لوگ چونک پڑے اُس نے کسی کو کچھ کہے اسٹیج پر تقریر شروع کی۔ تالیوں سے پورا ہال گونجنے لگا ”واہ واہ“ ”سبحان اللہ“ کے روایتی الفاظ ہر طرف سے سُنائی دینے لگے۔سننے والے تشنہ تھے کہ وہ کچھ اور کہے اور کیوں؟ وہ اچانک رُکا۔اُس نے ایک لمبی آہ کھینچ لی اور عجیب انداز میں اپنے سر کو ہلانے لگا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ کبھی بھی نہ بولے گا،چھی چھی۔تُف یہ دو لفظ کہہ کر اُس نے ہال میں طاری سکونت کو توڑا۔ کسی کی سمجھ میں نہ آسکا وہ کیا کہا جارہا تھا
۶۔اب اوپر دیے ہوئے اقتباس میں سے مختلف اقسام کے حروف تلاش کریں 
جواب:  واہ واہ =  حروف تحسین ، سبحان اللہ=  حروف تعجب ، کیسے۔ کیوں = حروف استفہام    ، چھی چھی ۔تُف حروف نفرت
سوال: نور شاہ کی حالاتِ زندگی اور ادبی خدمات پر روشنی ڈالیے؟
               

جواب: حالاتِ زندگی: نور شاہ کی پیدائش شہر سرینگر کے ایک علاقے ڈلگیٹ کے ایک اعلٰی تعلیم یافتہ گھرانے میں ۹ جولائی 1936ءمیں ہوئی۔بی اے کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ایک سرکاری نوکری اختیار کی۔مختلف سرکاری عہدوں پرکام کر نے کے بعد، ترقی کرتے کرتے جے اینڈ کے انرجی ڈیولپمنٹ ایجنسی میں بحیثیت چیف ایگزیکیٹو آفیسر کے عہدے پر پہنچ گئے آخر اسی عہدے سے ہی ریٹا ئر ہو گئے
ادبی خدمات: نور شاہ نے اپنے قلم کا زور بائیس سال کی زندگی میں ایک کہانی”نلنی“ لکھ کر دکھایاآپ ایک منجھے ہوئے ادیب ہیں آپ کی تصنیفات فنی اعتبار سے خاصی اہمیت کی حامل ہیں الفاظ کی ادائیگی کا ان کایہاں ایک مخصوص انداز نظر آتا ہے کہانی کو بننے میں زبردست مہارت رکھتے ہیں آپ نے کئی ناول،ا فسانے اور ڈرامے تخلیق کیے۔افسانوں میں”ویرانے کے پھول“ ”ایک رات کی ملکہ“”آسمان پھول اور لہو“، ناولوں میں ”نیلی جھیل کالے سائے“ وغیرہ قابل ذکر ہیں اس کے علاوہ کئی ڈرامے بھی لکھے ہیں 


(5) خاکہ مولاناحالی
(مولوی عبدالحق) 
 مولانا الطاف حسین حالیؔ
سوالات: (۱ )قومی اتحاد کے بارے میں مولانا حالی کا کیا خیال تھا؟
جواب:قومی اتحاد کے بارے میں مولانا حالی کا خیال بڑا صاف وپاک ا و رہمدردانہ نوعیت کا تھا وہ ملک کے ہر فرد میں ذات پات کو چھوڑکر قومی اتحاد دیکھنا چاہتا تھالیکن جب بھی ہندؤوں ومسلمانوں میں کئی کوئی ان بن ہوجاتی تھی تو اُن کا دل بڑا دُکھتا تھا وہ اپنی تحریروں و تقریروں میں ہر قوم وملت کے افراد کا خیال رکھتا تھا
(II)۔ مولانا حالی نے عملی میدان میں کون سی دو یادگاریں چھوڑی ہیں؟
جواب: مولانا حالی نے عملی میدان میں جو دویادگاریں چھوڑی ہیں اُن میں پہلی یادگار پانی پت میں ایک مدرسے کا قیام کرنا تھا جواب حالی ہائی سکول کے نام سے جانا وپہنچاناجاتا ہے دوسری یادگار اُن کی پانی پت میں اورنیٹل لائبریری کا قیا م عمل میں لانا شامل ہے 
۴۔مندرجہ ذیل بیانات کے ثبوت کے طور پر سبق میں سے ایک ایک واقعہ تلاش کر کے لکھیے
خاکہ نگاری:کسی شخصیت یا شخص کے بارے میں کچھ حالات و واقعات،عادتیں و خصلتیں وغیر ہ لکھنا”خاکہ نگاری“کہلاتا ہے
سوانح نگاری:کسی شخصیت یا شخص کے بارے میں پیدائش سے لیکر موت تک تمام حالات و واقعات ترتیب وار لکھنے کو ”سوانح نگاری“ کہتے ہیں 
شخصیت نگاری:کسی شخصیت یا شخص کے بارے میں اپنے تاثرات کے ساتھ ساتھ دیگر لوگوں کے خیالات و افکار لکھنے ”کو شخصیت نگاری“‘کہتے ہیں 
۴۔مندرجہ ذیل بیانات کے ثبوت کے طور پر سبق میں سے ایک ایک واقعہ تلاش کر کے لکھیے
۱۔مولانا حالی شہرت اور خود نمائی پسند نہیں کرتے تھے
جواب: لوگ مولانا سے اُن کا کلام سننے کی فرمائش کرتے تھے مگر۔وہ کسی نہ کسی طرح ٹال جاتے تھے اور اکثر یہ عذر کر دیتے تھے کہ”میرا حافظ بہت کمزور ہے اپنا لکھا بھی یاد نہیں رہتا۔“ یہ عذر ِلنگ ہی تھااس میں کچھ حقیقت بھی تھی لیکن اصل بات یہ تھی کہ وہ خودنمائی سے بچتے تھے
۲۔مولاناحالی ؔزبردست مہمان نواز تھے
جواب: یہ کمبل لایا تھا اور آپ کو اُوڑھا رہا تھا۔انور احمد صاحب کہتے ہیں کہ”مجھ پر اُن کی شفقت کا ایسا اثر ہوا کہ عمر بھر نہیں بھول سکتا“۔مہمان کے آنے سے (اور اکثر ایسا ہوتا تھا)وہ بہت خوش ہوتے تھے اور سچے دل سے خاطر تواضع کرتے تھے اور اُس کے خوش رکھنے کی کوشش کرتے تھے
۳۔مولانا حالیؔ بعض اوقات چھوٹوں کا بھی ادب کرتے تھے
جواب: مرحوم حمید الدین اُن سے ملنے گئے تو وہ سروقد تعظیم کے لئے کھڑے ہوگئے ہم اپنے دل میں بہت شرمندہ ہوگئے مولوی حمیدالدین نے کہا بھی کہ آپ ہمیں تعظیم دے کر محجوب کرتے ہیں فرمانے لگے کہ آپ لوگوں کی تعظیم نہ کروں،تو کس کی کروں؟ آئندہ آپ ہی قوم کے ناخدا ہونے والے ہیں 
۵۔مصنف کا حوالہ دے کر سیاق وسیاق ک ساتھ درج ذیل اقتناس کا ماحصل لکھیے
جدید تعلیم کے بڑے حامی تھے اُس کی اشاعت وتلقین میں مقدور بھر کوشش کرتے رہے لیکن آخری عمر میں ہمارے کالجوں کے طلبہ کو دیکھ کر اُنھیں کسی قدر مایوسی ہونے لگی تھی۔مجھے خوب یاد ہے کہ جب اُن کے نام حیدر آباد میں ایک روز ”اولڈ بوائے“ آیا تو پڑھ کر بہت افسوس کرنے لگے کہ اُس میں سوائے مسخر ے پن کے کچھ بھی نہیں ہوتا۔اُنھوں نے کہا علی گڑھ کے طلبہ سے اُس سے اعلی توقع تھی
جواب:یہ اقتباس ہماری درسی کتاب”بہارستانِ اردو“  ’اردو کی دسویں کتاب‘ کے حصہ نثر میں، بابائے اردو مولوی عبدالحق کے ایک لکھے ہوئے خاکہ”حالی“سے نکالا گیا ہے مندرجہ ذیل اقتباس کا ماحصل کچھ اس طرح سے ہیں
  مولانا حالی جدید تعلیم کے زبردست حامی تھے اور اس کی بھرپور اشاعت کرنے میں ہمیشہ مگن رہتے تھے آخر عمر میں کالجوں کے دو طلبہ علموں کو دیکھ کر حالی کو بڑا غم ودُکھ ہوا۔بابائے اردو کہتے ہیں جب ایک دن حیدر آبادمیں ایک رسالہ ”اولڈ بواے“ چھپ کر آیا اُس کو پڑھ کرحالی کو بڑا دکھ ہوا اور کہا کہ اس رسالہ میں ہنسی مزاق کے بغیر کچھ بھی نہیں ہے اورفرمایا مجھے علی گڑھ طلبہ سے اس قسم کی امید نہیں تھی
ؐ۶۔ خالی جگہیں پُر کریں مثال
واحد    جمع       واحد       جمع
کتاب   کتابیں     ادب       آداب
قلم      قلمیں     وقت        اوقات
بات     باتیں    سبب        اسباب
رات   راتیں     فلک      افلاک
نظم    نظمیں  طرف      اطراف    
مندرجہ ذیل الفاظ کو اس طرح جملوں میں استعما ل کیجیے کہ ان کی تذکر و تانیث واضح ہوجائے 
دہی     مالا     برف      چاند   آشار      دلک
مثال: عید کا چاند نظر نہیں آیا  (مذکر)
جواب: 
  1.  الفاظ ۔۔۔۔ جملے ۔۔۔۔۔۔۔۔                تذکر و تانیث  
  2.    دہی   دہی زبردست کھٹا ہے          مذکر
  3.   مالا     میں نے بازار سے ایک مالا خریدی ہے         مونث 
  4.    برف    برف بھاری ہورہی ہے                مونث
  5.   آبشار    اہر بل کا آبشا ر بڑا مشہور ہے               مذکر
  6.     دل      ہر ایک جاندار اپنا ایک دل رکھتا ہے         مذکر
وہ مرکب جو اسم اشارہ اور مشارالیہ سے مل کر بنے مرکب اشاری کہلاتا ہے مثلاََ یہ کتاب، وہ قلم ان میں ’یہ‘ اور’وہ‘ اسم اشارہ ہیں جب کہ کتاب اور قلم مشار الیہ ہیں مشارالیہ سے مراد وہ چیز جس کی طرف اشارہ کیاجائے اور اسم اشارہ سے مراد وہ اسم ہے جو کسی چیز کی طرف اشارہ کرنے کے لیے بولا جائے
درج ذیل جملوں میں سے مرکب اشاری تلاش کریں 
(۱) وہ کتاب بہت دلچسپ ہے؟ 
جواب: وہ کتاب
(ب)یہ لڑکا ذہین ہے 
 جواب:یہ لڑکا
(ج) یہ قلم اوروہ پنسل میں نے سری نگر سے خریدے ہیں
 جواب: یہ قلم ، وہ پنسل
۷۔مثال دیکھ کر خالی جگہیں پُر کریں 
مثال:
مُنشی       منشاین
مُذکر      مونث 
ٹھاکر      ٹھاکرائن    
 حلوائی     حلوائن
کھیتری    کھیترائن   
 قصائی      قصائن
نائی        نائن         
فرنگی        فرنگن
۸۔مثال دیکھ کر متضاد الفاظ لکھیے
لفظ        مُتضاد     لفظ       مُتضاد
قریب       دُور    باہر         اندر
اُوپر        نیچے      دِن       رات
وسیع        تنگ    پہلا       آخری
نرم     سخت       اعلیٰ       ادنی
 سوال :خاکہ کیا ہے؟
جواب: خاکہ نثری ادب کی ایک دلکش صنف ہے خاکہ انگریزی لفظ اسکیچ((SKETCHکا ترجمہ ہے خاکہ کے معنی نقشہ یا لکیروں سے بنائی ہوئی تصویر کے ہیں لیکن ادبی اصطلاح میں خاکہ سے مراد ایک نثری تحریر ہوتی ہے جس میں کسی شخصیت کی منفرد اورنمایاں خصوصیات کو اس انداز سے پیش کیا جاتا ہے کہ اس کی ہو بہو تصویر آنکھوں کے سامنے آجائیں خاکہ نگاری نہ سیرت نگاری ہے نہ سوانح نگاری، یہ کسی دل آویز شخصیت کی دھندلی سی تصویر ہے اس میں نہ اس کی زندگی کے اہم واقعات کی گنجائش ہے نہ خاص خاص تاریخوں اور نہ زیادہ تفصیل کی۔مصنف نے کسی شخص میں کچھ قابل ذکر خصوصیات دیکھی ہوں اور اُنھیں دلچسپ انداز سے بیان کردے تو یہی خاکہ ہے اردو میں خاکہ نگاری کے اولین نقوش و جھلکیاں اردو شعراء کے تذکروں میں ملتے ہیں جن میں میر تقی میرؔ کے ”نکات الشعراء“مصحفیؔ کے ”تذکرہ ہندی“شفیتہؔ کے ”گلشن بے خار“وغیرہ مثال کے طور پیش کیے جاسکتے ہیں لیکن اردو میں خاکہ نگاری کا باقاعدہ آغاز مرزا مرحت اللہ کے ہاتھوں ہوا جب انھوں نے نذیر احمد کا خاکہ لکھ کر اس صنف کی بنیاد ڈالی اردو کے دیگر خاکہ نگاروں میں عصمت چغتائی،منٹو،اعجاز حسین،شوکت تھانوی،شاہد احمد دہلوی وغیرہ قابلِ ذکر ہیں 
سوال:مولوی عبدالحق کی حالات زندگی اور ادبی خدمات پر روشنی ڈالیے؟

جواب: حالات زندگی:مولوی عبدالحق کی پیدائش قصبہ ہاپوڑ کے قریب سراوہ میں 20اگست1870ء؁ کو ہوئی بچپن سے ہی لکھنے پڑھنے کا زبردست شوق تھاابتدائی تعلیم اپنے وطن میں ہی حاصل کی اس کے بعد علی گڑھ کالج سے بی اے کی ڈگری حاصل کی۔تعلیم مکمل کرنے کے بعد حیدر آبادمیں معلم کا پیشہ اختیار کیا۔اس عہدے سے ترقی کرتے کرتے انسپکٹر مدارس کے عہدے تک پہنچ گئے عثمانیہ کالج میں بطورپرسنل کے فرائض بھی انجام دیتے رہیں عثمانیہ یونیورسٹی کے قائم ہوتے ہی شعبہ اردو کے صدر اور پروفیسرمقرر ہوئے اور اسی عہدے سے نوکری سے سبکدوش ہوئے اس کے بعد آپ دہلی چلے آئے اور اردو کی ترقی کے لئے انجمن ترقی اردو کے لیے کتابوں کی بڑی اشاعت شروع کی۔ الہ آباداور علی گڑھ یونیورسٹیوں سے۔ایل۔ایل۔ڈی اور ڈاکڑیٹ کی اعزازی ڈگریاں حاصل کیں۔ملک کا بٹوارہ ہونے کے بعد آپ کراچی چلے آئے جہاں پر آپ کا انتقال 16اگست 1961ء میں ہوا۔؁
ادبی خدمات:مولوی عبدالحق کو اردو کا بابائے اردو کے نام سے یاد کیا جاتا ہے آپ نے اردو کی بڑی خدمت کی۔کئی سالوں تک سہ ماہی رسالہ ”اردو“ نکالاجس میں خاص کر تحقیقی اور تنقیدی مضامین چھبتے تھے ہر بات سوچ سمجھ کر لکھتے ہیں عبارت میں الجھاو نہیں جو کچھ لکھتے ہیں صاف ستھرے اور عام فہم انداز میں وضاحت سے لکھتے ہیں مشکل زبان لکھنے والوں کو وہ اردو کا دشمن کہتے تھے اور آسان زبان لکھنے پر زور دیتے تھے
سوال: خاکہ ”حالی“کا خلاصہ لکھیے(مختصراََ)
جواب: ”حالی“ مولوی عبدالحق کا ایک لکھا خاکہ ہے اس خاکہ میں مولوی عبدالحق نے حالی کے مختلف عادات واطوار اور اوصاف پر روشنی ڈالی ہے عمادالمک کہتے ہیں کہ سرسید کی جماعت میں حالی جیسا کوئی بلند پایہ شحص نہ تھاحالی ؔبامروت،بااخلاق اوربہت انصاف پسند شخصیت کے مالک تھے وہ ہر ایک سے خوش اخلاقی کے ساتھ پیش آتے تھے ایک بار مولوی حمیدالدین ملنے کو گئے حالی اُن کی تعظیم کے لے کھڑے ہوگے آل انڈیا ایجوکیشنل کانفرنس کے سفیر مولوی انوار احمد جب ایک دن اُن سے ملنے آئے رات کو حالی کے یہاں ٹھہرے حالی نے اسکی خوب مہمان نوازی کی۔ رات کو خود ایک کمبل اوڑھنے کو دی۔حالی ہندووں و مسلمانوں میں اتحاد دیکھنا چاہتا تھاوہ ملک کے ہر فرد کی ترقی کا خواہش مند تھادوسرے شاعروں کی طرح اپنی شہرت کے خلاف نظر آتے ہیں حالی انگریزی سے واقف نہ تھے عملی میدان میں اُن کی دو یادگاریں ہیں ایک پانی پت میں اُن کا مدرسہ، ددم پانی پت میں ہی ان کی اورنیٹل لائبریری کا قائم کرنا تھاحالی جدید تعلیم کے حامی تھے وہ اردو میں اچھے ڈرامے وناولوں کو لکھنے کا خواہش مند تھاآخر پر اُن کی دو بڑی تمنا تھی کہ اردو میں تذکروتانیث کے قواعد وضوابط  بڑی اچھی  طر ح سے وضع کئے جائیں 

(6) انشائیہ خوشامد ۔Khoshamad سرسید احمد خان

KHOSHAMAD خوشامد(سرسید احمد خان)

۔سوالات 

(۱)خوشامد کو بدتر چیز کیوں کہا جاتا ہے؟

جواب:خوشامد کو بدترین چیز اسی لئے کہا جاتا ہے کیوں اس سے ایک اچھے بھلے انسان کا، دل ودماغ،عادات واطوار،طبیعت بُری طرح متاثر ہوجاتا ہے ایک خوشامد پسند انسان خود کو دوسروں سے اعلیٰ اور باقیوں کو اپنے سے ادنیٰ سمجھ لیتا ہے

(۲)خوشامد ی میں کیا کیا عیب ہوتے ہیں؟

جواب:خوشامدی سے یوں تو ایک انسان کے اند ر ہر طرح کے عیب پیداہوتے ہیں جن میں چندعیب یوں درج کئے جاتے ہیں:

(ا) ایک انسان اپنی تعریفیں اور خود ستائی حدسے زیادہ سننا پسند کرتا ہے

(ب)دل خوشامدکی مہک بیماری میں مبتلا ہوجاتاہے

(ج)اوروں کو اپنے سے کمتر سمجھنے لگتا ہے وغیرہ؎

۳۔سرسید کے مضمون ”خوشامد“ کا خلاصہ لکھیے

جواب:”خوشامد“سرسید احمد خان کا ایک لکھا ہوا انشائیہ ہے اس انشائیہ میں سرسید احمد خان خوشامدکی بُرائیاں کو مختلف مثالوں کے ذریعے اُجاگر کرتا ہےانسان کے دل کو جو جسمانی وروحانی بیماری لگ جاتی ہے اُن میں سب سے زیادہ خطرناگ بیماری’خوشامد‘ کی بیماری کا اچھا لگنا ہوتا ہے اورجسے یہ بیماری لگ جاتی ہے اس کے دل ودماغ کو بری طر ح سے متاثرکردیتی ہے جب کسی کو ایک بار لگ جاتی ہے تو عمر بھراُس کا ساتھ نہیں چھوڑتی ہےجب ایک انسان اس مرض میں مبتلا ہو جاتا ہے تو وہ اپنی حیثیت و اپنا مقام کھو دیتا ہے اور وہ ہر طرف اپنی بڑائی دیکھنا چاہتا ہے مگروہ اس کے اہل نہیں ہوتا ہے جس طرح دوسرے کے کپڑے ہمارے جسم پہ سجتے نہیں اُسی طرح خوشامد کااچھا لگنا ہو تاہے اسی طرح ایشیاء کے شاعر دوسروں کے ایسے بے جا خوشامد کر دیتے ہیں جن سے ان کی ذہنیت بگڑجاتی ہے اچھے اوصاف بیان کرنا عمدہ خوشبو بو کی مانند ہے الغرض خوشامد ایک بری چیز ہے اس سے ایک انسان کو بچنا چاہیے

۴۔ درج ذیل اقتباس کو پڑھ کر سوالات کے جوابات دیجیے

ناموری کی مثال نہائت عمدہ خوش بو کی ہے جب ہوشیاری اور سچائی سے ہماری واجب تعریف ہوتی ہے تو اس کا ویسا  ہی اثر ہوتا ہے جیسے عمدہ خوش بو کا ہے مگر جب کسی کمزور دماغ میں زبردستی سے وہ خوش بو ٹھونس دی جاتی ہے تو ایک تیز بد بو کی طرح دماغ کو پریشان کر دیتی ہے فیاض آ د می کو بد نامی اور نیک نامی کا زیادہ خیال ہوتا ہے اور عالی ہمت طبیعت کو مناسب عزت اور تعریف سے ہی تقویت ہوتی ہے جیسے کہ غفلت اور حقارت سے پست ہمتی ہوتی ہے

(۱)فیاض آ د می کوکس چیز کا زیادہ خیال رہتا ہے؟

جواب:فیاض آدمی کو سب سے زیادہ اپنی بدنامی اور نیک نامی کا خیال رہتا ہے

(۲)عالی ہمت طبیعت کو کس چیز سے تقویت ملتی ہے؟

جواب:عا لی ہمت طبیعت کو مناسب عزت اور تعریف سے ہی تقویت ملتی ہے

(۳)پست ہمتی کا سبب کیا ہے؟

جواب: پست ہمتی کا سبب غفلت اور حقار ت ہے

۴۔ اوپر دیے گیے اقتناس میں سے ان لفظوں کے ہم معنی تلاش کیجیے

شہرت ، سخی ،طاقت ، نیچے ،موزوں ،لاپرواہی

جواب:         

الفاظ   ہم معنی        

 شہرت      ناموری       

 سخی       فیاض

 طاقت     تقویت        

 نیچے      پست

 موزوں     مناسب   

 لاپرواہی    غفلت 

۵۔درج ذیل بالا اقتباس کا ما حصل اپنے الفاط میں لکھیے

یہ اقتباس ہماری درسی کتاب”بہارستانِ اردو“’اردو کی دسویں کتاب‘ حصے نثر میں بعنوان ”خوشامد“ جو سرسید احمد کے قلم سے جنم پایا ہے سے نکالاگیا ہے درجہ ذیل اقتباس کا ماحصل خلاصہ کچھ اسطرح سے ہے

شہرت کی مثال اُس اعلیٰ خوش بو کی طرح ہے اور جب کوئی بندہ ہماری جائز تعریفیں سچائی کے ساتھ کرتا ہے تو یہ تعریفیں نہائت عمدہ خوشبو کی طرح اپنا اثر دکھاتی ہے جسے ایک انسان کا دل ودماغ معطر ہوجاتا ہے مگر دوسری طرف اگر کسی انسان کی وہ تعریفیں کی جائیں جن کا وہ حقدار نہ ہوگا اس سے اُس کا اندرون بگڑ جاتا ہے یہ ایسا ہی جیساکسی بیمار انسان کو عمدہ خوشبو بری لگتی ہے نیک انسان کو ہمیشہ اپنی عزت کا خیال رہتا ہے اور وہ بدنامی سے خوف کھاتاہے اور اُسے جائز تعریفات سے حوصلہ افزائی ملتی ہے بے عزتی اور جاہلہ پن سے کم ہمتی اور پستی حاصل ہوجاتی ہے

۶۔صحیح جواب چُن لیجئے

۱۔”خوشامد“ سے کیا مُراد ہے

خوشی ، خوش آنے والی چیز

دوسروں سے اپنی جھوٹی تعریفیں سُن کر خوش ہونا 

جواب:دوسروں سے اپنی جھوٹی تعریفیں سُن کر خوش ہونا 

۵۔انشائیہ کے لئے

۱۔ موضوعات مقرر ہوتے ہیں

۲۔ موضوع کی کوئی پاپندی نہیں

۳۔طنزومزاح کا عنصر لازمی ہے

جواب:۔ موضوع کی کوئی پاپندی نہیں

۶۔خوشا مد ایک بُری /اچھی/فائدہ مند چیز ہے

جواب:خوشامد ایک بُری چیز ہے

۷۔علی گڈھ کالج مولانا شبلی/مولانا ابوالکلام آزاد/سرسید احمد خان / نے قائم کیا تھا

جواب:علی گڈھ کالج سرسید احمد خان نے قائم کیا تھا

۸۔سرسید نے۔۔۔۔میں انتقال کیا

۱۔1898ء

1899ء

1898ء

جواب:۔سرسید نے۔۔1898ء میں انتقال کیا

۹۔افسانہ اور انشائیہ پر مختصر نوٹ لکھیے

جواب افسانہ: لفظ افسانہ ’فسوں‘ نے نکلا ہوا لفظ ہے جس کے معنی من گھڑت بات کے ہیں افسانہ بھی ناول کی طرح مغربی ادب کی دین ہے اردو میں شارٹ سٹوری((SHORT STORYکوافسانہ کہا گیا ہے افسانے سے مراد اُس نثری کہانی سے ہے جس میں کوئی واقعہ یا بہت چھوٹے واقعات منظم طریقے سے بیان کئے گئے ہوں کہ جن کی ابتدا ہو،ارتقاء ہو،خاتمہ ہو اور زندگی کی بصیرت میں اضافہ کریں

HG WELLمختصر افسانہ کے بارے میں یوں لکھتے ہیں ”قصے کی ایسی طوالت ہو۔جسے آدھہ گھنٹہ میں پڑھا جاسکے“

عالمی ادب کا پہلا افسانہ امریکہ کے ایک مصنف واشنگٹن ارون نے انیسویں صدی کے بالکل آغازمیں ”ا سکیچ بک“ لکھ کر اس کو بنیا د ڈالی اردو کا پہلا افسانہ ”دنیا کا سب سے انمول رتن“ پریم چند ر نے لکھایہ افسانہ”رسالہ زمانہ“کانپور میں شائع ہوااردو کے دوسرے مشہور افسانہ نگاروں میں سجاد حیدر،سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی، کرشن چندر وغیرہ قابلِ ذکر ہیں اردو کے مشہور ترین افسانوں میں کفن،سوتیلی ماں،بڑے گھر کی بیٹی،ٹھنڈا گوشت،دو ہاتھ وغیرہ قابل ذ کر ہیں

انشائیہ:

انشائیہ کی صنف اردو میں انگریزی سے آئی ہے انگریزی میں اسے ”ایسے“ (ESSAY) کہتے ہیں انشائیہ انشاہ سے نکلاہوا لفظ ہے جس کے معنی عبارت یا تحریر کے ہیں لیکن لغوی معنی میں جوبات دل سے پیدا ہوجائے انشائیہ کہلاتا ہے انشائیہ کی بنیادی شرط یہ ہے کہ اس کی کوئی شرط نہیں کو ئی اصول نہیں۔جو کچھ کہو اس طرح کہو کہ پڑھ کر جی خوش ہوجائے اور پڑھنے والے کے ذہن میں گدگد سی ہونے لگے

ڈاکٹرجانسن نے انشائیہ کے تعلق یہ بلیغ  بات کہی ہے”it is a loose sally of mind“یہ انسانی دماغ کی ڈھیلی اور بے پرواہ قسم کی اُڑان ہے“

بقول ِڈاکٹر ویز آغا”انشائیہ کا خالق اس شخص کی طرح ہے جو دفتر کی چھٹی کے بعد اپنے گھر پہنچتا ہے چست وتنگ کپڑے اتار کرڈھیلے ڈھالے کپڑے پہن لیتا ہے اور ایک آرام دہ مونڈھے پر نیم دراز ہو کر حقے کی نے ہاتھ میں لیے انتہائی بشاشت اور مسرت سے اپنے احباب سے محو ِگفتگو ہوجاتا ہے“اردو ادب میں اس صنف کا آغاز کب اور کس کے ہاتھوں ہوا اس بارے میں اختلاف رائے پائی جاتی ہے البتہ ملا وجہی کی ”سب رس“ میں اس کی اولین جھلک نظر آتی ہے اردو میں جن انشائیہ نگاروں نے انشائیہ نگاری میں اپنا لوہا منوا ہے اُن میں مولانا محمد حسین آزادؔ، عبدالحلیم شررؔ،سرسید احمد خان،حسن نظامی،رشید احمد صدیقی  وغیرہ قابلِ ذکر ہیں

۰۱۔گرامر

حروف جار:حروف جار وہ حروف ہیں جو اسم اور فعل کو آپس میں ملاتے ہیں مثلاََ پر،تک،اندر،باہروغیرہ

مجرور:جن اسموں اور فعلوں کے ساتھ حروف جارلگے ہوں انھیں مجرور کہتے ہیں مثلاََ دہلی،مسجد؛ گھر وغیرہ

مرکب جاری:وہ مرکب جو جار اور مجرور سے مل کر بنے مرکب جاری کہلاتا ہے مثلاََ بات سے، دہلی تک،دہلی میں، گھر سے، کتاب پر وغیرہ

ان مرکبات میں سے مرکب جاری تلاش کریں 

کالا سانپ، دلی سے، سفیدگھوڑا، اسلم کی ٹوپی، میز، ٹھنڈا پانی، کولکتہ تک، سُرخ اونٹ، کتاب میں، آپ کے ساتھ،گلاب کا پھول،درخت پر؛ رشید کا بھائی

جواب:دلی سے، میز پر، کولکتہ تک، کتاب میں، درخت پر

سوال: سرسید احمد خان کی حالات زندگی اور ادبی خدمات پر روشنی ڈالئے؟


جواب: حالات زندگی:
سرسید احمد خان کی پیدائش 17اکتوبر1817ء؁ میں دہلی کے ایک معزز خاندان میں ہوئی آپ کا اصلی نام سرسید احمد خان تھا اور سر خطاب تھا ابتدائی تعلیم اپنے زمانے کے مشہو ر اہل کمال سے عربی اور فارسی زبانوں میں حاصل کیں۔تعلیم مکمل کرنے کے بعد 1839 ء؁ انگریزی سرکار کے ملازم مقر ر ہوئے  اور اس سلسلے میں مختلف شہروں میں ان کی تقرری ہوئی رہی۔ اپنی لیاقت اور قابلیت کی وجہ سے جج کے عہدے تک پہنچ گئے1862ء؁ میں جب آپ غازی پور چلے آئے تو یہاں پر سائنٹفک سوسائٹی کے نام سے ایک انجمن قائم کردی جس کا مقصد اہل وطن کو مختلف علوم وفنون سے روشناس کرانا تھا علی گڑھ میں 1857ء؁میں ایک اسکول کھولایہ اسکول 1858ؔء؁ میں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج، پھر 1920ء؁ میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی شکل میں ہندوستان کی ایک نمایاں تعلیمی ادارہ بن گیاآخری عمر تک اس کالج کی ترقی کے لیے کا م کرتے رہے اور آخر کا ر1898 ء؁ میں علی گڑھ میں اللہ کو پیارے ہوگئے اورو ہیں کالج جو اس کے مرنے کے بعد ایک یونیورسٹی بن گئی کے صحن میں سپردِ خاک کئے گئے
ادبی خدمات :
 سید احمد خان ایک اعلیٰ پائے کے ادیب تھے اردوشاعری و اردونثر پر سرسید کا بڑا احسان رہا ہے سرسید نے لمبی لمبی تحریروں کے بجائے چند صفحات میں کام کی بات کہنے کا طریقہ رائج کیا۔ اردو انشائیہ نگاری کی روایت کو فروغ دینے میں اہم رول ادا کیا انھوں نے زندگی کے ہر شعبے میں اصلاح کا بیڑا اٹھایاانھوں نے مختلف موضوعات پر کتابیں لکھیں جن میں اُن کی متعدد تصانیف میں ”آثار الصنادید“ ”اسبابِ بغاوتِ ہند“ خطباتِ احمدیہ“ اور”سرکشی ضلع بجنور“خاص طور پر اہمیت رکھتی ہیں 

(7) مقالہ اقبال اورانسانیت خواجہ غلام السدین

ڈاکٹر سر محمد اقبال علیہ رحمتہ
۳۔ سوالات:
۱۔صالح زندگی کی تعمیرکے لیے اقبال نے کس بات کو ضرورت قرار دیا ہے؟
جواب:شاعرِمشرق علامہ اقبالؒ نے صالح انسان کی زندگی کے لیے جس بات کو ضروری قرار دیا ہے وہ تو ایک انسان خود اپنی خودی اور دوسروں کی خودی کا احترام کرے
۲۔”خودی“سے کیا مراد ہے؟
جواب:خودی سے مراد یہ ہے کہ ایک انسان اپنے وجود کو پہنچانے،دوسروں کے تئیں اپنی ذمہ داریاں سمجھے،اپنی تمام تر زندگی حق وصداقت،دیانتداری،ایمانداری و انصاف پرگزارے۔خودی انانیت،غرور وگھمنڈکا نام نہیں ہے یہی اصل خودی کے معنی ہیں 
۳۔دنیا آج کس خطرے کی زد میں ہے؟
جواب: آج کل کی دنیا حسد،تنگ نظری،فریب،ذات پات،نسلی تشدد،دہشت گردی،قوم پرستی،مذہب پرستی،فرقہ پرستی وغیرہ خطرناگ تفرکات کی زد میں ہے
۴۔اقبالؒ کی شاعری کے بنیادی فکری پہلو کیا ہیں؟
جواب : علامہ اقبالؒ کی شاعری کے بنیادی فکری پہلو یہ ہیں کہ عالمی دنیا میں ہر سو انسانیت کا بول بالا ہوہر انسان دوسرے انسان کوانسان سمجھے نہ کہ حیوان۔ایک دوسرے کے سکھ دکھ کوبانٹے۔وہ چاہتے تھے ہر انسان کا دل ودماغ،تعصب،ذات پات،رنگ ونسل سے صاف وپاک ہو۔
۵۔انسان اور انسانیت کی فلاح کے لیے اقبالؒ کا پیغام کیا ہے؟
جواب:علامہ کا پیغام انسانیت کے لئے یہ ہے کہ انسانیت کی خدمت ہر سوں، ہرطرف ہو اور اس کے لئے ضروری ہے کہ انسانوں کے دل ودماغ، تعصب،ذات پات،رنگ ونسل،مشرق ومغرب،گورے وکالے و غیرہ بڑے تفرقات کی تمیزوں سے خالی ہو تب جاکے صحیح معنوں میں انسانیت کی جیت و خدمت ہوسکے گی
۶۔اس مقالے کا خلاصہ اپنے الفاظ میں لکھیے
جواب:خواجہ غلام السیدین کا یہ مقالہ بعنوانِ ”اقبال اور انسانیت“ ہماری درسی کتاب ”بہارستانِ اردو“ اردو کی دسویں کتاب کے حصے نثر میں شامل ہے اس مقالہ میں خواجہ غلام السیدین نے اقبالؒ کی اِ س فکر کو روشن کیا ہے جس میں وہ چاہتے ہیں کہ ہر طرف انسانیت کا بول بالا ہو۔اپنی مثنوی ”اسرارِ خودی“ میں لکھتے ہیں کہ میری مثنوی لکھنے کا مقصد اسلام کی وکالت کرنا نہیں ہے میں اصل میں ایک بہتر انسانی سماجی کی بقا چاہتا ہوں اقبالؒ نے اپنے کلام میں باربار ایک ایسے دل ودماغ والے انسان کی تصویر کھینچی ہے جو انسانی وحدت کی حقیقت کو سمجھ سکتا ہے اقبالؒ نے سائنس کی اہمیت کو بھی مانا ہے مگر اس کے نقصانات بھی بتائے اسی طرح ایک انسان اپنے وجود کو پہنچانے،دوسروں کے تئیں ذمہ داریاں سمجھے،اپنی تمام تر زندگی حق وصداقت،دیانتداری،ایمانداری وانصاف کے ساتھ گزارے۔یہی اصل خودی ہے علامہ اقبالؒ نے صالح انسان کی زندگی کے کیے جس چیز کو ضروری قرار دیا ہے وہ اپنی خودی کے ساتھ دوسروں کی خودی کا احترام کرے اور جس انسان میں یہ دونوں جمع ہوجائے تو پھر اس انسان میں خوداری صداقت،دیانت داری اور جرات کا مادہ پیدا ہوجاتا ہے اقبالؒکا یہ پیغام نہ نیا ہے نہ ہی انوکھا یہ باتیں پہلے دانشوروں نے بھی دہرائی ہیں الغرض اقبالؒ کا پیغام آفاقی ہے اوراس کو دنیا میں عام کرنے کی اشد ضرورت ہے کیوں کہ اقبالؒ جیسی شخصیت روز پیدا نہیں ہوتی ہے
۷۔جملوں میں استعمال کیجئے   
 خیال ،تلاش کرنا ،ٹھیس ،حامی
خیال:
ہمیں اپنی عزت کا سدا خیال رکھنا چاہیے
تلاش کرنا:
ہمیں کرونا وائرس کی دوا کی تلاش کرنی چاہیے
ٹھیس:
ہمیں کسی کے دل کو ٹھیس نہیں پہنچانی چاہیے
حامی:
ہمارا ہر حال میں اللہ ہی حامی و مدد گار ہے
۹۔ خواجہ غلام السیدین کی حالاتِ ذزندگی اور اُن کے کارناموں کا تذکرہ کیجیے
جواب: خواجہ غلام السیدین کی پیدائش پانی پت میں 16 اکتوبر1904ء؁ کو ہوئی آپ کے والد صاحب کا اسمِ گرامی خواجہ غلام الثقلین تھا جن کا سلسلہ شجرہ نسب مولانا حامیؔ کے خاندان سے ملتا ہے اس لئے تعلیم سے لگاوورثے میں ہی ملا تھاآپ پیدائشی ذہین اور محنتی تھے آپ میڑک سے بی اے (BA) تک امتحانات میں اپنے صوبے میں اول آئے۔ ائیسی ایس امتحان پاس کرنے کے بعد حکومت نے انگلستان بھیجااور وہاں پرآ پ نے ایم ایڈ(MED) کی ڈگری حاصل کی واپسی کے بعد ایڈمیسٹریٹر بننے سے بہتر ایک استاد بننا پسند کیا۔ علی گڑھ میں ایک انگلش اسکول کے پرنسپل مقرر ہوئے پھرٹیچرس ٹریننگ کالج کے پرنسپل کے عہدے پر اپنے مرائض انجام دیتے رہیں رام پور میں مشیر کی حیثیت کے طور پر کام کیاسرِ زمیں کشمیرمیں ڈاریکٹر تعلیم کا عہدہ بھی سنبھالا اس کے علاوہ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر اور مشیر کی حیثیت کے طور بھی کام کیا آ پ کا انتقال علی گڑھ میں 19 دسمبر 1971ء؁ میں ہواپھرآپ کی تدفین جامعہ نگر کے قبرستان میں کی گئی
ادبی خدمات: 
خواجہ غلام السیدین ایک تجربہ کار ماہر ِ تعلیم تصور کئے جاتے ہیں آ پ جنتا اچھا لکھتے تھے اتنا ہی بہتر تقریر کر تے تھے آ ُپ کو انگریزی زبان پر زبردست دسترس حاصل تھی یہی وجہ ہے انگریزی زبان میں زیادہ لکھااردو میں ان کی تصنیفات ”روحِ تہذیب“ آندھی میں چراغ“”اصول ِ تعلیم“ وغیرہ قابلِ ذکر ہیں
۴۔مصنف کا حوالہ دے کر درج ذیل اقتناس کو سیاق وسباق کے ساتھ اپنے الفاظ میں لکھیے
اپنے دل اور دماغ کے دروازوں کو کھو ل دو۔تاکہ تعصب اور تنگ نظری اور نسلی حس کے جالے صاف ہو جائیں تاکہ انسان، انسان کو اس کے اصلی روپ میں دیکھ سکے تاکہ محبت،دھیمی روشنی اورٹھنڈی ہوا، بند غنچوں کو پھول بنادے،تاکہ انسان ایک دوسرے کا خون پینے کے بجائے ایک دوسرے کے دُکھ سُکھ کے ساتھی بننا سیکھیں، تاکہ علم ارو سائنس کی فتح مندوں نے انسان کو جو بے اندازقُوت بخشی ہے وہ انسان کی سیوا کے لیے تخلیقی جدوجہد کے لیے زندگی کی گود کو فراغت اور خوشحالی اور اطمینان سے بھر نے کے لئے استعمال ہوسکے۔یہی اقبال کی شاعری کا مرکزی پیغام ہے
جواب:
 یہ اقتباس غلام السیدین کے مقالے ”اقبال اور انسانیت“ سے نکالا گیا ہے جو ہماری درسی کتاب”بہارستان اردو“’اردو کی دسویں کتاب‘کے حصے نثرمیں شامل ہے اس درجہ ذیل اقتباس میں اقبال کے پیغام کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ایک انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی دل کی بستی کو تعصب،تنگ نظری یعنی ہربرائی سے پاک کرے تب جاکے ایک انسان کو دوسرا انسان اُس کی اصلی شکل وصورت میں نظر آئے گا اور دنیا میں امن وسکون کی فضاقائم ہو جائیگی۔نفرتیں مٹ جائیں گی۔ایک انسان دو سرے انسان کا دکھ سکھ کا ساتھی بن جائے گا جب سائنس کی ایجادات انسان کی بربادی کے بجائے اس کی بھلائی و خوشحالی کے طو ر پرکام آئے گی اور اس طرح انسان کی اپنی ساری زندگی امن وسکون اورآ رام کے ساتھ گزر جائیں گی
۵۔صحیح جواب تلاش کیجیے
۱۔”آندھی میں چراغ“ کے مصنف کا نام  ڈاکٹر اقبال،سرسید احمد خان،خواجہ غلام السیدین
جواب: خواجہ غلام السیدین
۲۔”کہکشاں“سے مراد ہے 
ستاروں کا جھر مٹ 
سیاروں کا مجمع
چاند کا چکر
جواب:  ستاروں کا جھر مٹ  
۳۔”مولانا حالی“جدید تعلیم کے مخالف تھے جدید تعلیم کے حامی تھےجدید تعلیم سے بے زار تھے
جواب:جدید تعلیم کے حامی تھے
۴۔”افسانہ“ ایسی نثری کہانی ہے جس میںٰٓایک یا ایک سے زیادہ کردار ہوسکتے ہیں ۔اشعار کاہونا ضروری ہے۔پلاٹ نہیں ہوتا ہے
جواب:ایک یا ایک سے زیادہ کردار ہوسکتے ہیں 
۵۔”باغ وبہار“ ایک  کہانی۔ ڈرامہ۔ داستان۔ ہے 
جواب: داستان ہے
۶۔”خوشامد“ ایک   افسانہ ۔ مقالہ ۔ انشائیہ۔ ہے
جواب:  انشائیہ  ہے    
۶۔مضمون: 
سائنس کے فائدے
 سائنس کے نقصانات

 سائنس کے فائدے

آج کا دور سائنس و انفامیشن ٹیکنالوجی کا دور کہلاتا ہے پتھر کے دو ر سے ہی انسان نے آگ جلانا، پھر بعد کے ادوار میں پہیے کی ایجاد،گیہوں کے دانہ سے ز راعت وغیرہ سے اپنی ترقی کی شروعات کی جو اب تک نہ رکنے نہ تھمنے کا کہیں نام لیتی ہے ایک زمانہ وہ تھا جب ایک انسان خوابوں وخیالوں کی دنیا میں محو رہتا تھاجو پچھلے لوگوں کے  خیالوں میں جو بات تھی وہ اب حقیقت بن گئی ریڈیو،ٹیلی ویژن موبائل و انٹر نیٹ نے انسان کی تو زندگی ہی بدل دی۔آج کے دور کے انسان کے لئے انٹر نیٹ کے بغیر زندگی گزارنا مشکل ہی نہیں بلکہ یہاں تک نا ممکن سی بن گئی ہے آ ئے روز سائنس کی بدولت انسان کے ذریعے ایسی ایسی ایجاداتیں و دریافتیں وجود میں آ تی رہتی ہیں کہ جن سے ایک انسان کی عقل دنگ ہو کر رہ جاتی ہے آ ج کی دنیا سائنس کی جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے گلوبل ولیج کی حیثیت اختیار کر گیا ہے دنیا کی پل پل کی خبروں وواقعات سے ایک انسان لمحہ بھر میں آگاہی حاصل کرپاتا ہے سائنس کا دعوی اب یہا ں تک بڑ ھ گیا کہ اگرایک انسان یہ بتا دے کہ دنیا میں اس کا م کے لئے کوئی مشین،اوزار یا کوئی اپلیکیشن نہیں بنی ہے تو ا یسے انسان کو انعام واقرام سے نوازا جائے گا
 سائنس کے نقصات
یوں تو خالقِ ارض وسماں نے اس کائنات کو کس مقصد کے تحت تخلیق کیا ہوگا یہ انسان کے لیے صیغہ راز رہا۔مگر جوں جوں ان رازوں  سے پردے اٹھتے گئے۔ انسان کی عقل وفہم دنگ ہو کر رہ جاتی ہے ربُ العالمین نے ہر چیز کے دو دو چیزیں بنائی ہیں تاکہ ایک انسان کی زندگی امن وسکون سے بسرہوجائے مثلاََ زمین و آسماں،  چاند و سورج،رات ودن،مغرب ومشرق،شمال وجنوب، دائیں وبائیں، سچ و جھوٹ وغیرہ اسی طرح جہاں سائنس سے بے شمار،ان گنت فائدے و برکتیں حاصل ہوئیں ہیں وہی اس سے کائنات کو بے پناہ نقصانات سے دوچار ہونا پڑا۔آج سائنس کی ایجادات کی بدولت سے کرہ ارض کو کئی طرح کے خطرات لائق ہوئے ہیں دو ایٹم بم جو یکے بعد دیگرے ناگہ ساکی اور ہیرو شیما پر ڈالئے گئے ان کی تباکاریوں سے انسانی زندگی سنتے اور پڑھتے ہی لرز جاتی ہے پالیتھین کے بے شماراستعمال نے عالمی دنیاکو تباہی کے دہانے پر لاکے کھڑ اکردیا۔کل تک جن ندی نالوں کا پانی کھانے پینے کی چیزوں میں استعمال ہوتا تھا وہ پالیتھین کے غیر ضروری استعمال سے زہر بن گیا ہے ٹیلی ویژن، موبائل وانٹر نیٹ کے استعما ل نے جدید دور کے انسان کو فحش گوئی کی طرح دھکیل دیا ہے اب ہر انسان دوسرے انسان سے روٹھا روٹھا سا نظر آتاہے کسی میں کسی کے لئے نہ شفقت،نہ محبت،نہ ہی ہمدردی کا عنصر نظر آ تا ہے الغرض جہاں سائنس نے انسانی زندگی کو آسان سے آسان تر بنادیا وہی عالمی دنیا کو تباہی کے دہانے پر لاکے کھڑا کردیااب دنیا کے کئی ممالک کو ٹیکنالوجی یہاں تک حاصل ہوئی ہے اگر وہ چاہے تو اس دنیا کو ہی چند لمحات میں تباہ وبرباد کرسکتے ہیں 
۷۔اسم تصغیر: 
اسم تصغیر وہ اسم ہے جس میں چھوٹائی کے معنی پائے جائے مثلاََدیکچہ، پیالی،نالی وغیرہ
اسم تصغیر بنانے کا قاعدہ
کھبی کسی لفظ کے آخر میں، یا،ی،لی،لا،ڑا، ڑی، ط،،چی،ٹا ،ک بڑھادیتے ہیں جیسے پہاڑسے پہاڑی،
بہن سے بہنا،پاگل سے پگلا و غیرہ 
اردو میں فارسی اسم تصغیر بھی مستعل ہیں جن کے آخر میں یچہ،چہ،یزہ،  اوردک کی علامت موجود ہوتی ہے
مثلاََ صندوقچہ، باغیچہ ،مردک، پسرد وغیرہ
اسم تصغیر کے مختلف معنی
۱۔ چھوٹائی کے معنی میں۔ باغ سے باغیچہ، دیگ سے دیگچہ وغیرہ
۲۔ حقارت کے معنی میں ۔مرد سے مردوا، ٹٹو سے ٹٹوا وغیرہ
۳۔پیار اور محبت کے معنی میں۔ بہن سے بہنا، بھائی سے بھیا وغیرہ
مثال 
 لفظ       لا حقہ    اسم تصغیر    
  پہاڑ        ی        پہاڑی     
بہن     ا         بہنا
  تھال       ی         تھالی     
  ڈبہ     ا          ڈبہا
   ڈال       ی         ڈالی       
 انٹی     ا          انٹیا
 نگر        ی        نگری      
 بچھو       ا       بچھوا
 مثال  
کتاب     چہ        کتابچہ    
 ڈول      چی       ڈولچی
 صندوق      چہ       صندوقچہ   
  دُم       چی       دمچی
  طاق         چہ        طاقچہ      
 بقچہ        چی       بقچی
   دیگ       چہ         دیگچہ     
  دیگ     چی         دیگچی
الگ الگ حروف کو حروف تہجی کہتے مثلاََ ا۔۔۔ب۔۔۔ ت۔۔۔۔۔ےجب یہ حروف دو یا دو سے زیادہ ملتے ہیں تو لفظ بناتے ہیں اور جب دو یا دو سے زیادہ الفاظ آپس میں ملتے ہیں تو جملہ بنتا ہے
۸۔جُملہ:
دو یا دو سے زائد الفاظ کامرکب جس سے کہنے والے کا مطلب سننے والے کی سمجھ میں آ جائے جُملہ کہلاتا ہے جیسے مشتاق آیا،  وغیرہ
مسند کے لحاظ سے جملے کی دو قسمیں ہیں ۱۔ جملہ اسمیہ ۲۔ جملہ فعلیہ   
۱۔جملہ اسمیہ:
وہ جملہ ہے جس میں مسند اور مسند الیہ دونوں اسم ہوں  جیسے احمد بیمار ہے ،راشد ڈاکٹر ہے وغیرہ
۲۔جملہ فعلیہ:
 جملہ فعلیہ وہ جملہ ہوتا ہے جس میں مسند الیہ، اور مسند فعل ہو جیسے بشیر کھیلتا ہے، احمدہنستا ہے وغیرہ
کسی چیز کو کسی دوسرے کے لئے ثابت کرنا جیسے ”مشتاق آیا“ اس میں ”آیا“ مشتاق  کے لیے ثابت کیا گیا ہے جسے ثابت کیا جائے وہ ”مسند“ کہلاتا ہے اور جس کے کیے ثابت کیا جائے ”مسند الیہ“ کہلاتا ہے اور اسی طرح”بشیر کھیلتاہے“  میں  بشیر”مسند الیہ“ اور کھیلتا”مسند“ ہے۔ یاد رہے مسند، اسم اور فعل دونوں ہوسکتے ہیں جبکہ مسند الیہ ہمیشہ اسم ہی ہوتاہے
اسم: 
ایسے الفاظ جوکسی بھی چیز،جگہ یا جاندار کا نام بتائیں اسم کہلاتے ہیں جیسے  کتاب، میز،دہلی وغیرہ اسم پہنچانے کی ایک بڑ ی پہنچان یہ ہے کہ انسان جو کچھ آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے یا جسم سے چھو سکتا ہے یا محسوس کرسکتا ہے عموماََ  اسم ہی ہوتے ہیں جیسے ”کتاب“” میز“ انسان اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے مگر اس کے برعکس”سردی“ ”گرمی“ کو محسوس کرسکتا ہے یاد رہے اسم کی اپنی نوعیت کے حساب سے کئی اقسام ہیں جن کے اپنے اپنے نام ہیں 
معنوں کے لحاظ سے جملے کی دو قسمیں ہیں 
۱۔ جملہ انشائیہ
۲۔ جملہ خبریہ 
۱۔ جملہ انشائیہ :
وہ جملہ ہوتا ہے جس میں فعل امر، فعل نہی،سوال،تعجب،انبساط،تمنا وغیرہ پائی جائے  جیسے نماز پڑھ(امر)،جھوٹ نہ بھول(نہی)،آپ کا کیانام ہیں؟(استفہام یا سوال)،کاش! کرونا وائس کا علاج نکلتا(تمنا) وغیرہ
۲۔ جملہ خبریہ :
وہ جملہ جس میں کسی بات کی خبر دی جائے اور بولنے والے کے لئے سچا یا جھوٹاکہہ سکیں ۔ جملہ اسمیہ کی دوقسمیں ہیں 
۱۔جملہ اسمیہ خبریہ
۲۔ جملہ فعلیہ خبریہ 
۱۔جملہ اسمیہ خبریہ:
وہ جملہ ہے جس میں مسند اور مسند الیہ دونوں اسم ہوں مثلاََ  شبیر چالاک ہے وغیرہ اس مثال میں شبیر’اسم‘ مسند الیہ ہے جبکہ چالاک’اسم صفت‘ مسند ہے
جملہ اسمیہ کے اجزاء: ۱۔اسم یا مبتدا ۲۔متعلق فعل۳۔خبر۴۔فعل ناقص وغیرہ  مثلاََمشتاق بیمار ہے مشتاق(اسم یا مبتدا) بیمار(خبر) اور۔ ہے (فاعل نقص)
جملہ فعلیہ کے اجزاء: ۱۔ فعل ۲۔ فاعل۳۔ مفعول۴۔متعلق فعل۵۔ علامت فاعل۶۔ علامت مفعول وغیرہ مثلاََ بشیر دوڈتا ہے بشیر(فاعل) ،دوڈتا(فعل) ، ہے (فعل ناقص)
جملہ فعلیہ میں مسند الیہ کو فاعل کہا جاتا ہے اورمسند میں فعل اورمفعول کا ذکر کیاجاتا ہے  
 ترکیب نحوی:جملے کے اجزاء کو الگ الگ کرنا اور ان کے باہمی تعلق کو ظاہر کرنا ترکیبِ نحوی کہلاتا ہے
۹۔ نیچے دیے ہوئے جملوں میں سے جملہ اسمیہ اور جملہ فعلیہ الگ الگ کریں 
مقصوردوڑتا ہے ،حمید نادان ہے، محبوب نے گانا گایا ،خورشید چالاک ہے،اشرف کھیلتا ہے ، رمیش نے پانی پیا، کواکالا ہے
جواب: جملہ اسمیہ:حمید نادان ہے، 
خورشید چالاک ہے   
کواکالا ہے جملہ فعلیہ:محبوب نے گانا گایا
اشرف کھیلتا ہے
رمیش نے پانی پیا

(8)ڈراما" بور کے لڈو"محمد عمر نور الہیٰ 

3۔سوال: جنگل میں کانٹےہوئےلکڑ ہارے نے کس کی آوازسنی اور اُس نے اُ س سے کیا کہا ؟
جواب :جنگل میں ایک برگدکےدرخت کوکاٹتےہوئےلکڑہارےنے اُس کی یہ ڈراؤنی آواز سنی۔کہ"مجھےمت کاٹو میں تمھیں انعام دوں گا
2۔ گھر آنے پر لکڑہارے اور اس کی بیوی میں کیوں تو تو میں میں ہونے لگی؟
جواب:جوں ہی لکڑہارا گھر پہنچتا ہے وہاں پر اس کی بیوی گھر کی صفائی کر رہی تھی لکڑہارا کیچڑ بھرے پاؤں سمیت گھر میں داخل ہوتا ہے جس پر بیوی غصے بھرے لہجے میں کہتی ہے اُف تیری ۔تو نے میری  صفائی خراب کردی ہے۔اس بات پرمیاں بیوی کےدرمیاں توتو میں میں ہوجاتی ہے
3۔سوال: بوڑھے نے لکڑہارے کے گھر آکر اُس سے کیاکہا ؟
جواب:بوڑھے نےلکڑہارے کے گھر پہنچ کر کہا مجھے ہریاول کےبادشاہ نےآپ کے پاس بھیجا ہے۔اوراُن کا حکم ہے کہ لکڑ ہارے کی تین منہ مانگی مرادیں پوری کی جائیں
4۔ لکڑہارے نے بور کا لڈو کیوں مانگا ؟
جواب لکڑ ہارے نے بور کا لڈو اسی لئے مانگا تھا کیوں کہ اُسے کافی بڑی زوروں کی بھوک لگی تھی
5۔لکڑ ہارے کی بیوی اُسے کیا مانگنے کےلئے باربار کہتی رہی؟
جواب:لکڑ ہارےکی بیوی اُسے مال ودولت مانگنے کے لئےباربار اصرار کرتی رہی۔
6-بوڑھے کر نزدیک سب سے بڑی دولت کیا تھی؟
جواب: بوڑھے کے نزدیک سب سے بڑی دولت "ہنسی: یعنی خوشی تھی
سوال: اس ڈرامے سے آپ کو کیا سبق حاصل ہوتا ہے؟
جواب: اس ڈرامے سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہمیں آپس میں اتحاد وتفاق سے رہنا چاہئے جلد بازی میں کوئی بھی کا م نہیں کرنا چاہیے ہمیں ہر کا م سوچ سمجھ کر،کرنا چاہیے ہمیں اپنی زندگی کے ساتھ ساتھ اپنے ماحول کا بھی خیال ہر دم رکھنا چاہیے 
8۔درج ذیل محاوروں  کو جملوں میں استعمال کیجیے؟
پاؤں دھودھوکر پینا۔۔۔ڈرکے مارے کانپ اٹھنا۔۔۔ منہ دھورکھنا
خاک میں ملنا۔۔۔کانٹے بونا۔۔۔ بے سر پیڑاڑنا
پیٹ میں چوہےدوڑنا
پاؤں دھودھو کرپینا: نیک اولاد اپنے والدین کے پاؤں دھودھو کر پیتے ہیں
ڈرکے مارے کانپ اٹھنا: آج لوگ کروناوائرس کے خوف کی وجہ سے ڈر کے مارے کانپ رہے ہیں  
منہ دھورکھنا:بغیر منہ دھو کے نماز نہیں ہوتی ہے
خاک میں ملنا: انسان کو مرنے کے بعد خاک میں ہی ملنا ہے
کانٹے بونا: ہمیں ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہیے نہ کہ کانٹے بوبےچاہیے۔
بے سرپیراڑنا :حق ثابت کرنے کےلے بےسر پیڑ نہیں اڑائے جاتے ہیں
پیٹ میں چوہے دوڈنا: مجھے اتنی زوروں کی بھوک لگی ہے کہ جیسے پیٹ میں چوہے دوڈرہے ہیں
4۔اس ڈرامے کا خلاصہ اپنے الفاظ میں لکھیے
جواب:اس ڈ رامہ" بور کےلڈو" کوتخلیق کرنے کاشرف نور الٰہی محمدعمرکوحاصل ہوا ہے اور یہ ڈرامہ ہماری درسی کتا ب"بہارستان اردو" 'اردو کی دسویں کتاب 'کےحصے نثر میں شامل ہےلکڑہارا جوں ہی اپنے گھر پہنچتا ہے وہاں پر لکڑہاراکی بیوی گھر کی صفائی کرتی ہے لکڑہارا جوں ہی لکڑی کی گھڑی نیچے زمیں پررکھتا ہےاور کیچڑ بھرے  پیروںسمیت گھر میں داخل ہوتا ہےجس پر میاں بیوی کےبیچ توتو میں میں ہوجاتی ہے لکڑہارے کو زوروں کی بھوک لگتی ہے وہ بیوی سے کھانا مانگتاہے جس پر بیوی جواب دیتی ہے جس کا شوہر کام چور ہو اس کے گھرمیں بھوک کے سوا اور کیا چیز ہو مل سکتی ہےلکڑہار کہتا ہے میں نے آج جنگل میں جب ایک برگد کے درخت کو کاٹنا چاہا جوںہی میں درخت کاٹنے لگا میں نےایک ڈ راونی آ واز سنی۔وہ آ وازمجھ سے کہہ رہی تھی" مجھے نہ کاٹو میں تمھیں انعام دوں گا ٗاسی اثنا میں ایک پیرمرد دروازہ پر دستک دیتا ہوا حا ضر ہوتاہےاور کہتا ہے دروازہ کھولو ۔میں انعام لایا ہوں دونوں میاں بیوں دروازہ کی طرف دوڑتے ہیں پیرِ مرد کہتا ہے کہ مجھےہریاول کے بادشاہ نے تمہارے پاس بھیجا ہے کہ تمہاری تین منہ مانگی مرادیں پوری کی جائیں ۔پھر دونوں میاں بیوں کے درمیاں تو تو میں میں ہوجاتی ہے کہ پہلے کیا چیز مانگے اور۔پھرباقی دو چیزیں کیا مانگے لکڑہارا کو بہت بھوک پہلے سے لگی ہوئی تھی اور وہ غصےمیں آ کر کہتا ہے مجھےاگر ایک گرما گرمابورکا لڈو مل جائیں یہ کہتےہوئےہی ایک لڈ و اس کے ہاتھ میں آتا ہےبیوی ڈانٹتی ہے جس پر لکڑہا را اپنی دوسری مراد مانگتا ہے کہ یہ لڈ و میری بیوی کے ناک پر چمٹ جائےیہ مراد مانگتے ہی لڈولکڑہارے کی بیوی کے ناک پر چمٹ جاتا ہے جس سےلکڑہارے کی بیوی کو زبردست درد ہوتا ہےلکڑہارا ناک سے لڈوکھینچ کر   اٹھانے کی زبردست کوشش کرتا ہے مگر لڈوناک سےاٹھنےکا نام ہی نہیں  لیتااور وہ لکڑ ہارےسے کہتی۔کہ آ پ اپنی تیسری مراد بھی مانگےاوروہ تیسری مراد بھی مانگتا ہے کہ میری بیوی کے ناک سے یہ لڈو اٹھ جائےاس طرح ان کی تینوں مرادیں ضائع ہوجاتی ہیں اوروہ دونوں ہاتھ ملتےرہ جاتے ہیں اس ڈ رامے سےہمیں یہ سبق ملتا ہےہمیں اتفاق سے رہنا چاہیے وہ جلد بازی میں کوئی بھی فیصلہ نہیں لیناچاہیے
5۔جملہ فعلیہ کی ترکیب نحوی 
1۔حامد  کتاب پڑتا ہے 
پڑھتا ۔۔۔۔۔۔۔۔فعل     ( جملہ فعلیہ خبریہ)
حامد۔۔۔۔۔۔۔۔فاعل
کتاب۔۔۔۔۔۔مفعول
ہے۔۔۔۔۔۔۔حرف ِناقص
2۔بےشک اللہ نیک لوگوں کو نیک بدلہ دے گا
دے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فعل تام مثبت
اللہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فاعل           ( جملہ فعلیہ خبریہ)
نیک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔صفت
لوگوں ۔۔۔۔۔۔۔۔موصوف(مرکب توصیفی) مفعول
کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔علامت مفعول
نیک۔۔۔۔۔۔۔۔۔صفت
بدلہ ۔۔۔۔۔۔۔۔موصوف(مرکب توصیفی)  مفعول ثانی)
بے شک۔۔۔۔۔متعلق فعل
ترکیب نحوی:
ترکیب نحوی کرنے سے پہلے ہمیں بات ذ ہن نشیں  ہونی چاہیے کہ ہم نے بنیادی گرامرسیکھاہوا ہوگا تب جا کے ہم اردو کے کسی جملے کی صحیح ترکیب نحوی نکال سکتے ہیں آپ کویاد ہوگاترکیب نحوی کسی جملہ میں اس کے اجزاء کو الگ الگ کرنااور الفاظ کے باہمی تعلقات کو ظاہر کرنا  کا نام ہے    
                    دھیان رکھنےکی باتیں اتفاق
#جملہ فعلیہ اورجملہ اسمیہ کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہوتی ہے اس کو سمجھنے کے لئے پہلے حروف ، پھر الفاظ کا آپسی تعلق،پھر جاکے جملے کی کیفیت وحالت اور اس کو ترکیب نحوی درست کی جاسکتی
#جملہ اسمیہ میں پہلے ،فعل ناقص،پھرمبتدایا اسم،پھر"خبر" کا پھر 'متعلق خبر 'کا پتہ لگایا جاتا ہے
#جملہ فعلیہ میں سب سے پہلے'فعل'پھر'فاعل'پھر'مفعول'پھر'متعلقات کاتعین کیا جاتاہے
#کسی بھی شعر یا مصرعے کی نثر میں تبدیل کر کے ترکیبِ نحوی کی جاتی ہے
# جملہ اسمیہ کی پہنچان یہ ہے کہ اس میں سبھی الفاظ اسم ہی ہوتے ہیں سوائے فعل ناقص(ہے،ہیں ،تھا ، تھے وغیرہ) الفاط کے۔
مثلاََ احمد بیمار ہے،اس جملہ پرغور کروں،احمد بیمارہےاس جملہ میں احمد ایک شخص کا نام ہے اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے احمد کیسے اسم ہے ہم نے پہلےہی بتا یا ہے کہ کسی بھی اسم کو پہنچاننے کا سپل طریقہ یہ ہے کہ جو بھی کچھ انسان اپنی آنکھوں سے یا جسم سے محسوس یا چھوسکےعموماََ اسم ہی ہوتے ہیں مثلاََ کتاب، ہوا ،سرد،گرم، وغیرہ
#جملہ فعلیہ وہ جملہ ہوتا ہے جس میں فعل پایا جائے
#فعل(verb): جس سے کسی کام کا کرنا ،ہونا، یا سہنا پایا جائے اس میں کوئی زمانہ بھی پایا جاتا ہے مثلاََ بشیر آیا،نعیم کام کررہا ہے،وغیرہ
بناوٹ کے لحاظ سے فعل کی قسمیں
#فعل مفرد(simple verb):ایسے فعل جو مفرد یا مجردمصادرسےنکلے ہوں جیسے رویا، کھایا، آیا وغیرہ
فعل مرکب(COMPOUND VERB):ایسے فعل ہوتے ہیں جودوفعلوں سےمل کر یا اسم اورایک فعل سے مل کر بنتے ہیں جیسےکردیا،کھا چکا،وغیرہ
معنی کے لحاظ سے فعل کی قسمیں:
1۔فعل لازم:(TRANSITIVE):وہ فعل ہوتا ہے جس میں صرف فعل اورفاعل ہوتا ہے مثلاََ  بشیر آیا، رام گیا، جانو بھاگا وغیرہ
2۔فعل متعدی(INTRANSITIVE ):یہ وہ فعل ہوتا ہے جس میں فعل کے علاوہ فاعل اور مفعول کی ضرورت پڑتی ہے مثلاََ احمد نے روٹی کھائی، رشید نے کرکٹ کھیلا  وغیرہ ؎
3۔فعل ناقص(INCOMPLETE VERB):یہ وہ فعل ہوتا ہے جو بظاہر لازم معلوم ہوتا ہے لیکن اس سے کوئی کام ظاہر نہ ہو اور جب تک فاعل کے علاوہ اسم یا صفت ساتھ نہ دے مطلب صاف نہیں ہوتا ہے اس فعل کا فاعل اسم یا مبتدا کہلاتا ہے اور فاعل کے علاوہ جو اسم یا صفت ہو وہ خبر ہے
افعالِ ناقصہ : ہے ،ہیں ،تھا،تھے وغیرہ 
 فاعل کے لحاظ سے فعل کی دو قسمیں : معروف، مجہول
1۔معروف(ACTIVE): یہ وہ فعل ہوتا ہے جس کا فاعل معلوم ہو جیسے بشیر نے کھانا کھایا، اس جملے میں بشیر فاعل ہے
مجہول(PASSIVE): یہ وہ فعل ہوتا ہے جس کا فاعل معلوم نہ ہو جیسے کتاب پڑھی گئی اس جملےمیں فاعل کاپتہ نہیں ہے
جملے کی پہنچان: کوئی بھی جملہ ،جملہ اسمیہ یا جملیہ فعلیہ ہو تو اس کے لئے ضروری ہے کہ جملے کو ایک،دویا تین بارپڑھا جائے جملہ اسمیہ کی نشانی یہ ہے کہ اس کے سبھی الفاظ اسم ہی ہوتے ہیں اس طرح کے جملوں میں اسم، اسم فاعل،اسم مفعول، اسم ظرف ،وغیرہ پائےجاتے ہیں مثلاََ سیار چالاک ہے 
مثلاََ سیار چالاک ہے 
یہ جملہ اسمیہ ہےکیوں کہ 'سیار' اسم ہے'چالاک' اسم صفت اور 'ہے 'فاعل ناقص ہے
یاد رہے جملہ اسمیہ میں سبھی الفاط اسم ہی ہوتے ہیں سوائے لفظ فعل ناقص کو چھور کر
جملہ فعلیہ: جملہ فعلیہ کو پہنچاننےکا آسان طریقہ یہ ہے کہ اگر کسی جملے میں فعل ناقص کوچھوڑکر کوئی اور ایک فعل پائی جائے جملہ فعلیہ کہلاتا ہے
پینا، دوڑنا، پڑھنا، کرنا وغیرہ اردو میں جتنے الفاط کے آخرمیں 'نا: آتا ہے وہ مصدر ہوتے ہیں سوائے چند الفاظ کے مثلاََ نانا،چونا، تانا وغیرہ 
جب مصدر کاآ گے والا 'نا؛ ہٹایا جاتا ہے تو یہ الفاظ فعل امر بن جاتے ہیں مثلاََ پیناسے پی، دوڑنا سے دوڑ، وغیر ہ 
فعل امر کے الفاظ کو کچھ اور حروف آگے جوڑنےسے فعل تام یا دوسری قسم کی فعل بنتے ہیں مثلاََ پی سے پیتا، دوڑ سے پیتا۔ پیتی۔پیتےاوردوڑ سے دوڑتی۔دوڑتے۔دوڑتا ۔دوڑتے  وغیرہ
3۔ استاد کی مدد سے مندرجہ ذیل جملوں کی ترکیب نحوی کیجیے
1۔حمید میدان میں کھلتا ہے
2۔ لکڑہارا نے خوب کمائی کی
3۔اسلم نے سندلیپ کی مدد کی
4۔ عابد نے کھانا کھایا 
جواب:حمید میدان میں کھیلتا ہے ( یاد رہے یہ جملہ لفظ 'کھیلتا' سے پتہ چلتہ ہے جملہ فعلیہ ہے کیوں کہ لفظ کھیلتا،مصدرکھیلنا سے بنا ہے اور کھیلنا سےکھلتا ، کھیلتی، کھیلتے وغیرہ افعال بنتے ہیں
کھیلتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فعل تام
حمید۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسم/مبتدا
میدان۔۔۔۔۔۔۔۔مجرور
میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔حرف جار( میدان میں) مرکب جاری/مفعول      جملہ فعلیہ خبریہ
ہے۔۔۔۔۔۔۔۔فعل ناقص
2،۔لکڑہارا نے خوب کمائی کی
کمائی کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔فعل مرکب/فعل تام ۔ ۔جملہ  فعلیہ خبریہ
لکڑہارا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فاعل
نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔علامت فاعل؎
خوب۔۔۔۔۔۔۔صفت
3۔اسلم نےسندلیپ کی مدد کی
مدد کی۔۔۔۔۔۔۔فعل مرکب/فعل تام ۔۔جملہ فعلیہ خبریہ
اسلم ۔۔۔۔۔۔۔فاعل
نے۔۔۔۔۔۔علامت فاعل
سندلیپ۔۔۔۔مفعول 
کی ۔۔۔۔۔۔۔علامت مفعول
4۔ عابد نے کھانا کھایا
کھایا۔۔۔۔۔۔فعل تام
عابد۔۔۔۔۔۔۔فاعل
نے ۔۔۔۔۔علامت فاعل۔۔۔ جملہ فعلیہ خبریہ
کھانا۔۔۔۔۔مفعول   
سوال :نور عمر الٰہی کی حالات زندگی اور خدمات پر روشنی ڈالیے؟
جواب:محمد عمر الٰہی اصل میں دو ادبی شخصیات کا ایک ہی مشترکہ ادبی نام ہے اورارودزبان ادب میں اسی نام سے جانےوپہنچانے جاتے ہیں ان دونوں کی حالاتِ الگ الگ ہیں 
محمدعمرکی حالات زندگی:محمدعمر کی پیدائش جموں میں1882ء میں  ہوئی بچپن میں ہی باپ کا سایہ اُٹھ گیا۔پھر آپ کی پرورش آپ کی بے اولاد خالہ نے کی۔1905ء میں رنیر ہائی اسکول سے میڑک کا امتحان اعزازی نمبرات کے ساتھ پاس کیا۔مزید تعلیم حاصل کرنےکےلیے لاہور چلے آئے1908ءمیں جمو ںمیں جموں کشمیر ہائی کورٹ میں مترجم کے عہدے پر فائز ہوئے سرکاری نوکری کے دوران بھی اپنی تعلیم جاری رکھ کے منصفی کی اعزازی سند حاصل کی۔اس کے بعد بطورِجج کے عہدے پرگیارہ سال تک اپنے فرائض انجار دیتے رہے جج کے عہدے سے رٹائر ہونے کے بعد وکالت شروع کی۔1946ءآپ اس فانی دنیا کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیےچھوڑ گئے
نورالٰہی حالات ِزندگی:نور الٰہی کی پیدائش 1883ءمیں لاہور میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم لاہور میں سے حاصل کی۔گورنمنٹ کالج لاہور سےبی اےکیا۔آپ کرکٹ کے بہت اچھے کھلاڑی تھے اسی لئے مہاراجہ پرتاب سنگھ نے آپ کو کرکٹ میں شامل کیا۔تعلیم سے دستبردار ہوکے مہاراجہ سنگھ کے دربار میں ملازمت اختیار کی۔آپ پہلے کسٹم وابکاری میں تعینات ہوئے پھر  ترقی کرتے کرتے تحصیلدار اورپھر ڈپٹی کمشنر کے عہدےتک پہنچے۔قدرت الٰہی نے ایک بارپھر آپ کولاہور پہنچایا ۔وہاں پر کافی عرصے تک بیماررہےبالآخر آپ کا انتقال17اپریل1935ءکو لاہور میں ہی ہوا
ادبی خدمات:ان دونون شخصیتوں کی ملاقات لاہور میں طالبِ علمی کے زمانے میں ہوئی تھی اور آپس میں ایک دوسرے کے گہرےدوست بن گئے تھے جو بعد میں رشتہ داری میں بدل گئی۔یہ دونوں جب بھی کوئی ادبی کا م انجام دیتے تھے آپس میں رابط رکھتے تھے دونون ادیبوں نے کئی ادبی کارنامے انجام دیئے ان کے تما م ادبی کا م مشترکہ قلمی نام سے شائع ہوتے تھےیہاں تک کہ منشی نورالٰہی کا انتقال ہوا محمد عمر نے اپنی تمام تصنیفات مشترکہ قلمی نام کے ساتھ شائع کئے۔ان کا سب سے بڑا کارنامہ"ناٹک ساگر" کی تالیف ہے اس ڈرامے کوعالمی تاریخ اور تنقید قرار دیا جاسکتا ہے
 (9)میرتقی میرکی غزل نمبر1
ہمارے آگے تراجب کسی نے نام لیا
دل ستم زدہ کو ہم نے تھام تھام لیا
کسوۤ۔۔ـ کسی، ترا۔۔ـ تیرا ، دل ستم زدہ ۔۔ ـوہ دل جس پر ظلم ڈھایا گیا ہو 'تھام لیا۔۔ پکڑ لیا
یہ شعرمیرتقی میرؔ کی ایک غزل سے نکالا گیا ہے اور یہ غزل ہماری درسی کتاب "بہارستانِ اردو" 'اُردوکی دسویں کتاب' کے حصے نظم میں شامل ہے اس مطلع والے شعر میں میرؔ اپنے محبوب سے مخاطب ہوکر ارشاد فرماتے ہیں کہ اے میرے محبوب جب کسی انجان بندے نے تیرا نام میرے سامنےلیا۔میر ا دل تڑپنے لگا ،بے قرار ہونے لگا اور میں نےہمت کرکے اپنے بےچین وبےقرار دل کو اپنےدوہاتھوں کے سہارے تھام لیا 
وہ کج روش نہ ملا راستی میں مجھ سے کبھو
نہ سیدھی طرح سے اُن نےمیرا اسلام لیا
کج روش : ٹیرھی راہ چلنے والا،راستی: ایمانداری، کبھو:کبھی
یہ شعر میرؔ کی ایک غزل سےماخوذ ہےاس شعر میں میرؔ اپنے محبوب کی بے رخی کا اظہار کرتے فرماتے ہیں کہ جب بھی میں کھبی اپنے محبوب سےملا۔انھوں نے ظلم وستم کی انتہا یہاں تک کی ۔کہ کبھی بھی میری سلام کا مکمل وبھرپورجواب نہ دیا یعنی وعلیکم السلام بھی نہ کیا
میرے سلیقے سے میری نبھی محبت میں
تمام عمرمیں ناکامیوں سے کام لیا
سلیقے: تمیز ہنر، نبھی :کامیابی
یہ شعر میر تقی میرؔ کی ایک غزل سے نکالا گیا ہے اس شعر میں شاعر اپنے آپ کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں کہ مجھے محبت کے سیوا کسی بھی کام میں کامیابی نہیں ملی ۔کیوں کہ میں محبت واُلفت کے طورطریقوں سےخوب آشنا ہوں باقی دوسرے دنیاکے کاموں میں مجھے مایوسی ہی ہاتھ لگی ہے
اگرچہ گوشئہ گزیں ہوں میں شاعروں میں میرؔ
پہ میرے وشعر نے روئے زمیں تمام لیا
گوشئہ گزیں:تنہائی میں بیٹھنے والا
یہ شعرمیرتقی میرؔ کی ایک غزل کاآخری شعر ہےاس مقطع والےشعر میں میرؔفرماتے ہیں کہ اگرچہ مجھے دنیا ،ودنیا بھر کی شاعری و شاعروں میں زیادہ اونچا مقام اب تک نہیں ملا پھر بھی میرے اشعار پوری دنیا میں کافی مقبولیت حاصل کرچکے ہیں اور اِن اشعار کی بدولت سے میری شہرت بھی آگے بڑھ رہی ہے
غزل (2)
ہنگامہ گرم کُن جو دل ناصبور تھا
پیدا ہر ایک نالے سے شورِ نشور تھ
ہنگامہگرم کن ـ فتنہ وفساد کوبڑھانے والا
ناصبور:ـ بے صبر
شورِ نشور:ـ قیامت کاشور
یہ شعرمیرتقی میرؔ کی ایک غزل کا مطلع والا شعر ہے اس شعرمیں میرؔاپنے محبوب کے ظلم وستم کا بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میرا دل محبوب کے ظلموں کی وجہ سے اب بے صبر ہوگیا ہے اور میرے دل سے ہراٹھتا  ہوا آہ فریاد سے اب ایک قسم کی قیامت برپا ہوتی ہے
پہنچا جو آپ کو تو میں پہنچا جدا تئیں
معلوم اب ہو ا کہ بہت میں دور تھا پہلے
تشریح:
یہ شعرمیرؔ کی ایک غزل سے نکالا گیا ہے اس شعر میں شاعر اپنے آپ کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں کہ جب میں نے اپنے پیر ومرشد کا ہاتھ تھا ما اور اس کی بیعت اختیا ر کی۔تواُ س نے مجھے خدا کے بارے میں پوری واقفیت و آگاہی عطاکی۔ اور جس سے میں اپنے حقیقی معبودِ برحق کو پہنچان گیا ورنہ میں اپنے پیر ومرشدکا ہاتھ تھامنے سے پہلے خداکی ربوبیت سے بالکل نہ واقف تھا
آتش بلند دل کی نہ تھی ورنہ اے کلیم
یک شعلہ برقِ خرمن صد کوہِ طورتھا
آتش:آگ، یک:ایک، برق:۔بجلی،خرمن: ـوہ روشنی جو آفتاب کے اردگرد دکھائی دیتی ہے، صد: سو، کلیم: حضرت موسٰی علیہ السلام کا لقب یعنی آ پ علیہ السلام رُب العالمین سے کلام کرتے تھے اسی بنا پر آ پ علیہ السلام کو کلیم کہا جاتا ہے
تشریح:
یہ شعر میرؔ کی ایک غزل سے موخوذ ہے اس طلمیح والے شعر میں شاعرفرماتے ہیں کہ جب موسٰی علیہ السلام نے اللہ سے اپنا دیدار طلب کرنے کی دعاکی اس پراللہ تعالٰی نے موسی علیہ السلام سے کہاکہ آپ علیہ السلام مجھے ہرگز دیکھ نہیں سکتے ہیں جوں ہی اللہ نے کوہ طور پر اپنی نور کی ایک تجلی ڈالی ۔حضرتِ موسی علیہ السلام اس کو دیکھ کر بے ہوش ہوگے دراصل  حضرت موسی علیہ السلام کے دل میں محبوب کو دیکھنے کی انتہا عشق کی حد تک نہ تھی اگرایسا ہوتا تو عشق کی بدولت ہزار ہا ہزار کوہ ِطور جل کے راکھ ہوجاتے مگر افسوس ایسا نہ تھا 
کل پاؤں ایک کاسئہ سر پہ جو آگیا
یکسر وہ استخواں شکستوں سے چور تھا
کاسئہ سر ــ کھونپڑی ، استخواںــ ہڈی
تشریح:
یہ شعر میر تقی میرؔ کی ایک غزل سے لیا گیا ہے اس شعر میں شاعر فرماتے ہیں کہ جب میں کل ایک راہ سے گزر رہا تھا تو میرا پاؤں اچانک ایک مرے ہوئے انسان کی کھونپڑ ی پر پڑ ا۔اور وہ کھونپڑ ی میرے پاؤں کے نیچے آنے سے چکنا چور ہوگئی
کہنے لگا کہ دیکھ کے چل راہ بے خبر
میں بھی کبھو کسی کا سرِ پُرغرور تھا
تشریح:
یہ شعر میر تقی میرؔ کی ایک غزل سے نکالا گیا ہے اس شعر میں میرؔ فرماتے ہیں کہ جب میر ا پاؤں ایک مرئے ہوئے انسان کی کھونپڑی پر پڑ گیا تو کھوپڑ ی نے مجھ سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ اے بے خبر انسان ذرا سنبھل کرچل کر اپنا  پاؤں رکھے میں تمہارے پاؤں کےنیچے آنے سے چکنا چور ہوگئی ہوں یاد رکھ میں بھی تمہار ی طرح ایک زمانہ میں کسی  مٖغرور جیتے جاگتے انسان کے سر کی عزت ہوا کرتی تھی
تھاوہ رشکِ حورِ بہشتی ہمیں میں میرؔ
سمجھنے نہ ہم تو فہم کا اپنی قصور تھا
حورِ بہشتی: جنت کی حور، فہم :عقل سمجھ ، قصور: خطا 
تشریح: 
یہ میرؔ کی ایک غزل کا آخری مطلع والا شعر ہے اس شعر میں شاعر فرماتے ہیں کہ جب میرا محبوب میرے سامنے تھا تو میں نے اُس کی قدوقیمت نہ کی میرا محبوب جنت کی حوروں سےبڑھ کرخوبصورت ہے مگر یہ میری نادانی تھی میں اُس حسین وجمیل محبوب کے ہوتے ہوئے جنت کی حوروں کا طلب گار بن بیٹھا
سوالات:
٭شاعر نے دل ستم زدہ کو کیوں تھا م لیا ؟
جواب: کیوں کہ جب کسی نے شاعر کے سامنےاُس کے پیارے محبوب کانام لیا جس کی وجہ سے شاعر کا دل تڑپنے لگا اور اُس نے تب اپنے بے چین و بے قرار ہوئے دل کو اپنے دونوں ہاتھوں کے سہارے تھا م لیا یعنی صبر و استقلال کا مظاہرہ کیا
٭دونوں غزلوں میں سے ایسا شعر تلاش کیجئے جس میں شاعرانہ تعلی موجود ہو؟
جواب:
اگرچہ گوشئہ گزیں ہوں میں شاعروں میں میرؔ
 پہ میرے وشعر نے روئے زمیں تمام لیا
٭کھونپڑی نے کون سی پتے کی بات بتائی؟
جواب:
کھونپڑی نے یہ پتے کی بات بتائی ۔کہ وہ بھی کبھی کسی زمانے میں ،کسی غروری، گھمنڈی انسان کی جاہ وجلال،عزت اور زندگی تھی مگر اب زمیں کے اندر سڑ رہی ہے
دوسری غزل کےتیسرے شعر میں حضرت موسیٰ سے متعلق تلمیح کو بیان کیجیے
جواب :تلمیح وہ ہے جس میں شاعر کسی ماضی کےکسی واقعےکواپنے شعر میں بیان کرے۔ اس شعر میں جس تلمیح کا ذکر کیا گیا ہے وہ اس طرح سے ہےکہ جب حضرتِ موسیٰ کوہ ِ طور پر اللہ تعالیٰ سے کلام کرنے کی غرض سے گیا اور ہاتھ اٹھاکے دل سے دعا کی ۔کہ اے میرے رب میں نے جب چاہا آپ سےکلام کیا مگر اے میرے رب آج یہ تیرا بندہ ورسول دعا کرتا ہے مجھے اپنے دیدار سے سرفراز فرما۔جوں ہی رُب العالمین نے حضرت موسیٰ کی دعا کو قبول کیا اور کوہِ پر اپنی نور کی ایک تجلی ڈالی حضرتِ موسیٰ علیہ السلام نورِ تجلی کودیکھ کر بے ہوش ہوگئے
سوال میر تقی میرؔکی  زندگی اورشاعری کے بارے میں ایک مختصر نوٹ لکھیے                           
میر تقی میر ؔ
جواب : شہنشاہ غزل میر تقی میرؔ کی پیدائش آگر ہ میں 1722ء میں ہوئی۔ آ پ کا اصلی نام محمد تقی اور تخلص میرؔ تھا آپ کے والدِ محتر م کا نام میرعلی متقی تھاابتدائی تعلیم اپنے والد سے ہی حاصل کی ابھی گیارہ سال کےہی تھے والد صاحب اللہ کو پیارے ہوگئے میر کا ایک بڑا سوتیلا بھائی تھا جنھوں نے میر پر بڑے ظلم ڈھائے میر مجبوراََ آگرہ چھوڑکردہلی اپنےماموں کے پاس رہنے کو چلے آئے یہاں دہلی میں خانہ جنگی کی وجہ سے حالات ابتر ہوگئے میر نے دہلی کو بھی خیر باد کہہ کر لکھنو میں چلے آئے یہی پراپنی باقی تمام تر زندگی کے دن گذاردیئے بالآ خر اس فانی دنیا کو لکھنو میں1810ء میں خیر باد کہہ کر چلے گئے
ادبی خدمات:
میرتقی میرؔ کو شاعر غم کہا جاتا ہے میر کی زندگی جس ظلم ستم و کرب میں گزری اس کا  اثر ان کے کلام پربھی پڑا ،میر نے یوں تو ہر صنف میں طبع آزمائی کی  مگر غزل کو انھوں نے اپنی فکر سے ترقی کی بلندیوں تک پہنچایا  میر کا کلیات چھ دواین پر مشتمل ہے غزلوں کے علاوہ کئی مثنویاں اور مرثیے بھی تحریر کئے ہیں اردو شعرا ء کا پہلا تذکرہ "نکات الشعراء" اور خود نوشت "ذکر میر" بھی ان کی یادگار ہیں
(10)حیدرعلی آتشؔ کی غزل گوئی

دہن پر ہیں اُن کے گماں کیسے کیسے

کلام آتے ہیں درمیاں کیسے کیسے
چمن: باغ،گل کھلانا:کوئی فساد برپاکرنا،
تشریح :
یہ شعر خواجہ حیدرعلی آتش ؔ کی ایک ٖغزل سے نکالا گیا ہے اور یہ شعر ہماری درسی کتاب" بہارستانِ اردو" 'اردو کی دسویں کتاب' کے حصے نظم میں شامل ہے اس مطلع والے شعر میں شاعر اپنے محبوب سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں کہ اے میرے محبوب جب آپ مجھ سے محوِ گفتگو ہو جاتےہو۔ مجھے بھروسہ ہوتا ہے کہ آپ مجھ سے ٹھیک طرح سے بات کروں گے مگر افسوس ایسا نہیں ہوتا ہےآہ! آپ کامزاج  گفتگو کےدرمیاں ایسا سخت ہو جاتا ہے اورآپ ایسی ایسی باتیں کرنے لگتے ہو جس سے میرا نازک دِ ل دکھی ہوجاتا ہے
زمین چمن گل کھلاتی ہے کیاکیا
بدلتا ہےرنگ آسماں کیسے کیسے
چمن: باغ،گل:گلاب
تشریح :
یہ شعر آتشؔ کی ایک خوبصورت غزل سے لیا گیا ہے اس شعر میں شاعر دُنیا کے بدلتے ہوئے حالات کا احاط کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ دنیا کھبی ایک ہی ڈگر پر قائم نہیں رہتی یہ دور بلند بالا آسماں پر کھبی چاند کی چاندنی ،کھبی گھن گھور گٹھائیاں،کھبی سورج کی تیز کرنیں ،کھبی خزاں کی دھیمی شعاعیں ، اسطرح زمیں پر کبھی گلستان میں گل و بلبل کاملن ، کھبی خزان کا چمن کو ویراں کرنے کاسماں ،اسی طرح انسان کی زندگی میں غم وخوشی امیری غریبی یہی زندگی کے دو بول ہیں
یا
تشریح:
آتش ؔ اس شعرمیں فرماتے ہیں کہ اس دنیا میں ایک یہ طرح کے حالات واقعات نہیں رہتے ہیں کبھی انسان کی زندگی میں خوشی کے دو لمحات۔تو کھبی غم کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں یعنی عالم ِ کائنات ایک ہی ڈگر پر نہیں رہتی ہے
نہ گورِ سکندر نہ ہے قبر دارا
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
گورِ: قبر ،سکندر: ایک عظیم نادشاہ کا نام ، دارا: ایک بادشاہ جس کا نام دارا شکوہ تھا، نامی:  شہرت
تشریح:
یہ شعر آتشؔ کی ایک غزل سے نکالا گیا ہے اس شعر میں شاعر دنیا کی تلخ حقیقت کو بیا ن کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ دنیا فانی ہے سدا رہنے کی جگہ وٹھکانہ نہیں یہاں ہر ایک چیز کو ایک دن فنا ہونا ہے کتنے پیغمبر وعام لوگ یہاں آئے سب کے سب کو ایک دن یہ دنیا چھوڑ کے جانا ہے یہاں تک دنیا کےدو عظیم بادشاہ یعنی سکندر اور دارا شکوہ ،اب ان کی قبروں کےنشان بھی باقی نہ رہے
دل و دیدہ اہل عالم میں گھر ہ
تُمھارے لیے ہیں مکاں کیسے کیسے
دیدہ: نظرـ آنکھ ، اہلِ عالم: دنیا کے لوگ
تشریح:
یہ شعر آتش کی ایک غزل سے نکالا گیا ہےاس شعر میں آتش اپنے محبوب سے مخاطب ہوکر ارشاد فرماتے ہیں کہ اے میرے محبوب یہاں دنیامیں ہر جاندار کا اپنا اپنا آشیانہ ہوتا ہے جہاں پر وہ اپنی اپنی زندگیا ں کے دن گزار لیتے ہیں مگر اے میرے محبوب تیری شان کچھ الگ تھلگ ہے کیوں کہ آپ کا ٹھکانہ ومقام اور مکان اہل دنیا کے دلوں ودماغوں میں ہے یعنی آپ کے رہنے کی جگہ بھی سب سے ہٹ کر و نرالی ہے
غم و غصہ ، رنج واندوہ وحرماں
ہمارے بھی ہیں مہر بان کیسے کیے
رنج: غم ـ الم -پریشانی، اندوہ : غم ، حرماں: مایوسی ؛ نااُمیدی
تشریح :
یہ شعر آتش کی ایک غزل سے ماخوذ ہے اس شعر میں شاعراپنی بد نصیبی کو کوستے ہوئے فرماتے ہیں کہ خوشیاںمیرے آنگن میں کھبی بھول کر بھی نہیں آتی ہیں وہ جیسے مجھ سے سدا کے لئے روٹھ گئی ہیں مگر اس کے برعکس غم ،پریشانیاں ،مصیبتیں میری پرچھائیاں بن گئی ہیں کبھی ہم سے دور ہی نہیں ہوتی ہیں یہ غم والم میری زندگی کے ایسے مہماں و مہربان بن گئے جن کہ بدولت میں اپنی زندگی کے چار دن گذار لیتاہوں
3َ۔ سوالات :
٭ اس غزل میں اُس شعر کی نشاندہی کیجیے جس میں انسان کی بے ثباتی کا ذکر ہے؟
جواب:  وہ شعر یہ ہے
نہ ہے گورِ سکندر نہ ہے قبر دارا
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
٭شاعر نے غم وغصہ رنج واندوہ کو اپنے مہربانوں میں کیوں شمار کیا ہے؟
جواب:جس طرح دنیا میں رہتےہوئے ایک انسان دھن ودولت،مال واسباب،زر وزمین کے سہارے زندگی گذارتا ہے اسی طرح شاعر کے لئے یہ کام غم وغصہ ،رنج واندوہ انجام دیتے ہیں اسی لئے شاعر نے ان کو اپنےمہربان گن لیا ہے
سوال : آتش کی حالاتِ زندگی اورشاعری(غزل گوئی) پر ایک نوٹ لکھیے؟
حاالات ِ زندگی: 
خواجہ حیدر علی آتش ؔ کا اصلی نام حیدر علی تھا اور آتشؔ تخلص تھا آپ کے والد صاحب کا نام خواجہ علی بخش تھا آپ کی پیدائش فیض آباد میں 1777ء میں ہوئی بچپن میں ہی والد کا انتقال ہو گیا تھا جس کی بنا پر آپ کی تعلیم مکمل نہ ہوسکی ۔ آپ کا مزاج فقیرانہ تھا اور یہ فقیرانہ انداز عمر کے ساتھ ساتھ بڑھتا ہی گیا ان کی زندگی تنگ دستی میں گذر گئی ۔ مگرکھبی کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا بلکہ خدا کی مرضی پر راضی رہے آخری عمر میں بیوی کی وفات کے بعد آنکھوں کی روشنی بھی چلی گئی ۔جس کی وجہ سے اپنی تما م تر زندگی اپنےہی گھر میں سمٹ کے رہ گئ۔البتہ شاگردوں کا آنا جانا ہوتا رہا ۔آخر کار 70 سال کی عمر پاکے اپنےخالقِ حقیقی سے 1847 ء میں لکھنو کی سرزمین میں جا کے ملے
ادبی خدمات:
آتشؔ کے مزاج میں جو قلندارنہ شان تھی وہ ان کی شاعری میں بھی پائی جاتی ہے آپ بنیادی طور پر صرف غزل کےشاعر تھے آپ نے صرف صنف ٖغزل میں ہی طبع آزمائی کی اوراپنی شیرینی زبان سےغزل کو زندہ جاویدبنا دیا ہے ان کے کلیات میں سوائے غزلوں کے علاوہ کسی دوسری صنف کانشان نہیں ہے آپ کی بڑی خوبی یہ تھی کہ چھوٹی سے چھوٹی بات کو بڑی دھوم دھام کے ساتھ کہہ دیتے ہیں
5۔اس شعر کی تشریح کریں
نہ گورِ سکندر نہ ہے قبر دارا
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
گورِ: قبر ،سکندر: ایک عظیم نادشاہ کا نام ، دارا: ایک بادشاہ جس کا نام دارا شکوہ تھا ، نامی: شہرت
تشریح:
یہ شعر آتشؔ کی ایک غزل سے نکالا گیا ہے اس شعر میں شاعر دنیا کی تلخ حقیقت کو بیا ن کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ دنیا فانی ہے سدا رہنے کا ٹھکانہ نہیں یہاں ہر ایک چیز کو ایک دن فنا ہونا ہے کتنے پیغمبر وعام لوگ آئے سب مر یا وصال پا کے چلے گئے یہاں تک دنیا کےدو عظیم بادشاہوں یعنی سکندر اور دارا شکوہ کی قبروں کے نشان بھی باقی نہ رہے
(11) مرزا اسداللہ خان غالب کی غزل گوئی
غزل نمبر ایک (1)
ابن مریم ہوا کرے کوئی
میرے دُکھ کی دوا کرے کوئی
ابن مریم: حضرت مریم رضی اللہ عنھا کا بیٹا یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام
تشریح :
یہ شعر غالب کی ایک غز ل سے نکالاگیا ہے اس مطلع والے شعر میں شاعرتلمیح کا اظہا ر کرتے ہوئے تمنا کرتےہیں کہ کاش! اس وقت دنیا میں بھی کوئی حضرت عیسیٰ علیہ السلام جیسا پیغمبر صاحبِ کرامات پیدا ہوجائے تا کہ میں اُس کے پاس اپنے دُکھوں کا مداوا کرسکتا کیوں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ نے مردوں کو زندہ کرنے اوربیمار لوگوں کو شفا دینے کا معجزہ عطاکیا تھا
بک رہا ہوں جنوں میں کیاکیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خداکرےکوئی
تشریح:
اس شعر میں مرزاغالبؔ اپنے عشق و اپنےکلام کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں کہ میں عشق کی وجہ سے اپنی زبان سے و قلم سےایسا کلام بیان کرتا ہوں جسے عام لوگ سمجھنے سے قا صر رہتے ہیں اللہ سے دُعا ہے کہ آگےبھی ایسا ہی چلتا رہے میری زبان و کلام کا اصل مقصد کسی کی سمجھ میں نہ آئے
نہ سنو گر بُرا کہے کوئی
نہ کہو گر بُرا کرے کوئی
تشریح :
یہ شعر غالبؔ کی ایک غزل سے نکالا گیا ہے اس شعر میں شاعر ایک نصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ دنیا اچھے و برے دونوں قسم کے لوگوں کی مسکن ہے کوئی جب آپ کی اچھائی وبُرائی بیان کرے تو دونوں صورتوں میں آپ کو چاہیے ایک بااخلاق انسان کی طرح اپنا برتاوکا ثبوت دے یہی سب سے بڑی بات ہے
روک لو گرغلط چلے کوئی
بخش دو گر خطا کرےکوئی
تشریح :
یہ شعر غالبؔ کی ایک عمدہ غزل کا شعر ہے اس شعر میں شاعر اپنے اندر اشرف المخلوقات کی صفتیں پیدا کرنے کی تلقین کرتا ہے کہ اگر کبھی کسی بندگانِ خدا سے کوئی غلطی سرزد ہوجائےتو اُسے پیارومحبت کےساتھ سمجھاؤاُسے راہِ راستہ پر لاؤں اس کی غلطی کومعاف کرکےدرگذر کروں یہی ایک صا لح انسان کی نشانی ہے
کون ہے جو نہیں ہے حاجت مند
کس کی حاجت روا کرے کوئی
تشریح :
یہ شعر غالبؔ کی ایک غزل سے نکالا گیا ہے اور یہ شعر ہماری درسی کتاب" بہارستانِ اردو" اردو کی دسویں کتاب کےحصہ نظم میں شامل ہے اس شعر میں شاعر ایک حقیقت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ دنیا مسیب الاسباب کی جگہ ہے یہاں ہر کام کوکرنےکےلئے کوئی سبب یا اسباب ہونےچاہئےتب جاکے کوئی کام نکلتا ہے غرض یہاں ہر انسان دوسرے انسان کا سبب اور حاجت مند ہے
کیا کیا خضر نے سکندر سے 
اب کسےرہنما کرے کوئی
تشریح :یہ شعر غالبؔ کی ایک غزل سے نکالا گیا ہے اس شعر میں شاعر تلمیح کا اظہار کرتے ہوئے فرماتےہیں کہ حضرت خضرعلیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے یہ معجزہ عطا فرمایا تھا کہ اسنےآبِ حیا ت نوش کرکے حیاتِ جاوِ داں کا شرف حاصل کیاتھا دوسری طرف بادشاہ سکندراسی کا مرید بن گیا تھا مگر افسوس بادشاہ ِسکندر وہ علم و ہنر پانے میں کامیاب نہ ہوسکا جسے اُسےبھی حیاتِ جاوِدان کا شرف حاصل ہوتا ہےاب دنیا میں کیا باقی رہا جس کوایک انسان اپنا رہنما بناکر حیات جاوداں کا شرف حاصل کرپاتا اب ایسا ممکن نہ رہا
جب توقع ہی اُٹھ گئی غالبؔ
کیوں کسی کاگلہ کرے کوئی
تشریح :یہ شعر غالبؔ کی ایک غزل کا مقطع والاشعر ہے اس شاعرمیں شاعر فرماتےہیں کہ اس دنیا میں کبھی بھی کسی کا اعتبار نہیں رکھنا چائیے کیوں کہ نہ جانے کب کس کا دل بدل جائے اس لئے بہتر یہی ہے کہ کسی پر حد سے زیادہ بھروسہ واعتماد نہیں رکھنا چاہیے تاکہ زندگی میں یہ نوبت کبھی نہ آئے کہ شکوہ شکائت کا موحول گرم ہوجائے

غزل نمبر 2

کوئی امید برنہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
تشریح :
اس مطلع والے شعرمیں غالبؔ ارشاد فرماتے ہیں کہ مجھے زندگی میں صرف ناامیدوں کاسامنا کرنا پڑا۔اور آگےکی زندگی میں کوئی ایسا طریقہ یا راہ نظر نہیں آتی کہ جس سے میری تمنائیں و آرزوئیں پوری ہوجائیں گی
موت کا ایک دن مُعین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
تشریح:
غالب ؔ اس شعر میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے زندگی اورموت کو پیدا فرمادیا ہے ہر چیز کا اپنا مقر ر وقت ہے موت کا بھی ایک ساعت مقرر ہے اور یہ اپنے مقرر وقت پر ہی آئےگی انسان کو رات کا آرام اچھی طرح سے کرنا چاہئے اس فکر میں اپنی راتوں کی نیدیں خراب نہیں کرنی چاہئے
آگے آتی تھی حالِ دل پہ ہنسی
اب کسی بات پرنہیں آتی
تشریح:اس شعر میں غالبؔ فرماتے ہیں کہ پہلے پہل مجھے بہت ہنسی آتی تھی میں مست مدہوش رہتا تھا کسی چیز کی کوئی فکر نہیں رہتی اب دنیاکے راز مجھ پرکھل گئے میں حقیقت سے واقف ہوگیا اب ہم نے ہنسی مذاق کرنا چھور دیا ہے
مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی
موت آتی ہے پرنہیں آتی
تشریح:
یہ شعر مرزاغالبؔ کا ہے اس شعرمیں شاعر فرماتےہیں کہ مجھ پر دنیا کے اتنے ستم پڑے ہیں کہ اب میں مرنے کی تمنا کرتا ہوں مگر میری تمنا پوری نہیں ہوتی ہےغرض دنیا کے مصیبتوں نے مجھے نیم موت کی حالت میں ڈال دیامگر ہائے افسوس حقیقی موت مجھ سے اب بھی دور ہے
کعبہ کس منہ سے جاؤں گےغالب ؔ
شرم تم مگرنہیں آتی
تشریح:
غالب ؔ اس مطلع والے شعر میں ارشاد فرماتے ہیں کہ ہر مسلمان کی دلی تمنا ہوتی ہے کہ وہ ایک بار اللہ کے گھر کی زیارت کرے اس کے لئے ایک مسلمان گناہوں سے دور رہتا ہے مگر غالب یہاں نیستی دکھاکر کہتے ہیں تو کس منہ کے ساتھ اللہ کے گھر کی زیارت کو جائے گا تو خود کو گناہوں سے دورنہیں رکھتا ہےکیا تجھے کعبہ جاکے شر م نہیں آئے گی
یا
تشریح: غالبؔ اس شعر میں فرماتے ہیں کہ اے غالب کیا تو ایسے ہی گناہوں کے بوجھ تلے خانہ کعبہ کی زیارت کو جائے گا کیا تمہیں وہاں اللہ کے گھر جاکے شرم نہیں آئی گی مگر اے غالب تجھے شرم کیوں اور کیسے آئی گی کیوں کہ تجھ میں شرم نام کی چیز ہی نہیں ہے
3۔۔۔۔سوالات
٭ غالبؔ حالات زندگی اور غزل گوئی پر مختصر نوٹ لکھیے
 

حالاتِ زندگی:
شہنشائے سخن مرزاغالب ؔ کا اصلی نام اسداللہ بیگ خان تھا آ پ کا تخلص پہلے اسدتھاپھرمستقل طور پر غالبؔ رکھ لیا۔ باپ کا نام عبداللہ بیگ تھاآ پ کی پیدائش آگرہ میں27 دسمبر1797ء کوہوئی ابھی صرف پانچ سال کے ہوئے تھے کہ والد ایک معرکہ میں مارے گئے چچا نصر اللہ بیگ نے کفالت کی ذمہ داری سنبھالی ۔آٹھ برس کے ہوئے تھے چچا بھی اللہ کو پیارے ہوگئے 13 سال کی عمرمیں یعنی 1810 ء میں آپ کی شادی امراو بیگم سے طے ہوپائی ۔شادی کے بعد آگرہ کو ہمیشہ کے لئے الوداع کہہ کرچھوڑنا پڑا۔مستقل سکونت دہلی میں اختیا رکی دہلی میں شاہی دربار میں ملازمت حاصل کی بہادرشاہ ظفر نے نجم الدولہ دبیر الملک نظام جنگ کا خطاب عطا کیا بالآخریہی دہلی میں آپ کا انتقال 15 فروری 1869 ء میں ہوا
غزل گوئی:
غالب فارسی و اردو کے بہت بڑے شاعر تھے مگر جس زبان میں غالب کا نام چمکنے لگا وہ زبان اردو ہےاردو نثر کے علاوہ غالب نے اردو غزل کو بام عروج تک پہنچادیا غالب نے غزل میں نئے تجربے کئے غزل میں استفہام، آپ کی ہی دین ہےآپ کے کلام میں مضامین کی ندرت،خیال کی بلندی،فلسفہ ،اخلاق ،انسان دوستی کا سبق جابجا ملتا ہے بقول آل احمد سرور" غالب سے پہلے شاعری دل والوں کی دنیا تھی غالب نے اسے نیا ذہن دیا"غالب کی تصانیف میں اردو ئے معلی،عود ہندی، قاطع برہان وغیرہ قابل ذکر ہیں
٭شاعر کا حوالہ دیکر ان اشعار کی وضاحت کریں
(1)نہ سنو گر بُرا کہے کوئی
نہ کہو گر بُرا کرے کوئی
تشریح :
یہ شعر غالبؔ کی ایک غزل سے نکالا گیا ہے اس شعر میں شاعر ایک نصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ دنیا اچھے و برے دونوں قسم کے لوگوں کی مسکن ہے کوئی جب آپ کی اچھائی وبُرائی بیان کرے تو دونوں صورتوں میں آپ کو چاہیے ایک بااخلاق انسان کی طرح اپنا برتاوکا ثبوت دے یہی سب سے بڑی بات ہے
(2)
روک لو گرغلط چلے کوئی 
بخش دو گر خطا کرےکوئی
تشریح :یہ شعر غالبؔ کی ایک غزل سے نکالا گیا ہے اس شعر میں شاعر تلمیح کا اظہار کرتے ہوئے فرماتےہیں کہ حضرت خضرعلیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے یہ معجزہ عطا فرمایا تھا کہ اسنےآبِ حیا ت نوش کرکے حیاتِ جاوِ داں کا شرف حاصل کیاتھا دوسری طرف بادشاہ سکندر اسی کا مرید بن گیا تھا مگر افسوس بادشاہ ِسکندر وہ علم و ہنر پانے میں کامیاب نہ ہوسکا جسے اُسےبھی حیاتِ جاوِدان کا شرف حاصل ہوتا ہےاب دنیا میں کیا باقی رہا جس کوایک انسان اپنا رہنما بناکر حیات جاوداں کا شرف حاصل کرپاتا اب ایسا ممکن نہ رہا
4۔ غزل نمبر دو کے قافیے اپنی نوٹ بک پر لکھیے 
 جواب: بر ، نظر ،بھر، غزل نمبر دو کے قافیہ ہیں
5۔مصرع جوڑ کر شعرمکمل کریں
کون ہے جو نہیں ہے حاجت مند  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میرے دُکھ کی دوا کرے کوئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب کسے رہنما کرے کوئی
کعبہ کس منہ سے جاؤں گے غالبؔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب:
  1. کون ہے جو نہیں ہے حاجت مند ..کس کی حاجت روا کرے کوئی 
  2. ابن مریم ہوا کرے کوئی..میرے دُکھ کی دوا کرے کوئی
  3. کیا کیا خضر نے سکندر سے...اب کسے رہنما کرے کوئی
  4. کعبہ کس منہ سے جاؤں گے غالبؔ ....شرم تم کو مگر نہیں آتی
6۔ وضاحت کریں
کیا کیاخضر نے سکندر سے
اب کسے رہنما کرے کوئی
تشریح :
یہ شعر غالبؔ کی ایک غزل سے نکالا گیا ہے اس شعر میں شاعر تلمیح کا اظہار کرتے ہوئے فرماتےہیں کہ حضرت خضرعلیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے یہ معجزہ عطا فرمایا تھا کہ اسنےآبِ حیا ت نوش کرکے حیاتِ جاوِ داں کا شرف حاصل کیاتھا دوسری طرف بادشاہ سکندراسی کا مرید بن گیا تھا مگر افسوس بادشاہ ِسکندر وہ  علم و ہنر پانے میں کامیاب نہ ہوسکا جسے اُسےبھی حیاتِ جاوِدان کا شرف حاصل ہوتا ہےاب دنیا میں کیا باقی رہا جس کوایک انسان اپنا رہنما بناکر حیات جاوداں کا شرف حاصل کرپاتا اب ایسا ممکن نہ رہا
کعبہ کس منہ سے جاؤں گے غالبؔ
شرم تم کو مگر نہیں آتی
تشریح :
غالب ؔ اس مطلع والے شعر میں ارشاد فرماتے ہیں کہ ہر مسلمان کی دلی تمنا ہوتی ہے کہ وہ ایک بار اللہ کے گھر کی زیارت کرے اس کے لئے ایک مسلمان گناہوں سے دور رہتا ہے مگر غالب یہاں نیستی دکھاکر کہتے ہیں تو کس منہ کے ساتھ اللہ کے گھر کی زیارت کو جائے گا تو خود کو گناہوں سے دورنہیں رکھتا ہےکیا تجھے کعبہ جاکے شر م نہیں آئے گی
یا
تشریح: غالبؔ اس شعر میں فرماتے ہیں کہ اے غالب کیا تو ایسے ہی گناہوں کے بوجھ تلے خانہ کعبہ کی زیارت کو جائے گا کیا تمہیں وہاں اللہ کے گھر جاکے شرم نہیں آئی گی مگر اے غالب تجھے شرم کیوں اور کیسے آئی گی کیوں کہ تجھ میں شرم نام کی چیز ہی نہیں ہے
(12)شاد ؔعظیم آبادیؔ کی غزل گوئی

غزل نمبرایک(1)

تمناؤں میں اُلجھایا گیا ہوں
کھلونے دے کے بہلایا گیا ہوں
تشریح:
یہ شعرشادؔ کی ایک غزل کا مطلع والا شعر ہے اس شعر میں شاعر ارشاد فرماتے ہیں کہ جس طرح ایک بچے کا دل کھلونے دکھا کے اور کھولوں سے کھیل کر بہل اور خوش ہوجاتاہے اسی طرح یہ دنیا تمناؤں و آرزؤں کا بازار ہے جہاں ایک آرزو پوری ہوجاتی ہے تو دوسرے چاہ ستاتی ہے اسی چاہ وآرزوں میں ہماری ساری زندگی فنا ہوجاتی ہے
ہوں اس کوچہ کے ہر ذرہ سے آگاہ
اُدھر سے مُدتوں آیا گیا ہوں
تشریح:
یہ شعر شادؔ کی ایک غزل سے لیا گیا ہے اس شعر میں شاعر فرماتے ہیں کہ میں اپنے محبوب کے ہر رازسے واقف ہوں کیوں کہ میں بہت عرصے پہلے ہی اُن کے گھر آیاجایاکرتا تھا
دل مضطر سے پوچھ اے رونق بزم
میں خود آیا نہیں لایا گیا ہوں
تشریح:
یہ شعرشادؔ کی ایک غزل سے نکالا گیا ہے اس شعر میں شاعرایک عمد ہ بات کرتے ہوئے دنیا کی رونقوں سے مخاطب ہوکرفرماتے ہیں کہ اے دنیاکی رونقوں میں تجھےدیکھ کرنہ خوش ہوتا ہوں نہ غمگین کیوں میں اس دنیا میں نہ اپنی مرضی سے پیدا کیا گیا ہوں ناتو یہاں اپنی مرضی سےلایا گیا ہوں
نہ تھا میں معتقد اعجاز مے کا
بڑی مشکل سے منوایا گیا ہوں
معتقد: اعتقاد رکھنے والا، بھروسہ کرنے والا،اعجاز: معجزہ ۔ کرامت
تشریح :یہ شعر شا د کی ایک غزل سے موخوذ ہے اس شعر میں شاعر اپنے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں کہ میں جو یہ شراب پینے کا عادی ہوچکا ہوں یہ میرے یاروں دوستوں نے یہ اس راہ کی طرح دھکیل دیا ہے ورنہ میں اس کا عادی نہ تھا
کُجا میں اورکُجا اے شادؔ دُنیا
کہاں سے کس جگہ لایا گیا ہوں
کجا: کہاں، کس جگہ
تشریح:
یہ شعر شاد ؔ کی قلم کی نوک سے جنم پایا ہے اس شعر میں شاعرآدم کی تخلق اول کی بات کرتےہوئے کہتےہیں کہ جب اللہ نے آدم علیہ السلام کو پیداکر کے جنت میں ڈالا وہاں ایک معمولی غلطی کی وجہ سے زمین پر لایا گیا در حقیقت اصل میں دنیا بنی نوع انسان کی رہنے کی جگہ نہیں ہے
3۔ سوالات
1۔ اس شعر کی وضاحت کیجیے
دل مضطر سے پوچھ اے رونق ِ بزم
میں خود آیا نہیں لایا گیا ہوں
تشریح:
یہ شعر شادؔ کی ایک غزل سے نکالا گیا ہے اس شعر میں شاعر ایک عمد ہ بات کرتے ہوئے دنیا کی رونقوں سے مخاطب ہوکرفرماتے ہیں کہ اے دنیاکی رونقوں میں تجھے دیکھ کرنہ خوش ہوتا ہوں نہ غمگین کیوں میں اس دنیا میں نہ اپنی مرضی سے پیدا کیا گیا ہوں ناتو یہاں اپنی مرضی سے لایا گیا ہوں
2۔ ان مرکبات کے معنی لکھیے
اعجاز مے ، دل مضطر ، رونقِ بزم
جواب: اعجار مے: شراب پینے کا شوقین
دل مضطر: بے چین دل یا بے قرار دل
رونقِ بزم: محفل کی شان و شوکت
3۔ مختصر نوٹ لکھیے 
شادؔ عظیم آبادی
  
جواب: حالاتِ زندگی :
شادؔ عظیم آبادی کا اصلی نام سیدعلی محمد تھا شادؔ تخلص تھا اپنے دور مین سید کے نام سے مشہورتھے آپ کے والد کا نام سید عباس مرزاتھا  آپ کی پیدائش عظیم آباد پٹنہ میں 1846 ء میں ہوئی چار سال کی عمر میں اپنی تعلیم کا سلسلہ اپنے گھر سے ہی شروع کیا عربی ،فارسی اوربعد میں انگریزی زبانوں میں اعلیٰ مہارتیں حاصل کیں ۔مذہبی اسلامی کی کتابوں کے علاوہ دیگر دوسرے مذاہب کی کتابوں کا گہرائی سے مطالعہ کیا علمی خدمات کے عوض میں حکومت نے 1891 ء میں انھیں خان بہادر کا خطات عنائت فرمادیا آپ نے ایک لمبی عمر پا کے عظیم آباد میں 18 جنوری میں انتقال کیا
ادبی خدمات: 
یوں توشاد نے ہر اصناف سخن میں طبع آزمائی کی لیکن ان کا نام غزل میں چمکا۔آپ کی شاعر ی کا اہم وصف زبان کی سادگی اور صفائی ہے ان کے دور میں غزل کا زور کم ہونے لگا مگر انھوں نے اس صنف میں نئی جان ڈال دی آپ کے کلام کا موضوع اخلاق ،فلسفہ ، توحید اور محبوب کے موضوعات رہے ہیں شادؔ کا کلام ان کے مرنے بعد 1938 ء میں آپ کے ایک شاگر نے" نغمہ الہام " کے نام کے ساتھ شائع کیانظم ونثرمیں بھی کئی یادگاریںچھوری ہیں


(13)فانی بدایونیؔ کی غزل کوئی

دنیا میری بلا جانے مہنگی ہے یا سستی ہے
موت ملے تومفت نہ لوں ہنستی کی کیا ہستی ہے
ہنستی: زندگی
تشریح: 
یہ شعر فانیؔ کی قلم کی نوک سے جنم پایا ہے اس غزل کے مطلع والے شعر میں شاعر فرماتے ہیں کہ میرے لئے دنیا کی زندگی کا ہونا یا نہ ہونا برابر ہے کیوں کہ میں نے اس دنیا اوراس دنیا کی زندگی کو جانا۔ یہ خواب غفلت کے سو ا کچھ بھی نہیں دوسری طرف موت جو ہر ایک کو مفت میں آتی ہے مگر میرے نزدیک زندگی کی وقعت اتنی گر گئی ہے کہ موت کو پیسے لے خرید لوں گا کیوں کہ یہ زندگی میرےکا م کی اب نہیں رہی ہے
آبادی بھی دیکھی ہے، ویرانی بھی دیکھی ہے
جواُجڑے اور پھر نہ بسے دل وہ نرالی بستی ہے
تشریح:
فانی اس غزل کے شعر میں ارشاد فرماتے ہیں کہ یہ دنیا ایک ایسی جگہ ہےجہاں پرمیں نے ویران بستیوں کو آباد ہوتے ہوئےدیکھا ہے مگر دوسری طرٖف انسانی دل کی بستی کو بھی دیکھا جو ایک باراجڑجاتی ہے پھر کبھی آباد نہیں ہوتی ہے دل کی بستی ایک شیشے کے مانند ہوتی ہے جو ایک بار ٹوٹ جائے پھر اس کا جوڑاورآبادہوناممکن ہے
جان سی شے بک جاتی ہے ایک نظر کے بدلے میں
آگے مرضی گاہک کی ، ان داموں توسستی ہے
شے : چیز، بک: فروخت ہونا ،دام: قیمت
تشریح:
یہ شعر فانیؔ کی ایک غزل سے نکالا گیا ہے اس شعر میں شاعر فرماتے ہیں کہ محبوب کی ایک نظر نے میری ہی جان مجھ سے چھین لی ہے اب محبوب کو اختیار ہے کہ میر ی جان کواپنے پاس رکھے یا نہ رکھے کیوں کہ اے میرے محبوب، جان کی کوئی قیمت ادا نہیں کرسکتا ہے مگر تمہاری ایک نظر نے مجھ سے میری جان مفت میں مجھ سے چھین کر لی ہے
جگ سونا ہے تیرے بغیر آنکھوں کا کیا حال ہوا
جب بھی دنیا بستی تھی،اب بھی دنیا بستی ہے
جگ: دنیا
تشریح :
یہ شعر فانیؔ کی ایک غزل سے نکالا گیا ہے اس شعر میں شاعر اپنے محبوب سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں کہ اے میرے محبوب جب تم میرے پاس ہوتے ہوتو یہ دنیا جنت لگتی ہے اور جب تم دور ہوتے ہو تو یہ دنیا جہنم لگتی ہے تمہاری غیر موجودگی میں، میں نے رو رو کے اپنا برا حال کیا ہے یعنی بہت رو لیتا ہوں
آنسو تھے سو خشک ہوئے جی ہے کہ اُمڈ آتا ہے
دل پہ گھٹا سی چھائی ہے کھلتی ہے نہ برستی ہے
تشریح:
فانی ؔغزل کے اس شعرمیں اپنے محبوب کےظلم وستم کا حال بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ میرے محبوب نے مجھ پر اتنے ظلم وستم ڈھائے ہیں کہ رورو کے میر ا برا حال ہوا ہے میری آنکھوں کا پانی سوکھ چکا ہے دل پرغم کی ایسی گھٹا چھائی ہوئی ہے جس کی وجہ سے میرا انگ انگ تڑپتا رہتا ہے
دل کا اُجڑنا سہل سہی، بسنا سہل نہیں ظالم
بستی بسنا کھیل نہیں،بستے بستے بستی ہے
تشریح:
یہ شعر فانیؔ کو ایک غزل سے نکالا گیا ہے اس شعر میں شاعر ایک حقیقت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک انسان کو چاہیےکہ کبھی بھی کسی دوسرے انسان کا دل نہ دُکھائے۔ کہ اگر یہ دل کی بستی ایک بار بربار ہوگئی ۔تو زندگی بھر یہ دل کی نگری کبھی آباد وشاداب نہیں ہوتی ہے
فانیؔ ! جس میں آنسو کیا دل کے لہو کا کال نہ تھا
ہائے !ہوآنکھ اب پانی کی دوبوندوں کر ترستی ہے
کال: قحط لہو: خون ہائے: افسوش
تشریح: اس مقطع والے شعر میں شاعراپنے محبوب سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں کہ میرے محبوب نے میرے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جس کی وجہ سے میرا دل رنجیدہ ہوا ہےاورمیرا دل خون کے آنسو رو رہا ہے آنکھیں بھی رو رو کے خشک ہوچکی ہیں
3۔ سوالات:
٭ شاعر کس کی نظر کے بدلے میں اپنی جان جیسی قیمتی چیز دینا چاہتا ہے؟
جواب: شاعر اپنے محبوب کی نظر کے بدلے میں اپنی جان جیسی قیمتی چیز دینا چاہتا ہے
٭ دوسرے شعر میں دل کی بستی کو " نرالی بستی" کیوں کہا گیا ہے؟
جواب: دنیا کی ہر ویران بستی اگر ایک بار اجڑ جائے تو دوبارہ پھرآباد ہوسکتی ہے مگر انسان کے وجود کے اندر جو دل کی بستی اگر ایک بار ویران ہوجائے تو دوبارہ اس کا آباد ہونا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے اسی لئےشاعر نے اس کو" نرالی بستی "سے تعبیر کیا ہے
4۔ تشریح کریں
آنسو تھے سو خشک ہوئے جی ہے کہ اُمڈ آتا ہے
دل پہ گھٹا سی چھائی ہے کھلتی ہے نہ برستی ہے
تشریح:
فانی ؔغزل کے اس شعرمیں اپنے محبوب کےظلم وستم کاحال بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ میرے محبوب نے مجھ پر اتنے ظلم وستم ڈھائے ہیں کہ رورو کے میر ا برا حال ہوا ہے میری آنکھوں کا پانی سوکھ چکا ہے دل پرغم کی ایسی گھٹا چھائی ہوئی ہے جس کی وجہ سے میرا انگ انگ تڑپتا رہتا ہے
5۔ فانیؔ بدایونی کی شاعری کے بارے میں ایک مختصرنوٹ لکھیے
جواب فانیؔ بدایونی کی شاعر ی:
فانی کو شاعری کاشوق بچپن میں ہی گھر کرگیا تھا والد شاعری کے خلاف تھے اس لیےچھپ کر شاعری کرتے تھے اس وجہ سے ان کا کافی کلام ضائع ہوگیا اس لیے جو کلام بچا وہ "عرفانیاتِ فانیؔ" کے نام سے شائع ہوا فانی اردو کے اعلیٰ غزل گو شمار کئے جاتے ہیں آپ کی شاعری میں اعلیٰ پائے کی فن کاری پائی جاتی ہےآپ کی شاعر ی میں احساس کی شدت، خیال کی گہرائی،غم ویاس کی اہم اوصاف پائے جاتے ہیں آپ کی شاعری میں موت ایک اہم موضوع رہا ہے اس لئے آپ کو "یاسیا ت" کا امام کہا جاتاہے
6۔ فانیؔ بدایونی کی حیات کا تذکرہ کیجیے






حالاتِ زندگی:
فانیؔ بدایونی کا بنیادی نام شوکت علی خان تھا آپ کے والد کا نام محمد شجاعت علی خان تھاآپ نے پہلے شوکت اوربعد میں فانیؔ تخلص اختیار کیا آپ کی پیدائش 13 ستمبر 1779 میں قصبہ اسلام نگر ضلع بدایوں میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم ایک مکتب میں حاصل کی ۔1897ء میں میٹرک کا امتحان گورنمنٹ ہائی اسکول بدایوں سے پاس کیا۔1901ٰء میں بریلی کالج سے گریجویشن حاصل کی۔محکمہ تعلیم میں استاد کے عہدے پرنوکری مل گئی۔ترقی کرتے کرتے ڈپٹی انسپکٹر مدارس بھی بنائےگئے۔نوکری کرنے سے دل اُکتا گیا نوکر ی چھوڑدی 1907ء موجودہ مسلم یونیورسٹی سے ایل ایل بی کر ڈگری حاصل کی کچھ عرصے تک وکالت کا پیشہ اپنایا ۔ مگر جلدی ہی اس پیشے سے کنارہ کشی اختیار کی اس کے بعد ایک ماہنامہ " نسیم " جاری کیا مگر دوسال کے بعد یہ بھی بند کرنا پڑا۔کشن پرشاد نے حیدرآباد بلا کر استا د کی نوکر ی پھر دلادی ۔1940ءپہلے بیوی کاپھر اپنی جوان سال بیٹی کے انتقال نے تو فانی کی کمر ہی توڑ دی۔ دل پر زیادہ غم ویاس رہنے کی وجہ سے ان کاانتقال27 اگست1941ء میں سرزمیں حیدر آباد میں ہوا
(14)عرشؔ صہبائی کی غزل گوئی
غزل نمبر ایک
کون سا وہ زخمِ دل تھا جوتروتازہ نہ تھا
زندگی میں اتنےغم تھے جن کا اندازہ نہ تھا
تشریح :
یہ شعر عرشؔ کی ایک غزل سے نکالا گیا ہے اس شعر میں شاعر فرماتے ہیں کہ مجھے اس زندگی میں اتنے غم ملے ہیں کہ اُن کا حساب وکتاب کرنا مشکل ہےمیرا دل ہرایک غم کا درد ہرگھڑی اور ہر وقت محسوس کرتا رہتاہے
ہم نکل سکتے بھی تو کیوں کرحصار ِ ذات سے
صرف دیواریں ہی دیواریں تھیں دروازہ نہ تھا
حصارِ ذات:اپنے وجود کی چار دیواری
تشریح:
یہ شعرعرشؔ کی ایک غزل سے نکالا گیا ہے اس شعر میں شاعر صوفیہ کا نظریہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں اورانسانی وجود کوایک مکا ن سے مشاہبت دے دیتا ہے اور کہتے ہیں جس طرح ایک گھر کی کھڑکیاں و دروازے ہوتے اور دروازے سے ایک انسان کا آنا جانا رہتا ہے اسی طرح انسانی وجود کے جوسات سراغ ہیں ان کوگھر کی کھڑکیوں سے تشبیہ دیتا ہے جس طرح ایک گھر کا دروازہ ہوتا ہے مگراس طرح انسانی جسم کا کوئی دروازہ نہیں ہے اگر ایسا ہوتا تو انسان اس دروازہ سے نکل ک کسی بھی مقا م تک آناََ فاناََ میں پہنچ جاتا
اُس کی آنکھوں سے نمایاں تھی محبت کی چمک
اُس کے چہرے پر نئی تہذیب کا غازہ نہ تھا
غازہ :خوشبو دار پاؤڈر ( ایک قسم کاخوشبودار گلابی سفوف جو عورتیں خوبصورتی کے لیے رخساروں پر ملتی ہیں
تشریح :یہ شعرعرشؔ کی ایک غزل سے نکالاگیا ہے اس شعر میں شاعر اپنے محبوب کی حالت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میرے محبوب کی آنکھوں سے محبت کی چمک ودمگ نہائت نمایاں تھی اوپر سے میرے محبوب کے چہرے پر کوئی مغر بی طرز کا کوئی بناؤ سنگار نہ تھا
عرشؔ اُن کی جھیل سی آنکھوں کا اس میں کیا قصور
ڈوبنے والوں کوگہرائی کا اندازہ نہ تھا
تشریح :
اس مقطع والے شعرمیں شاعر فرماتے ہیں کہ میرے محبوب کی آنکھیں ایک خوبصورت گہرےجھیل جیسی ہیں اگر غفلتاََ کوئی فریفتہ ہوکر ان جھیل جیسی آنکھوں میں ڈوب جاتا ہے تو وہاں سے واپس لوٹ آ کےکنارے تک پہنچ پانا مشکل ہے
غزل نمبر 2
ہرایک رنگ میں کاٹیں گے ہم سز ا ہی سہی
یہ زندگی کسی مفلس کی بد دُعا ہی سہی
تشریح: 
یہ شعر عرشؔ کی ایک غزل سے نکالا گیا ہے اس شعر میں شاعر فرماتے ہیں کہ مجھے اس زندگی میں صر ف غم ہی غم ملیں ہیں کبھی راحت یا آرام کے دو پل بھی نصیب نہ ہوئے جیسے لگتا ہےکہ یہ زندگی میر ی جیسے کسی لاچارو مجبورزدہ انسان کی بد دعا ہے
نہ اس کو بھول کہ میں نے تجھے کیا تخلیق
یہ اور بات ہے تو وقت کا خدا ہی سہی
تخلیق : پیدا کرنا
تشریح :
یہ شعرعرشؔ کی ایک غزل سے ماخوذ ہے اس شعر میں شاعر اللہ تعالیٰ کا وعدہ انسان کو یاد دلاتا ہے کہ اے انسان تجھے اللہ نے ہی پیدا فرمادیا ہے تجھے اُسی کا کہنا اور اسی وحدہ لاشریک خدا کی عبادت کرنی چاہئے تھی مگر افسوس تو نے یہاں آکر اور خدا بنالیے اور خود بھی یہ دعوی میں وقت حاضر میں پیش پیش رہتا ہے
یہی بہت ہے کہ مجھ پر تری توجہ ہے
تری نگاہ  کا اندازہ دوسرا ہی سہی 
توجہ: دھیان ،نگا ہ: نظر
تشریح :
عرشؔ اس غزل کے شعر میں اپنے محبوب سے مخاطب ہوکر فرماتےہیں کہ اے محبوب مجھے ساری کائنات کی خوشیاں مل چکیں ہیں کیوں کہ تمہاری نظر ے کرم اب مجھ پر ہوتی ہے یہی میرے لئے سب سے بڑ ی دولت ہے اگرچہ تمہاری نظروں میں میرے لئے بغاوت و نفرت اورعداوت ہی دِکھتی ہیں پھربھی میں اسے اپنے لئے تیرا کرم ہی سمجھتا ہوں
وہ میری روح میں تحلیل ہوچکا ہےعرشؔ
اگر وہ مجھ سے جدا ہے، چلو جدا ہی سہی
تحلیل : حل ہوجانا'ضم ہونا، گُھل مل جانا
تشریح:
اس مقطع والے شعرمیں عرشؔ فرماتےہیں کہ روحانی طورپرمیرا محبوب میری روح کے ساتھ گُھل مل کرضم ہوچکا ہے اگرچہ دنیا طور وہ مجھ سے دور ہی رہتا ہے
3۔ سوالات
٭صہبائی کی حیات اور شاعری پر نوٹ لکھیے؟

حالاتِ زندگی:
عرشؔ صہبائی نے اپنی آنکھیں پہلی بار سرزمیں جموں وکشمیر،تحصیل اکھنو کے ایک گاؤں سہری میں 6 ستمبر 1930ٰء میں کھولیں۔آپ کا بنیادی اسمِ گرامی ہنس راج ابرول ہے اور تخلص عرش صہبائی کیا کرتے  ہیں ابھی آپ صرف 22 دن کےہوئے تھےکہ ماں کا انتقال ہوگیا۔ ننہال والوں نے7 سال تک پرورش کی۔ 7 سال گذارنے کے بعد پھر اپنےگھر لوٹ آئے رنبیرگورنمنٹ ہائی اسکول میں داخلہ لیکردسویں کاامتحان پاس کیا مزید تعلیم حاصل کرنے کےلئے جموں کالج میں  داخلہ لیا ۔آگے کی تعلیم جاری نہ رکھ سکے ۔ ریڈیو کشمیر جموں(آج کا آل انڈیا ریڈیو  جموں) میں نوکری حاصل کی اور اسی ریڈیواسٹیشن سے سبکدوشی بھی حاصل کی
شاعری :
یوں تو شاعری کا ذوق بچپن سے ہی تھا عبد اللہ نامی ایک استاد جس کی تعیناتی گورنمنٹ رنبیرہائی اسکول میں تھی جس سے اس کی شاعر ی نکھرنے وسنورنے لگی لیکن اپنی شاعری کا باقاعدہ آغاز 1951ء میں پٹھانکوٹ کے ایک مشاعرے میں اپنی ایک غزل سناکے کی ۔اردو کی ہر اصناف پر طبع آزمائی کی لیکن زیادہ تر شاعری تخلیقات کا حصہ غزلوں پرمشتمل ہے آپ کی زبان ساف اور رواں ہے سادگی آپ کے کلام کا جوہر ہے آپ کی غزلیں تاثیر سے لب ریز ہیں اب تک آپ کے "شکستِ جام "،شگفتِ گل"، اور "صلیب" مجموعےشائع ہوچکے ہیں " شگفتِ گل" کو کلچرل اکاد می کی طرف سے انعام بھی ملا
٭شاعرنے حصار ِ ذات سے نکل نہ سکنے کیا وجہ بتائی ہے
جواب: شاعر نے حصارِ ذات سے نہ نکلنے کی سب سے بڑی وجہ یہ بتائی ہے کہ انسانی وجود ایک ایسےگھر کے مانند ہے جس کی تو چاروں اطراٖ ف دیواریں ہیں مگر گھر کے جیسا انسانی جسم کا کوئی دروازہ نہیں ہے
٭ دوسری غزل کےمقطع کی تشریح کیجیے؟
وہ میری روح میں تحلیل ہوچکا ہے عرشؔ
اگر وہ مجھ سے جدا ہے، چلو جدا ہی سہی
تحلیل : ضم ہونا ،گُھل مل جانا
تشریح اس مقطع والے شعر میں عرش فرماتے ہیں کہ روحانی طور پر میرا محبوب میری روح کے گُھل مل کر ضم ہوچکا ہے اگرچہ جسمانی طور پر وہ مجن سے دور ہی رہتا ہے
(15)اکبر جےؔ پوری کی غزل گوئی
کس کو معلوم ملے خاک میں منظر کتنے
اپنے آینے چھپائے ہیں سکندر کتنے
تشریح:
یہ شعراکبرؔ کی ایک بہتریں غزل سے نکالا گیا ہے اس شعر میں شاعر دنیا کی حقیقت کو بیا ن کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ دنیافانی ہے یہاں ہرچیز کے لئے موت اور فنا لازمی ہےاب تک اس جہاں میں کتنے لوگ آئے اور آئیں گےان سب کوایک دن موت کے آغوش میں چلے جانا ہے یہاں بادشاہ سکندر نے بھی اس دنیا میں اپنی حکومت کے گہرے چھاپ چھوڑے ہیں مگر بہرحال اس کو بھی اس دنیا کو الوداع کہنا پڑا
تشنہ لب تر ساکئے پیاس لئے آنکھوں میں
اورمحلوں میں چھلکتے رہے ساغرکتنے
تشنہ لب:پیاسے ہونٹ ،ساغر : پیالہ
تشریح:
اکبرؔاس شعرمیں فرماتے ہیں کہ یہ دنیا بھی عجیب قسم کی جگہ ہے کہیں لوگ دووقت کی روٹی کے لئےتگ ودو کررہے ہیں انھیں پانی تک میسرنہیں ہوپا تاہے دوسری طرف امیر لوگوں کے محل خانوں میں مے کے جام کے ساغرلبا لب بھر کےچھلک رہے ہیں
پرچم امن لئے پھرتے ہیں شہروں شہروں
آستینوں میں چھپائے ہوئے خنجر کتنے
آستین : کُرتے یا قمیض وغیرہ کی بانہہ
تشریح :
اکبرؔ اس غزل کے شعر میں ارشاد فرماتے ہیں کہ آج ہمارے ملک کی حا لت بہت خراب ہوچکی ہے جو ملک کے رکھوالے ہیں وہیں در اصل ملک کو خراب کرنے پر تلے ہوئے ہیں یہ لوگ گھر گھر، بستی بستی امن کا جھنڈا اُٹھائے گھومتے پھرتے ہیں دراصل یہی لوگ امن وامان کو بگاڑ دیتے ہیں یہی ملک کے چھپے دشمن ہیں
کس طرح دیتا صدا مجھ کو پتہ یاد نہ تھا
یوں تو بستی میں نظر آئے کُھلے در کتنے
صدا : آواز،بستی: آبادی
تشریح :یہ شعر اکبرؔ کی ایک غزل سے نکالا گیا ہے اس شعر میں شاعر فرماتے ہیں کہ اے میرےمحبوب آج میں تمہار ے شہر میں آیا تھا تجھے ڈھونڈنے کے لئے تا کہ تجھ سے ملاقات کر سکو مگر اس تیرے شہر کے ہر گھر کا دروازہ ہم نے کھلا پایا جس کی وجہ سے میں کسی گھر کے دروازے پر دستک نہ دے سکا اور تجھے بلابھی نہ سکا
دیکھ کر تشنہ لبی میری تعجب نہ کرو
میں نے صحراؤں کو بخشے ہیں سمندر کتنے
تشریح: 
اکبرؔ اس شعرمیں فرماتے ہیں کہ اے دنیا کے لوگوں آپ میرے خشک ہونٹوں کو دیکھ کر حیران وپریشان ہر گز مت ہونا کیوں میں ایسا بندہ ہوں جس نے صحراؤں کو پانی کی بہتات سے سیراب کیا یعنی میں نے زندگی میں خود تکلفیں اُٹھا ئے مگر دوسروں کو ہمیشہ فائدہ ہی پہنچایا ہے
3سوالات:
٭امن کا پرچار کرنے والوں کی آستینوں میں کیا چھپا ہوا ہے ؟
جواب :امن کا پرچار کرنے والوں کی آستینوں میں خنجر چھپے ہوئے ہیں
٭تشریح کریں
کس طرح دیتا صدا مجھ کو پتہ یاد نہ تھا
یوں تو بستی میں نظر آئے کُھلے در کتنے
تشریح:
یہ شعر اکبرؔ کی ایک غزل سے نکالا گیا ہے اس شعر میں شاعر فرماتے ہیں کہ اے میرےمحبوب آج میں تمہار ے شہر میں آیا تھا  تجھے ڈھونڈنے کے لئے تا کہ تجھ سے ملاقات کر سکو مگر اس تیرے شہر کے ہر گھر کا دروازہ ہم نے کھلا پایا جس کی وجہ سے میں کسی گھر کے دروازے پر دستک نہ دے سکا اور تجھے بلابھی نہ سکا
4۔ اکبر جے پوری پر ایک مختصرنوٹ لکھیں
حالاتِ زندگی: 
کبر جے پوری کا اصلی نام سید محمد اکبر تھا اور تخلص اکبرؔ تھا لیکن ادبی حلقوں میں اکبرجے پوری کے نا م سے جانے جاتے ہیں آپ کی ولادت 23 اکتوبر 1928ء کو جے پور راجستھان میں ہوئی تھی آ پ کے والد محترم کا نام آغا سید علی عابدی تھا اکبر جے پوری پیشے سے ایک استا د تھے آپ نے اپنی ادبی سفر کاآغاذ 1930ءکے آس پاس سے شروع کیا ۔جے پور سے کشمیر کا رخ کیا اور یہی 4 مارچ 1997 ء شہر سرینگر میں انتقال کرگئے
ادبی خدمات:
اکبرؔ جے پوری نے یوں تو ہر اصناف سخن میں طبع آزمائی کی لیکن غزل ان کا اہم میدان رہا ۔اکبر بنیادی طورپرایک رومانی شخص کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں آ پ کے مجموعوں میں "چمن زار" اور بچوں کے "شگوفے " شائع خاصی مشہور ہوئےہیں
(16)ہمدمکاشمیری کی غز ل گوئی

غزل نمبرایک

ایسا نہیں تھا کہ سر پہ سدا آسمان تھا
میرا بھی شہر میں کبھی کوئی مکان تھا
تشریح:
یہ شعر ہمدم کاشمیری کی ایک غزل سے نکالا گیا ہے اس شعر میں شاعر اپنی حالت بیان کرتے ہوتے ہوئے فرماتے ہیں اگرچہ میں آج لاچاری ومفلسی کی زندگی گذارتا ہوں مگر ایک زمانہ ایسا بھی تھا جب اس شہر میں میرا نام ،شہرت، دھن ودولت،رہنے بسنے کے لئے ایک عالی شان مکان بھی تھا
اس روشنی کے شہر میں ظُلمت کرے گی راج
مجھ کو یقین تھا نہ تجھے ہی گُمان تھا
تشریح:
ہمدمؔ کاشمیری اس غزل کے شعر میں فرماتے ہیں کہ اے میرے چاہنے والوں اس ہمارے وطن پر ہمیشہ عادل،علم والوں نے حکومت کی مگر میں نے نہ تم لوگوں نے کبھی سوچا ہوگا کہ اس ہمارے وطنِ عزیر پر کبھی لُنڈے لفنگے بھی راج کرے گے
دھویا نہیں گیا جو کسی برشگال میں
میری زمین پر وہ لہو کانشان تھا
برشگال : بارش ، برسات
تشریح :
اس شعر میں ہمدم فرماتے ہیں کہ اس ہمارے ملک پراب ظالم لوگوں کا راج چل رہا ہے ہر روز بے گناہ لوگوں کا خون بہا جارہا ہے یہ خون کے دھبے کسی بارش کے پانی سے نہیں دھوئیں جاسکے گےیعنی مجھے لگ رہا ہے کہ اب کبھی حق کا بول بالا نہ ہوگا
ہمدم کو چُپ لگی ہے زمانہ گذر گیا
اس شہر خامشی میں وہ صاحبِ اذان تھا
تشریح:
ہمدمؔ اس مقطع والے شعرمیں شاعر اپنے بارے میں فرماتے ہیں کہ مجھے بھی بہت دن ہوگے کہ میں بھی ظالم ارباب اختیار کے خلاف کچھ بھی نہیں بولتا ۔مگر ایک زمانہ وہ بھی تھا جب میں لوگوں کو ظلم کے خلاف تھا اور لوگوں میں بیداری پیدا کرتا تھا میں بھی اب تھک چکا ہوں
غزل نمبر 2
ایک بھی موسم میرے اندر نہ تھا
اورآنکھوں میں کوئی منظر نہ تھا
تشریح:
یہ شعرہمدمؔ کی ایک غزل سے نکالا گیا ہے اس شعر میں شاعر فرماتےہیں کہ میں نے اپنی زندگی میں کوئی خوشیاں کا موسم نہیں دیکھااسی لئےمیری آنکھوں میں کوئی خوبصورت منظر بھی نہیں ہے
میرے دائیں بائیں تھیں پرچھائیاں
میرے ہاتھوں میں کوئی پتھر نہ تھا
تشریح: 
اس شعرمیں ہمدمؔ فرماتے ہیں کہ میرے آگے پیچھے،دائیں بائیں صرف دشمن ہی دشمن تھے مگر میر ے پاس اتنی ہمت باقی نہ رہی کہ اُن کا مقابلہ ایک پتھر اُٹھاکے کرتا
خواب اپنے کیا حقیقت ہوگئے
لمس کیسا تھا اگر پیکر نہ تھا
لمس : کسی چیز کو چھو کرمعلوم کرنا، ہاتھ لگانا،پیکر: صورت
تشریح:
یہ شعرہمدمؔ کاشمیری کی ایک غزل سے نکالا گیا ہے اس شعر میں شاعر فرماتے ہیں کہ جس طرح خواب میں کوئی چیز اصلی اور حقیقی لگتی ہے مگر حقیقت میں اس کا کوئی وجود نہیں ہوتا ہے اسی طرح اب میری حقیقی زندگی خواب سی لگنے لگی ہے اور مجھے لگنے لگا ہے کہ کوئی تو ہے جو میرے دکھوں کا مداوا کرےگا لیکن حقیقت میں اس کا کوئی وجود نہیں ایک خواب کی طرح
چھا گیا تھا شہرپرافسوس کوئی
چاند جب نکلا کوئی چھت پرنہ تھا
تشریح :
ہمدم ؔ اس غزل کے شعر میں فرماتےہیں کہ ایک زمانہ وہ بھی تھا جب شہرمیں امن کی بہاریں چاروں طرف تھیں اورلوگ خوشی کے ساتھ نیا چاند دیکھنے کے لئےچھتوں پر چڑھتے تھے فگر اب شہرکے حالات ابتر ہوگئے ہیں ہر دل دُکھی ہےاب کوئی بھی نیا چاند کا لطف و مزا اُٹھانے کو چھتوں پر نہیں چڑھتا ہے
اک صداگونجی مکاں میں دیرتک
کیا تھایہ ہمدمؔ کوئی در پر نہ تھا
تشریح:
اس مقطع والے شعر میں شاعر فرماتےہیں کہ میرے وطن عزیرکی حالت آج نہائت خراب ہے لوگوں پر ظلم وزیادتی کی وجہ سے اکثر میرے گھر میں دردکرب کو آوازیں سنائی دیتی ہے جیساکہ محسوس ہوتا ہے میرے گھر کے در ہی پرکسی ستم زدہ کی آواز ہے مگر یہ سب کچھ ہاہر شہر میں ظلم وزیادتیوں کی وجہ سے محسوس ہوتا ہے
2۔ صنعتِ تضاد:
جب کسی شعرمیں دویادو سے زیادہ ایسے الفاظ جو معنی کے لحاظ سے ایک دوسرے کی ضد ہوں صنعتِ تضاد کہلاتا ہے جیسے دن رات ، صبح شام وغیرہ
3۔۔۔ سواالات 
٭پہلی غزل کا دوسرا شعر پڑھکر بتائیے کہ شاعر کو کس چیز کاگُمان نہیں تھا؟
جواب شاعرکو یہ گُمان نہیں تھا کہ اُس کے امن وسکوں والے شہر میں کبھی لُنڈےو لفنگے اور ظا لم لوگوں کی حکومت قائم ہوگی
دھویا نہیں گیا جو کسی برشگال میں
میری زمین پر وہ لہو کانشان تھا
برشگال : بارش ، برسات
تشریح :
اس شعر میں ہمدم فرماتے ہیں کہ اس ہمارے ملک پر اب ظالم لوگوں کا راج چل رہا ہے ہر روز بے گناہ لوگوں کا خون بہا جارہا ہے یہ خون کے دھبے کسی بارش کے پانی سے نہیں دھوئیں جاسکے گےیعنی مجھے لگ رہا ہے کہ اب کبھی حق کا بول بالا نہ ہوگا
4۔ صنعت تضاد سے کیا مراد ہے؟
ہمدم کاشمیر ی کی دونوں غزلوں میں صنعتِ تضاد والے اشعار تلاش کیجئے 
جواب: صنعتِ تضاد:
جب کسی شعرمیں دویادو سے زیادہ ایسے الفاظ جو معنی کے لحاظ سے ایک دوسرے کی ضد ہوں صنعتِ تضاد کہلاتا ہے جیسے دن رات ، صبح شام وغیرہ
اس روشنی کے شہر میں ظُلمت کرے گی راج
مجھ کو یقین تھا نہ تجھے ہی گُمان تھا
میرے دائیں بائیں تھیں پرچھائیاں
میرے ہاتھوں میں کوئی پتھر نہ تھا
5۔ تشریح کیجئے
چھا گیا تھا شہرپرافسوس کوئی
چاند جب نکلا کوئی چھت پر نہ تھا
تشریح:
ہمدم ؔ اس غزل کے شعر میں فرماتےہیں کہ ایک زمانہ وہ بھی تھا جب شہر میں امن کی بہاریں چاروں طرف تھی اورلوگ خوشی کے ساتھ نیا چانی دیکھنے کے لئےچھتوں پر چڑھتے تھے فگر اب شہر کے حالات ابتر ہوگئے ہیں ہر دل دُکھی ہےاب کوئی بھی نیا چاند کا لطف و مزا اُٹھانے کو چھتوںپر نہیں چڑھتا ہے
6 مختصر نوٹ لکھیے؟
حالات زندگی اور غزل گوئی

حالاتِ زندگی:
ہمدم کاشمیری کی ولادت 15 اپریل 1937ء کو شہید گنج سرینگر کشمیر میں ہوئی آپ کا نام عبدالقیوم خان اورہمدم تخلص کیا کرتے تھے والد کا اسمی گرامی نور محمد خان تھا جو کہ پیشے سے ایک تاجر تھا
غزل گوئی:
ہمدم کاشمیری نے اپنی شاعری کا آغاز 1958ء میں کیا۔آپ اردو کے کہنہ مشق شاعر ہیں آپ کی غزلوں کا پہلا مجموعہ 2003ء" دھوپ لہو کی" کے نام کے ساتھ شائع ہوا آپ نے نظمیں، نعتیں بھی کہی ہیں لیکن غزل آپ کی محبوب صنف ہےآپ نے غزلوں میں ذاتی اجتماعی زندگی کےتجربات کو تخلیقی انداز سے پیش کیا آپ کے کلام میں نیا لہجہ اورسلاست ملتی ہے


(17)شبیب رضوی کی غزل گوئی

غزل نمبر 1

کتاب بند سہی،حرف تر کھلا رکھنا
مباحثے کا ہمیشہ ہی درکھلا رکھنا
تشریح :
یہ شعر ہماری درسی کتاب" بہارستانِ اردو" اردو کی دسویں کتاب کے حصے نظم میں ،شبیبؔ کی ایک غزل سے نکالا گیا ہے اس شعر میں شاعراپنے محبوب سے مخاطب ہوکر ارشاد فرماتے ہیں کہ اے میرے محبوب اگرچہ آپ نے مجھ سے خط وکتابت کا سلسلہ بند کیا ہے مگرعلم وآگاہی ، بحث ومباحثہ کادروازہ کبھی بند نہیں کرنا کیوں کہ اسی طریقہ سے مجھےآپ کے بارے میں واقفیت حاصل ہوتی رہتی ہے
سکوتِ شب سے بھی اکتا کے لوٹ سکتا ہوں
میں کہہ کے آیا ہوں بچو ں سے گھر کھلا رکھنا
اس غزل کے شعر میں شاعر اپنے محبوب کی بے رخی کاحال بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں اپنے محبوب کی جدائی کی وجہ سے راتوں کو گھر سے باہر بے خبری میں نکل جاتاہوں اس لئے میں نے اپنے اہل گھر سے کہہ دیا ہے کہ جب شب کی تاریکیوں میں میرے ساتھ یہ واقع پیش آئے تو تم میرے لئے میرے گھر کا دروازہ کھلا رکھنا
ہماری شرط کہ ہم پر ہو سایہ رحمت
تمہاری ضد ہےکہ کوفے میں سر کھلا رکھنا
اس شعر میں شاعر فرماتے ہیں کہ میں اپنے اللہ سے دُعا کرتا ہوں کہ مجھے ہمیشہ دکھ درد ومصیبتوں سے دور رکھنا مگر میری دعا میر ے حق میں الٹا ہوجاتی ہے یہ اسی طرح ہے جس طرح حضرت امام حسین علیہ السلام اوراس کی اہل وعیال کےساتھ اہل کوفہ نےبرا سلوک کیا اگرچہ امام حسین علیہ السلام کاپورا گھرانہ رحمت  و عزت کا مستحق تھا
شکستگی ہوئی ظاہر تو موت لازم ہے
کھلی ہواؤں کے دھارے پہ پر کھلا رکھنا
اس غزل کے اس شعر میں شبیب فرماتےہیں کہ جب انسان کا جسم عمر بڑھ جانے کی وجہ سے کمزور و ناتواں ہوجاتاہے تو بس انسان کو سمجھنا چاہیے کہ اب اس جسم پر کبھی بھی موت آسکتی ہے اس لئے انسان کو اس کے لئے تیا ر رہنا چاہئے
کسی کاہاتھ بڑھے یا کھچے یہ اسکا نصیب
ہمارا فرض ہے دست ہنر کھلا رکھنا
اس شعر میں شاعر فرماتے ہیں کہ میں اپنے شعروں میں علم وہنر کی باتیں بیان کرتا ہوں یہ اب ایک قاری پر منحصر ہے کہ وہ میرے اشعار سےفائدے اُٹھاے یا نہ اُٹھائے میں نے اپنے اشعار کے ذریعےعلم وآگاہی کے دروازے کھلے رکھے ہیں
کتنی بھوکی ہے کتنی پیاسی ہے
زندگی دشتِ کربلا سی ہے
یہ شعرشبیبؔ کی ایک غزل سے نکالا گیا ہے اس شعر میں شاعر فرماتے ہیں کہ انسان کی دنیائی زندگی دُکھوں سے بھری پڑی ہے یہ ایسے ہی ہے جسے کربلا کی زمین تھی جو حضرت امام حسیں علیہ السلام و اُس کی آل کے لیے مصیبت کا سبب بنی
سب گئےشمع دل جلائے ہوئے
خیمہ خیمہ بہت اداسی ہے
اس شعرمیں شبیب ؔ کربلا میں امام حسین علیہ السلام اور اُس کی اہل عیال کی طرف سے ظلم وظالم کے خلاف اپنی اپنی جانوں کا نذرانہ کا واقعہ پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں جب امام حسین علیہ السلام اور اس کے اکثر اہل عیال والے شہید ہوگئے تو اس کے امام کے خیموں میں غم و اداسی کا منظر چھاگیا
اس نے کتنی لطیف بات کہی
خود شناسی خدا شناسی ہے
خود شناسی : خود کو پہنچاننا ،خُدا شناسی: خُدا کو پہنچاننا
یہ شعر شبیبؔ کی ایک غزل سے نکالاگیا ہےاس شعر میں شاعرایک قیمتی بات بیان کرتے ہوئے فرماتےہیں کہ جس انسان نے اپنے نفس و وجود کو پہنچانا اسی نے حقیتاََ میں ذاتِ باری تعالیٰ کو پہنچان لیا ہے
پھیل جائے تو اک کتاب بنے
بات کہنے میں جو ذرا سی ہے
یہ شعرشبیبؔ کی ایک غزل سے نکالاگیا ہےاس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ اس دنیا میں بہت بڑے دانشور و فلسفی پیداہوئے ہیں جن کو اللہ نے اتنی قدرت عطا کی وہ ایک معمولی بات کو بھی اس انداز میں بیان کرتے ہیں کہ ان کے اس بیان سے بڑی سی بڑی کتابیں چھپ سکتی ہیں
زندگی خود کشی نہ کر لے کہیں
ہرتمناخفا خفا سی ہے
خود کشی : اپنے آپ کو موت کے گھاٹ اتارنا
یہ شبیبؔ کی غزل کا ایک مطلع والا شعر ہے اس شعرمیں شاعر ارشاد فرماتےہیں کہ مجھے اب محسوس ہونے لگا ہے کہ میں بہت جلد اپنی زندگی کا خاتمہ خود کشی کے ذریعے کرجاوں گا کیوں اس دنیا میں رہتے ہوئے میری جائز تمنائیں پوری نہیں ہوپاتی ہیں اور نہ اُنھیں پورا ہونے کا کوئی امکان نظر آتا ہے
3 سوالات
٭اسے تین اشعار قلمبند کیجئے جن میں کربلا کی طرف اشارہ کیا گیا ہو
ہماری شرط کہ ہم پر ہو سایہ رحمت
تمہاری ضد ہےکہ کوفے میں سرکھلا رکھنا
کتنی بھوکی ہے کتنی پیاسی ہے
زندگی دشتِ کربلا سی ہے
سب گئےشمع دل جلائے ہوئے
خیمہ خیمہ بہت اداسی ہے
٭ پہلی غزل کے دوسرے شعر میں کیوں بچوں کو گھر کھلا رکھنے کے لئے کہا گیا ؟
جواب : کیوں کہ شاعر کی طبیعت رات کے وقت محبوب کی جدائی کی وجہ سے ٹھیک نہیں رہتی ہے اور وہ بے ہوشی کی وجہ سے رات کو اپنا گھر چھوڑ دیتا ہے اسی لئے وہ اپنے گھر والوں سے کہتا ہے شب کے دوران بھی گھر کا دروازہ کھلا رکھنا
٭غزل کے تیسرے شعر میں شاعر نے جس واقعہ کی طرف اشارہ کیا ہے اسے مختصر طور پرنوٹ طور پر بیان کیجئے
جواب: اس شعر میں حضرت امام حسین علیہ السلام کی بہن حضرت زینب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جب یزیدوں نے حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنھا کو کوفے کے شہر میں ننگے سرچلایا گیا
سوال: شنیب رضوی کی حالات زندگی اور شاعری پر نوٹ لکھیے؟
جواب :حالات زندگی :
آپ کی پیدائش 25جون 1935 ء کو قصبہ زیر پورضلع بارہ بنکی اتر پردیش میں ہوئی ابھی آپ کی عمر صرف پانچ سا ل کی تھی کہ والد صاحب کا انتقال ہوگیادینی تعلیم گھر پر ہی اپنی ماں سے حاصل کی عربی وفارسی میں فاصل تفسیرکامل اورصدالافاضل کی اسناد یں حاصل کیں ہندی میں پرویش اوراردومیں ادیب ماہرعلی گڑھ کے امتحانات پاس کیے1959ٰء میں طبیہ کالج لکھنو سے ایف ایم بی ایس(طب)  کی ڈگری بھی حاصل کی1993 ء میں آپ کی تعیناتی گورنمنٹ طبیہ کالج سرینگر میں ہوئی1968ء میں آپ کا نکاح سرینگر میں ہوا اوریہیں مستقل سکونت اختیارکی اور بعد میں میڈیکل آفیسر کے عہدے سے سبکدوش ہوگئے
شاعری:
شبیب رضوی ایک نثر نگار کے ساتھ ایک بہتریں شاعرہیں شاعر کا ذوق گھر کے ماحول میں پیدا ہوا.گیارہ سال کی عمر سے ہی شعر کہنے لگے شبیب نے ہراصناف سخن میں طبع آزمائی کی لیکن غزلیں، نظمیں اورقطعات ورباعیا ت خاصی تعدار میں کہیں آپ کی شاعری کا رنگ اخلاقی اور تہذیبی ہے لہجہ میں متانت اور اسلوب میں سادگی ہے آپ کے مشہورمجموعے "آتش چنار" "حروف فروزاں" " بچوں کے مشاعرے " " لہولہو غزل " شامل ہیں

(19)قصیدہ شہر آشوب۔۔۔۔۔۔۔۔مرزا محمد رفیع سوداؔ۔
سوال: مرزا محمد رفیع سوداؔ کی حیات اور شاعر ی پرنوٹ لکھیے؟
جواب : حالاتِ زندگی :
مرزامحمد رفیع سوداؔ کا اصلی نام مرزا محمد رفیع تھا اورسودا ؔتخلص تھاآپ کے والد صاحب افغانستان کابل سے بغرض تجارت ہندوستان آئے تھے اوردہلی میں مستقل قیام فرماگئےتھےاوریہی پرمرزامحمد سوداؔ کی پیدائش1713ء میں ہوئی زمانے کے دستور کے مطابق عربی اور فارسی میں تعلیم حاصل کی لیکن دہلی پر جب نادر شاہ اور مرہٹوں نے اپنے حملے تیز کئے تو سودا فرخ آباد چلے آئے جہاں پر آپ نے زندگی کےقیمتی سترہ سال گذارے۔پھرلکھنوکارخ کیا شجاع الدولہ کےدربارسےوابسطہ ہوگےجہان پرآپ کی وفات 70 سال کی عمر میں1781 ء میں ہوئی
شاعری:۔
سودا کوشاعری کا ذوق بچپن میں ہی اُجاگر ہوا تھاخان آرزو کےشاگرد ہوئےاور بہت جلد ایک با کمال شاعربن گئے سودا نے یوں تو ہر اصناف سخن میں طبع آزمائی کی لیکن مزاجاِقیصدے کا ہی فن راس آیا آپ شمالی ہند کے پہلے قصیدہ گو شاعر ہیں مصحفی نےآپ کو "تذکرہ ہند" میں نقاش اول کہا ہے اورآپ کی قصیدوں پر قصیدہ لکھنا باعث فخرسمجھے تھے آپ کے قصائد شوکتِ الفاظ،تازگی،مضامین ،بلندخیالی،بندش کی چستی اورجدت ِتراکیب کی وجہ سے فصاحت کے اعلیٰ نمونے ہیں
سوال :قصیدہ کیا ہے؟
جواب :قصیدہ عربی سے فارسی کے ذریعے اردو میں وارد ہوا لفظ قصیدہ عربی لفظ قصدسے نکلا ہے جس کے معنی گاڑے گودے کے ہیں قصیدے میں مضامیں بلند اور پرُشکوہ ہوتےہیں اس لئے تمام شعر ی اصناف میں اسے وہ بلند مقام حاصل ہےجو مغز سر کو انسانی جسم میں حاصل ہےعام راے یہ ہےکہ اسی بنیا د پر اس صنف کا نام قصیدہ پڑگیا مگر دوسری راے یہ بھی ہے چونکہ لفظ قصیدہ  قصد سے نکال ہے جس کے معنی ارادہ کے ہیں اس صنف میں شاعر قصد کرتا ہے کہ اسے کسی کی تعریف یا ہجو کرنا ہے اسی لئے اس صنف کو قصیدہ کا نام پڑ گیااصطلاحی معنی میں قصیدہ اس صنف کو کہا جاتا ہے جس میں کسی کی مدح یا ہجو بیان کی جائےجہاں تک موضوع کا تعلق ہے قصیدے میں بنیادی طور پر مدح یا ہجو ،واعظ و نصیحت، یا مختلف کیفیات و حالات کا بیان ہوتا ہےقصیدے کے پہلے شعر کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں اس مطلع کہتے ہیں تعدار اشعار مقرر نہیں۔ہیئتی اعتبار سے قصیدے کی دو اقسام ،خطابیہ اور تمہیدیہ ہیں تکنیکی اعتبار سے قصیدہ کی چار اجزائے ترکیبی ہیں جن میں ،پہلاتمہید یا تشبیب،دوسراگریز،تیسرا مدح یا مذمت اور چوتھا مقطع یا خاتمہ ہیں اردو کے بڑ ے قصیدہ گو شاعروں میں سوداؔ اورذوق کے نام لیے جاتے ہیں
قصیدہ شہرآشوب 
شہرآشوب سوداؔ کا تحریر کردہ ایک قصیدہ ہے جس میں سوداؔ دہلی کی وہ حالت بیان کرتا ہے جب دہلی پر مرہٹوں اور احمد شاہ ابدالی نے حملے کیے جس سے دہلی کا امن وامان تباہ وبرباد ہوگیا
اب سامنے میرے جو کوئی پیرو جواں ہے
دعوی ٰنہ کرے یہ کہ مرے منہ میں زباں ہے
قصیدہ کے اس مطلع والے شعر میں سودا ؔ اپنی شاعرانہ خوبیوں کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرماتےہیں کہ میرے سامنے کوئی چھوٹا یا بڑاانسان یا کوئی عالم یہ دعویٰ نہ کرے کہ وہ بھی میری طرح شعر کہہ یا لکھہ سکتا ہے
میں حضرتِ سوداؔ کو سنا بولتے یارو
اللہ رے اللہ رے کیا نظم ِ بیاں ہے
سوداؔ اس شعر میں اپنے بارے میں کہتے ہیں کہ میں نے اپنے اندر کے شاعر یا ضمیرکو یہ کہتے سنا ہے کہ اے سوداؔ کہ آپ کی شاعری کا کیا کہنا ہے آپ کی شاعر ی سب سے جدااور ہر طرح سے کامیا ب شاعری ہے
اتنا میں کیا عرض کہ فرمائیے حضرت
آرام سے کٹنے کی طرح کوئی بھی یاں ہے
سوداؔاس شعر میں سوالیہ انداز میں پوچھتے ہیں کہ کون ہے کہ جس کی زندگی اس دینامیں آرام سے بسر گذرجاتی ہے بلکہ ایسا ممکن نہیں ہےشاہ ہویا گدا ہر ایک کو غم کاسامنا کرنا پرتا ہے
سُن کر یہ لگے کہنے کہ خاموش ہی رہ جا
اس امر میں قاصر تو فرشتے ہی رہ جا
سوداؔ کہتے ہیں جب میں نے یہ سوال اٹھایا تومجھے کہا گیا کہ چپ ہوجا کہ آج جو دہلی یا دنیا کی حالت ہے اس سلسلے میں فرشتے بھی اپنی زبان کھولنے سے لاچار ہےیعنی بہت دہشت کا سماں ہر طرف ہے
کیا کیا میں بتاؤں کہ زمانے میں کئی شکل
ہے وجہ معاش اپنی سو جس کا یہ بیاں ہے
سوداؔ اس شعر میں فرماتے ہیں کہ اس دنیا میں روزی روٹی کمانے کے بہت سارے پیشے انسان نے اختیار کئے ہیں جن میں چند کا بیان آگے اس طرح ہے
گھوڑا لے اگر نوکری کرتے ہیں کسو کی
تنخواہ کا پھرعالم ِبالا پہ مکاں ہے
کسو: کسی، عالم بالا پہ مکاں :پہنچ اوردسترس سے دور
سودا اس شعر میں فرماتے ہیں کہ کوئی انسان گھوڑے پالنے کی نوکری کرتا ہےمگرافسوں تنخواہ مانگنے پراسے طرح طرح کے بہانے سنائے جاتے ہیں یعنی تنخواہیں وقت پر ادا نہیں کی جاتی ہے کیوں کہ نوکر ی دینے والے بھی غریب ہو چکے ہیں
گزرے ہے سدایوں علف ودانہ کی خاطر
شمشیر جو گھر میں تو ہے سپر بنیے کے ہاں ہے
سدا : ہمیشہ ،علف ودانہ:گھاس اور اناج ،مویشیوں کا چارا ، سپر:ڈھال ،بنیا:آٹا دال بیچنے والا
سوداؔ اس شعرمیں عرض کرتے ہیں کہ کوئی بھی دنیا کا انسان خود کفیل نہیں ہے انسان کی ساری کی ساری زندگی دو وقت کی روٹی کو حاصل کر نے میں گز جاتی ہےیادرکھو بادشاہ کو بھی دال و چاول لینے کے لئے نوکروںکو دوکانوں پربیجناہوتا ہے
سودا گری کیجئے تو ہے اس میں یہ مشقت
دکھن میں بکے وہ جو خرید صفہاں ہے
سودا گری:-تجارت ،مشقت :تکلیف ، دکھن:-ہندوستان کا جنوبی علاقہ ، بکے :فروخت
صفہاں:ایران کاایک شہر
سودا ؔکہتے ہیں کہ دنیا کے کسی پیشے میں اب مزہ نہیں رہا ہے تجارت کو ہی لیجیے ایک جگہ جوچیز بک جاتی ہے دوسرے شہر میں اس کی کوئی مانگ نہیں ہوتی ہے
شاعر جو سُنے جاتے ہیں مستغنی الاحوال
دیکھے جو کوئی فکرو تردد کو تویاں ہے
مستغنی الاحوال: جن کی مالی حالت بہتر ہو , تردد:پریشانی
سوداؔ اس شعرمیں فرماتے ہیں کہ جن شاعروں کی حالت پہلے بہت بہتر تھی اب وہ بھی تلاش معاش کی فکر کرنے لگے ہیں اتنی حالت دہلی اور دہلی واسیوں کی خراب ہوچکی ہے
مشتاق ملاقات انہوں نے کا کس و ناکس
ملنا انہیں اس سے جو فلاں ابن فلاں ہے
مشتاق: شوقین ، کس وناکس-:ہرخاص وعام 
سوداؔ کہتے ہیں کہ ہر کسی کا یہ شوق ہوتا ہے کہ اس کی ملاقات ایک اچھے شاعر سے ہوجائے مگر دوسری طرف شعراء اس فکر میں ہوتے ہیں کہ ان کی ملاقات کسی بڑے مال دار آدمی سے ہوجائے جہاں پر اسے روپئے پیسے مل جائیں
گرعید کا مسجد میں پڑھیں جاکے دوگانہ
نیت قطعہ تہنیت خان ِزماں ہے
قطعہ تہنیت:-قطعہ جوخوشی اور مبارک باد کے موقعے پر لکھا جائے ،خانِ زماں:-بہت بڑا امیر
سودا اس شعر میں فرماتے ہیں کہ جب کوئی شاعر مسجد میں دورکعت عید کی نمازیں پڑھنے کے لئے جاتا ہے توشاعرکا دل نماز میں کم ہوتا ہے اور وہ یہ سوچتا ہے کہ کس طر ح ایک امیر انسان کے بارے میں قطعہ لکھا جائے تاکہ امیر اس قطعہ کو سن کر کچھ انعام واقرام سے نوازے
مُلائی اگر کیجئے تو مُلا کی ہے یہ قدر 
ہوں دو روپے اُس کے جو کوئی مثنوی خواں ہے
سوداؔ اس شعر میں کہتے ہیں کہ اس زمانے میں ایک مولوی کی قدر اس وقت ہے جب اسے کوئی مثنوی سنوانا یا پڑھانا آتاہو تب اسے دو روپئے کوئی دے دیتا ہےورنہ مولوی کی طرف آج کوئی دیکھتا بھی نہیں
اور ما حضر اخوند کا اب کیا میں بتاؤں
یک کاسئہ دال عدس وجو کی دوناں ہے
ماحضر:۔ کھانا ؛ اخوند-: استاد ، کاسئہ:-پیالہ ، دالِ عدس- :مسور کی دال ،نان:- روٹی
شاعرسودااس شعرمیں ارشاد فرماتے ہیں کہ اس دورمیں استاد کی حالت بہت بری ہے اسے مشکل سےکھانا کھانے کے لئے جوکی دوروٹیاں اور مسور کی دال کا ایک پیالہ دو وقت کے لئےمیسر ہوپاتا ہے
دن کو تو وہ بیچارہ پڑھایا کرے لڑکے
شب خرچ لکھے گھر کا اگر ہندسہ داں ہے
ہندسہ داں:- حسان جاننے والا
سودا کہتے ہیں کہ اس زمانے میں ایک استاد کی حالت بہت خراب ہے وہ بیچارہ دن کولڑکوں کو پڑھاتا ہے اور رات کے وقت اپنے گھر کے اخراجات لکھتا ہے مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ ریاضی دان ہو
اب کیجئے انصاف کہ جس کی ہو یہ اوقات
آرام جو چاہے وہ کرے وقت کہاں ہے
اوقات:- حیثیت
سودا کہتے ہیں کہ اے دنیا کے لوگوں اب آپ ہی انصاف سے کام لیجئے جس استاد کو قدر ومنزلت ملنی چاہئیں اس کو اب آرام کے لئے وقت ہی میسر نہیں ہوپاتا ہے
چاہے جو کوئی شیخ بنے بہر فراغت
چھٹتے ہی تو شعرا کا وہ مطعونِ زباں ہے
چھٹتے ہی:- چھوٹتے ہی فوراََ
سودااس شعرمیں فرماتے ہیں کہ اگرکوئی عالمِ دین بننا چاہتا ہے تو شعرا حضرات حسد کی بناپر اس پرطنز کے شعرلکھتے ہیں
تحقیق ہوعرس تو کر داڑھی کو کنگھی
لے خیل ِ مُریداں گئے وہ بزم ِ جہاں ہے
عرس:- کسی ولی خدا کی وصال کا دن ، خیل:- جماعت ، بزم:-محفل
سودا کہتے ہیں کہ جب کسی جگہ کسی ولی اللہ کا عرس منایا جاتا ہے تو ایک مولوی صاحب داڑھی میں کنگھا کرکےاپنے مریدوں کی جماعت کے ہمراہ وہاں جاتا ہے اور عرس کا دن مناتا ہے
ڈھولک جو لگی بجنے تو واں سب کو ہوا وجد
کوئی کودے کوئی رو دے کوئی نعرہ زناں ہے
وجد :- ذوق وشوق کی حا لت ' نعرہ زناں:- نعرہ لگاتے ہوئے
سودا اس شعرمیں ارشاد فرماتے ہیں کہ عر س کی مجلس جب اپنی شباب پر ہوتی ہے تو ہر کسی پر وجد کا سماں چھا جاتا ہےکوئی گھومنے لگتا ہےکوئی اچھلنے لگتا ہے کوئی نعر ہ تکبیرکہتا ہےغرض ہرانسان پر وجد کا سماں چھا جاتاہےتاکہ کوئی دوسرا انسان ترس کھا کر اند وجدیوں پر چند سکے دے دیں
بے تال ہوئے شیخ جو ٹک وجد میں آکر
سر گوشیوں میں پھر بد اصولی کا بیان ہے
بے تال :- بے سر، ٹک :-ذرا ، سر گوشیوں :-کانا پھوسی کرنا
سودا کہتے ہیں جب مجلس میں شیخ پر وجد طاری ہوجاتی ہے تووہ وجد میں گھومنے لگتا ہے تو اسے سراورتال کا فرق نہیں رکھ پاتا ہے اُس پرپاس بیٹھے لوگ باتیں کرتے ہیں دیکھو شیخ کا تال کے ساتھ سر میل نہیں کھاتا ہے
آرام سے کٹنے کا سنا تو نے کچھ احوال
جمعیتِ خاطر کوئی صورت ہو کہاں ہے
جمعیتِ خاطر:- اطمینان ،صورت : -حالت
سوداؔ اس شعرمیں سوالیہ انداز سے پوچھ کر کہتے ہیں کہ اے لوگوں تم نے مجھ سے اس شہر کا کچھ حال سنا ہے اب تم ہی بتاوں کیااس شہرمیں زندگی گذارنا آسان ہے اور یہاں زندگی گذارنے کے لئے آرام کے دو پہر میسر ہوپاتے ہیں
دنیا میں تو آسودگی رکھتی ہے فقط نام
عقبیٰ میں یہ رکھتا تھا کوئی اُس کا نشاں ہے
عقبیٰ:- مرنے کے بعد کی زندگی
سودا کہتے ہیں اب دنیا میں فقط آرام و آرائش کےمحض نام باقی رہے ہیں یہاں د نیا میں امن وسکوں نہیں ہے یہاں صرف دکھ ہی دکھ ہیں اس کے باوجو د ایک انسان کا یہ یقین ہے کہ مرنے کے بعد آخرت میں ایک بندہ مومن کو یہ چیزیں مل جائیں گی
سُو اُس پہ تیقُن کسی دل کو نہیں ہے
یہ بات بھی گویند ہ ہی کا محض گُماں ہے
تیقُن:- یقین ، گویندہ :- کہنے والا گُماں:- خیال
سودا ؔ کہتے ہیں کہ ایک انسان کا تقین ہے کہ مرنے کے بعد خد ا اچھے اعمال والے لوگوں کو جنت عطا فرمائے گا اور وہاں آرام ہی آرام ہوگا مگرمجھے لگتا ہے کہ یہ بس کہنے سنے کی باتیں ہیں شائد وہاں دینا جیسی زندگی مشکل وکٹھن ہو
یاں فکرِ معیشت ہے تو واں دغدغہ حشر
آسودگی حرفیست نہ وہ یاں ہے نہ واں ہے
فکرِ معیشت:- روزی روٹی کی فکر، واں: -وہاں دغدغہ حشر: -حساب و کتاب کے دن کا خوف ، آسودگی: -آرام
سودا اس شعر میں عرض کرتےہیں کہ اس دنیا میں ایک انسان کو روزی روٹی کی فکر دامن گیر رہتی ہے اور آخرت کے دن انسان کو اپنے اچھے اور برے اعمال کا حساب وکتا ب دینا ہوگا غرض نہ تو اس زندگی میں انسان کو سکھ حاصل ہے نہ ہی مرنے کے بعد یہ سکھ نصیب ہوگا
3 سوالات
1۔ سوداؔ نے اس قصیدہ میں جن پیشوں کا ذکر کیا ہے اُن کی فہرست بنائیے
جواب :- سودا نے اس قصیدے میں جن پیشوں کا ذکر کیا ہے وہ چند درجہ ذیل ہیں
تجارت یا سوداگری ، شاعری ،مدرسی ،ملائی ، گھوڑوں کی رکھوالی،عالم یا شیخ  وغیرہ
2۔ اس نظم میں بہت سے الفاظ ایسے ہیں جن کے معنی اب بدل گئے یا جو اب استعمال نہیں ہوتے ہیں مثلاََ "تحقیق ہوا ' بہ معنی ''خبر لگی ،معلوم ہوا'' ایسے کچھ لفظ آپ بھی ڈھونڈ یے
جواب: -وہ کچھ چند الفاط یہ ہیں
کسو کی ، انہوں کا ، واں ، یاں ، چھٹتے ،تیقُن
3۔اس قصیدہ کا خالصہ اپنےالفاظ میں لکھیے
جواب" شہرآشوب" مرزا محمد رفیع سودا کا ایک بہترین قصیدہ ہےاس قصیدہ میں شاعرنے دہلی کی تباہی وبربادی کا ذکر کیاہے جب مختلف قوموں نے یہاں اپنے سیاسی مقاصد کو پورا کرنے کے لئے دہلی کی خوشحالی کی تقدیر داؤ ں پر لگائی ۔کہتے ہیں دہلی اب وہ جگہ نہیں رہی جہان کبھی امن وسکوں کی بہاریں چلتی تھیں یہاں لوگوں کے جتنے پیشے تھے وہ بہت زیادہ متاثر ہوچکے ہیں کوئی آدمی کسی نواب یا امیر کا گھوڑا پالتا تھا اور دوپیسے کماتا تھا اب حالت یہاں تک پہنچ گئی اب ان امیر زادوں کو اپنے گھوڑے پالنے کی تنخواہیں نہیں دے پاتے وہ خو د غریب ہوچکے ہیں یہی حال مدرس کا ،مشکل سے مسور کی دال اور جو سے بنی دو وقت روٹی کا اہتمام ہوپاتاہے عالموں و شیخوں کی حالت بہت زیادہ خراب ہے ان پر شعرا ء طنز کے شعر کستے ہیں مثنوی نگار دو روپیے کمالیتے ہیں مگر مولویوں کو کوئی پوچھتا بھی نہیں اسی جب کہیں کسی پیر کا عرس ہوتا ہے وہاں مولوں وجد میں آکر اپنی حالت خراب کردیتا ہے تاکہ کوئی ترس آکر چار پیسے دے دیں غرض یہ دنیا آرام سےعاری ہوچکی ہے آرام بس کہنے سننے کا ایک لفظ بن کے رہ گیا انسان سوچتا ہے کہ مرنےکے بعد آخرت میں آرام نصیب ہوگا یہ زندگی کیسی عجیب شے،دینا میں روزی روٹی کمانےکی فکر میں گذرجاتی ہے جبکہ مرنے کے اپنے اعمال کا حساب دینے کی فکر ستاتی ہے غرض انسانی زندگی مشکلات سے دوچار ہے
4۔" شہر آشوب" سے کیا مراد ہے
جواب: - "شہر آشوب" سے مراد وہ نظم ہے جس میں کسی شہر کی تباہی وبربادی کا ذکر ہو
5۔ اس قصیدے کوشاعر نے "شہر آشوب "کیوں قرار دیا ہے
جواب :- اس قصیدے کو شاعر نے شہرآشوب کا نام اسی لئے قرار دیا ہے کیوں کہ اس قصیدے میں شاعر نے ایک تاریخی شہردہلی کی تباہی وبربادی کا ذکر کیا ہے
(19)بنی نوع انسان کا غم خوار۔۔رساؔ جاودانی
 سوال:نعت کسے کہتے ہیں ؟ 
جواب: لغت میں "نعت " کے لغوی معنی مدح، ثنا یا تعریف کے ہیں لیکن اصطلاحی ادب میں "نعت" اس صنف کو کہتےہیں جس میں حضرتِ رسول اکر م صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح سرائی بیان کی جاتی ہے اس میں ہیئت کی کوئی قید نہیں ہے اس لئے نعت شاعری کی موضوعی صنف ہے
نعت گوئی کا آغاز عر بی شاعری میں اس وقت ہوا جب پیغمبرآخر ی زمان حضرتِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں چند کافر شاعروں نے ہجوگوئی کی اس کے بدلے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے کہا کہ تم میں ہے کوئی جو میری مدح سرائی بیان کرسکتا ہے تب جا کے حسان بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ نے کچھ اشعار کہے جن سے نعت گوئی کی صنف کی بنیا پڑی نعت یہاں سے فارسی میں آئی اور اردو میں عربی اورفارسی کے راستےداخل ہوئی نعت کا تعلق چونکہ مذہبی اسلام سے ہے اس لئے اردو کے اکثر شاعروں نے نعتیں کہیں ہیں اردو کے چند مشہور و معروف نعت گو شعراء میں میر تقی میرؔ، مولانا حالیؔ، مولانا شبلیؔ نعمانی، مولانااحمد یارخان اور مولانا احمد رضا احمدخان بریلوی،علامہ اقبال، رسا جاودانی وغیرہ شامل ہیں
سوال :-رسا جاودانی کی حیات اور شاعری پر ایک نوٹ لکھیے؟
جواب حیات:-
رسا جاودانی جموں وکشمیرکا ایک مایہ ناز شخصیت کا نام ہےآپ کی پیدائش بھدرواہ میں 7 جولائی 1901ء میں ہوئی آپ کا اصلی نام عبدالقدوس تھا اور رساؔ تخلص تھا اردو ادب میں رسا جاودانی کے نام سے مشہور تھےآپ کے والد کا نام خواجہ منور تھا جو پیشے سے ایک تاجر تھےابتدائئ تعلیم مقامی طور پر حاصل کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے پنجاب یونیورسٹی سے منشی فاضل کا امتحان پاس کیا تعلیم حاصل کرنے کے بعدمحکمہ تعلیم میں بحیثیت استاد مقرر ہوئےاور اسی محکمے سے سبکدوش ہوگئے آپ کا انتقال 27 مئی 1979ء سرزمیں بھدرواہ ہوا
شاعری:-
رساؔ کو شاعری کی طرف رجحان بچپن کے ایام سے تھا آپ نے اپنی شاعری کا آغاز بچپن کے ایام کے دنوں میں کیا تھا شعر گوئی کے علاوہ آپ گانے بجانے کا بھی شوق رکھتے تھے آپ ایک روایتی شاعر تھے آپ کی شاعری میں ایک استاد کا رنگ جھلکتا ہے حسن وعشق آپکی غزلوں کا ایک اہم موضوع رہا  کشمیر کے قدرتی مناظر کی اپنی شاعری میں خوب پذیرائی کی آپ کے شعری مجموعے میں '' لالہ ء صحرا" اور "نظم ثریا" قابل ذکر ہیں

نعت

بنی نوع انسان کا غم خوار آیا
وہ تخلیق عالم کا شہکار آیا
بنی نوع:- حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد ،غم خوار:- غم کو دور کرنے والا  ، تخلیق عالم:- کائنات کو پیدا کرنے والا، شہکار: -کسی بھی فن کا ماہر
نعت کے اس پہلے شعر میں رساؔ ارشار فرماتے ہیں کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لا چکے ہیں آ پ صلی اللہ علیہ وصلم تمام دینا کے لوگوں کا غم دور کرنے کے لئے تشریف لائے ہیں اور آپ صلی علیہ وسلم ہی اس کائنات کے بنانے والے کا ایک عظیم شہکار ہیں
وہ نبیوں کا سرتاج سردار آیا
خوش اندام آیا خوش اطوار آیا
خوش اندام:-خوبصورت جسم والا ، خوش اطوار: - اچھے طوروطریقہ والا
رساؔ اس نعت کے شعرمیں حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف میں کہتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام نبیوں کے سرکے تاج اور اُن کے سردار ہوآپ  صلی علیہ وسلم کا جسد ِمبارک اورطورطریقے بھی بہت اعلیٰ پایہ کے ہیں
تو آیا تیرے آنے کی آرزو تھی
نگاہوں کو بس تیری ہی جستجو تھی
رساؔ جاودانی نعت کے اس شعر میں ارشاد فرماتے ہیں کہ اے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کی دنیا کے لوگوں کو تمنا و آرزو تھی اور دنیا کے لوگوں کی نگا ہوں کوآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش و جستجو رہی تھی
تواے ابرِ رحمت جو دنیا میں آیا
شرف آدم و آدمیت نے پایا
ابرِ رحمت :- رحمت کے بادل ،شرف : -بلندی
رساؔ اس نعت کے شعر میں حضرتِ بنی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح سرائی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں رحمت بن کے آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی بنی نوع آدم کوبہت اونچا مقام عطا نصیب ہوا
تو وہ سروِقامت نہیں جس کا سایہ
مگر بن کے رحمت تو عالم پی چھایا
سروِ:-سیدھا قد والا،سروِ قامت: -خوش قامت
رساؔ نبی پاک صلی علیہ وسلم کی شان یوں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اے بنی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے سیدھے قدِ مبارک کے مالک ہیں کہ جس کو کوئی سایہ نہیں مگردوسری طرف آپ تمام جہاں کے لے رحمت کا سایہ بن کے آئے ہیں
قدم تیرا جب سے پڑا  ہے زمیں پر
زمیں فوق رکھتی ہے عرشِ بریں پر
فوق: -برتری، عرشِ بریں :- وہ آسمان جہا ں اللہ کا تخت ہے
رساؔ اس نعت میں بیان کرتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس زمیں پر اپنا تشر یف و اشرف لا کر اپنے قدمی مبارک اس زمیں پر رکھ لیئے تو اس سے اس زمیں کا مقام و مرتبہ اور رتبہ آسمانوں سے بڑ ھ گیایہ کام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدمی مبارک سے ممکن ہوپایا
پیام آتشی کا ہے قرآن تیرا
ہوا جا گزیں دل میں فرمان تیرا
پیام :- پیغام ۔خبر،جاگزیں دل: -دل میں جگہ بنالینا
نعت کے اس شعر میں رساؔ نبی پاک صلی اللہ علیہ کی مدح بیا ن کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وسلم جوکلام لے کرآئے یعنی قرآن پاک وہ سراسرامن و آشتی کا فرمان الہیٰ ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا کلام بھی یعنی حدیث دل کا قرار بن گیا
کرم ہر کسی پر ہے یکسان تیرا
ہے دھرتی کے کندھوں پراحسان تیرا
کرم :-مہربانی ، دھرتی: -زمیں، یکسان :-برابر
رسابیان کرتےہیں کہ اے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم مہربانیاں تما م لوگوں کے برابررہی ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں کوئی تمیز نہیں کرتے تھے یہی وجہ رہی ہے کہ اس کائنا ت کے دوشوں پر یہ بڑااحسان رہا ہے
جو شفقت مسلمان کے حال پر ہے
وہی غیر مسلم پہ تیری نظر ہے
شفقت :- مہربانی ، الفت،محبت
رسا ؔ اس نعت کے شعر میں فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ، الفت مسلم و غیر مسلم پر یکساں وبرا بر رہی ہے اور غیر مسلموں پر آپ کی نظریں مہربانیاں رہی ہیں
یہ کردار تیرا نہ کیوں دل کوبھائے
تو دل میں بسے کیوں نہ من میں سمائے
بھائے :- اچھا لگے من:- دل
نعت کے اس شعر میں رسا ۤارشاد فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاکردار دلوں کوبہت اچھا لگتا ہےکیوں کہ آ پ صلی اللہ کے کردار کا اچھا لگنا ضروری ہے کیوں کہ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کا کردار لاثانی ہے
تری راہ میں جس نے کانٹے بچھائے
رہے تیری شفقت کے اس پر بھی سائے 
رساؔ نعت کے اس شعر میں وہ واقع بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ وہ عرب کی وہ بوڑھی عورت جو ہمیشہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی راہوں پر کانٹے بچھاتی تھی جب وہ بیمارپڑی توﷺ اس کی خبر گیر ی کے لئے تشریف لے گئے غرض آپ ﷺ کی شفقت آپ ﷺ کے دشمنوں پر بھی تھی
کدورت سے ہستی رہی پاک تیری
جچی آنکھ میں شانِ لولاک تیری
کدورت :رنجش عداوت ،ہستی: -زندگی ،شخصیت، شان لولاک: - حضرت محمدﷺ کی شان اور عظمت
رساؔ اس شعرمیں کہتے ہیں کہ آپﷺ کی شانِ پاک عداوت ، رنجش اور دشمنی سے پاک رہی یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ کی شانِ عظمت ہر دل اورکوبھا گئی
سوال : مسدس کسے کہتے ہیں
جواب : ایسی نظم کو مسدس کہتے ہیں جس میں ہر بند چھ مصر عوں پر مشتمل ہو
3۔ سوالات
1۔حضرت محمد ﷺ کیا پیغا م لے کر آئے ؟
جواب: حضرت محمدﷺ اللہ تعالی کا پیغام لے کر آئے جس میں بنی نوع انسان کے لئے امن و آتشی کا درس ہے
تو وہ سروِقامت نہیں جس کا سایہ
مگر بن کے رحمت تو عالم پی چھایا
سروِ : -سیدھا قد والا ،سروِ قامت :-خوش قامت
رساؔ نبی پاک ﷺ کی شان یوں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اے بنی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے سیدھے قدِ مبارک کے مالک ہیں کہ جس کو کوئی سایہ نہیں۔مگر دوسری طرف آپ تمام جہاں کے لے رحمت کا سایہ بن کے آئے ہیں
3۔ تشریح کیجئے
پیام آتشی کا ہے قرآن تیرا
ہوا جا گزیں دل میں فرمان تیرا
پیام :- پیغام ۔خبر،جاگزیں دل:-دل میں جگہ بنا لینا
نعت کے اس شعر میں رساؔ نبی پاک ﷺ کی مدح بیا ن کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اے نبی رحمت ﷺ آپ ﷺ جوکلام لے کر آئے یعنی قرآن پاک و سراسرامن و آشتی کا فرمان الہیٰ ہے اور آپ ﷺ کا اپنا کلام بھی یعنی حدیث دل کا قرار بن گیا
کرم ہر کسی پر ہے یکسان تیرا
ہے دھرتی کے کندھوں پر احسان تیرا
کرم :-مہربانی ، دھرتی:-زمیں ،یکسان :-برابر
رسا بیان کرتےہیں کہ اے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم مہربانیاں تما م لوگوں کے برابررہی ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں کوئی تمیز نہیں کرتے تھے یہی وجہ رہی ہے کہ اس کائنا ت کے دوشوں پر یہ بڑا احسان رہا ہے
جو شفقت مسلمان کے حال پر ہے
وہی غیر مسلم پہ تیری نظر ہے
شفقت :- مہربانی، الفت ، محبت
رسا ؔ اس نعت کے شعر میں فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ کی محبت ، الفت مسلم و غیر مسلم پر یکساں وبرا بر رہی ہے اور غیر مسلموں پر آپ کی نظریں مہربانیاں رہی ہیں
4۔ مختصر نوٹ لکھے
1۔ مسدس
2۔ نعت
مسدس : -
مسدس اس نظم کو کہتے ہیں کہ جس میں چھ چھ مصرعوں کے بند ہوں ان چھ مصرعوں میں پہلےکے چارمصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں اور باقی آخر کے دو مصرعو ں کے قافیہ الگ ہوتے ہیں البتہ یہ ہیئت پابند نظم یامرثیہ کے لئے استعمال کی گئی ہےاس ہیئت کو پہلی بار مرزا سودا ؔ نے مرثیہ کے لئے استعمال کیا اور مرثیے بعد میں اسی ہیئت میں لکھے جانے لگے گئےمسدس میں روانی اور سلاست ہوتی ہے عام نعت کی طرح اس میں دعائیہ اور التجائیہ اشعار موجود نہیں ہوتے ہیں اس میں پوری عقیدت کے ساتھ رسول اکرمﷺ کی صورت و سیر ت کو بیان کیا جاتا ہے
نعت : -
نعت کے لغوی معنی مدح ،ثنا اور تعریف کے ہیں لیکن اصطلاحی ادب میں" نعت" اس صنفِ نظم کو کہتے ہیں جس میں حضرت پیغمبر آخری زماں ﷺ کی کسی مقدس سیرت اور صورت کے کسی پہلو کی مدح سرائی بیان کی جائے اس میں ہیئت کی کوئی قید نہیں اس لئے نعت موضوعی صنف ہے
نعت گوئی کا آغاز حضرتِ رسول اکرم ﷺ کی پاک زندگی میں ہوا تھا حسان بن ثابت کے ہاتھوں اس پاک صنف کا آغاز ہوا آ پ ہی عالمی میں نعت گوئی کے شاعر اول ہیں تب سے لیکر دینا کی متعدو زبانوں کے متعدد شعراء اکرام نے اس صنف میں طبع آزمائی کی
(20)حضرت علی اصغر کے لئے پانی مانگنا ۔۔۔سلامت علی دبیر

مرثیہ کسے کہتے ہیں ؟
جواب:مرثیہ عربی لفظ "رثا" سے مشتق ہے جس کےمعنی ہیں رونا یا ماتم کے ہیں اصطلاحی اد ب میں مرثیہ سے مراد ایسی نظم ہوتی ہے جس میں کسی مرنے والے کے اوصاف بیان کرکے اس کی موت پر رنج و غم کا اظہا ر کیا جائےابتدائی مرثیے مختصر ہوا کرتے تھے جن کی کوئی ہیئت مقررنہ تھی شروع میں مرثیے غزل کی ہیئت میں لکھے گئےتین،چارپانچ اورچھ مصرعوں کے بند میں مرثیے کہے گئےسودا پہلے شاعر تھے جنھوں نے مرثیہ کے لئے مسدس کی ہیئت استعمال کی اوربعد میں یہی ہیئت مرثیہ کےلئےمقررہوئی مرثیہ کےاجزائےترکیبی میں چہرہ،سراپا، رخصت، آمد، رجز، جنگ، شہادت اوربین شامل ہیں
عالمی ادب میں شاعری کا آغازمرثیہ سے ہواجب قابیل نے ہابیل کو قتل کیا اور حضرت آدم علیہ السلام کو اس کی خبرجب لگی تودل پرزبردست چوٹ لگی اور اس اثر سے کہیں اشعار کہے یہی سے شاعری اور مرثیہ صنف کا آغاز ہوا اردو میں مرثیہ عربی سے فارسی کے راستے آئی میر خلیق اور ضمیر نےاردو مرثیے کونیا موڑ اوراجزائے ترکیبیں عطا کیں مرزا انیس ودبیرنے مرثیے میں نئی تبلیاں پیدا کیں اوراس صنف میں چارچاند لگا دئے
سوال: مرزا سلامت علی دبیرکی حیا ت اورشاعری پر نوت لکھیے؟
جواب حیات: -
آپ کا اصلی نام مرزا سلامت علی تھا اور دبیر تخلص تھا آپ کی پیدائش 19 اگست 1803ء میں دہلی میں ہوئی آپ کے والد صاحب کا نام مرزا غلام حسین تھا آپ کا خاندان ایران سے ہجرت کرکے ہندوستان میں مقیم ہوا جب دہلی تباہ وبرباد ہوئی تو آپ کے والد لکھنو چلے آئے یہی پر دبیر نے ابتدائئ تعلیم حاصل کی طالب علمی کےزمانے سے شعر گوئی کی طرف مائل ہوئےاور میرمظفر حسین ضمیرؔ کے شاگرد ہوئے بعد میں استاد سےزیادہ شہرت پاگئے 1857ء میں جب پورا ہندوستان جل رہا تھا توآپ سکونِ قلب کی تلاش میں پٹنہ، مرشد آباداورعظیم آباد کا سفرکیا لیکن ہرجگہ مایوسی ہی ہاتھا لگی آخری عمر میں آنکھوں کی روشنی چلی گئی آپ اس فانی جہاں سے 1858 ء میں اللہ کو پیارےہوگئے
شاعری:-
 دبیر کو شاعری کی طرف رجحان بچپن کے ایام سے ہی تھا اچھے اساتذہ کی رہنمائی نصیب ہوئی کم و پیش تین ہزارمرثیے لکھے آپ کی شاعری پر مذہبیت کا رنگ خاص طور پر جھلک رہا ہے مرثیہ کے علاوہ مثنویاں ، قصائد ، رباعیات ، اور قطعات ،سلام، نوحے وغیرہ اصناف میں طبع آزمائی کیں آپ کی تصانیف میں "دفتر ماتم" "رباعیات دبیر" ابواب المصائب" اور رسالہ مرزا دبیر " قابل ِذکر ہیں

حضرت علی اصغر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے پانی مانگنا

ہراک قدم پہ سوچتے تھے سبط مصطفیٰ ﷺ
لے تو چلا ہوں فوج عمر سے کہوں گا کیا
سبط-: بیٹے، بیٹی کی اولاد،پوتا،نواسا،حضرت محمدﷺ کی بیٹی کا بیٹا،التجا:فریاد،عدو:-دشمن، آبرو:عزت
دبیر مرثیہ کے اس شعرمیں ارشاد فرماتے ہیں کہ میدان ِ کربلا میں جب یزیدوں نے امام حسین علیہ السلام کی پانی کی رسد دریائے فرات پر پہرہ بچھاکر بند کردی تو نواسا رسول ﷺ یعنی امام حسین علیہ السلام قدم قدم پر سوچنے لگے کہ میں فوجِ عمر کو ساتھ لئے ہوں مگر دوسری طرف عمر کے سوالات کے کیا جوابات عنائت کروں گا
نے مانگنا ہی آتا ہے مجھ کو نہ التجا
منت بھی گر کروں گا تو کیا دیں گے وہ بھلا
دبیرؔاس شعر میں ارشادفرماتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام نے جب پانی مانگنا چاہا توامام حسین علیہ السلام یہ سوچنے لگا کہ اگر میں یزیدیوں سے پانی علی اصغر رضی اللہ تعالی کے لیے مانگو تو کس طرح۔ کیوں کہ میرا ضمیر اجازت نہیں دیتا کہ غیروں اور ظالموں سے فریاد کروں اگر مانگا بھی جائے تو کیا یزیدی پانی دےدیں گے
پانی کے واسطے نہ سنیں گے عدو مری
پیاسے کی جان جائے گی اورآبرومری
آبرو :-عزت، مری : - میری
دبیر ؔ فرماتے ہیں امام حسین علیہ السلام کہتےہیں کہ ہماری فریاد پر یزیدی پانی نہیں دے گے اور پھر پانی نہ ملنے کی وجہ سے ، پیاس کی شدت سے علی اصغر رضی اللہ تعالی عنہ کی جان چلی جائیں گی اور میر ی عزت بھی خاک میں مل جائیں گی
پہنچے قریب فوج تو گھبر ا کے رہ گئے
چاہا کریں سوال پہ شرما کے رہ گئے
دبیرارشاد فرماتے ہیں جب امام حسین علیہ السلام نے دل بنا لیا کہ یزیدوں سے شیر خوار بچے کے لئے پانی مانگ لیا جائے تو اسی اثنا میں یزیدی فوج قریب پہنچ جاتی ہے اور امام حسین علیہ السلام سوچتے ہی رہ جاتے ہیں
غیرت سے رنگ فق ہوا تھرا کے رہ گئے
چادر پسر کےچہرے سے سرکا کے رہ گئے
فق :- خوف یاحیرت سے چہرے کی رنگت سفید پڑجانا ، پسر:- بیٹا
دبیر ؔ کہتے ہیں جب امام حسین علیہ السلام پانی مانگنے کےلیےآگے بڑھنے لگے تو کمال کی غیرت اور حوصلہ بندی کی وجہ سے پانی کی فریاد نہ کرسکے جب اپنے بیٹے علی اصغر رضی اللہ تعالی عنہ کے چہرے سےپردہ اُٹھایا تو پیاس سے نڈھال بچے کو دیکھ کر دیکھتے ہی رہ گئے 
آنکھیں جھکا کے بولے کہ یہ ہم کو لائے ہیں
اصغر تمہارے پاس غرض لے کے آئے ہیں
اس شعر میں دبیر کہتے ہیں کہ جب امام حسین علیہ السلام کو یزیدی فوج کے پاس پانی مانگنے کے لئے جانا پڑا مگراے یزیدیوں یہ کیا آپ ہمارے نانا جان کا کلمہ پڑھنے والے ہو اورہمیں دعوت دے کر یہاں بلایا اور اوپر سے یہ ظلم ستم ڈھائے میر ی آنکھیں شرم کے مارےجھک رہی ہیں آپ کے اس وطیرے سے اور ہمیں اپنے بچے کے لئے پانی مانگنے کےلئے تم سے فریاد کرنےپڑتی ہے
گر میں بقول عمر و شمر ہوں گناہ گار
یہ تو نہیں کسی کے بھی آگے قصور وار
دبیرؔ اس شعر میں امام حسین علیہ السلام اپنی عاجزی اور بڑھے پن کا اظہار کر تے ہیں کہ اے یزیدی فوج کے سرداروں عمروشمراگرچہ میں علیہ السلام آپ کے مطابق خطا کار ہوں مگر تم میرے نانا جان کا کلمہ پڑھنے والے ہو تمہیں بھی کل روز قیامت ان باتوں کا جواب دینا ہوگا 
شش ماہ بے زبان نبی زادہ شیر خوار
ہفتم سے سب کے ساتھ یہ پیاسا ہے بے قرار
شش ماہ :- چھ مہینے ہفتم :- سات دن ، ہفتہ
دبیر ؔ اس شعر میں فرماتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام عرض گذار ہوئے حضرت علی اصغر رضی اللہ تعالیٰ عنہ میرا بچہ صرف چھ مہینوں کا ہے یہ بچہ نبی زادہ ہے ابھی بولنے کی صلاحیت پیدا نہیں ہوئی اور یہی بچہ ایک ہفتہ سے پیاسا ہےاے یزیدیوں اس بچہ کی کیا خطا ہے
سن ہے جو کم تو پیاس کا صدمہ زیادہ ہے
مظلوم خود ہے اور یہ مظلوم زادہ ہے
صدمہ :- غم ، پریشانی
دبیرؔ اس مرثیہ کے شعر میں کہتے ہیں کہ امام فرماتے ہیں کہ میر ی آل یہاں کربلا کے میدان میں زبردست غم وپریشانی کے عالم میں مبتلا ہے یہاں اس کربلا کے میدان  میں ہم سب آل رسول ﷺ کے افرادہر چھوٹا بڑا مظلوم بن چکے ہیں
یہ کون بے زباں ہے تمہیں کچھ خیال ہے
در نجف ہے بانوے بے کس کا لال ہے
در:موتی،نجف: عراق کےایک شہر کا نام جہاں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا آستانہ ہے ، بانو: بیگم ، شہزادی
دبیر کہتے ہیں کہ علی اصغر ایک چھوٹا سا بچہ ہےابھی بولنےکی صلاحیت پیدا نہیں ہوئی اور اس بچے کی مثال شہر نجف کے موتی جیسے ہے اور یہ بچہ ہمار لال ہے
لو مان لو تمہیں قسم ذوالجلال ہے 
یثرب کے شاہ زادے کا پہلا سوال ہے
ذوالجلال : اللہ کا ایک صفاتی نام ،یثرب :-مدینہ پاک کا پرانا نام
اس شعر میں امام یزیدیوں سے فرماتے ہیں کہ اے یزیدیوں اس معصوم یثرب کے شہزادے کے لئے پانی دے دوں تم کو اللہ تعالی پاک کی قسم ہے اس معصوم بچے پر پانی بند کر کے ظلم نہ کروں
پوتا علی کا تم سے طلب گار آب ہے
دے دو کہ اس میں نام وری ہے ثواب ہے
نام وری :- شہرت ۔مقبولیت
دبیر ؔ کہتے ہیں جب امام علیہ السلام نےیزیدیوں سے کہا تمہیں تم سے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے لئے پانی مانگا جارہا ہےتم اگر دے دوں گے تو تمہیں اس کام کے عوظ بڑا ثواب ملے گا
پھر ہونٹ بے زبان کے چومے جھکاکے سر
رو کر کہا جو کہنا تھا وہ کہہ چکا پدر
پدر:-باپ، پتا ،والد
دبیرؔ کہتے ہیں جب اما م علیہ السلام نے یزیدیوں سے پانی مانگا اور انھوں نے پانی دینے سے انکا ر کیا تواس کے بعد امام نے اپنا سر جھاکر اپنے بچوں کے ہونٹو ں کو چوم کر کہا کہ تمہارے باپ نے یزیدیوں سے التجا بھی کی تھی مگر انھوں نے نہیں مانی
باقی رہی نہ کوئی بات اے مرے جگر
سوکھی زبان تم بھی دکھا دونکال کر
اس شعر میں دبیرؔ کہتے ہیں کہ جب یزیدیوں نے پانی دینے سے انکا ر کیا اب امام کہتے ہیں کہ اے میرے لخت جگر بچے اب فریا د کرنےکی کیا بات رہ گئی اے میرے لخت جگر ذرا اپنی زبانیں اپنے باپ کو دکھا دے تاکہ دیکھ لو زبانیں کتنی خشک ہوگئی
پھیری زباں لبوں پہ جو اس نورِعین نے
تھرا کے آسمان کو دیکھا حسیں نے
اس شعر میں دبیر ؔ میدان کربلا کا منظر پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جب امام کے بچے نے اپنے پیاسے ہونٹوں پراپنی زبان پھیر ی تو اس کیفیت سے زمین سے دور آسمان بھی خوف اور لرز نے لگا
سوال: حضرت امام علیہ السلام نے یزیدی فوج سے کیا سوال کیا ؟
جواب:حضرت امام علیہ السلام نے یزیدی فوج سے پانی مانگنے کا سوال کیا تھا
سوال:-اس مرثیہ حضرت علی اصغررضی اللہ تعالی عنہ کے لئے پانی مانگنا کا خلاصہ لکھیے
جواب:-کربلا کے میدان میں جب یزیدی فوجیوں نے فرات پر پہرہ بٹھایااور امام حسین علیہ السلام کی آل اور دیگر ساتھیوں کے لئے پانی بند کیا یہاں تک ایک چھوٹے بچے علی اصغر رضی اللہ تعالی عنہ جس کی عمر صر ف چھ ماہ کی تھی اس کو بھی یزیدیوں نے پانی دینے سے انکار کیااس مزکورہ مرثیہ میں اسی دردناک واقعے کا بیان ہےامام حسین علیہ السلام اپنے ایک چھوٹے بچے علی اصغر رضی اللہ تعالی عنہ کے لئے پانی مانگنا چاہتا ہے تو امام کے دل میں کئی سوال پیدا ہوجاتے ہر قدم پر اما م سوچتے ہیں کہ کس طرح یزیدیوں سے پانی مانگا جائے اما م کہتے ہیں مجھے تو دست سوال کرنا غیروں کے سامنے نہیں آتایہ دشمنان اسلام کیا جانے ہم کیا ہے جب اما م آگے بڑھتا ہے پانی مانگنے کے لئے تو شرم کے مارے سرجھک جاتا ہے اور آپ امام علیہ السلام زمیں پر نیچے گر جاتے ہیں امام کہتے ہیں ہم تو خطاکار نہیں پھر بھی ہمیں ان گناہگارشمر و یزید ی فوجیوں کے پاس جانا پڑتا ہےاے شمر تمہیں معلوم ہے کہ تم کتنا بڑا گناہ کرنے جارہے ہواے گنا ہ گاروں اگر تم ہمارے لخت جگروں کے لیےپانی دے دوں گے تو اس میں تم لوگوں کے لئے بڑا ثواب ہےامام علی اصغر کے پیاسےہونٹ چومتا ہے تاکہ بچے کو کچھ تسلی ہوجائے غرض یزیدی بڑے ظالم تھے کہ ایک ننھے بچےکو بھی پانی دینے سے انکار کر دیا
سوال: سیاق وسناق اور شاعر کا حوالے دےکر اس بند کی تشریح کیجئے؟
جواب:یہ کون بے زباں ہے تمہیں کچھ خیال ہے
در نجف ہے بانوے بے کس کا لال ہے
در:موتی ،نجف:عراق کےایک شہرکا نام جہاں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا آستانہ ہے ، بانو: بیگم، شہزادی
دبیر کہتے ہیں کہ علی اصغر ایک چھوٹا سا بچہ ہےابھی بولنےکی صلاحیت پیدا نہیں ہوئی اور اس بچے کی مثال شہر نجف کے موتی جیسے ہے اور یہ بچہ ہمار لال ہے
لو مان لو تمہیں قسم ذوالجلال ہے 
یثرب کے شاہ زادے کا پہلا سوال ہے
ذوالجلال :- اللہ کا ایک صفاتی نام ،یثرب :-مدینہ پاک کا پرانا نام
اس شعر میں امام یزیدیوں سےفرماتے ہیں کہ اے یزیدیوں اس معصوم یثرب کے شہزادے کے لئے پانی دے دوں تم کو اللہ تعالی پاک کی قسم ہے اس معصوم بچے پر پانی بند کر کے ظلم نہ کروں
پوتا علی کا تم سے طلب گار آب ہے
دے دو کہ اس میں نام وری ہے ثواب ہے
نام وری: شہرت مقبولیت
دبیر ؔ کہتے ہیں جب امام علیہ السلام نےیزیدیوں سے کہا تمہیں تم سے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے لئے پانی مانگا جارہا ہےتم اگر دے دوں گے تو تمہیں اس کام پر بڑا ثواب ملے گا
(21) مفلسی۔۔۔بظیرؔ اکبر آبادی
 نظم کسے کہتےہیں وضاحت کیجیے؟
جواب-یوں تو ہر کلام موزوں کو نظم کہا جا سکتا ہے لغت میں نظم کے معنی ترتیب دینا یا موتی پرونا کے ہیں لیکن عام اصطلاح میں نظم سے مراد وہ شعری اصناف اور اسالیب ہیں جن میں کسی موضوع پر ربط وتسلسل کے ساتھ اظہار خیال کیا گیا ہواس اعتبار سے غزل کے علاوہ شاعری کی بیشتر اصناف اس کے دائرے میں آجاتی ہیں نظم میں اشعار موضوع اورخیال کے اعتبار سے ایک دوسرے سے پیوست ہوتے ہیں اس کے موضوعات لا محدوداورشکلیں بے شمار ہیں ہیئت کےاعتبارسے زمانے قدیم سے ہی نظم کے کچھ مخصوص اسالیب کا رواج رہا ہے اور ان کی پابندی ہر شاعر پر لازم تھی نئے خیالات پیدا ہونے سے نظم کے مخصوص اسالیب میں تبدیلی کی ضرورت محسوس ہونے لگی اور نئے نئے موضوعات پرنظمیں لکھی گئیں اس طرح جدید نظم کا آغازہواجدید نظم تین حصوں میں منقسم ہوچکی ہےجو نظم ہیئت کے اعتبار سے روایتی اورموضوع کے لحاظ سے جدید ہواسے پابند نظم کہتے ہیں ایسی نظم جو مصرعوں کے لحاظ سے برابرہومگراس میں قافیہ نہ ہو نظم کونظم معرا کہتے ہیں اور نظم کی ایسی قسم جس میں نہ قافیے کی پابند ی کی جاتی ہے اور نہ بحر کے استعمال میں مروجہ اصولوں کی پابندی کی جاتی ہے مگر وزن کا خیال رکھا جاتا ہے آزاد نظم کہلاتی ہے
اردو نظم کا آغاز جدید دور سے ہی ہوا حالانکہ اس دور سے پہلے ہی نظیر اکبر آبادی نے نظمیں لکھیں تھی جو تقریبا زندگی کے تما م موضوعات پر تھی حالی ؔ اور آزاد نے نظم کو محدود موضوعات سے نکال کر نئے موضوعات سے ہمکنار کیا انیسویں صدی کے آخر سے اردو نظم میں ہیئت کے نئے تجربات کئے گئے 1917 کے انقلاب روس کے بعد نیا شعوراور نئے تصورات ابھرے اور نظم ہر طرح کے فکری مسائل اور سماجی تجربات کو پیش کرنے میں کامیاب ہوئی اردو نظم کے چند مشہو ر شاعروں میں جوشؔ ، دانشؔ ، مجاز ؔ ، فیض وغیرہ قابل ذکر ہیں
سوال : نظیر ؔ اکبر آبادی کی حیا ت اور شاعر ی پر نوٹ لکھیے؟
جواب حالات ِ زندگی :-
اردو نظم کو نئے موضوعات سے آراستہ کرنے والے شاعرنظیر اکبرآبادی تھےآپ کا اصلی نام ولی محمدتھا اور آپ کا تخلص نظیرؔ تھا آپ کی پیدائش دہلی میں 1724ٰء میں ہوئی آپکے والد صاحب کا نام محمد فاروق تھا آپ اپنے باپ کے اکلوتے بیٹے تھے آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم محمد کاظم اور ملا ولی سے حاصل کی فارسی اور عربی زبانوں میں اچھی مہارت حاصل کیں۔ لیکن جب احمد شاہ ابدانی نے دہلی پر زبردست حملے کئے تو آپ دہلی کو چھوڑ کر آگرہ میں اکبر آباد میں قیام حاصل کیا یہاں کی آب و ہوا اتنی پسند آئی کی نظیرؔ آبادی کے نام سے خود کو مشہور کرنے لگے آکبر آباد میں آپ کو پہل زندگی مشکلات میں گذر گئی۔یہاں مدرسی کا پیشہ اختیا ر کیا جس سے کچھ مالی حالت بہتر ہوگئی۔عام عوام کے نزدیک رہنا پسند کرتے تھے عوامی رنگ رلیوں اور تہواروں میں جانا بہت پسند تھا شطرنج ،پتنگ بازی، اور پہوانی سے بھی آپ کو لگاو تھا آ پ ایک خوش باش اور ایک زندہ دل انسا ن تھے آپ نے ایک طویل عمر پائی ۔ زندگی کے آخری ایام میں فالج کا شکا ر ہوگئے او ر پھر اسی حال میں 1830ء میں آکبر آباد میں اللہ کو پیارے ہوگے
شاعری💬-
آپ نےشاعری میں عام روش سے ہٹ کر مختلف چیزوں کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا لوگوں نے آپ کو بازاری شاعر کہہ کر نظراندازکیالیکن دھیرےدھیرے اردو شاعری میں نئے موضوعات ، اور نئے معیا ر قائم کر کے آگے بڑھتے لگے اور رفتہ رفتہ لوگوں میں آپ کو شہرت بڑھتی گئی آپ کا بیان نیچرل اور دلچسپ ہے تصنع اوربناوٹ آپ کے کلام میں نہیں ہے
آپ کی شاعری میں ہندوستان کی زندگی ،تہذیب اورروایات کا رنگ خوب خوب جھلکتا ہےآپ نے غزلیں بھی کہی لیکن نظم میں ہی آپ کا فن نکھر کر آیا ہےآ پ کی  میں آدمی نامہ ،مفلسی، روٹی نامہ اورمکافات وغیرہ مشہور ہیں
مفلسی
جب آدمی کے حال پہ آتی ہے مفلسی
کس کس طرح سے اس کو ستاتی ہے مفلسی
پیاسا تمام روز بٹھاتی ہے مفلسی
بھوکا تمام رات سلاتی ہے مفلسی
یہ دکھ وہ جانے جس پہ کہ آتی ہے مفلسی
مفلسی :-غریبی
یہ نظم کا پہلا بند نظیراکبر آبادی کی ایک مشہو ر نظم "مفلسی " سے نکالا گیا ہے اس بند میں شاعرایک مفلس انسان کی حالت بیان کرتا ہے جب ایک انسان غریبی یا مفلسی میں گرفتار ہوجاتاہے تو یہ مفلسی انسان کو دن ورات بھوکا و پیاسا رکھتی ہے مفلس انسان ہی مفلسی کے درد وغم جانتا ہےخوشحال لوگ اس سے بے خبر رہتے ہیں
مفلس کی کچھ نظر نہیں رہتی ہے آن پر
دیتا ہے اپنی جان وہ ایک ایک نان پر
ہر آن ٹوٹ پڑتا ہے روٹی کے خوان پر
جس طرح کتے ٹوٹتے ہیں استخوان پر
ویسا ہی مفلسوں کو لڑاتی ہے مفلسی
آن: - شان وشوکت، لمحہ : ساعت ، نان: - روٹی ، خوان:-تھال ۔دسترخوان ،استخوان :ہڈی
نظم کے اس بند میں نظیر ؔاکبر آبادی مفلس انسان کی حالت بیا ن کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مفلس انسان کی کوئی شان سماج میں باقی نہیں رہتی ہے دو وقت کی روٹی کو پانے کے لئے اسے زبردست محنت کرنی پڑتی ہے مفلس انسان کو جب بھوک لگتی ہے اور وہ کئی دنوں کا بھوکا پیاسا ہونے کی وجہ سے جب اسے روٹی کھانے کو مل جاتی ہے و ہ روٹی پر اس طرح ٹوٹ پڑتا ہے جیسے کتے ہڈیوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں یہ حالت انسان کی مفلسی کی وجہ سے ہی ہوتی ہے
کیسا ہی آدمی ہو پر افلاس کے طفیل
کوئی گدھا کہے اسے ٹھہرا دے کوئی بیل
کپڑے پھٹے تمام بڑے بال پھیل پھیل
منہ خشک دانت زرد ندن پر جما ہے میل
سب شکل قیدیوں کی بناتی ہے مفلسی
افلاس :-غریبی ۔غربت ،طفیل :- ذریعہ ۔بدولت
نظیر اکبر آبادی نظم کے اس بند میں مفلسی کے بارے میں بیان کرتےہوئے مزید فرماتےہیں کہ ایک انسان کا اخلاق ، کردارکتنا ہی بلند کیوں نہ ہو مفلسی کی وجہ سے اسے کوئی گدھا،تو کوئی بیل کہتا ہے مفلس انسان کے کپڑے پرانے اور پھٹے ہوئے ہوتے ہیں اس کا منہ خشک ،دانت زرد اور جسم پر میل جما ہوا ہوتا ہےغرض ایک مفلس انسان کی حالت مفلسی کی وجہ سے قیدیوں جیسی ہوجاتی ہے
دُنیا میں لے شاہ سے اے یارو تا فقیر
خالق نہ مفلسی میں کسی کو کرے اسیر
اشرف کو بناتی ہے اک آن میں فقیر
کیا کیا میں مفلسی کو خرابی کہوں نظیرؔ 
وہ جانے جس کے دل کو جلاتی ہےمفلسی
خالق :-پیدا کرنے والا،اسیر:- قیدی، اشراف:-شریف کی جمع ۔عزت دار لوگ ۔مہذب ،دل جلانا :- سخت ۔رنج دینا
نظم کے اس آخری بند میں نظیر اکبر آبادی مفلسی کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں اور اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ اے میرے اللہ بادشاہ سے لیکر فقیر انسان تک کسی کو مفلسی میں مبتلا نہ کرنا کیوں کہ اے اللہ یہ مفلسی شریف انسان کو ایک لمحے میں فقیر بنادیتی ہے اے اللہ میں مفلسی کی کیا کیا خرابیاں بیان کروں اس مفلسی کی کیفیت وہی لوگ جاتے ہیں جن کو اس مفلسی کی ہوا لگ چکی ہے
3۔سوالات
1۔ مفلسی آدمی کو کس کس طرح سے ستاتی ہے ؟
جواب:۔مفلسی آدمی کو ہر طرح سے ستاتی ہےمفلس انسان کو دن ورات بھوکا پیاسا رہنا پڑتا ہے اسے پرانے اورپھٹے کپڑے پہنے پڑتے ہیں لوگ اسے مفلسی کی وجہ سے کوئی بیل وغیرہ برے القاب سے پکارتے ہیں غرض مفلسی انسان کو ہر طرح سے ستاتی ہے
2.۔ مفلس کو ہر وقت کس چیز کی فکر رہتی ہے ؟
جواب : - مفلسی میں مفلس انسان کو ہر وقت صرف اور صرف دو وقت کی روٹی کی فکر رہتی ہے
3۔ اس بند کی تشریح کیجئے 
کیسا ہی آدمی ہو پر افلاس کے طفیل
کوئی گدھا کہے اسے ٹھہرا دے کوئی بیل
کپڑے پھٹے تمام بڑے بال پھیل پھیل
منہ خشک دانت زرد ندن پر جما ہے میل
سب شکل قیدیوں کی بناتی ہے مفلسی
افلاس: -غریبی ۔غربت، طفیل :- ذریعہ ۔بدولت
نظیر اکبر آبادی نظم کے اس بند میں مفلسی کے بارے میں بیان کرتےہوئے مزید فرماتےہیں کہ ایک انسان کا اخلاق ، کردارکتنا ہی بلند کیوں نہ ہو مفلسی کی وجہ سے اسے کوئی گدھا،تو کوئی بیل کہتا ہے مفلس انسان کے کپڑے پرانے اور پھٹے ہوئے ہوتے ہیں اس کا منہ خشک ،دانت زرد اور جسم پر میل جما ہوا ہوتا ہےغرض ایک مفلس انسان کی حالت مفلسی کی وجہ سے قیدیوں جیسی ہوجاتی ہے
4۔ محاورہ کسے ہیں؟
جواب : - لغت میں محاورہ کے معنی بات چیت کے ہیں مگر قواعد میں دو یا دو سے زیادہ الفاظ کا وہ مجموعہ جو اپنے حقیقی معنی کے بجائےمجازی معنی دے محاورہ کہلاتا ہے مثلاََ دل جلانا
" دل " اسم ہے اور "جلانا" مصدر ، ان دونوں الفاظ کو ملا کر" دل جلانا " محاورہ وجود میں آیا جس کے معنی " سخت رنج دینا " ہے حالانکہ دونوں لفظوں کے لغوی معنی بالکل الگ ہیں
اب درج ذیل محاوروں کو اس طرح جملوں میں استعمال کریں کہ معنی خود بخودواضح  ہوجائے مثلاََ دل جلانا ،
چھاتی پر مونگ دلنا ،
جان پر کھیلنا ، 
نظر لگنا
جواب:- دل جلانا : -( سخت رنج دینا) اس خبر سے ہمارا دل جلنے لگا ہے
چھاتی پر مونگ دَلنا:-( عذاب دینا ، سزا دیناٗ) احمد نے اپنے دشمن کی چھاتی پر مونگ دلنا شروع کیا
جان پر کھیلنا:( ایسا کام کرنا جس میں جان جانے کا خطرہ ہو) بشیر نے جان پر کھیل کر رشید کو دریا میں ڈوبنے سے بچا لیا
نظر لگنا:( بُری نظر کا اثر ہوجانا،بھوت پریت کا سایہ ہونا) بچوں کو رات کے وقت باہر گھومنا نہیں چاہیے اس سے نظر لگ جاتی ہے
5۔ اس نظ کا خلاصہ  اپنے الفاظ میں لکھیے؟
جواب:- یہ نظم "مفلسی" نظیر اکبر آبادی کی قلم کی نوک سے جنم پائی ہے اس نظم میں نظیر نے مفلسی کی کئی برائیوں کا تذکرہ کیا ہے فرماتے ہیں کہ جب مفلسی ایک انسان کو آجاتی ہے وہ اسے ہر طرح سے دکھ دیتی ہے وہ تمام دن ورات بھوکا پیاسا رہتا ہے اسے ہر پل دووقت کی روٹی کی فکر ستاتی رہتی ہے اور روٹی کو پانے کے لئےاس کو ہزاروں جتن کرنے پڑتےہیں کبھی اسے ایک وفادار کتے کی طرح کسی امیر شخص کے تلوے چانٹنے پڑتے ہیں ایک مفلس انسان کو جب کوئی چیز کھانے کو مل جاتی ہے تو وہ اُس خوان پر ایک بھوکے کتے کی مانند روٹی پر ٹوٹ پڑتا ہے جس سے اس کی شرافت مٹی میں مل جاتی ہے مفلسی کی وجہ سے اسے ہزاروں تانے سننے پڑتے ہیں کوئی اس گدھا ، تو کوئی اسے بیل کے بُرےالقابو ں سے پکاتا ہے مفلسی کی وجہ سے اسے پرانے اور پھٹے کپڑنے پہنے پڑتے ہیں اس کی حالت دنیا میں آزاد رہ کر بھی ایک قیدی جیسے ہوجاتی ہے بال بکھرے بکھرے رہتے ہیں دانت زرداورجسم پر ہمیشہ میل جمارہتا ہےشاعر آخر پر مفلسی کی برائیوں کو گنواکر اللہ سے دعا کرتا ہے کہ اے اللہ اس دنیا میں کسی کو مفلس نہ بنادینا کیوں کہ اس سے ایک بھلے بھالےکی انسان کی شبی بگڑجاتی ہے اور وہ غم والم میں مبتلاہوجاتا ہے اسےمشکل سے دووقت کی روٹی کا انتظام ہوپاتا ہے
(22)رامائن کا ایک سین۔۔برج نرائن چکبستؔ



سوال: چکبست ؔ کی حالاتِ زندگی اورشاعری پر ایک نوٹ لکھیے ؟
جواب: چکبست ؔ کی پیدائش فیض آباد لکھنو میں 1882ء میں ہوئی آپ کا پورا نام پنڈت برج نرائن اورخاندانی لقب چکبست تھاآ پ کے والد گرامی کا اسمی گرامی اودت نرائن تھا وہ بھی ایک شاعر تھے ابتدائی تعلیم لکھنو میں ہی حاصل کی 1905 ء میں ایک مقامی کالج سے بے اے کی ڈگری حاصل کر کے وکالت کا پیشہ اختیارکیا12 فروری1926ء میں ایک مقدمے کے سلسلے میں رائے بریلی آنا پڑا واپسی کے وقت ریلوے اسٹیشن پر دماغ پر فالج گرا اور اسی جگہ پر آپ کا انتقال 1926ء میں ہوا
شاعری :-
چکبست کو ابتدا سے ہی شعر گوئی کی طرف رجحان تھا صرف نو برس کی عمر میں اپنی ایک غزل لکھ ڈالی-اتفاقاََ جس دور میں آپ نے اپنی آنکھیں کھولی لکھنو میں ہر طرف شاعری کی بہاریں پھیلی ہوئی تھیں آپ نےہر شاعر کا اثر قبول کیا خصوصاََ میر انیس آپ کو زیادہ با گئے آپ کی اکثر نظمیں صاف ،سادہ اور آسان زبان میں ہیں غزلوں میں الفاظ کی بندش اورترکیب دیکھنے کے قابل ہے آپ ایک فطری شاعر تھےآپ کا بڑا کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے اپنے دور کے سیاسی ،سماجی ، اور مذہبی خیالات وجذبات کو اپنی شاعری میں جگہ دی آپ نے بڑی عمدہ قومی، اصلاحی اورتاریخی نظمیں کہی ہیں آپ کا مجموعہ کلام" صبحِ وطن" کے نام کے ساتھ شائع ہوا
رام چند جی ماں سے رخصت لیتے ہوئے
کیا جانے کس خیال میں گم تھی وہ بے گناہ
نورنظر پہ دیدہ حسر ت کی نگاہ
جنبش ہوئی لبوں کو بھری ایک سرد آہ
لی گوشہ ہائے چشم سے اشکوں نے رخ کی راہ
چہرے کا رنگ حالت ِ دل کھولنے لگا
ہرموئے تن زباں کی طرح بولنے لگ
نورنظر:- بیٹا، دید:- نظر، حسرت :- ارمان، گوشہ ہائے چشم :- آنکھ کے کونے، اشک : - آنسو ، جنبش :- حرکت، لب: -ہونٹ
یہ نظم کا پہلا بند چکبست کی ایک خوبصورت نظم " رام چند ر جی ماں سے رخصت لیتے ہوئے" سےنکالا گیا ہے اس بند میں چکبست شری رام جی بن باس جانے کی تیاری کرتا ہے اور ماں پر کیا کیفیت بیتی ہے اس کو بیان کرتاہے کہتے ہیں نہ جانے رام جی کی ماں کس حال میں کھوئی ہوئی تھی اُس نے اپنی حسرت بھری نظروں سے اپنے بیٹے کی طرف نظر دوڑائی اپنےہونٹوں کو حرکت دے کر ایک سرد آہ بھر دی اور آنکھوں سے آنسووں کی چھڑی جاری ہوگی چہرے سے ہی ماں کی دل کی حالت بیان ہوتی تھی اورجسم کاہرانگ وبال ماں کی پریشانی کا حال بیان کرتا تھا
آخراسیر یاس کا قفل دہن کھلا
وا تھا دہان ِ زخم کہ باب سخن کھلا
اک دفتر مظالم چرخ کہن کھلا
افسانہ شداید رنج وسخن کھلا
درد دل غریب جو صرف بیاں ہوا
خون جگر کا رنگ سخن سےعیاں ہوا
اسیر:- قیدی، یاس :- مایوسی، قُفل:- تالا، دہن:- منہ ، وا:- کھلا ہوا ،باب :- دروازہ ، سخن: - بات، چرخ کہن :- چرخ سے مراد آسمان اور کہن سےمراد پرانا ، شدائد :- سختیاں ، عیان :- ظاہر، رنج :-غم
رام چندر جی کی ماں کی زبان بولنے لگی تو اپنے بیٹے پر ہونے والی ظلم وزیادتیاں بیان ہونے لگی آسمان کے ڈھائے ہوئے ظلم بھی بیان ہونے لگے ہر ہرے زخموں سے درووغم کا ذکرہونے لگادل پرجو کیفیت طاری ہوئی تھی وہ بھی بیان ہونےلگی ماں کی باتوں سے خون جگر کا رنگ صاف صاف ظاہرہونے لگا
سُن کر زبان سے ماں کی فریاد درد خیز
اس خستہ جاں کے دل پہ چلی غم کی تیغ تیز
عالم یہ تھا قریب کہ آنکھیں ہوں اشک ریز
لیکن ہزار ضبط سےرونے سےکی گریز
سو چا یہی کہ جان سے بے کس گزر نہ جائے
ناشاد ہم کو دیکھ کےماں اور مرنہ جائے
دررخیز: - تکلیف دینے والا، خستہ: - خراب، تیغ :- شمشیر: تلوار، اشک ریز: - آنسو بہاتی ہوئی ، ضبط :- قابو، گریز: - پرہیز،علٰیحدگی
نظم کے اس بند میں چکبستؔ ارشادفرماتے ہیں کہ جب شری چندرکی ماں کی آہ و زاری سنی توشری رام چندرجی نےعمدہ صبر کا مظاہرہ کر کے بڑی مشکل سے اپنے آنسووں کو روک لیارام چندر جی نے سوچا اگرمیں نے صبر سے کام نہ لیا تو میر ی ماں اور روئے گی اور وہ رو رو کے مر جائے گی
کہتے تھے لوگ دیکھ کے ماں باپ کا ملال
ان بے کسوں کی جان کا بچنا ہے اب محال
ہے کبریا کی شان گزرتے ہی ماہ و سال
خود دل سے درد ہجر کا کٹتا گیا خیال
ہاں کچھ دنوں تو نوحہ ماتم ہوا کیا
آخر کو روکے بیٹھ گئے اور کیا کیا
ملال:-افسوس ،بے کس :-بے یارو۔مدرگار،محال :- مشکل ،کبریا:-بزرگی اللہ تعالیٰ کا ایک صفاتی نام ، ہجر-جدائی ، نوحہ:-گریہ وزاری
چکبستؔ اس بند میں کہتے ہیں کہ جب لوگوں نے رام چندر جی کی والدین کی حالت دیکھی تو کہنے لگے ا ب رام جی کےماں باپ کابچنا مشکل ہے مگر بھگوان کا کرم یہ ہے دن ، ہفتے ، مہینے اورسال گذرجائیں گے اور جدائی کے یہ لمحات بھی رفتہ رفتہ کم ہوجائیں گے ہاں یہ قدرتی بات ہے رام کے ماں باپ چند ایام رونا دھونا کرے گے پھر خود ہی سنبھل جائے گے
اکثرریاض کرتے ہیں پھولوں پی باغباں
ہے دن کو دھوپ رات کو شبنم انہیں گراں
لیکن جو رنگ باغ بدلتا ہے ناگہاں
وہ گل ہزاورں پر دوں میں جاتے ہیں رائیگاں
رکھتے تھے جو عزیز انہیں جاں کی طرح
ملتے ہیں دست یاس وہ برگ خزاں کی طرح
ریاض: - محنت ۔بہت سے باغ ، گراں :- بھاری، ناگہاں: - اچانک،عزیز- پیارا ، دست :ہاتھ ، یاس: - مایوسی، برگ خزاں:- موسم خزاں میں گرنے والے پتے ، رائیگاں:- ضائع
اپنی نگاہ ہے کرم کار ساز پر
صحراچمن بنے گا وہ ہے مہر باں
جنگل ہو یا پہاڑ سفر ہو کہ ہر حضر
رہنا نہیں وہ حال سے بندوں کےبے خبر
اس کا کرم شریک اگر ہے تو غم نہیں
دامانِ دشت دامنِ مادر سے کم نہیں 
نگاہ :- نظر، کرم :- مہر بانی، کارساز: -کام بنانے والا، صحرا:- ویران، حضر: - پڑاو،دامانِ:- دامن ،دشت: - جنگل، مادر:- ماں
چکبست ؔ اس آخری بند میں ارشاد فرماتے ہیں کہ رام چندر جی اپنی ماں سے فرماتے ہیں کہ اے میری ماں میر ا بھروسہ کائنات کے بنانے والے پر ہے اگر وہ ساتھ رہے تو ویران بھی گلزار بن جائے گا انسان کا خالق انسان کے ہر حال سے واقف رہتا ہے چاہے جنگل ہوپہاڑہو،سفر ہو یا کسی اور پڑاو میں انسان رہے خدا ہر حال میں ایک انسان کے حال سے باخبر رہتا ہے اگر خدا، بھگوان ساتھ رہے تو کوئی غم بھی کوئی غم نہیں رہتا پھر چاہے آپ جنگل کے میں رہے یا پھر ماں کی ممتا کی چھاوں میں کوئی فکر دامن گیر نہیں رہتی
درسی سوالات
3۔سوالات
1۔ رام چند جی کو دیکھکر اسکی ماں کیوں رانے لگی ؟
جواب:-رام چندر کی ما ں اس بات پر رونے لگی جب رام جی کو بن باس جانے کاحکم ملا اُس کی ماں یہ جانتی تھی کہ اب اُس کا بیٹا چودہ سال تک جنگل میں رہے گا اور اسے اب بیٹے کی جدائی برداشت کرنا پڑے گی
2۔رام چندر جی نے ماں کا حال دیکھ کر آنسو کیوں روک لیے؟
جواب :- رام چندرنے اپنے آنسوں اسی لئے روک لیے وہ جانتا تھا اگر وہ بھی رونے لگے گا تو اُس کی ماں اور زیادہ پریشان ہوجائے گی کیوں اُس کی ماں پہلے سے بہت زیادہ دکھی و پریشان حال ہوچکی ہے
3۔ چکبست کی اس نظم کا خلاصہ لکھیے؟ 
جواب :" رام چندرجی ماں سے رخصت لیتے ہوئے " چکبست کی ایک لکھی ہوئی نظم ہے اس نظم میں چکبست رام جی اور اُس کی ماں کا وہ حال بیان کرتا ہے جب رام چندر جی کو بن باس چودہ برس جانے کا فرمان صادر ہوا تھا اور چکبست وہی حال بیان کرتا ہے کہ رام چندر جی اور اس کی ماں پرکیا کیفیت طاری ہوگی تھی چکبست کہتے ہیں جب رام جی ماں سے رخصت لے رہا تھا تو ماں صرف افسو س ک سدائیں بلند کر رہی تھی ما ں کی آنکھیں حسرتوں سے بھری تھی دل غم سے بھر ا تھا چہرے پر ماتم کے نشان تھے جسم لرزے سے تھرا رہا تھا رام چندر جی ماں کی حالت دیکھ کرکافی صدمے میں پڑ گے مگر کمال ہمت کر کے اپنے آنسووں کو بہنے نہ دیا یہ سمجھ کر کہ اگر میں رونے لگا تو ماں کو اور برا حال ہوجائے گا لوگ بھی رام چندر کی ماں کی حال دیکھ کر کہنے لگے کہ اب رام جی کی ماں بیٹے کی جدائی میں مرجائےگی مگر دنیا کا یہ دستور رہا کے جس طرح باغبان پھولوں کی دیکھ کرتا ہے ہاں ان پھولوں کے لئے دھوپ او شبنم کے قطرے بھی ضروری ہوتے ہیں مگر کمال شفقت کی بنا پر باغبان پر یہ چیزیں ناگوارگذرجاتی ہیں مگریہ پھولوں کی بقا کےلئے اہم ہوتی ہیں اسی طرح انسان دھوپ چھاوں برداشت کرکے ایک مکمل انسان بن جاتا ہےاورماں کوتسلی دیتا ہےماں کوئی غم نہ کر میرے ساتھ میر ا پروردگارعالم ہے جو صحرا کو گلزارمیں تبدیل کرتا ہے وہ خدا جو ہر حال میں اپنے بندے کی مدر کرتا ہے
4. شاعر کا حوالہ دے کر سیاق وسباق کے ساتھ ان اشعا ر کی وضاحت کریں
اپنی نگاہ ہے کرم کار ساز پر
صحراچمن بنے گا وہ ہے مہر باں
جنگل ہو یا پہاڑ سفر ہو کہ ہر حضر
رہنا نہیں وہ حال سے بندوں کےبے خبر
اس کا کرم شریک اگر ہے تو غم نہیں
دامانِ دشت دامنِ مادر سے کم نہیں
نگاہ :- نظر، کرم :- مہر بانی ، کار ساز : -کام بنانے والا ، صحرا : - ویران ، حضر :- پڑاو،دامانِ:- دامن ،دشت: - جنگل، مادر: - ماں
چکبست ؔ اس آخری بند میں ارشاد فرماتے ہیں کہ رام چندر جی اپنی ماں سے فرماتے ہیں کہ اے میری ماں میر ا بھروسہ کائنات کے بنانے والے پر ہے اگر وہ ساتھ رہے تو ویران بھی گلزار بن جائے گا انسان کا خالق انسان کے ہر حال سے واقف رہتا ہے چاہے جنگل ہو پہاڑ  ہو یا کسی اور پڑاو میں انسان رہے خدا ہر حال میں ایک انسان کے حال سے باخبر رہتا ہے اگر خدا، بھگوان ساتھ رہے توکوئی غم بھی کوئی غم نہیں رہتا پھر چاہے آ پ جنگل کے میں رہے یا پھر ماں کی ممتا کی چھاوں میں کوئی فکر دامن گیر نہیں رہتی
5۔" ہرموے تن زبان کی طرح بولنے لگا " ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس مصرعے کے ذریعہ شاعر کیا کہنا چاہتا ہے
جواب: شاعرچکبست اس مصرعے کے ذریعے یہ کہنا چاہتا ہے جس طرح ایک انسان کی زبان دکھ درر کا بیان کرتی ہے بالکل اسی طرح رام چندر کی ماں جب بیٹے کو بن باس جانے کو رخصت دے رہی تھی اور وہ غم میں مبتلا ہونے لگی رام چندر کی ماں اور اس کے جسم کے بال بھی جیسے زبان کی طرح ہی غم ودرد بیان کررہا تھا
6۔ فارسی میں مرکبات بنانے کےلئے "زیر" اضافہ کا کام دیتی ہے ایسے مرکبات میں مضاف  پہلے اور مضاف الیہ بعد میں آتا ہے مثلاََ
مرکب ۔۔۔۔۔معنی
خونِ جگر۔۔۔۔جگر کا خون
حالِ دل ۔۔۔۔دل کا حال
دامانِ مادر۔۔۔۔ماں کا دامن
 دردِ ہجر۔۔۔۔۔جدائی کی تکلیف
7۔ چکبست کی نظم سے چند فارسی مرکبات تلاش کرکے ان کے معنی لکھیے
فارسی مرکبات ۔۔۔۔۔۔معنی
  1. بابِ سخن۔۔۔۔۔۔۔ شاعر ی کا باب
  2. دامانِ زخم ۔۔۔۔۔۔ماں کا دامن
  3. دردِ ہجر۔۔۔۔۔۔۔۔جدائی کی تکلیف
  4. دامنِ مادر۔۔۔۔۔۔۔ماں کا  دامن
  5. دامانِ  دشت ۔۔۔۔۔۔جنگل کا دامن
8۔ ان الفاظ کے متضاد لکھیے
 لفظ ۔۔۔۔۔۔متضاد
حضر۔۔۔۔سفر
مُُحال ۔۔۔۔ممکن
قریب ۔۔۔۔بعید
صحرا ۔۔۔۔گلشن
ہجر۔۔۔۔۔وصال
تیز۔۔۔۔۔مدہم
عیاں ۔۔۔۔نہاں 
(23)
اولوالعزمی ۔۔۔۔۔۔۔ محمد حسین آزادؔ
سوال:-محمد حسین آزاد ؔ کی حیات اور شاعری پر ایک نوٹ لکھیے؟
جواب حالات ِ زندگی :-
محمد حسین آزاد ؔ کا اصلی نام محمد حسین تھا اورتخلص آزاد تھا آپ کی ولادت دہلی میں 1830ء میں ہوئی باپ کا نام محمد باقرتھا ہوش سنبھالتے ہی والد نے ذوقؔ کی شاگردی میں ڈال دیا اسی شادگردی نے آزادؔ کو ایک باکمال شاعر بنا دیا 1857ء کے ہنگامہ میں آپ کے والد انگریزوں کے ہاتھوں پھانسی دے کر مارے گئے پھرگھر بار لُٹ گیا آزاد کو بُرے دن دیکھنے پڑے آپ نے لاہور کی طرف ہجرت کی وہاں محکمہ تعلیم میں پندرہ روپے ماہوار تنخواہ پرملازمت کی ۔علمی خدمات انجام دینے کے لئے آپ نے بخارا ، کابل اور ایران کا سفر کیا کچھ مدت تک آپ پنجاب کے ایک سرکاری اخبار" اتالیق پنجاب" کے اڈیٹربھی رہے اس کے بعد آپ پھرلاہور کے سرکاری کالج میں عربی کے پروفیسرمقررہوئے1887ء میں ملکہ وکٹوریہ کی پہلی جوبلی پرآپ کو شمس العلماء کا خطاب ملا۔ اپنی بیٹی کی موت پراپنا ذہنی توازن کھو بیٹھے اورعمر کے بیس سال اسی بیماری میں بیت گئے آخرکار1910ء میں اسی بیماری کے سبب وفات پا گئے
شاعری: -
شمسُ العلماء محمد حسین آزاد کوجدید نظم کا بانی اورمجدد کہا جاتا ہے کیوں کہ عنوانی نظم نگاری اور نیچرل شاعری کی ابتداء ان ہی کے ہاتھوں ہوئی ۔آپ کی تحریک پر ہی " انجمن پنچاب " کی بنیاد پڑی اورایک نئی طرح کے مشاعروں کی بنیاد رکھی گئی ان مشاعروں میں مختلف موضوعات پر نظمیں لکھوائی جاتی تھیں آپ نے" آب حیات "جیسی کتاب لکھ کراردوادیبوںاور شاعروں کی سوانح حیات کو محفوظ کر دیا ے اس کے علاوہ " نیرنگِ خیال" "سخندانِ پارس"اور"درباراکبری "جیسی کتابیں " لکھ کر آپ نے اپنی قابلیت کا لوہا منوایا ہے

اولُوالعزمی

ہے سامنے کھلا ہوا میداں چلے چلو
باغِ مراد ہے ثمر افشاں چلے چلو
دریا ہو بیچ میں کہ بیاباں چلے چلو
ہمت یہ کہہ رہی ہے کھڑی ہاں چلے چلو
چلنا ہی مصلحت ہےمری جاں چلے چلو
باغِ مراد: - تمنا کا باغ ،خواہشات کا باغ ، ثمر:- پھل،افشاں:- چھڑکنا ،طلائی، بیاباں:- جنگل، مصلحت:- اچھا مشورہ
یہ بند محمد حسین آزادؔ کی نظم " اولوالعزمی" سے نکالا گیا ہے اس بند میں شاعر دنیا کے نوجوانوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اے نوجوانوں تمہارے سامنے پوری دینا کی منزلیں اور راہیں کھلی ہوئیں ہیں آپ ہمت کر کے آگے بڑھتےجاؤں چاہیے راستے میں کوئی دریا رکاوٹ بنے آپ بیابانوں کی را ہ لےکرمنزل تک بڑھتے جاؤں زندگی میں آگے بڑھنا ہی کامیابی کی نشانی ہے
ہمت کے شہسوار جو گھوڑے اٹھائیں گے
دشمن فلک بھی ہوں گے تو سر کو جھکائیں گے
طوفان بلبلوں کی طرح بیٹھ جائیں گے
نیکی کےروز اُٹھ کےبدی کودبائیں گے
بیٹھو نہ تم مگر کسی عنواں چلے چلو
ہمت :- حوصلہ ،شہسوار :-گھوڑے کی سواری کا خوب جاننے والا ، فلک: - آسمان
نظم کے اس بند میں آزادؔ نوجوانوں کو ہمت دے کر فرماتے ہیں دنیا کے جو لوگ ہمت اور حوصلےسے کام لیتے ہیں آسمان بھی اگر دشمن ہوتو وہ با ہمت لوگوں کے آگے سرخم تسلیم کرتےہیں اور بڑے بڑے طوفان بھی پانی کے بلبلوں کی طرح چند منٹوں میں ختم ہوجاتے ہیں برائی بھی نیکیوں میں تبدیل ہوجاتی ہےاے دنیا کے نوجوانوں اپنی زندگی کا مشن زندگی میں آگے بڑھنا  اور کامیابی کے قلعے طے کرنا اپنی زندگی کا دائمی مقصد بناو
رکھو رفا ہِ قوم پہ اپنا مدارتم
اور ہو کبھی صلے کے نہ امید وار تم
عزت خدا جو دیوے تو پھر کیوں ہو خوار تم
دورُخ کو آپ فخر سے رنگ بہار تم
گلشن میں ہو کےبادِ بہاراں چلے چلو
رفاہِ :- آرام سے زندگی گذارنا،مدار: -جس پرکوئی چیز ٹھہری ہوانحصار، صلے :- بدلہ ، خوار: - بےعزت ،باد : -ہوا
نظم کےاس بند میں شاعرپھرانسانیت سے مخاطب ہوکرارشاد فرماتےہیں کہ اے د نیاکے نوجوانوں تم دنیا کے لوگوں کی ،انسانیت کی خدمت انجام دیتے رہو اسی میں تمہاری بھی کامیابی و کامرانی ہے مگر خدمت کے بدلے دینا کے لوگوں سے بدلا لینے کی کوئی توقع نہ رکھنابلکہ معاوضہ کی طلب اللہ تعالی سے ہی رکھنا کیوں عزت او ربےعزتی دینااللہ کے بس میں ہے اچھے بنوں او راچھے ہی کی توقعہ رکھوں اسی پہ دنیاکی اجڑی بستی پھر آباد و شاداب ہوجائےگی
آؤ سفید و سیاہ کا فعل حساب ہے
چمکا یا چہرہ صبح نے با آب و تاب ہے
ظلمت پہ نورہونے لگا فتحیات ہے
اورشب کےپیچھے تیغ بہ کف آفتاب ہے
تم بھی ہو آفتاب درخشاں چلے چلو
سفید و سیا ہ :- اچھے اور برے کام ، فعل :-کام ، ظلمت : - اندھیرا ، نور: -روشنی ، فتحیات: -کامیابی ، تیغ :- شمشیر، کف:- ہاتھ کی ہتھیلی، درخشاں :-روشن
نظم کےاس بند میں شاعرفرماتےہیں کہ اچھے اور بُرے کاموں کا حساب اب دینا ہوگا صبح کی آمد نے بھی دن کو روشن اور پر نور بنایا ہےرات کی تاریکوں کو بھی سورج کی روشنی نے دورکردیااوررات کےپیچھےآفتاب روشنی کی تلوار لےکر کھڑی ہوچکی ہے اور اے دنیا اورملت کے نوجوانوں تم بھی دنیا سےجہالت کو دور کرنے کے لئے کام کرتےرہو
نیکی بدی کے دیر سے باہم تھے معرکے
اب خاتموں پہ آگئے ہیں ان کے فیصلے
قسمت کے یہ نوشتے نہیں جو نہ مٹ سکے
وہ گونجا طبلِ فتح کہ میدان کےلئے
کرنائے جنگ کی ہے یہ الحاں چلے چلو
معرکے :- لڑائیاں، نوشتے: - لکھی ہوئی تحریریں، طبل:-ڈھول، گونجا:- آواز
نظم کےاس بند میں شاعرنوجونوں کو ہمت باندھ کر فرماتے ہیں کہ دنیا میں حالات اب تیزی سے بدل رہے ہیں کیوں  بہت مدت سے نیکی اور بدی کی لڑائی چل رہی ہے بہت قریب ہےکہ نیکی بدی پر کامیابی کی مہر ضبط کرے گی یہ ایسا نہیں کہ یہ باتیں ازل سے ہی تمہاری تقدیرمیں لکھی جاچکی ہیں جن کو نہ مٹایا جاسکے گا دیکھو دنیا میں جیت کے ڈھول بجنے لگلے ہیں کیوں جب انسان بدی کے خلاف لڑے گا توجیت نیکی کی ہو کے ہی رہے گی
درسی سوالات
2۔ توضیحات
 الوالعزمی: - اعلیٰ،ہمتی،اعلیٰ مرتبہ ،عزت دار
2۔ باغِ مراد :- باغ مراد کے معنی تمناؤں کے باغ کے ہیں
3۔ باغ ِمراد مرکب استعارہ ہے استعارہ کے بارے میں اپنے استاد سے پوچھ لیجئے نوشتے ہوتحریریں ہیں جوکہ خدا وند کریم نے لکھی ہیں انسان کی تقدیر جس میں لکھا ہوا ہے کہ وہ آئندہ کی زندگی میں کیا پائے گا جو لوگ تقدیر میں یقین رکھتے ہیں اُ ن کانظریہ ہے کہ انسان جو چاہتا ہے وہ ہو نہیں سکتا ہے اور جو خُدا چاہتا ہے وہی ہوجاتاہےانسان مجبورِ محض ہے
4۔ نیکی اوربدی ایک مذہبی تصور ہےانسان مرنے کے بعد اپنے کرموں کی بنا پرپھل پائے گا اگر اُ س نے نیکی کی ہوتو جنت کا مستحق ہوگا اگر بدی کی ہوگی تو اس کےلئے جہنم ہوگا
5۔ سفید و سیا ہ -یہ تصور دنیاوی ہے لیں دین کا تصور ہے کاروبار میں استعمال ہوتا ہے جہاں نفع بھی ہوتا ہے اورنقصان بھی
3۔سوالات
1۔ اس نظم کا موضوع کیا ہے ؟
جواب:اس نظم کا موضوع" اولوالعزمی" ہے
2۔ اس نطم کا خلاصہ بیا ن کیجیے۔؟
جواب :- یہ نظم " اولوالعزمی "محمد حسین آزاد ؔ کی لکھی ایک بہترین نظم ہے اس نظم میں آزادؔ نوجواناں ملت سے مخاطب ہو کر لکھتے ہیں کہ اے نوجوانوں تمہارے سامنے پوری دنیا کام کرنےکے لئے پڑی ہوئی ہےتمہیں صرف منزل کی جستجو میں رہنا چاہیے اگرتمہاراراستہ دریا روکے تو بیابانون میں اپنی منزل کی تلاش میں سرگرم رہو یاد رکھو جو لوگ ہمت سے کام لیتے ہیں اگران کا دشمن آسمان بھی ہو تو ان کا حوصلہ وہمت دیکھ کر آسمان بھی راستہ دے دیتا ہے اورمنزل کی راہ میں آنے والی رکاوٹیں ا پا نی کے بلبلے کیطرح چند ہی لمحات میں فناہوجاتیں ہیں بس تم اپنے قوم کی ترقی کوملحوظ نظر رکھونیکی کے بدلے دنیاکے لوگوں سے کبھی معاوضہ کی طلب نہ رکھنا بلکہ اس کا اجر اللہ تعالیٰ سے ملنےکی توقع رکھنا عزت و بے عزتی دینے والا اللہ تعالیٰ ہےاب زمانہ بھی بدل رہا ہے اندھیرے کی جگہ روشنی نے اپنا نور پھیلانا شروع کیا اے نوجونوں تم سورج کے مانند ہوجاؤں ہرسوں ہرطرح نور ہی نور پھیلا کراپنے اپنےمنازل کیطرف گامزن ہوجاوں دنیا میں بد ی او نیکی کے بیچ باربارتصادم ہورہے ہیں نیکی فتحیاب ہورہی ہے بدی کا خاتمہ ہورہا ہے مفلسی کوئی پتھرکی لکیرنہیں جس کونہ مٹایا جاسکے تم حوصلہ،ہمت اورثابت قدم سےآگے بڑھتے رہے منزل تمہارے قدم چوم کے ہی دم لے گی
3۔ اس نظم کا کونسا شعرآپ کوپسند ہے ؟
جواب:۔
ہمت کے شہسوارجوگھوڑے اٹھائیں گے
دشمن فلک بھی ہوں گے توسرکوجھکائیں گے
4 :۔ اس نظم میں استعمال شدہ قافیہ چُن کرلکھیے 
پہلے بندکے قافیے :- میداں ، افشاں، بیاباں، ہاں ، جاں ہیں
ددسرے بند کے قافیے :- اٹھائیں ، جھکائیں، جائیں ، دبائیں ، عنواں ہیں
تیسرے بندکے قافیے : -مدار، وار، خوار، بہار، بادِ بہاراں ہیں
چوتھے بندکے قافیے: -حساب ، تاب ، فتحیاب ، آفتاب ، درخشاں ہیں
پانچویں بندکے قافیے:۔معرکے، فیصلے، سکے، لئے،ہیں
(24)جگنو۔۔۔علامہ اقبالؔ


ڈاکٹرسرمحمد اقبال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جگنو
سوال: -ڈاکٹرسرمحمد اقبال کی حالاتِ زندگی اور شاعر ی پر ایک نوٹ لکھیے؟
جواب حالاتِ زندگی:-
ڈاکٹرسرمحمد اقبال کی پیدائش سیالکوٹ میں 9 نومبر1877ءمیں بروزجمعہ کوہوئی آپ کے والدصاحب کا اسمی گرامی نورمحمد تھا آپ کی والدہ محترمہ کا نامی مبارک امام بی بی تھا آپ کے آباواجدار کشمیر سےہجرت کر کےسیالکوٹ میں سکونت پزیر ہوئے تھے آپ نے ابتدائی تعلیم ایک مکتبہ سے حاصل کی بعد میں سکاچ مشن اسکول میں داخلہ لیا جہاں میرحسن سے عربی اور فارسی کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی دسویں اور انٹرمیڈیٹ جماعتوںکےامتحانات پاس کرنےکےبعدگورنمنٹ کالج لاہورسے گریجویشن کی ڈگری حاصل کی ۔اس کے بعد پنجاب یونیورسٹی سے فلسفہ میں پوشٹ ڈگری حاصل کرکےاول پوزیشن حاصل کی۔اورنٹیل کالج لاہورمیں تاریخ اورفلسفہ پڑھانےکے پروفیسرمقرر ہوئے اس کے بعد پی ۔ایچ ۔ڈی اوربیرسٹری کی ڈگریاں جرمنی اور انگلینڈ سے حاصل کی واپس آکر لاہور میں وکالت کا پیشہ اختیار کیا حکومت نے ان کی خدمات ے عوض سر کے خطاب سے سرفراز کیا ۔عمر کےآخری ایام میں آپ کئی بیماریوں کےشکارہوگئے کافی علاج ومعالجہ کروایا لیکن مکمل صحت یاب نہ ہوسکے آخر61 سال کی عمر پا کے اس فانی دنیا سے 1938 ء میں لاہو ر میں انتقال فرماگئے شاہی مسجد لاہور کے احاطہ میں آپ کو سپرد لحد کیا گیا

شاعری :ـ
علامہ اقبال شاعرمشرق کے نام سے زبان زد عام ہے آپ ایک عالمگیر شاعر ہیں آپ اردو وفارسی کے ایک عظیم شاعر تصور کئے جاتے ہیں آپنے اردو اورفارسی میں شاعر ی کو نئی جہتوں سے آشناس کروایا آپ کی شاعری فلسفہ سےبھرپور ہے اسی طرح آپ شاعری میں مقصدیت کے قائل ہیں شاعر ی میں عمل کا پیغام عال ملتا ہے شاعر ی میں قافیہ پیمانی کو ثانوی او تاثیر کو اول درجہ دیتے ہیں شاعر ی میں داغ دہلوی سے اصلاح لیتے رہے اورمرزا غالب کی بھی پیروی کی آپ مغرب کی اندھی تقلید سے بیزار تھے اقبال کے شعری مجموعےمیں بانگِ درا، بال جبرئیل، ضرب کلیم اور ارمغان ِحجاز قابلِ ذکر ہیں
جگنو
جگنو کی روشنی ہے کاشانہ چمن میں
یا شمع جل رہی ہے پھولوں کی انجمن میں
کاشانہ:ـ آشیانہ، رسیوں کا گھر،جھوپنڑا، انجمن :- بزم ، محفل
علامہ اقبال اس نظم کے شعرمیں فرماتے ہیں کہ جگنو کی روشنی چمن کےآشیانہ میں اس طرح جل رہی ہے جیسے کہ پھولوں کے باغ میں کوئی شمع جل رہی ہے
آیا ہے آسماں سے اُڑ کر کوئی ستارہ 
یاجان پڑ گئی ہے مہتاب کی کرن میں
مہتاب :- چاند، کرن :- روشنی
اقبال اس نظم کے شعر میں ارشاد فرماتے ہیں جگنو کی کیا بات ہےلگتا ہے کہ جیسے آسمان سے کوئی روشن ستارہ اُ ڑ کے چمن میں آیا ہے یا یہ سمجھیے کہ جیسےچاند کی چاندنی میں نئی جان پڑگئی ہے
یا شب کی سلطنت میں دن کاسفیر آیا
غربت میں آکے چمکا گمنا م تھا وطن میں
شب :- رات، سفیر:- قاصد،ایلچی
اس نظم کے شعرمیں اقبال فرماتے ہیں جگنو کی مثال ایسی ہے جیسے کہ رات کی تاریکی میں کوئی دن کی خبر لانے والا کوئی ایلچی آیا ہے یہ معمولی سا کیڑا پھولوں کےچمن میں ایسے چمکنے لگا ہے اس سےپہلے  یہ جگنواپنےہی وطن میں جیسے کہ کھویا ہوا تھا
تکمہ کوئی گرا ہے مہتاب کی قبا کا
ذرہ ہےیانمایاں سورج کے پیرہن میں
تکمہ:-کُھنڈی، کپڑے یا دھاگے کا وہ بٹن جس سے گریباں بند کیاجاتا ہے ، قبا :- ایک طرح کا کوٹ جو آگے سے کھلا رہتا ہے ، پیرہن : -لباس 
اقبال جگنو کے بارے میں اس شعرمیں یوں فرماتےہیں کہ جیسےجگنو چاند کے لباس کا کوئی ایک بٹن ہے یا سورج کے لباس میں کوئئ چیزچمک دمک رہی ہے
حُسن قدیم کی یہ پوشیدہ اک جھلک تھی
لے آئی جس کو قدرت خلوت سے انجمن میں
پوشیدہ :-غائب ، خلوت: - تنہائی
نظم کے اس شعر میں اقبال فرماتےہیں کہ جگنو حسنِ ازل کی ایک پوشیدہ جھلک کی مانند ہے جسے قدرت نے تنہائی سے نکا ل کر محفل میں لایا ہے
چھوٹے سےچاند میں ہے ظلمت بھی روشنی بھی
نکلا کھبی گہن سے آیا کھبی گہن میں
ظلمت: - اندھیرا، گہن:- گرہن
اقبال اس نظم کےشعرمیں جگنو کو ایک چھوٹا چاندکہ کر کہتا ہے کہ یہ چھوٹا سا چاند کھبی چمکتا ہے کھبی چھپ جاتا ہے یہی اس چھوٹے سےمخلوق کاوصف ہے
پروانہ اک پتنگا جگنو بھی اک پتنگا
وہ روشنی کا طالب یہ روشنی سراپا
طالب: - مشتاق،متلاشی
اقبال اس شعرمیں پروانہ اورجگنو کا موازنہ کرکے فرماتے ہیں اگر چہ یہ دونوں مخلوق پتنگے ہی ہیں مگر قدرت نے ان میں کتنا فرق واضح رکھا ہے پروانہ شمع کی روشنی کے ارد گرد گھومتا رہتا ہے مگرجگنوکو روشنی کےپیچھے نہیں بھاگنا پڑتا ہے کیوں کہ اللہ نے جگنو کے اند ر ہی روشنی رکھی ہے
ہرچیز کو جہاں میں قدرت نے دلبری دی
پروانہ کو تپش دی جگنو کو روشنی دی
تپش:- گرمی، دلبری:- دل کو موہ لینے والی چیز،کشش
نظم کے اس شعرمیں اقبال فرماتے ہیں کہ قدرت نے دنیا میں ہر شے میں کوئی نہ کوئی صفت وخاصیت رکھی ہے اسی طرح جگنو کو قدرت نے روشنی اور پروانہ کے نصیب میں شمع کی روشنی سے جلناعنایت کیا ہے
رنگین نوا بنایا مُر غان ِ بے زماں کو
گُل کو زبان دےکر تعلیم خامشی دی
رنگین نوا: - رنگین، آواز یعنی دل کو خوش کرنے والی آواز،
اقبال اس نطم کے شعر میں ارشاد فرماتےہیں کہ قدرت نے بے زبان جانوروں کوکتنی کتنی خوبصورت آوازوں سے نوازا ہے اسی طرح پھولوں کومہک اور خوبصورتی عطا کر کے خاموشی سے اپنا حسن بیان کرنا سکھایا ہے
نظارہ شفق کی خوبی زوال میں تھی
چمکا کے اس پری کو تھوڑی سی زندگی دی
شفق :- غروب سورج کے وقت آسمان پرنمودار ہونے والی سرخی
اقبال اس نظم کے شعر میں فرماتےہیں کہ جب سورج غروب ہوتاہے تو یہ وقتِ شفق کا نظارہ نہایت حسین وجمیل ہوتا ہے ایسا لگتا ہے جیسے کہ کوئی پری سرخ کپڑے پہنے ہوئے دیداردے رہی ہو
رنگین کیا سحر کو بانکی دلہن کی صورت
پہنا کے لال جوڑا شبنم کی آرسی دی
بانکی:-پیاری ، سجیلی،آرسی:-وہ زیورجوعورتیں ہاتھ کے انگوٹھے میں پہنتی ہیں اس میں شیشہ جُڑا ہوتا ہے
نظم کے اس شعرمیں اقبال فرماتےہیں کہ جگنو کی بدولت سحر اس قد رنگین اور تازہ ہوتی ہے جیسے کوئی نئی نویلی دلہن سرخ رنگ کا لباس پہنا ہوئی ہے اوراس پر شبنم کے زیور سجائے ہوئےہیں
سایہ دیا شجر کو پرواز دی ہوا کو
پانی کو دی روانی موجوں کو بے کلی دی
بےکلی:- بے قراری ، بےچینی
اس نظم کے شعرمیں اقبال فرماتے ہیں کہ اللہ نے درختوں کو چھاؤں اورہوا کو پرواز عطا کئےاسی طرح پانی کو روانی کی رفتاراور اس کی لہروں میں بے قراری رکھ کرحرکت دے دی
یہ امتیاز لیکن اک بات ہےہماری
جگنو کا دن وہی ہے جو رات ہے ہماری
امتیاز:-فرق
شاعر مشرق علامہ اقبال فرماتےہیں کہ تمام مخلوقات کے لئے دنیا کا دن، دن اور رات  رات ہوا کرتی ہے مگر جب کہ اس کے برعکس جگنو کےلئے اس کا اُلٹ ہوتا ہے یہ سبب اس وجہ سے ہے کہ اللہ نے اسے ایک الگ چیز سے نوازا دیا وہ اس کی روشنی ہے
حسنِ ازل کی پیدا ہرچیز میں جھلک ہے
انسان میں وہ سخن ہے غنچے میں وہ چٹک ہے
حسن :- خوبصورتی، ازل:- وہ زمانہ جس کی کوئی ابتدانہ ہو، جھلک :- پرتو ،سخن: کلام , غنچہ: - بن کھلا پھول، چٹک:چمک دمک ،پھول کھلنے سے جو آواز پیدا ہوتی ہے اسے چٹک کہتے ہیں
علامہ اقبال اس نظم کے شعرمیں ارشاد فرماتےہیں کہ اللہ پاک نے کائنات کے ہرذرے میں اپنے جھلوے رکھے ہیں اور یہ زمانہ ازل سے موجود ہیں دیکھو اللہ تعالیٰ نے انسان میں قوت گونائی رکھی ہے اسی طرح پھولوں کی کلیوں میں چمک ودمک و چٹک رکھی ہے
یہ چاند آسماں کا شاعر کا دل ہے گویا
واں چاندنی ہےجو کچھ یاں درد کی کسک ہے
کسک: - ہلکا سا درد، یاں: - یہاں ،واں :- وہاں
اس شعرمیں شاعرمشرق علامہ اقبال فرماتےہیں کہ انسان کا دل چاند جیسا ہے جس طرح چاند سے چاندنی ہے اسی طرح انسانی دل میں درد کی کسک موجودہے
اندازِ گفتگو نے دھو کے دیئے ہیں ورنہ
نغمہ ہے بوے بلبل بو پھول کی چہک ہے
اس نظم کے اس شعرمیں علامہ اقبال فرماتےہیں کہ اگرچہ بلبل اورپھول کی انداز گفتگو الگ الگ ہیں یوں تو بلبل پھول پرفریفتہ ہو کرنغمہ سے اپنی محبت کا ظہار کرتا ہے اور پھول اپنی خوشبو سے ہی اپنی محبت کا اظہار کرتا ہے
کثرت میں ہوگیا ہے وحدت کا راز مخفی
جگنو میں جو چمک ہے وہ پھول میں مہک ہے
مخفی:- پوشیدہ،
اقبال اس نظم کے شعر میں ارشاد فرماتےہیں کہ وحدت میں ہی کثرت کا راز پوشیدہ ہے جگنوکی روشنی اور پھول کی مہک دراصل ایک ہی چیز ہے
یہ اختلاف پھر کیوں ہنگاموں کا محل ہو
ہر شے میں جب کہ پنہاں خاموشی ازل ہو
پنہاں: - پوشیدہ ، ہنگامہ :- شورش ، ازل :- وہ زمانہ جس کی کوئی ابتدا نہ ہو
اس شعر میں علامہ اقبال سوالیہ انداز سے پوچھتے ہیں کہ جب ازل سے ہر شے میں اللہ تعالیٰ کی وحدنیت کا رازپوشیدہ ہےتوکیوں کریہ دنیا لڑائیوں و جھگڑوں کا مسکن بن گیا ہے 
2۔ توضیحات
اللہ تعالی نے دنیا کی ہر چھوٹی بڑی چیز کو خصو صیتوں سے نوازا ہے جگنو ہو یا پروانہ چاند ہو یا بلبل پھول ہو یا شبنم کوئی بھی چیز فضول نہیں ہے مخلوقات کو امن وامان او اخوت کےلیمے پیدا کیا گیا ہے ڈاکٹرسرمحمد اقبال کی نظم جگنو میں وحدت کا راز سمجھایا گیا ہے اس نظم میں خوبصورت مثالیں دی گئی ہیںاورقابل غور تشبیہیں بھی ہیں
3۔ سوالات نظم جگنو کا خلاصہ مختصر الفاظ میں لکھیے؟
جواب -شاعرمشرق علامہ اقبال نے اپنی "جگنو"میں کثرت کےفلسفےکوبیان کیاہے جگنو کی خوبصورتی کو بیان کرتے ہوئے اس میں مختلف چیزوں سےتشبیہ دیتا ہےکھبی  پھولوں کی محفل کی شمع ، تو کھبی سورج کے لباس کادمکتا حصہ بتاتا ہےکھبی اسے رات کی سلطنت میں دن کا سفیرکہا ہے کھبی چھوٹا سا چاند کہتا ہے پھر شاعر پروانے او ر  جگنو کا موازنہ کرتا ہے کہتے ہیں پروانہ شمع کی روشنی پر اپنی جان نچھاورکرتا ہے مگر دوسری طرف جگنومیں قدرت نےجسم کے اندرہی قدرت نے روشنی انتظام رکھا ہے خدا ہر پیدا کی ہوئی شے میں کوئی نہ کوئی تاثیر و اثر رکھا ہے جس سے اس کی اہمیت بڑھ جاتی ہے بے زبان پرندوں کومیٹھی میٹھی بولیوں سے نوازا ہے تو دوسری طرف پھولوں کو خوبصورتی اور مہک سے مالا مال کردیا ہےصبح کا منظر نہایت حسین اورشام کے وقت سورج کا ڈوبنا بھی عجیب منظر پیش کرتا ہے ہماری لئے دن دن ہےمگرجگنوکےلئے رات ہی دن ہوتا ہے یہ سب اللہ کے کرشمےہیں
کائنات کے ہرچیز میں اللہ کے حسن کی جھلک موجود ہے انسان میں اگر بولنے کی صلاحیت ہے تو کلی میں چٹک موجود ہے پھول اور بلبل بھی الگ اور جد ا نہیں ہیں ددنوں صفتیں خداوندی کااظہا ردیتی ہیں دنیا کی ہر شےاللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر ہیں  یعنی ہر چیز میں خدا کا حسن موجود ہے جس کا مطلب کثرت میں وحدت کا راز پنہاں ہےتوپھرکیوں ایسا ہوتا ہے کہ ظاہری اختلاف کی بنیادوں پرجھگڑے کئےجاتے ہیں جبکہ کثرت میں وحدت کاراز پوشیدہ ہے تو پھردینا کے لوگ کوایک ہونا چاہیے اورآپس میں اتفاق سےرہنا چاہیے
2۔ تشریح کیجئے 
رنگین نوا بنایا مُر غان ِ بے زماں کو
گُل کو زبان دےکر تعلیم خامشی دی
رنگین نوا: - رنگین، آواز یعنی دل کو خوش کرنے والی آواز،
اقبال اس نطم کے شعر میں ارشاد فرماتےہیں کہ قدرت نے بے زبان جانوروں کوکتنی کتنی خوبصورت آوازوں سے نوازا ہے اسی طرح پھولوں کومہک اور خوبصورتی عطا کر کے خاموشی سے اپنا حسن بیان کرنا سکھایا ہے
ہرچیز کو جہاں میں قدرت نے دلبری دی
پروانہ کو تپش دی جگنو کو روشنی دی
تپش:- گرمی ، دلبری :- دل کو موہ لینے والی چیز،کشش
نظم کے اس شعر میں اقبال فرماتے ہیں کہ قدرت نے دنیا  کے ہرچیز میں کوئی نہ کوئی صفت و خاصیت رکھی ہے اسی طرح جگنو کو قدرت نے روشنی اور پروانہ کے نصیب میں شمع کی روشنی سے جلنا عنایت کیا ہے
3۔ شاعر نے کیوں کہا ہے ؟
سنِ ازل کی پیدا ہرچیز میں جھلک ہے
انسان میں وہ سخن ہے غنچے میں وہ چٹک ہے
حسن:- خوبصورتی، ازل:- وہ زمانہ جس کی کوئی ابتدانہ ہو ، جھلک: - پرتو ،سخن : - کلام , غنچہ :- بن کھلا پھول، چٹک: - چمک دمک ،پھول کھلنے سے جو آواز پیدا ہوتی ہے اسے چٹک کہتے ہیں
علامہ اقبال اس نظم کے شعرمیں ارشاد فرماتےہیں کہ اللہ پاک نے کائنات کے ہرذرے میں اپنے جھلوے رکھے ہیں اور یہ زمانہ ازل سے موجود ہیں دیکھو اللہ تعالیٰ نے انسان میں قوت گونائی رکھی ہے اسی طرح پھولوں کی کلیوں میں چمک ودمک و چٹک رکھی ہے
4۔ "وحدت میں کثرت " سے کیا مُراد ہے؟
جواب : -" وحدت میں کثرت " سے مرادیہ ہے کہ دنیا کی مختلف چیزیں الگ الگ ہونےکے باوجود ان میں ایک ہی طرح کا وصف پایا جاتا ہے یعنی وہ ایک اللہ ہونے کی دلالت کرتی ہیں جس طرح باغ میں مختلف رنگ کے پھول پائے جاتے ہیں مگر یہ پھول ایک باغ کے شمار کئے جاتے ہیں
5۔ ان اشعار میں تشبیہیں تلاش کیجیے؟
تکمہ کوئی گرا ہے مہتاب کی قبا کا
ذرہ ہےیانمایاں سورج کے پیرہن میں
تکمہ:-کُھنڈی، کپڑے یا دھاگے کا وہ بٹن جس سے گریباں بند کیاجاتا ہے ، قبا :- ایک طرح کا کوٹ جو آگے سے کھلا رہتا ہے ، پیرہن : -لباس
اقبال جگنو کے بارے میں اس شعر میں یوں فرماتےہیں کہ جیسے جگنوچاند کے لباس کا  کوئی ایک بٹن ہے  یا سورج کے لباس میں کوئئ چیز چمک دمک رہی ہے
رنگین کیا سحر کو بانکی دلہن کی صورت
پہنا کے لال جوڑا شبنم کی آرسی دی
بانکی :-پیاری، سجیلی، آرسی :- وہ زیورجوعورتیں ہاتھ کے انگھوٹھے میں پہنتی ہیں اس میں شیشہ جُڑا ہوتا ہے
نظم کے اس شعرمیں اقبال فرماتےہیں کہ جگنوکی بدولت سحر اس قدررنگین اور تازہ ہوئی ہے جیسے کوئی نئی نویلی دلہن سرخ رنگ کا لباس پہنا ہوئی ہے اوراس پر شبنم کے زیورسجائے ہوئےہو
(25)
 مرزا محمد یٰسین بیگ(2008-1943ء)۔۔ شکستِ انتظار






شکست ِانتظار
گلی کے موڑ پہ مسجد کے اس مینار
خزان رسیدہ چناروں کے زرد رُو پتے
خزاں رسیدہ :- بے رونق ،پُرانا ، زرد رُو: - جس کا چہرہ پیلا ہو
اس نظم کے پہلے شعر میں مرزا محمد یٰسین بیگ فرماتےہیں جب کشمیر میں موسمِ خزاں کا موسم آتا ہے اوراس موسم میں چنار کے درخت کے پتے زرد ہوکر نیچے گر جاتے ہیں شاعر اس منظرکو بیا ن کرتاہے کہ میرے گھر کی گلی کے سامنے موڑ کے نزدیک ایک مسجد ہے اس مسجدکے مینار کےتلے بوسیدہ چناروں کے زرد پتے گرکرپڑے ہوئے ہیں
چراغ راہ کی مانند ، صبح وشام جلے
کہر میں لپٹی ہوئی ملگجی فضاؤں میں
کہر:- دُھند ، ملگجی :- کچھ اُجلی کچھ میلی فضا ، گرد وغبار سے آلود میلی فضا
محمد یٰسین بیگ اس نظم ' شکست ِ انتظار" کے اس شعر میں چنار کے پتوں کوچراغ سے تشبیہ دیتا ہے فرماتےہیں کہ جس طرح راستےکا چراغ راہ گیروں کو راہ اور منزل تک پہنچنے میں مدد دیتا ہےبا لکل اسی طرح راہ پرگرے پڑے چنار کے سرخ زردپتےجیسے جل کر چراغ راہ کا کام دے دیتے ہیں دوسری طرف یہ لمبے لمبے چنار کے درخت دھند اور گردوغبار فضا میں گرے ہوئے ہیں
نظر نواز نظاروں کے داغ تک نہ ملے
سیاہ رات کے دامن سے تیرگی نہ چھٹی
نظر نواز: - سرفراز کرنے والا ، تیرگی : - اندھیرا
بیگ اس نظم کےشعرمیں ارشاد فرماتےہیں کہ ہر طرف تاریکی پھیلی ہوئی ہے اورکئی طرح سےروشنی کی جھلک دکھائی نہیں دیتی ہے یعنی شاعر یہ بتانےکی کوشش کرتاہے کہ میرے وطنِ عزیز میں ناامیدی اوراداسی ہر طرف چھائی ہوئی ہے اور اس کے ٹل جانےکا کوئی سراغ دکھائی نہیں دیتا ہے
فلک پہ جلتے ستاروں کے داغ تک نہ ملے
گلی کے موڑ پہ ا س سامنے کی کھڑکی میں
فلک :- آسماں
بیگ اس نظم کے شعر میں فرماتےہیں کہ مجھ پہ غموں کے اتنے پہاڑ ٹوٹ پڑے ہیں کہ اس دور دراز آسمان کو بھی ہمارے غموں نے آگیر لیاہےجس کی وجہ سے ان ٹمٹماٹے ستاروں کی بھی روشنی ماند پڑگئی ہے اور وہ بھی اب نظر نہیں آرہے ہیں
وہ قیس منتظر و بے قرار بیٹھا ہے
نظر نظر میں شراروں کا اضطراب لیے
قیس:- لیلیٰ کا عاشق ،شرارہ : - چنگاری ، اضطراب :- بےچینی
اس شعرمیں بیگ ارشاد فرماتے ہیں کہ لیلیٰ کا عاشق بے قرار بیٹھا ہوا ہے اوراس کی ہر نظرمیں بے چینی کی چنگاری پیداہوئی ہے
دھڑکتے دل سے سررہ گزر بیٹھا ہے
اسے خبر نہیں شاید کہ محمل لیلیٰ
محمل :- کجاوہ ،اونٹ پر بنایا گیا ہووج ،ڈولی
اس شعرمیں مرزا یٰسین بیگ ارشاد ہوکر فرماتےہیں کہ لیلیٰ کےعاشق کو امید ہے کہ لیلیٰ کاگذر اُس کے کوچے سے ہوکر ہی رہے گا اور وہ اُ س کا دیدار کر کےہی دم لے گا کہتے ہیں دنیا امید پر قائم ہے
3۔سوالات
1۔مرزا محمد یٰسین بیگ کی حیات اور شعری خدمات پر ایک مختصر نوٹ تحریر کیجیے؟
حالاتِ زندگی: -
مرزامحمد یٰسین بیگ کی پیدائش جموں میں1943ء میں ہوئی۔گریجویشن کےبعد جموں وکشمیر اکادمی آف آرٹ کلچر اینڈ لنگویجزمیں لائبریرین کی حیثیت سے ملازم ہوئےعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی لب کا امتحان پاس کیا اس کے بعد جموں وکشمیر کے مختلف محکموں میں کام کرتے رہےُ خا ص طور پرآپ نے ڈی سی اننت ناگ ، ایڈیشنل ڈی سی جموں و ایکسائز کے اعلی ٰعہدوں پر اپنے فرائض انجام دیتے رہے آپ سپیشل سیکریٹری ٹو گورنمنٹ کے اعلیٰ ترین عہدے سے سبکداش ہوئے آپ کا انتقال جموں میں 2008 کو ہوا
شاعری :-
مرزا محمد حسین بیگ نے اپنی شاعری کا آغاز کالج کے زمانے سےہی کیا ۔کلچرل اکادمی کی ملازمت کے دوران آپ کی غزلوں کا پہلا مجموعہ "شاخِ صنوبرکے تلے" 1962ء میں شائع ہوا دوسرا نظموں کا مجموعہ "دہر آشوب"لے عنوان سے 1991ء میں شائع ہوا آپ نے ہر اصناف سخن میں طبع آزمائی کی تاہم ان کی مقبولیت صنف ِ نظم میں نکھر کر آئی۔ نظموں میں عصری مسائل کی بھر پور ترجمانی کی گئی ہے جو پڑھنے والے کو کافی متاثر کر کے چھوڑتی ہےغزلوں کا موضوع حسن وعشق رہا ہے ڈدگری وپنجابی میں بھی شعر کہے ڈدگری میں ایک نظم "شندامرت " چھپ چکی ہے الغرض مختلف زبانوں کے سنگم نے آپ کی تحریر کو رنگین اوردلکش بنا دیا ہے
2۔ نظم "شکستِ انتظار" میں کس طرح کی ذہنی کیفیت کی تصویرکشی کی گئی ہے؟
جواب:-اس نظم میں ایسی ذہنی کیفیت کی تصویر کشی کی گئ ہےجو ناامیدی اوربے بسی کے عالم میں حیران وپریشان ہے اور اپنے مقصد کےحصول میں ٹوٹی امید لئے بیٹھاہے
3۔ کھڑکی میں بیٹھے ہوئے قیس اور محمل لیلےٰ سے شاعر کی کیا مُراد ہے ؟
جواب :۔ کھڑکی میں بیٹھے ہوئے قیس سےمراد دور حاضر کے وہ نوجوان ہے جو آج کے دور میں بے روز گاری کے شکار ہیں اور محمل لیلیٰ سے مُراد وہ ذریعہ معاش ہے جو اطمینان اور خوشحال زندگی کےلئے لازمی سمجھا گیاہے
(27)۔۔رباعی جگت موہن لال رواں
(1)
دُنیا سو سو طرح سے بہلاتی ہے
سامانِ خوشی سے روح گھبراتی ہے
اب فکر فنا کھول دی ہیں آنکھیں
کلفت ہر بات میں نظر آتی ہے
کلفت :- رنج ،تکلیف
رواں اس رباعی میں فرماتےہیں کہ انسان جوانی کے دنوں بہت خوشی محسوس کرتا ہے اسے دنیا ہر طرح سے اچھی لگتی ہے مگر جب انسا ن کو بڑھاپا آتا ہے تو اسے ہر چیز سے بے زاری پیدا ہوجاتی ہے اور اسے صرف مرنے کی فکر ستاتی ہے
(2)
حرص و ہوسِ حیات ِ فانی نہ گئی
اس دل سے ہوائے کامرانی نہ گئی
ہے سنگِ مزار پر تیرا نام رواںؔ
مرکر بھی امیدِ زندگانی نہ گئی
حرص:- تمنا ، لالچ ،کامرانی: - کامیابی ،سنگِ مزار: - قبر پر رکھا گیا پتھر جس پر مرنے والے کا نام پتہ و تاریخ موت لکھی جاتی ہے
اس رباعی کے اشعار میں رواں ؔ انسان کا اس دنیا سے دل لگانے کی بات کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ دنیا بھی کیا چیز ہے ایک انسان اس دنیا سے اس قدر دل لگاتا ہے جیسے اس دنیا کو کھبی چھوڑنا نہیں ہے انسان دنیا میں خواہشات کے بازار میں گم ہوجاتاہے وہ دنیا کی ہر چھوٹی بڑی چیز کو پانےکا خواہش مند رہتا ہے اور جب ایک انسان اس دنیا سے مرکےچلا جاتاہے اس کی قبر پر اس کا نام وپتہ تاریخ موت لکھی جاتی ہے جیسے یہ لگے اس مرے ہوئے انسان کواس دنیا میں مر کے دوبارہ واپس آنا ہےغرض انسان کی ساری تمنائیں نہ زندگی میں پوری ہوتی ہے نہ ہی مر کے پوری ہوتیں ہیں
(3)
کیا تم سے بتائیں عمر فانی کیا تھی
بچپن کیا چیز تھا جوانی کیا تھی
یہ گل کی مہک تھی وہ ہوا کا جھونکا
اک موجِ فضا تھی زندگانی کیا تھی
گل :- گلاب، مہک: - خوشبو
رواں ؔ اس رباعی میں انسان زندگی کی بے ثباتی کا حال بیا ن کرتے ہوئے فرماتےہیں کہ اے دنیا والوں میں تجھے گذرے زندگی کے ایام کے بارے میں کیا کہوں بچپن پھولوں کی مہک کی مانند ہے ہر سوں بہار ہی بہار لگتی ہے اور جوانی ہوا کے جھونکےکی طرح ہے کہ ایک طرف آیا کہ دوسر جانب گذر جاتا ہے انسان کی پوری زندگی ایک موج کے مانند ہے جو پل میں گذر جاتی ہے غرض انسانی زندگی ایک حسرت کے سیوا کچھ بھی تو نہیں
1۔فرہنگ
کلفت :- رنج ، تکلیف
حرص :- لالچ  ،تمنا ۔خواہش
ہوس :- لالچ
کامرانی :- کامیابی
سنگِ مزار : - سنگ تُر بت ، وہ پتھر جو قبرپر رکھا جاتا ہے
2۔پہلی رباعی میں ایک ساتھ دوخیالات بیان کئے گئے ہیں دنیا خوشی کے سامان سے لوگوں کوبہلاتی ہے لیکن فنا ہونے کی فکر سے ہر ایک سامان عیش میں کلفت نظر آنےلگتی ہے اور سامان خوشی سےروح گھبر انے لگتی ہے
" سنگ مزار" وہ پتھر ہے جس پر متوفی کا نام تاریخ وفات اورپتہ وغیرہ کندہ کروایا جاتا ہے اورمتوفی کی قبر پر رکھ دیا جاتا ہے دوسری رباعی میں شاعر نے ایک اچھوتا خیال پیدا کیا ہے کہ لوگ مرکر بھی زندہ رہنا چاہیے ہیں
سنگ مزار رکھے جاتے ہیں تاکہ مرنے والوں کے نام موجود رہیں مگر دنیا اور دنیا کی ہر چیز فانی ہے
3۔سوالات
1۔ شاعر کو ہر بات میں کلفت کیوں نظر آتی ہے ؟
جواب : شاعرکو ہر بات میں رنج و غم اور کلفت اسی لئے نظر آتی ہے کیوں اب اسے شدت سے محسوس ہونے لگا کہ بچپن ، جوانی کے دن بھی بڑی تیزی کے ساتھ گذر گئے اب بوڑھاپےکے دہلیز پرشاعر نے قدم رکھ لیا ہے اب موت یقینی ہے
2۔ تیسری رباعی میں سے تشبیہیں تلاش کریں؟
جواب:بچپن کو گُل کی مہک سے، جوانی کو ہوا کے جھونکے سے اور زندگی کو موجِ فضا سے تشبیہیں دی گئیں ہیں
3۔تیسری رباعی کا ماحصل لکھیے
کیا تم سے بتائیں عمر فانی کیا تھی
بچپن کیا چیز تھا جوانی کیا تھی
یہ گل کی مہک تھی وہ ہوا کا جھونکا
اک موجِ فضا تھی زندگانی کیا تھی
گل :- گلاب، مہک: - خوشبو
رواں ؔ اس رباعی میں انسان زندگی کی بے ثباتی کا حال بیا ن کرتے ہوئے فرماتےہیں کہ اے دنیا والوں میں تجھے گذرے زندگی کے ایام کے بارے میں کیا کہوں بچپن پھولوں کی مہک کی مانند ہے ہر سوں بہار ہی بہار لگتی ہے اور جوانی ہوا کے جھونکےکی طرح ہے کہ ایک طرف آیا کہ دوسر جانب گذر جاتا ہے انسان کی پوری زندگی ایک موج کے مانند ہے جو پل میں گذر جاتی ہے غرض انسانی زندگی ایک حسرت کے سیوا کچھ بھی تو نہیں

 (26) رباعی ---------میر انیسؔ
رباعی کیا ہے؟
جواب:- رُباعی "ربع" سے مشتق ہے جس کے معنی "چار" کے ہیں لیکن اصطلاحی ادب میں رباعی سے مرادوہ شعری ہیئت ہے جوچار مصرعوں پرمبنی ہوتی ہے اورفکر وخیال کے لحاظ سے مکمل ہوتی ہےاس کا پہلا ،دوسرا،اورچھوتھا مصرعہ ہم قافیہ ہوتا ہے جبکہ تیسرا مصرعےکا قافیہ الگ ہوتا ہے کھبی چاروں مصرعے ہم قافیہ ہوتےہیں رباعی کا چھوتھا مصرعہ بہت بلند اورزوردارہوتا ہے اوریہی مصرعہ رباعی کی جان کہلاتاہے قافیہ ،بحراور وزن کی پا بندی رباعی کےلئے بہت ضروری ہے رباعی کے چوبیس اوزان مقرر ہیں رباعی میں مضامین کی کوئی قید نہیں ہے رباعی کے ددسرے نام دوبیتی ، چہار بیتی اورترانہ کے ہیں
رباعی کی ابتدا ایران میں ہوئی اس کا موجد ایرانی شاعررودکیؔ کوسمجھاجاتا ہے اردومیں رباعی فارسی سےآئی اردوکا پہلا شاعرعبدالقادکوماناجاتا ہےاردوکےہر چھوٹے بڑےشاعرنےرباعیاں لکھیں ہیں لیکن میرانیس اوردبیر نےاردورباعی کو بام ِعروج تک پہنچادیا
سوال:میرببرعلی انیسؔ کی حیات اورشاعری پر ایک نوٹ لکھیے ؟


جواب: حیات: -
اردو کے عظیم مرثیہ گو شاعرواردو رباعی کے استاد میر ببرعلی انیسؔ1804ء ،میں فیض آباد میں تولد ہوئےآپ کا اصلی نام میر ببر علی تھا پہلے حزین ؔ لیکن بعد میں انیس ؔ تخلص اختیار کیا آپ کے والد محترم کا اسمی گرامی میر خلیقؔ تھا دادا میر حسنؔ اورپردادا میرحسن ضاحکؔ تھااس طرح میرانیس ؔپشتنی شاعر تھے ابتدائی تعلیم مولوی حیدر علی سے حاصل کی اوراپنی والدہ سے بھی آپ نے خوب اچھی تعلیم وتربیت پائی مروجہ علوم کے ساتھ آپ نے گھوڑا سواری ، فنِ سپہ گری اور شمشیر زنی میں بھی کمال حاصل کیا۔ آخری عمرمیں فیض آباد سے لکھنو چلے آئے ہندوستان کے کئی شہروں کا سفر کیاجن میں عظیم آباد ،بنارس، حیدرآباد ،الہ آباد وغیرہ قابل ذکر ہیں جہاں جہاں آپ تشریف لے گے لوگوں نے خوب عزت کی ۔ عمر کے آخری ایام میں آپ کئی مہلک بیماروں کے شکار ہوگے خوب علاج ومعالجہ کروایا لیکن کچھ کام نہ آیا ۔ بالآخر10دسمبر 1874 کو آپ اپنے حقیقی مالک سے جا ملے
شاعری:-
بچپن کے دنوں سے شعرگوئی کی طرف رجحان تھا شاعری میں کمال درجہ حاصل کیا آپ اردو مرثیہ نگاری کے امام وپیشواتصورکئےجاتے ہیں شاعر ی کا آغاز صنف غزل سےکیا لیکن جلدی ہی اپنا محبوب صنف مرثیہ نگاری کو چن لیا ہمیشہ واقعیت اور اصلیت کو مد نظر رکھا ہے لفظوں کے انتخاب اوراستعمال میں آج تک ان کا دوجا ثانی پیدا نہ ہوسکا۔ آپ کے کلام میں فضاحت ،سلاست ،نازک خیالی اورسادگی ہے مرثیہ کے علاوہ رباعی کہنے میں بھی کمال درجہ حاصل تھا
رباعی
(1)
رتبہ جسے دنیا میں خدا دیتا ہے
وہ دِل فروتنی کو جا دیتا ہے
کرتے ہیں تہی مغز ثنا آپ اپنی
جو ظرف کہ خالی ہے صدادیتا ہے
فروتنی :- عاجزی ، انکساری ،تہی مغز: - بے وقوف ،احمق ، ظرف :- برتن
میرانیسؔ رباعی کےان اشعارمیں ایک حقیقت بیان کرتےہوئےفرماتےہیں کہ رُب العزت جس بندے کو دنیا میں اعلیٰ مقام عطا کر تاہےاگروہ انسان اخلاقاََ ،ادباََ اچھا ہے تو اس کے دل میں قدرتی طورپرنرمی،عاجزی وانکساری پیداہوجاتی ہےجس طر ح ایک پھلدار درخت کی شاخیں زیادہ پھل وپھول لگنے سے نیچے جھکتی ہیں اس طرح ایک اعلی خصلتاََ انسان میں نرمی آجاتی ہے مگر دوسری طرف جب ایک احمق انسان کا رتبہ ومقام اونچا ہوجاتاہےوہ اپنی ہی شان وشو کت کے گیت گانے لگتا ہے جس طرح ایک خالی برتن میں آوازیں پیدا ہوجاتی ہے جبکہ پُربھرے ہوے برتن میں کوئی آواز پیدا نہیں ہوتی ہے
(2)
ماں باپ سے بھی سوا ہے شفقت تیری
افزوں ہے تیرے غضب سے رحمت تیری
جنت انعام کر کہ دوزخ میں جلا
وہ رحم تیرا ہے یہ عدالت تیری
افزوں :- زیادہ
میر انیسؔ اس رباعی میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ایک ماں باپ سےبھی زیادہ بندے سےشفقت و الفت رکھتا ہے اللہ کی رحمت ،اللہ کے غضب سے زیادہ ہےاللہ نیک کاموں پر جنت انعام کے طوردے گا جبکہ برے کاموں کےبدلے جہنم دے گا یہی اللہ کی رحمت و حقیقی عدالت وانصاف ہوگا
(3)
آغوش لحد میں جب کہ سونا ہوگا
جُز خاک نہ تکیہ نہ نچھونا ہوگا
تنہائی میں آہ کون ہووے گا انیسؔ
ہم ہوں گے اور قبر کا کونا ہوگا
رباعی کے ان اشعار میں انیسؔ نے ایک تلخ حقیقت کو بیان کیا ہے فرماتےہیں کہ جب ہماری موت واقع ہوجا ئےگی توقبر کی لحد میں رکھ کر جب دفنایا جائے گا تو قبر میں میر ا کوئی ساتھی ومددگار نہ ہوگا وہاں صرف مٹی ہی مٹی و تنہائی ہوگی وہاں نہ سونےکے لئے بچھونااور نہ تکیہ ہوگا وہاں صرف ہم اور قبر کو کونا ہوگا
درسی سوالات
سوال: دنیا میں کون لوگ نرمی اورتواضع اختیار کرتے ہیں؟
جواب: دنیا میں وہی لوگ نرمی اورتواضع اختیار کرتےہیں جنھیں ربُ العزت نے ایسا ظرف وقلب عطا کیاہے وہ کوئی بھی مقام و مرتبہ یہاں تک ایک گھاس کا تنکا ملے پر بھی خالق وعرض و سماں کی تعریفیں بجالاتےہیں وہ اعلیٰ ہوکر بھی خود کو ادنیٰ ہی سمجھتے ہیں
2۔ دوسری رباعی کا خلاصہ اپنے الفاظ میں لکھیے؟
یہ رباعی میر انیسؔ کی لکھی ہوئی ہےاس رباعی میں انیس فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ایک ماں باپ سے بھی زیادہ رفیق وشفیق ہے اللہ کی رحمت ،اللہ کےغضب سے بڑی ہے اللہ اپنے نیک بندوں کو ان کے نیک کاموں پرجنت عطا کرے گا اور برے لوگوں کو ان کے برے کاموں کےعوض جہنم دے گا یہی اللہ تعالی کا حقیقی کرم اورعدل ہوگا
3۔ شاعر کا حوالہ دےکر ان اشعار کی وضاحت کریں
آغوش لحد میں جب کہ سونا ہوگا
جُز خاک نہ تکیہ نہ نچھونا ہوگا
تنہائی میں آہ کون ہووے گا انیسؔ
ہم ہوں گے اور قبر کا کونا ہوگا
رباعی کے ان اشعار میں انیسؔ نے ایک تلخ حقیقت کو بیان کیا ہے فرماتےہیں کہ جب ہماری موت واقع ہوجا ئےگی تو  قبر کی لحد میں رکھ کر جب دفنایا جائے گا توقبر میں میر ا کوئی ساتھی ومددگارنہ ہوگا وہاں صرف مٹی ہی مٹی و تنہائی ہوگی وہاں نہ سونےکے لئے بچھونا اور نہ تکیہ ہوگا وہاں صرف ہم اور قبر کو کونا ہوگا
4۔ میر انیس کی شاعری کے بارے میں مختصر نوٹ لکھیے؟
جواب: شا عری:۔
بچپن کے دنوں سے شعرگوئی کی طرف رجحان تھاشاعری میں کمال درجہ حاصل کیا آپ اردو مرثیہ نگاری کے امام وپیشوا تصورکئےجاتے ہیں شاعر ی کا آغاز صنف غزل سےکیا لیکن جلدی ہی اپنا محبوب صنف مرثیہ نگاری کو چن لیا ہمیشہ واقعیت اور اصلیت کو مد نظر رکھا ہے لفظوں کے انتخاب اوراستعمال میں آج تک ان کا دوجا ثانی پیدا نہ ہوسکا آپ کے کلام میں فضاحت ،سلاست ،نازک خیالی اورسادگی ہے مرثیہ کے علاوہ رباعی کہنے میں بھی کمال درجہ حاصل تھا
(27) جگت موہن لال رواں۔۔رباعی
3۔ رواں ؔ اناوی کے بارے میں مختصر نوٹ لکھیے؟
 جگت موہن لال رواں(1737ء 1914ء)۔
جواب  حالاتِ زندگی : -
رواں ؔ کا اصلی نا م جگت موہن لال تھا اور رواںؔتخلص تھا اُناوہ میں مستقل سکونت اختیار کی اسی وجہ سے رواں اُناوی کے نام سے مشہو ر ہوئے آ پ کی پیدائش 14 جنوری 1889ء کو اُترپردیش میں ہوئی آپ کے والد صاحب کانام چودھری مُنشی گنگا پرشاد تھا نو سال کی عمر میں باپ کا سایہ سر سے اُٹھ گیا ۔ بڑے بھائی کنہیا لال کی سرپرستی میں تعلیم حاصل کی ۔ گریجویشن کے بعد ایم اے اور ایل ایل بی کی ڈگریاں حاصل کیں ۔ وکالت کا پیشہ اختیار کیا اور بہت کم عمری میں کافی شہرت پائی ۔1943ء میں جب کہ آپ کی عمر صرف پنتالیس برس کی تھی تو آپ اس جہاں فانی سے کوچ کر گئے
شاعری :-
رواں کو بچپن سے ہی شاعری کا شوق تھا آپ کے خاندان کےسبھی لوگ علم وادب سے گہری دلچسپی رکھتے تھے اسی لئے گھر کے موحول نے آپ کے اس شوق میں جِلا پیدا کی چنانچہ تعلیم کے ساتھ ساتھ آپ کی شاعرانہ قوت بڑھتی گئی 1904ء میں آپ عزیزلکھنوی شاگرد ہوئےمثنوی اوررباعی آپ کا خاص میدان تھا فلسفہ پڑھنے کی وجہ سے آ پ کے کلام میں فلسفیانہ خیالات ملتےہیں آپ کے کلام میں سلا ست ،جوش وخروش اور گہر ا تفکر ہےآپ نے نظم نگاری کی اس روایت کی بھی زندہ رکھنے کی کوشش کی جس کی ابتدا حالیؔ اور آزادؔ سے ہوئی تھی آپ کی رباعیات میں دنیا کی بے ثباتی کا موضوع چھایا رہا آپ کے کلام "روحِ رواں" کے نام سے پہلی مرتبہ 1928ء میں شائع ہوا جس میں ان کی نظمیں ، قطعات ۔غزلیں اور رباعیات شامل ہیں
5۔ رباعی پر نوٹ لکھے ؟
جواب :- رُباعی "ربع" سے مشتق ہے جس کے معنی "چار" کے ہیں لیکن اصطلاحی ادب میں رباعی سے مراد وہ شعری ہیئت ہے جوچارمصرعوں پر مبنی ہوتی ہے اورفکر وخیال کے لحاظ سے مکمل ہوتی ہے اس کا پہلا ،دوسرا، اورچھوتھا مصرعہ ہم قافیہ ہوتا ہے جبکہ تیسرا مصرعےکا قافیہ الگ ہوتا ہے کھبی چاروں مصرعے ہم قافیہ ہوتےہیں رباعی کا چھوتھا مصرعہ بہت بلند اورزوردار ہوتا ہے اوریہی مصرعہ رباعی کی جان کہلاتاہے قافیہ ،بحراور وزن کی پا بندی رباعی کےلئے بہت ضروری ہے رباعی کے چوبیس اوزان مقرر ہیں رباعی میں مضامین کی کوئی قید نہیں ہے رباعی کے ددسرے نام دوبیتی ، چہار بیتی اورترانہ کے ہیں
رباعی کی ابتدا ایران میں ہوئی اس کا موجد ایرانی شاعررودکیؔ کو سمجھا جاتا ہے اردو میں رباعی فارسی سے آئی اردو کا پہلا شاعرعبدالقادر کو مانا جاتا ہےاردو کے ہر چھوٹے بڑے شاعر نےرباعیاں لکھیں ہیں لیکن میر انیس اوردبیر نے اردورباعی کو بام ِعروج تک پہنچادیا
6۔ یہ کس قسم کےمرکبات ہیں
سامانِ خوشی، حرص وہوس ،حیات ِ فانی
جواب:۔
سامانِ خوشی۔۔۔۔ مرکب اضافی
حرص وہوس ۔۔۔۔مرکب عطفی
حیات ِ فانی ۔۔۔مرکب توصیفی

(28)نوکروں پر سخت گیری کرنے کا انجام ۔۔ مولانا الطاف حسین حالیؔ 
ایک آقا تھا ہمیشہ نوکروں پر سخت گیر
درگزر تھی اورنہ ساتھ ان کے رعایت تھی کہیں
سخت گیر:-چھوٹی سی باتوں پر سزا دینے والا ، رعایت: - نرمی ، کمی
قطعہ کے اس شعر میں حالیؔ نے ایک مالک اوراس کے غلا موں کا ذکر کیا ہے فرماتے ہیں کہ ایک امیر شخص تھا جو ہمیشہ اپنے نوکر چاروں پرسختی سے پیش آتا تھا مالک کے مزا ج میں نرمی اور رعایت کسی قسم کی  موجودنہ تھی
بے سزا کوئی خطا ہوئی نہ تھی اُن کی معاف
کام سےمہلت کھبی ملتی نہ تھی ان کے تئیں
تئیں: - لیے
حالی ؔفرماتے ہیں کہ مالک نوکروں کی کسی بھی غلطی کومعاف نہیں کرتا تھا بلکہ انھیں سزائیں دیتا تھا اور نوکر ہروقت کوئی نہ کوئی کام کرتے ہی رہتے تھے
حسن ِ خدمت پر اضافہ یا صلہ تو درکنار
ذکر کیا، نکلے جو پھوٹے منہ سے اس کے آفریں
پھوٹے منہ سے:- بد دلی سے ، صلہ :- انعام
حالیؔ ارشاد فرماتےہیں کہ مالک کےغلاموں کو ہر وقت کا م پر کام کرنا پڑتا تھا کھبی فرصت کے دو لمحات میسر نہیں ہوپا تے تھے اور اچھے اچھے کام اور عمدہ محنت پر بھی کوئی انعام یا اجرت میں اضافہ نہیں کیا جاتا تھا مالک دو لفظ بھی محنت کرنے والے نوکر وں کے حق میں نہیں بولتا تھا
پاتے تھے آقا کو وہ ہوتے تھے جب اس سے دوچار
نتھنے پھولے منہہ چڑھا ، ماتھے پہ بل ابرو پہ چیں
دوچارہونا:- سامنا ہونا ، ملاقات ہونا، ماتھا:-چہرا، بل: - ماتھے کی شکن
حالیؔ فرماتے ہیں کہ جب کھبی مالک کے نوکرچاکر اپنے مالک کے سامنے آجاتے تھے اور مالک اُنھیں دیکھ کر ناخوش ہوتا تھا اوراس کے چہرے پر شکن کےنشان پڑجاتے تھے
تھی نہ جُز تنخواہ نو کر کےلئے کوئی فتوح
آگے ہوجاتے تھے خاین جو کہ ہوتے تھےامیں
فتوح :- کامیابی ، بالائی آمدنی ، خاین :-خیانت کرنےوالا ، بددیانت ،امیں :-امانت دار
حالی ؔ اس شعرمیں فرماتےہیں کہ مالک کے نوکروں کے لئے تنخوا ہ کے علاوہ باقی مراعاتیں نہ تھیں البتہ ان نوکروں میں جو کچھ چاپلوسی قسم کےتھے وہیں کچھ خود کومالک کے پاس جھوٹے امانت دار دکھا کرکچھ فائدہ مالک سے حاصل کرپاتے تھے
رہتا تھا اک شرائظ نامہ ہرنوکر کےپاس
فرض جس میں نو کر اور آقا کے ہوتے تھے تعیں
حالی ؔاس قطعہ کے اس شعرمیں مالک اورنوکروں کے مابیں ہونے والے معاہدےکا تذکرہ کرتے ہوئےفرماتےہیں کہ مالک اوراس کے نوکروں کےدرمیاں جو معاہدےہوئے تھے اس پر لکھا ہوا تھا کہ مالک کانوکروں پر کیا حق ہے اور نوکروں کو کیا فرائض انجام دینے ہونگے
گر رعایت کا کھبی ہوتا تھا کوئی خواستگار
زہر کے پیتا تھا گھونٹ آخر بجائے انگبیں
خواستگار :- طلب گار ، امیدوار،انگنیں :- شہد
حالیؔ کہتے ہیں کہ جب کوئی نوکرکام میں کوئی کمی یا تخفیف کا حق مانگتا تھا تو مالک نوکروںپر کوئی نرمی نہیں کرتا تھا جس کی وجہ سے نوکر شہد کھانے کے بدلے زہر کے پیالے گھونٹ گھونٹ کے پیتا تھا
حکم ہوتا تھا شرائط نامہ دکھاؤ ہمیں
تاکہ یہ درخواست دیکھیں واجبی ہے یا نہیں
واجبی: - درست ،ضروری ،ٹھیک
حالیؔ فرماتےہیں کہ جب کوئی نوکر کوئی رعایت کی مانگ کرتا تھا تو مالک حکم دیتا تھا کہ وہ نوکری کاشرائط نامہ دکھاؤ تاکہ یہ دیکھا جائے کہ آپ لوگوں کی فرمائش جائز ہے کہ نہیں ہے
واں سوا تنخواہ کے ، تھا جس کا آقا ذمہ دار
تھیں کُریں جنتی وہ ساری نوکروں کے ذمے تھیں
کُریں :- نقصانات
حالیؔ کہتےہیں کہ جب نوکروں کے ذریعے نوکری نامہ پیش کیا جاتا تھا تو وہاں صاف صاف لکھا ہوا ہوتا تھا کہ تنخواہ کے سوا مالک کی کوئی ذمہ داری نوکروں کے تئیں درج نہ تھی البتہ کام کرتے وقت اگر کسی چیز کا نقصان ہوجاتاتو اس کی بھرپائی نوکروں کو کرنا ہوگی
دیکھ کر کاغذ کو ہوجاتے تھے نوکرلاجواب
تھے مگر وہ سب کےسب آقا کےمار آستین
مارِ آستین: - چھپا ہوا دشمن ،دوست نما دشمن
حالیؔ فرماتےہیں کہ جب نوکر اپنےنوکری نامہ دیکھتے تھے تو دیکھ کر شرمندہ اورلاجواب ہوتے تھےاو ر اندرہی اندر دل میں مالک کے دشمن بن جاتے تھے
ایک دن آقا تھا اک منہ زور گھوڑے پر سوار
تھک گئے جب زور کرتے کرتے دستِ نازنیں
دستِ نازنیں :- کمزور ہاتھ
حالیؔ کہتےہیں کہ ایک دن مالک ایک دن تیز ترار گھوڑے پر سوار ہوا مگر بدقسمتی کی وجہ سے گھوڑابے قابو ہوگیا اور مالک کےدونوں ہاتھ لگام کھینچتے کھینچتے تھک جاتے ہیں
دفعتاََ قابو سےباہر ہوکے بھا گا راہوار
اور گرا اسوار صدر زیں سے بالائے زمیں
اسوار: -سوار، بالائے، زمیں: -زمیں کے اوپر،
حالی ؔ بیان کرتےہیں کہ مالک جس گھوڑے پر سوار ہواتھا وہ اچانک بے قابو ہوجاتا ہے مالک کا پاؤں گھوڑے کے زین سے نکل جاتا ہے جس کی وجہ سے مالک نیچے زمیں پر گر جاتا ہے
کی بہت کوشش نہ چھوٹی پاؤں سےلیکن رکاب
کی نظر سائیس کی جانب کہ ہو آکر معیں
معیں :- مددگار، سائیس :- گھوڑےکی خدمت اوردیکھ بھال کرنے والا
حالیؔ اس شعرمیں فرماتےہیں کہ اس مالک نے بڑی کوشش کی۔ کہ اُس کاپاؤں رکاب سے چھوٹ جائے مگر وہ اپنے پاؤں چھڑانے سےکامیاب نہ ہو سکا آخرگھوڑوں کی دیکھ بھال کرنے والوں سےکہا کہ میر ا پاؤں چھڑانے میں میری مدر کروں
تھا مگر سائیس ایسا سنگ دل اور بےوفا
دیکھتا تھا اور ٹس سےمس نہ ہوتا تھا لعیں
ٹس سے مس :- جنبش نہ کرنا ، لعیں : -لعنتی
حالی ؔکہتے ہیں جب مالک کا پاؤں رکاب پر پھنس جاتا ہے مگر نوکر اپنے مالک کی مدد کرنے کےلئے آگے نہیں آتے ہیں لیکن وہ لعنتی نوکر اپنی آنکھوں سے سب کچھ دیکھتے رہے تھے اور وہ اپنے مالک کی کسی طرح سےمدد نہیں کرتےہیں
دور ہی سے تھا اُسے کاغذ دکھا کہ کہہ رہا
دیکھ لوسرکار اس میں شرط یہ لکھی نہیں
حالیؔ کہتے ہیں نوکر نے مالک کی پکار کی مدر پر کہا دیکھو صاحب اس ہمارے نوکر نامہ کے کاغذ کے شرائط میں آپ کی مدد اس طرح کرنا نہیں لکھا ہوا ہے
2۔ توضیحات
قطعے کے لفظی معنی" ٹکرا " کے ہیں اصطاح شعر میں قطعہ غزل کی ہیت میں کہے گئے ان دو یا دو سے زیادہ اشعار کو کہتےہیں جو معنی کے اعتبار سے باہم مربوط ہوں اکثر شعراء غزل میں دویا اس سے زیادہ معنی کےلحاظ سےاسطرح مربوط کرتے ہیں کہ قطعہ بند کہلاتے ہیں 
اس قطعے میں حالیؔ نے ہمیں ماتحتوں اور نوکروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی تلقین کی ہے نوکر بھی ہماری ہی طرح انسان ہوتےہیں اگر ہم ان کے ساتھ ہمدردی سے پیش آئیں گےاوران کا خیال رکھیں گے تو وہ ہماری خدمت سچے دل سے کریں گے ہمارے صحیح معنوں میں وفادار ہوں گے ار اگر ان کی طرف ہمارارویہ غیر ہمدردانہ ہوگا رو ہمارا حشر بھی اس آقا سا ہوگا جس کا قصہ اس قطعہ میں بیان کیا گیا 
3۔ سوالات
1۔ یہ کہانی بیان کرنے سے حالیؔ کاکیا مقصد ہے؟
جواب: اس کہانی کو بیان کرنے کا مقصد حالیؔ کا یہ تھا کہ ایک امیر انسان کو اپنے نوکر و چاکروں کے ساتھ ہمیشہ حسن سلوک سےپیش آنا چاہیے اگر کبھی نوکروں سے کوئی غلطی یا چوک ہوجائے تو درگذر کرنا چاہیےنہ کہ سختی کرنی چاہیے کیوں یہ لوگ بھی ہماری ہی طرح انسان ہیں آج یہ اگر ہمارے ماتحت ہے تو کل یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ بھی ہمارے کسی کام کو انجام دے گے جوہماری بس کی بات نہ ہوگی
2۔ ہمیں اپنے ماتحتوں سےکس قسم کابرتاؤ کرناچاہیے؟
جواب-ہمیں اپنے ماتحتوں سے خوش خلقی اور حسن سلوک سے پیش آنا چاہیے نہ کہ زور زبردستی سے، یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ بڑے پتھر کو بھی کھبی چھوٹے پتھر کی ضرورت پڑجاتی ہے
3۔ اس قطعے میں جو کہانی بیان کی گئی ہے اسے اپنے الفاظ میں لکھیں؟
جواب : یہ شاندار وجاندار قطعہ"نوکروں پرسخت گیری کرنے کا انجام" مولانا الطاف حسین کی قلم کی نوک سےجنم پایاہےاس قطعہ میں شاعرایک مالک اوراُس کے نوکر وں کے احوال بیان کرتا ہے کہی ایک مالک رہتا تھا جس کےکئی نوکر چاکر تھے دن ورات محنت کرنا ،نوکروں کےنصیب میں خدا نے ازل میں ہی لکھا تھا مگر ددوسری طرف اُن کی اِس اَن تھک محنت کومالک ہمیشہ نظر انداز کرتا تھا اچھے اورکٹھن کاموں میں انعام تو دور ، دد بول بھی خوشی کے ان کے حق میں نہ بولتا تھاکھبی جب نوکرمالک سے کرم کے واسطےکچھ مراعاتیں مانگتے تھے اُنھیں اُن کا نوکری کا وہ شرائط نامہ مانگا جاتا تھا جس پرصاف صاف اوربڑے بڑےحروف میں یہ لکھا ہوا درج تھا کہ مالک کی محض نوکروں کے واسطے صرف اتنی دمہ داری ہوگی کہ نوکروں کو صرف چندروپئے تنخوا ہ کے طور ادا کی جائےگی باقی اگر کھبی نوکروں کے ذریعے کام کرتے وقت مالک کا کچھ نقصان ہوجاتا تو اس کو سود سمیت بھرپائی نوکرکوکرنی ہوگی اتفاقاََ مالک ایک دن ایک شرارتی گھوڑے پر سوار ہوجاتا ہے جومالک سےبےقابو ہوجاتا ہے اور مالک کا پیر گھوڑے کی زین میں پھنس جاتا ہے جس پرمالک نوکروں کو چلاکرکہتا ہے کہ میرا پیر زین سے باہر نکالو اُس پرنوکرکہتے سرکار اِس کام کا معاہدہ نوکری کےشرائط  نامہ کے کاغذپر نہیں لکھا ہواہےغرض جیسا بوئےگے ویسا ہی کاٹو گے
4۔ مندرجہ ذیل اشعار کرنثر میں بدل دیں
کی بہت کوشش نہ چھوٹی پاؤں سےلیکن رکاب
جواب (نثر)مالک نےبڑی کوشش کی ۔ کہ کسی طرح سے اُ س کے پاؤں رکاب سےچھوٹ جائیں
کی نظر سائیس کی جانب کہ وہ ہوتا معیں
جواب:(نثر) مالک نے سائیس کی طرف نظرکی کہ وہ اُ س کی مدد کرے
تھا مگر سائیس ایسا سنگ دل اور بے وفا
جواب(نثر) مگر سائیس بہت بڑا بے وفا اورسنگ دل قسم کا انسان تھا
دیکھتا تھا اور ٹس سے مس نہ ہوتا تھا لعیں
جواب (نثر) وہ لعنتی نوکر مالک کا یہ حال دیکھ کر ٹس سے مس نہیں ہوا تھا
5۔ اُردو شاعری کی ایک صنف "قطعہ " پر نوٹ لکھیے؟
جواب : قطعہ کے لغوی معنی ٹکرےکےہیں لیکن ادبی اصطلاح میں قطعہ اس مسلسل نظم کو کہتےہیں جس میں ایک خیال یا ایک واقعہ دویا دوسےزیادہ اشعار میں اس طرح موزوں کیا گیا ہو کہ ہر شعر کا مطلب دوسرےشعر پرموقوف ہو قطعہ غزل کی ہیئت میں لکھےجاتے ہیں قطعہ کے اشعار کی تعدار کم از کم دو ہوتی ہے اورزیادہ سے زیادہ اشعار کی کوئی حد مقر ر نہیں ہے مطلع نہیں ہوتا البتہ قافیہ اور ردیف کاخیال بہرحال رکھا جاتا ہے قطعہ میں ہر قسم کے مضامیں بیان کئےجاتےہیں البتہ قطعہ کے اشعار مسلسل بیان ہونا لازمی ہےبقول ِ اختر انصاری " یہ ایک سمٹی ہوئی نظم ہے"
قطعہ کو پہلے پہل ایک الگ صنف کی طرح نہیں برتا گیا مگر غالبؔ، اکبرؔ 'اقبال وکئی اوردوسرے شعراء نے اس میں چارچاند لگائے تویہ صنف سنور کر نکھر کر سامنے آگئی اور اردوادب سے شوق رکھنے والوں کی پیاس آج بڑی شدت کےبجھا رہی ہے
6۔ حالیؔ کی حیات کاتذکرہ کیجئے
جواب
حیات: ـ مولانا الطاف حسین حالی اردو کے پہلے باقاعدہ نقاد اور سوانح نگا ر ہیںآپ کی پیدائش سرزمیں پانی پت میں 1837ء میں ہوئی آپ کےوالد صاحب کا اسمی گرامی خواجہ ایزد بخش تھا نو برس کی ہی عمر میں باپ کاسایہ سر سے اُٹھ گیاتعلیم تربیت کی ساری ذمہ داری بڑےبھائی کےکندھوں پرپڑی عربی وفارسی میں اعلیٰ تعلیم آن پڑی۔حفظِ قرآن مجید سےبھی سرفراز ہوئے ۔ 1883ء مین شادی کے بندھن میں بند گے شادی کے چند مہینے کےبعد مزیداپنی تعلیم پیاس بجھانےکےلےدہلی چلے آئے 1855ءمیں پھر پانی پت لوٹ آئے آکربچوں کوپڑھانےکاکام کیا 1857ء غدر کی لڑائی میں جب حالات خراب ہوگے تو آپ نےگوشہ نشینی اختیارکی اور1861ء تقدیر نےپھردہلی کارخ کروایا جہاں قسمت نے آپ کوشیفتہؔ اورمرزاغالبؔ سےملوایا ان دونوں شاعروں کی وفات کے بعد آپ لاہور چلے آئے وہاں گورنمنت بک ڈپو میں ملازم ہوئے سرسید سے ملاقات ہوئی اس کی تحریک سے وابسط ہوئے آخری عمر میں حیدر آباد سے ادبی وظیفہ مقرر ہوا سرکاری ملازمت کو خیرآباد کہہ دیا پانی پت پھر لوٹ آئے ادبی سفر میں دل وجان سے مشغول رہے یہی پر ہی 31دسمبر 1914ء کو آپ اللہ کو پیارےہوگے
سوال: حالیؔ کےادبی خدمات کا جائزہ لیتے ہوئے اُن کا مقام متعین کیجیے؟
جواب :-مولانا الطاف حسین حالیؔ اُردُو کے پہلے باقاعدہ سوانح نگاراورنقاد تسلیم کئے جاتے ہیں آپ اردو کے بڑے شاعر ہی نہیں بلکہ ایک بڑے ادیب بھی تھے جس نے مقصدی شاعری کے فن کو برتا اورعروج تک پہیچایا۔آپکے کلام کا مقصد قوم کی اصلاح تھا اس لئے آپ نے سادہ اورآسان الفاظ کا استعمال کیا آپ کا کلام تاثیر سےبھر پور ہے آپ پہلے شاعر ہیں جنہوں نے ادب کو زندگی اوراس کے مسائل سےموڑاآپ کی نظموں میں سادگی ، روانی، یک رنگی اور تسلسل موجود ہے آپ مطری شاعر ی کے بڑے حامی تھے آپ کی نثر نگاری آپ کی نظم نگاری پر سبقت رکھتی ہےآپ نےغالبؔ کامرثیہ لکھ کر شخصی مرثیہ نگاری کو رواج دیا سرسید تحریک نے آپ کی ادبی زندگی کو ایک نئی جلا عطا کی اردو شاعر ی میں نئے راہیں متعین کیں۔"حیاتِ سعدی " یادگارِغالب" اور"حیات جاوید"لکھ کر آپ نے اردو میں سوانح نگاری کی باقاعدہ بنیاد ڈالی ۔اسی طرح" مقدمہ شعروشاعر ی" لکھ کرارود زبان وادب میں مکمل تنقید نگاری کی داغ بیل ڈالی الغرض حالیؔ اردو کا بہتریں شاعر ہونے کے ساتھ کافی بلند پایہ نثر نگارہیں

درخواست لکھنے کے لئے مندرجہ ذیل قواعد کو ملحوظ رکھنا لازمی ہے

  1. پہلی سطر میں آفیسر کا  عہدہ اور پتہ لکھنا ضروری ہے
  2. دوسری سطر کے درمیان میں "جنابِ عالی" لکھا جاتا ہے
  3. تیسری سطر میں دو تین الفاظ کی جگہ چھوڑ کرمودبانہ انداز میں مقصد تحریر کیجئے جیسے کہ "گذارش  ہے کہ" مودبانہ التماس ہے کہ " نیائت ادب سے گذارش ہے کہ" گذارش بحضوریہ ہے کہ"
  4. درخواست مختصر اور سادہ آسان الفاظ میں لکھیےجس آفسرکولکھیے اس کے عہدے کا پورا پورا احترام رکھیں
  5. درخواست کے خاتمے پرکوئی دعائیہ جملہ یامودبانہ الفاظ ضرور لکھنے چاہیے مثلاََ  زیادہ آداب ، شکریہ، شکرگذاررہوں گا، ممنوں ہوں گا/ہوں گی
  6. درخواست کے آخر پردوسطروں کے برابر جگہ چھوڑ کر درمیاں الفاظ میں "العارض" یا درخواست گذار " لکھیےاور پھر اس کے نیچے اپنا نام اورپتہ ضرور لکھیے 
تاریخ لکھنے کے انداز ہیں 
بتاریخ: 29ستمبر2020ء
مورخہ: 29ستمبر 2020ٰٰء

اپنے ہیڈماسٹر یا اپنے پرنسپل کے نام اپنی ڈسچارج سرٹیفیکٹ اجراء کرنے کے لئے ایک درخواست لکھیے

بخدمت جناب ہیڈ ماسٹر صاحب گورنمنٹ ہائی اسکول ا،ب،ج

جناب عالی!

گزارش بخدمت یہ ہے  کہ میں آپ صاحب کا دھیان اس جانب مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ میرے والد صاحب کاتبادلہ ضلع اننت ناگ سے بارہ مولہ ہوگیا ہے جس کی بنا پر میرے باپ نے یہ فاصلہ کیا ہے کہ وہ ہمیں بھی اپنے ساتھ لے جائے گا

اسلئے جنابِ والا سے التماس کی جاتی ہے کہ میرے حق میں میری اسکول ڈسچارچ سرٹیفیکٹ اجراء کی جائے تاکہ میں اُس دوسرے ضلع میں اپنی تعلیم جاری رکھ سکوں۔اسکول ھذا کی میں نے ساری فیں ادا کی ہے

شکریہ

مورخہ27.02.2020

عرضی نیازمند

ا ب ج

رول نمبر 11


 میونسپل کمیٹی کے سربراہ کے نام ایک درخواست قلمنبد کیجئے جس میں یہ شکائت درج ہو کہ آپ کے علاقے میں صفائی کاکوئی معقول انتظار نہیں ہے

بخدمت جناب ایگزیکیٹیوآفیسر اچھہ بل

جنابِ عالی!

  گذارش بخدمت یہ ہے میں آپ صاحب کی توجہ اس امر کی طرف دلانا چاہتا ہوں کہ کئی روز سے بارش کا سلسلہ لگاتار جاری ہے جس کی وجہ سے ہمارے وارڈ کی سبھی گلی کوچوں کی سڑکیں پانی سے بھر گئیں ہیں اوربہت ساری جگہوں پر گٹرکے ڈکھن اٹھ گئے ہیں جس کی وجہ سے عوام کافی تکلیفات میں ہیں اور دوسری طرف آپکے صفائی کرمچاری بہت کم یہاں کی صفائی کی طرف دھیان دیتے ہیں اور کھبی کھبار ہی یہاں کا رخ کرتے ہیں

اسلئے جنابِ والا سے التماس کی جاتی ہے کہ ہمارے وارلڈ نمبر ٹو کی صفائی روزانہ کی بنیادوں پر ہونے کے احکامات صادرفرمائیں جائیں۔تاکہ ہمارے دکھوں کا مداوا ہوسکے

ہم امیدِ محکم رکھتے ہیں کہ جناب والااولیں فرصت میں ہماری فریاد پر اپنی توجہ ضرور فرمائیں گے

مورخہ16.08.2020

عرضی نیاز مندان

باشندگان اچھہ بل وارڈنمبر ٹو

بعذریعہ اب ج

اپنے ہیڈ ماسٹر کے نام فیس معاف کرنے کی ایک درخواست لکھیے

جنابِ عالی!
گزارشبحضوریہ ہےمیں آپ کی توجہ اس امر کی اورراغب کروانا چاہتا ہوں میں آپ کے اسکول میں کلاس دسویں جماعت کا ایک طالب علم ہوں میرے والد صاحب کی آمدنی نہ ہونے کے برابر ہے کثیر گھریلوں اخراجات ہونے کی وجہ سے میرا باپ اس سال کی میری سالانہ فیس ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتا ہے اس لئے آپ صاحب سے التجا کی جاتی ہے کہ اس سال کی میری سالانہ فیس انسانی ہمدرری کے ناطے معاف فرمائی جائیں تاکہ میں اپنی مزید تعلیمی سرگمیاں بنا کسی رکاوٹ کے جاری وساری رکھ سکوں
عرضی نیازمند
مورخہ24.08.2020
ا ب ج
جماعت دسویں
رول نمبر 14

 خط لکھنے سے پہلے چند اہم بانوں کو یاد رکھنا لازمی ہے

  1. خط کے شروع میں خط لکھنے والے کا اپنا نام اور پتہ اور تاریخ دائیں جانب مختصراََ لکھیے
  2. نئی سطر کے پر مخاطب کے القاب اور اسلام علیکم یا آداب تحریر کیجئے
  3. پھر نئی سطر سے خط کا مضمون شروع کیجئے
  4. مضمون کے خاتمے پر الوداعی کلمات لکھیے
  5. آخرپر خط لکھنے والا اپنا نام لکھے
  6. کوشش کریں کہ خط میں کوئی غیر ضروری بات نہ لکھیی جائے جوکچھ بھی لکھے صاف صاف اورغلطیوں سے پاک اورخوشخط ہو
  7. خط مکمل لکھنے کے بعد ایک بار اس کوضرور پڑھ لیں تاکہ غلطی کا ازالہ ممکن ہوسکے
دوست کے نام خط( امتحان میں کامیابی پرمبارک باد)

سرنل اننت ناگ

مورخہ:29ستمبر2020ء

میرے پیارے دوست!

اسلام علیکم!

امید  ہے کہ صاحب کے مزاجِ گرامی ٹھیک ہوگے کل انٹرنیٹ پر آپ کےدسویں جماعت کا ریزلٹ دیکھا نہانت شادمانی ہوئی ممی پاپا بھی بہت زیادہ خوش ہوئےمیری طرف سے دل کی گہرائیوں سے مبارک بادی  قبول کرلینا میں بہت جلد آپ کے گھر آپ کومبادک بادی دینے کے لئے پہنچ رہا ہوں میرے ساتھ میرے ممی پاپا بھی ہونگے

میری طرف سے پھر ایک بار بار پاس ہونے پر بہت بہت مبارک باد

29ستمبر2020ء

آپ کا اپنا دوست

ا ب ج

ساکینہ ل

وقت کی پاپندی

اس کائنات میں جس چیز کی سب سے زیادہ اہمیت و افادیت ہے وہ وقت کی پاپندی ہے یوں تو اس دنیا کی ہر چھوٹی بڑی چیز ،زر اور جنس سے خریدی جاسکتی ہے مگر  وقت دنیا کی ایک ایسی واحد چیز ہے جس کو نہ تو کسی دنیا کے بازارمیں بھیجا یا خریدا جاسکتا ہے وقت ہی دنیا کی ایک ایسی چیز ہے جس کو دنیا کا کوئی بڑا سے بڑا بادشاہ یا کوئی معمولی غلام خرید نہیں سکتا ہے وقت ہی ایک ایسی واحد شے ہے جو ایک بار گزر جائے تو یہ کبھی واپس لوٹ کر نہیں آتی  ہے  دنیا میں وہی انسان اور وہی قوم کامیاب وکامران ہوجاتی ہے جو وقت کی حقیقی معنوں میں قدر کرتی ہیں جو طالبہ علم اپنے وقت کاصحیح استعمال کرتے ہیں وہی اپنے زندگی میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیتے ہیں جوانسان وقت کی قدر کرتا ہے وقت بھی اس کی قدر کرتی ہے وہی کسان اچھے پھل پھول پاتا ہے جو صحیح وقتوں میں اپنے فصلوں کی بوائی و کٹائی کرتا ہے 

الغرض دنیا کے ہر فرد کو وقت کی قدر کرنی چاہئے تب جا کے یہ دنیا ترقی کی حقیقی راہوں پر گامزن ہوسکتی ہے

اتفاق

انسانی زندگی بُرے واچھے کاموں کا نام ہے یوں توخالقِ کائنات نے ہر چیزمیں اچھائی وبُرائی ازل سے رکھی ہے اور ساتھ ہی ساتھ خداوند کریم نے وقت وقت پراس درتی کی جانب اپنے نبی ،پیغمبر، مرسل ورسول بھیجے ہیں اور اُن کےذریعے عام انسانیت تک یہ پیغام پہیچادیا ہے کہ اے لوگوں تم برائی کے بدے اچھائی کادامن کبھی نہیں چھوڑنا۔اسی سے اس کائنات کی دائمی بقا قائم رہ سکتی ہے

انسانی زندگی میں اتفاق کی اہمیت کو کوئی فرد فراموش نہیں کرسکتا یہ ایک اسی لازوال نعمت ہے کہ جس قوم وملت میں یہ عنصر پیداہوجائے تو اُس قوم وملت کو کوئی ہرانہیں سکتا۔ہیرو شیما و ناگہ ساکی پردوایٹم بموں نے لاکھوں بے گنا ہ انسانوں کی قیمتی جانیں لے لیں یہ بھی قوموں میں نہ اتفاقی کی وجہ سے ہوا یہ مقولہ مشہور ہے کسی باپ کے سات بیٹے تھے نا اتفاقی کی وجہ سےہمیشہ آپس میں لڑتے جھگڑتے تھے باپ نے بہت سمجھا مگر بیٹے سمجھنے کا نام نہیں لیتے تھے ایک روز باپ نےبیٹوں کو ایک گھٹے کی لکڑیا ں الگ الگ توڑنےکو دی تو وہ اُنھیں آرام سے توڑ گئے مگر جوں ہی باپ نے لکڑیوں کا گٹھا سب بیٹوں کو اکھٹا کرکے توڑنے کو دیا وہ سب باری باری اور اکٹھا بھی لکڑی کے گٹھے کو توڑ نہ پائے اس طرح با پ نے اپنے بیٹوں کو ساتھ ساتھ رہنے اور اتفاق سے رہنے کی افادیت کو سمجھایا

اس سے اور اس لئے ہمیں آپس میں اتفاق سے رہنا چاہئے اور آپسی رنجس،نفرت بھید بھاو کو پیار و محبت کے ساتھ سلجھانا چاہے ناکہ لڑائی جھگڑے سے

ہمیں یہ بھی کبھی نہیں بولنا چاہیے کہ اتفاق سے ہی یہ دنیا قائم ودائم ہے  





















               




               






































 



























































































































































































































































































































































































































































































































































































































































































































































                          


    



ایک تبصرہ شائع کریں

1 تبصرے