جواب: لغت میں "نعت " کے لغوی معنی مدح، ثنا یا تعریف کے ہیں لیکن اصطلاحی ادب میں "نعت" اس صنف کو کہتےہیں جس میں حضرتِ رسول اکر م صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح سرائی بیان کی جاتی ہے اس میں ہیئت کی کوئی قید نہیں ہے اس لئے نعت شاعری کی موضوعی صنف ہے
نعت گوئی کا آغاز عر بی شاعری میں اس وقت ہوا جب پیغمبرآخر ی زمان حضرتِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں چند کافر شاعروں نے ہجوگوئی کی اس کے بدلے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے کہا کہ تم میں ہے کوئی جو میری مدح سرائی بیان کرسکتا ہے تب جا کے حسان بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ نے کچھ اشعار کہے جن سے نعت گوئی کی صنف کی بنیا پڑی نعت یہاں سے فارسی میں آئی اور اردو میں عربی اورفارسی کے راستےداخل ہوئی نعت کا تعلق چونکہ مذہبی اسلام سے ہے اس لئے اردو کے اکثر شاعروں نے نعتیں کہیں ہیں اردو کے چند مشہور و معروف نعت گو شعراء میں میر تقی میرؔ، مولانا حالیؔ، مولانا شبلیؔ نعمانی، مولانااحمد یارخان اور مولانا احمد رضا احمدخان بریلوی،علامہ اقبال، رسا جاودانی وغیرہ شامل ہیں
سوال :-رسا جاودانی کی حیات اور شاعری پر ایک نوٹ لکھیے؟
جواب حیات:-
رسا جاودانی جموں وکشمیرکا ایک مایہ ناز شخصیت کا نام ہےآپ کی پیدائش بھدرواہ میں 7 جولائی 1901ء میں ہوئی آپ کا اصلی نام عبدالقدوس تھا اور رساؔ تخلص تھا اردو ادب میں رسا جاودانی کے نام سے مشہور تھےآپ کے والد کا نام خواجہ منور تھا جو پیشے سے ایک تاجر تھےابتدائئ تعلیم مقامی طور پر حاصل کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے پنجاب یونیورسٹی سے منشی فاضل کا امتحان پاس کیا تعلیم حاصل کرنے کے بعدمحکمہ تعلیم میں بحیثیت استاد مقرر ہوئےاور اسی محکمے سے سبکدوش ہوگئے آپ کا انتقال 27 مئی 1979ء سرزمیں بھدرواہ ہوا
شاعری:-
رساؔ کو شاعری کی طرف رجحان بچپن کے ایام سے تھا آپ نے اپنی شاعری کا آغاز بچپن کے ایام کے دنوں میں کیا تھا شعر گوئی کے علاوہ آپ گانے بجانے کا بھی شوق رکھتے تھے آپ ایک روایتی شاعر تھے آپ کی شاعری میں ایک استاد کا رنگ جھلکتا ہے حسن وعشق آپکی غزلوں کا ایک اہم موضوع رہا کشمیر کے قدرتی مناظر کی اپنی شاعری میں خوب پذیرائی کی آپ کے شعری مجموعے میں '' لالہ ء صحرا" اور "نظم ثریا" قابل ذکر ہیں
نعت
بنی نوع انسان کا غم خوار آیا
وہ تخلیق عالم کا شہکار آیا
بنی نوع:- حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد ،غم خوار:- غم کو دور کرنے والا ، تخلیق عالم:- کائنات کو پیدا کرنے والا، شہکار: -کسی بھی فن کا ماہر
نعت کے اس پہلے شعر میں رساؔ ارشار فرماتے ہیں کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لا چکے ہیں آ پ صلی اللہ علیہ وصلم تمام دینا کے لوگوں کا غم دور کرنے کے لئے تشریف لائے ہیں اور آپ صلی علیہ وسلم ہی اس کائنات کے بنانے والے کا ایک عظیم شہکار ہیں
وہ نبیوں کا سرتاج سردار آیا
خوش اندام آیا خوش اطوار آیا
خوش اندام:-خوبصورت جسم والا ، خوش اطوار: - اچھے طوروطریقہ والا
رساؔ اس نعت کے شعرمیں حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف میں کہتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام نبیوں کے سرکے تاج اور اُن کے سردار ہوآپ صلی علیہ وسلم کا جسد ِمبارک اورطورطریقے بھی بہت اعلیٰ پایہ کے ہیں
تو آیا تیرے آنے کی آرزو تھی
نگاہوں کو بس تیری ہی جستجو تھی
رساؔ جاودانی نعت کے اس شعر میں ارشاد فرماتے ہیں کہ اے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کی دنیا کے لوگوں کو تمنا و آرزو تھی اور دنیا کے لوگوں کی نگا ہوں کوآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش و جستجو رہی تھی
تواے ابرِ رحمت جو دنیا میں آیا
شرف آدم و آدمیت نے پایا
ابرِ رحمت :- رحمت کے بادل ،شرف : -بلندی
رساؔ اس نعت کے شعر میں حضرتِ بنی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح سرائی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں رحمت بن کے آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی بنی نوع آدم کوبہت اونچا مقام عطا نصیب ہوا
تو وہ سروِقامت نہیں جس کا سایہ
مگر بن کے رحمت تو عالم پی چھایا
سروِ:-سیدھا قد والا،سروِ قامت: -خوش قامت
رساؔ نبی پاک صلی علیہ وسلم کی شان یوں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اے بنی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے سیدھے قدِ مبارک کے مالک ہیں کہ جس کو کوئی سایہ نہیں مگردوسری طرف آپ تمام جہاں کے لے رحمت کا سایہ بن کے آئے ہیں
قدم تیرا جب سے پڑا ہے زمیں پر
زمیں فوق رکھتی ہے عرشِ بریں پر
فوق: -برتری، عرشِ بریں :- وہ آسمان جہا ں اللہ کا تخت ہے
رساؔ اس نعت میں بیان کرتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس زمیں پر اپنا تشر یف و اشرف لا کر اپنے قدمی مبارک اس زمیں پر رکھ لیئے تو اس سے اس زمیں کا مقام و مرتبہ اور رتبہ آسمانوں سے بڑ ھ گیایہ کام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدمی مبارک سے ممکن ہوپایا
پیام آتشی کا ہے قرآن تیرا
ہوا جا گزیں دل میں فرمان تیرا
پیام :- پیغام ۔خبر،جاگزیں دل: -دل میں جگہ بنالینا
نعت کے اس شعر میں رساؔ نبی پاک صلی اللہ علیہ کی مدح بیا ن کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وسلم جوکلام لے کرآئے یعنی قرآن پاک وہ سراسرامن و آشتی کا فرمان الہیٰ ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا کلام بھی یعنی حدیث دل کا قرار بن گیا
کرم ہر کسی پر ہے یکسان تیرا
ہے دھرتی کے کندھوں پراحسان تیرا
کرم :-مہربانی ، دھرتی: -زمیں، یکسان :-برابر
رسابیان کرتےہیں کہ اے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم مہربانیاں تما م لوگوں کے برابررہی ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں کوئی تمیز نہیں کرتے تھے یہی وجہ رہی ہے کہ اس کائنا ت کے دوشوں پر یہ بڑااحسان رہا ہے
جو شفقت مسلمان کے حال پر ہے
وہی غیر مسلم پہ تیری نظر ہے
شفقت :- مہربانی ، الفت،محبت
رسا ؔ اس نعت کے شعر میں فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ، الفت مسلم و غیر مسلم پر یکساں وبرا بر رہی ہے اور غیر مسلموں پر آپ کی نظریں مہربانیاں رہی ہیں
یہ کردار تیرا نہ کیوں دل کوبھائے
تو دل میں بسے کیوں نہ من میں سمائے
بھائے :- اچھا لگے من:- دل
نعت کے اس شعر میں رسا ۤارشاد فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاکردار دلوں کوبہت اچھا لگتا ہےکیوں کہ آ پ صلی اللہ کے کردار کا اچھا لگنا ضروری ہے کیوں کہ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کا کردار لاثانی ہے
تری راہ میں جس نے کانٹے بچھائے
رہے تیری شفقت کے اس پر بھی سائے
رساؔ نعت کے اس شعر میں وہ واقع بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ وہ عرب کی وہ بوڑھی عورت جو ہمیشہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی راہوں پر کانٹے بچھاتی تھی جب وہ بیمارپڑی توﷺ اس کی خبر گیر ی کے لئے تشریف لے گئے غرض آپ ﷺ کی شفقت آپ ﷺ کے دشمنوں پر بھی تھی
کدورت سے ہستی رہی پاک تیری
جچی آنکھ میں شانِ لولاک تیری
کدورت :رنجش عداوت ،ہستی: -زندگی ،شخصیت، شان لولاک: - حضرت محمدﷺ کی شان اور عظمت
رساؔ اس شعرمیں کہتے ہیں کہ آپﷺ کی شانِ پاک عداوت ، رنجش اور دشمنی سے پاک رہی یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ کی شانِ عظمت ہر دل اورکوبھا گئی
سوال : مسدس کسے کہتے ہیں
جواب : ایسی نظم کو مسدس کہتے ہیں جس میں ہر بند چھ مصر عوں پر مشتمل ہو
3۔ سوالات
1۔حضرت محمد ﷺ کیا پیغا م لے کر آئے ؟
جواب: حضرت محمدﷺ اللہ تعالی کا پیغام لے کر آئے جس میں بنی نوع انسان کے لئے امن و آتشی کا درس ہے
تو وہ سروِقامت نہیں جس کا سایہ
مگر بن کے رحمت تو عالم پی چھایا
سروِ : -سیدھا قد والا ،سروِ قامت :-خوش قامت
رساؔ نبی پاک ﷺ کی شان یوں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اے بنی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے سیدھے قدِ مبارک کے مالک ہیں کہ جس کو کوئی سایہ نہیں۔مگر دوسری طرف آپ تمام جہاں کے لے رحمت کا سایہ بن کے آئے ہیں
3۔ تشریح کیجئے
پیام آتشی کا ہے قرآن تیرا
ہوا جا گزیں دل میں فرمان تیرا
پیام :- پیغام ۔خبر،جاگزیں دل:-دل میں جگہ بنا لینا
نعت کے اس شعر میں رساؔ نبی پاک ﷺ کی مدح بیا ن کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اے نبی رحمت ﷺ آپ ﷺ جوکلام لے کر آئے یعنی قرآن پاک و سراسرامن و آشتی کا فرمان الہیٰ ہے اور آپ ﷺ کا اپنا کلام بھی یعنی حدیث دل کا قرار بن گیا
کرم ہر کسی پر ہے یکسان تیرا
ہے دھرتی کے کندھوں پر احسان تیرا
کرم :-مہربانی ، دھرتی:-زمیں ،یکسان :-برابر
رسا بیان کرتےہیں کہ اے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم مہربانیاں تما م لوگوں کے برابررہی ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں کوئی تمیز نہیں کرتے تھے یہی وجہ رہی ہے کہ اس کائنا ت کے دوشوں پر یہ بڑا احسان رہا ہے
جو شفقت مسلمان کے حال پر ہے
وہی غیر مسلم پہ تیری نظر ہے
شفقت :- مہربانی، الفت ، محبت
رسا ؔ اس نعت کے شعر میں فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ کی محبت ، الفت مسلم و غیر مسلم پر یکساں وبرا بر رہی ہے اور غیر مسلموں پر آپ کی نظریں مہربانیاں رہی ہیں
4۔ مختصر نوٹ لکھے
1۔ مسدس
2۔ نعت
مسدس : -
مسدس اس نظم کو کہتے ہیں کہ جس میں چھ چھ مصرعوں کے بند ہوں ان چھ مصرعوں میں پہلےکے چارمصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں اور باقی آخر کے دو مصرعو ں کے قافیہ الگ ہوتے ہیں البتہ یہ ہیئت پابند نظم یامرثیہ کے لئے استعمال کی گئی ہےاس ہیئت کو پہلی بار مرزا سودا ؔ نے مرثیہ کے لئے استعمال کیا اور مرثیے بعد میں اسی ہیئت میں لکھے جانے لگے گئےمسدس میں روانی اور سلاست ہوتی ہے عام نعت کی طرح اس میں دعائیہ اور التجائیہ اشعار موجود نہیں ہوتے ہیں اس میں پوری عقیدت کے ساتھ رسول اکرمﷺ کی صورت و سیر ت کو بیان کیا جاتا ہے
نعت : -
نعت کے لغوی معنی مدح ،ثنا اور تعریف کے ہیں لیکن اصطلاحی ادب میں" نعت" اس صنفِ نظم کو کہتے ہیں جس میں حضرت پیغمبر آخری زماں ﷺ کی کسی مقدس سیرت اور صورت کے کسی پہلو کی مدح سرائی بیان کی جائے اس میں ہیئت کی کوئی قید نہیں اس لئے نعت موضوعی صنف ہے
نعت گوئی کا آغاز حضرتِ رسول اکرم ﷺ کی پاک زندگی میں ہوا تھا حسان بن ثابت کے ہاتھوں اس پاک صنف کا آغاز ہوا آ پ ہی عالمی میں نعت گوئی کے شاعر اول ہیں تب سے لیکر دینا کی متعدو زبانوں کے متعدد شعراء اکرام نے اس صنف میں طبع آزمائی کی
(20)حضرت علی اصغر کے لئے پانی مانگنا ۔۔۔سلامت علی دبیر
مرثیہ کسے کہتے ہیں ؟
جواب:مرثیہ عربی لفظ "رثا" سے مشتق ہے جس کےمعنی ہیں رونا یا ماتم کے ہیں اصطلاحی اد ب میں مرثیہ سے مراد ایسی نظم ہوتی ہے جس میں کسی مرنے والے کے اوصاف بیان کرکے اس کی موت پر رنج و غم کا اظہا ر کیا جائےابتدائی مرثیے مختصر ہوا کرتے تھے جن کی کوئی ہیئت مقررنہ تھی شروع میں مرثیے غزل کی ہیئت میں لکھے گئےتین،چارپانچ اورچھ مصرعوں کے بند میں مرثیے کہے گئےسودا پہلے شاعر تھے جنھوں نے مرثیہ کے لئے مسدس کی ہیئت استعمال کی اوربعد میں یہی ہیئت مرثیہ کےلئےمقررہوئی مرثیہ کےاجزائےترکیبی میں چہرہ،سراپا، رخصت، آمد، رجز، جنگ، شہادت اوربین شامل ہیں
عالمی ادب میں شاعری کا آغازمرثیہ سے ہواجب قابیل نے ہابیل کو قتل کیا اور حضرت آدم علیہ السلام کو اس کی خبرجب لگی تودل پرزبردست چوٹ لگی اور اس اثر سے کہیں اشعار کہے یہی سے شاعری اور مرثیہ صنف کا آغاز ہوا اردو میں مرثیہ عربی سے فارسی کے راستے آئی میر خلیق اور ضمیر نےاردو مرثیے کونیا موڑ اوراجزائے ترکیبیں عطا کیں مرزا انیس ودبیرنے مرثیے میں نئی تبلیاں پیدا کیں اوراس صنف میں چارچاند لگا دئے
سوال: مرزا سلامت علی دبیرکی حیا ت اورشاعری پر نوت لکھیے؟ جواب حیات: -
آپ کا اصلی نام مرزا سلامت علی تھا اور دبیر تخلص تھا آپ کی پیدائش 19 اگست 1803ء میں دہلی میں ہوئی آپ کے والد صاحب کا نام مرزا غلام حسین تھا آپ کا خاندان ایران سے ہجرت کرکے ہندوستان میں مقیم ہوا جب دہلی تباہ وبرباد ہوئی تو آپ کے والد لکھنو چلے آئے یہی پر دبیر نے ابتدائئ تعلیم حاصل کی طالب علمی کےزمانے سے شعر گوئی کی طرف مائل ہوئےاور میرمظفر حسین ضمیرؔ کے شاگرد ہوئے بعد میں استاد سےزیادہ شہرت پاگئے 1857ء میں جب پورا ہندوستان جل رہا تھا توآپ سکونِ قلب کی تلاش میں پٹنہ، مرشد آباداورعظیم آباد کا سفرکیا لیکن ہرجگہ مایوسی ہی ہاتھا لگی آخری عمر میں آنکھوں کی روشنی چلی گئی آپ اس فانی جہاں سے 1858 ء میں اللہ کو پیارےہوگئے
شاعری:-
دبیر کو شاعری کی طرف رجحان بچپن کے ایام سے ہی تھا اچھے اساتذہ کی رہنمائی نصیب ہوئی کم و پیش تین ہزارمرثیے لکھے آپ کی شاعری پر مذہبیت کا رنگ خاص طور پر جھلک رہا ہے مرثیہ کے علاوہ مثنویاں ، قصائد ، رباعیات ، اور قطعات ،سلام، نوحے وغیرہ اصناف میں طبع آزمائی کیں آپ کی تصانیف میں "دفتر ماتم" "رباعیات دبیر" ابواب المصائب" اور رسالہ مرزا دبیر " قابل ِذکر ہیں
حضرت علی اصغر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے پانی مانگنا
ہراک قدم پہ سوچتے تھے سبط مصطفیٰ ﷺ
لے تو چلا ہوں فوج عمر سے کہوں گا کیا
سبط-: بیٹے، بیٹی کی اولاد،پوتا،نواسا،حضرت محمدﷺ کی بیٹی کا بیٹا،التجا:فریاد،عدو:-دشمن، آبرو:عزت
دبیر مرثیہ کے اس شعرمیں ارشاد فرماتے ہیں کہ میدان ِ کربلا میں جب یزیدوں نے امام حسین علیہ السلام کی پانی کی رسد دریائے فرات پر پہرہ بچھاکر بند کردی تو نواسا رسول ﷺ یعنی امام حسین علیہ السلام قدم قدم پر سوچنے لگے کہ میں فوجِ عمر کو ساتھ لئے ہوں مگر دوسری طرف عمر کے سوالات کے کیا جوابات عنائت کروں گا
نے مانگنا ہی آتا ہے مجھ کو نہ التجا
منت بھی گر کروں گا تو کیا دیں گے وہ بھلا
دبیرؔاس شعر میں ارشادفرماتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام نے جب پانی مانگنا چاہا توامام حسین علیہ السلام یہ سوچنے لگا کہ اگر میں یزیدیوں سے پانی علی اصغر رضی اللہ تعالی کے لیے مانگو تو کس طرح۔ کیوں کہ میرا ضمیر اجازت نہیں دیتا کہ غیروں اور ظالموں سے فریاد کروں اگر مانگا بھی جائے تو کیا یزیدی پانی دےدیں گے
پانی کے واسطے نہ سنیں گے عدو مری
پیاسے کی جان جائے گی اورآبرومری
آبرو :-عزت، مری : - میری
دبیر ؔ فرماتے ہیں امام حسین علیہ السلام کہتےہیں کہ ہماری فریاد پر یزیدی پانی نہیں دے گے اور پھر پانی نہ ملنے کی وجہ سے ، پیاس کی شدت سے علی اصغر رضی اللہ تعالی عنہ کی جان چلی جائیں گی اور میر ی عزت بھی خاک میں مل جائیں گی
پہنچے قریب فوج تو گھبر ا کے رہ گئے
چاہا کریں سوال پہ شرما کے رہ گئے
دبیرارشاد فرماتے ہیں جب امام حسین علیہ السلام نے دل بنا لیا کہ یزیدوں سے شیر خوار بچے کے لئے پانی مانگ لیا جائے تو اسی اثنا میں یزیدی فوج قریب پہنچ جاتی ہے اور امام حسین علیہ السلام سوچتے ہی رہ جاتے ہیں
غیرت سے رنگ فق ہوا تھرا کے رہ گئے
چادر پسر کےچہرے سے سرکا کے رہ گئے
فق :- خوف یاحیرت سے چہرے کی رنگت سفید پڑجانا ، پسر:- بیٹا
دبیر ؔ کہتے ہیں جب امام حسین علیہ السلام پانی مانگنے کےلیےآگے بڑھنے لگے تو کمال کی غیرت اور حوصلہ بندی کی وجہ سے پانی کی فریاد نہ کرسکے جب اپنے بیٹے علی اصغر رضی اللہ تعالی عنہ کے چہرے سےپردہ اُٹھایا تو پیاس سے نڈھال بچے کو دیکھ کر دیکھتے ہی رہ گئے
آنکھیں جھکا کے بولے کہ یہ ہم کو لائے ہیں
اصغر تمہارے پاس غرض لے کے آئے ہیں
اس شعر میں دبیر کہتے ہیں کہ جب امام حسین علیہ السلام کو یزیدی فوج کے پاس پانی مانگنے کے لئے جانا پڑا مگراے یزیدیوں یہ کیا آپ ہمارے نانا جان کا کلمہ پڑھنے والے ہو اورہمیں دعوت دے کر یہاں بلایا اور اوپر سے یہ ظلم ستم ڈھائے میر ی آنکھیں شرم کے مارےجھک رہی ہیں آپ کے اس وطیرے سے اور ہمیں اپنے بچے کے لئے پانی مانگنے کےلئے تم سے فریاد کرنےپڑتی ہے
گر میں بقول عمر و شمر ہوں گناہ گار
یہ تو نہیں کسی کے بھی آگے قصور وار
دبیرؔ اس شعر میں امام حسین علیہ السلام اپنی عاجزی اور بڑھے پن کا اظہار کر تے ہیں کہ اے یزیدی فوج کے سرداروں عمروشمراگرچہ میں علیہ السلام آپ کے مطابق خطا کار ہوں مگر تم میرے نانا جان کا کلمہ پڑھنے والے ہو تمہیں بھی کل روز قیامت ان باتوں کا جواب دینا ہوگا
شش ماہ بے زبان نبی زادہ شیر خوار
ہفتم سے سب کے ساتھ یہ پیاسا ہے بے قرار
شش ماہ :- چھ مہینے ہفتم :- سات دن ، ہفتہ
دبیر ؔ اس شعر میں فرماتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام عرض گذار ہوئے حضرت علی اصغر رضی اللہ تعالیٰ عنہ میرا بچہ صرف چھ مہینوں کا ہے یہ بچہ نبی زادہ ہے ابھی بولنے کی صلاحیت پیدا نہیں ہوئی اور یہی بچہ ایک ہفتہ سے پیاسا ہےاے یزیدیوں اس بچہ کی کیا خطا ہے
سن ہے جو کم تو پیاس کا صدمہ زیادہ ہے
مظلوم خود ہے اور یہ مظلوم زادہ ہے
صدمہ :- غم ، پریشانی
دبیرؔ اس مرثیہ کے شعر میں کہتے ہیں کہ امام فرماتے ہیں کہ میر ی آل یہاں کربلا کے میدان میں زبردست غم وپریشانی کے عالم میں مبتلا ہے یہاں اس کربلا کے میدان میں ہم سب آل رسول ﷺ کے افرادہر چھوٹا بڑا مظلوم بن چکے ہیں
یہ کون بے زباں ہے تمہیں کچھ خیال ہے
در نجف ہے بانوے بے کس کا لال ہے
در:موتی،نجف: عراق کےایک شہر کا نام جہاں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا آستانہ ہے ، بانو: بیگم ، شہزادی
دبیر کہتے ہیں کہ علی اصغر ایک چھوٹا سا بچہ ہےابھی بولنےکی صلاحیت پیدا نہیں ہوئی اور اس بچے کی مثال شہر نجف کے موتی جیسے ہے اور یہ بچہ ہمار لال ہے
لو مان لو تمہیں قسم ذوالجلال ہے
یثرب کے شاہ زادے کا پہلا سوال ہے
ذوالجلال : اللہ کا ایک صفاتی نام ،یثرب :-مدینہ پاک کا پرانا نام
اس شعر میں امام یزیدیوں سے فرماتے ہیں کہ اے یزیدیوں اس معصوم یثرب کے شہزادے کے لئے پانی دے دوں تم کو اللہ تعالی پاک کی قسم ہے اس معصوم بچے پر پانی بند کر کے ظلم نہ کروں
پوتا علی کا تم سے طلب گار آب ہے
دے دو کہ اس میں نام وری ہے ثواب ہے
نام وری :- شہرت ۔مقبولیت
دبیر ؔ کہتے ہیں جب امام علیہ السلام نےیزیدیوں سے کہا تمہیں تم سے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے لئے پانی مانگا جارہا ہےتم اگر دے دوں گے تو تمہیں اس کام کے عوظ بڑا ثواب ملے گا
پھر ہونٹ بے زبان کے چومے جھکاکے سر
رو کر کہا جو کہنا تھا وہ کہہ چکا پدر
پدر:-باپ، پتا ،والد
دبیرؔ کہتے ہیں جب اما م علیہ السلام نے یزیدیوں سے پانی مانگا اور انھوں نے پانی دینے سے انکا ر کیا تواس کے بعد امام نے اپنا سر جھاکر اپنے بچوں کے ہونٹو ں کو چوم کر کہا کہ تمہارے باپ نے یزیدیوں سے التجا بھی کی تھی مگر انھوں نے نہیں مانی
باقی رہی نہ کوئی بات اے مرے جگر
سوکھی زبان تم بھی دکھا دونکال کر
اس شعر میں دبیرؔ کہتے ہیں کہ جب یزیدیوں نے پانی دینے سے انکا ر کیا اب امام کہتے ہیں کہ اے میرے لخت جگر بچے اب فریا د کرنےکی کیا بات رہ گئی اے میرے لخت جگر ذرا اپنی زبانیں اپنے باپ کو دکھا دے تاکہ دیکھ لو زبانیں کتنی خشک ہوگئی
پھیری زباں لبوں پہ جو اس نورِعین نے
تھرا کے آسمان کو دیکھا حسیں نے
اس شعر میں دبیر ؔ میدان کربلا کا منظر پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جب امام کے بچے نے اپنے پیاسے ہونٹوں پراپنی زبان پھیر ی تو اس کیفیت سے زمین سے دور آسمان بھی خوف اور لرز نے لگا
سوال: حضرت امام علیہ السلام نے یزیدی فوج سے کیا سوال کیا ؟
جواب:حضرت امام علیہ السلام نے یزیدی فوج سے پانی مانگنے کا سوال کیا تھا
سوال:-اس مرثیہ حضرت علی اصغررضی اللہ تعالی عنہ کے لئے پانی مانگنا کا خلاصہ لکھیے
جواب:-کربلا کے میدان میں جب یزیدی فوجیوں نے فرات پر پہرہ بٹھایااور امام حسین علیہ السلام کی آل اور دیگر ساتھیوں کے لئے پانی بند کیا یہاں تک ایک چھوٹے بچے علی اصغر رضی اللہ تعالی عنہ جس کی عمر صر ف چھ ماہ کی تھی اس کو بھی یزیدیوں نے پانی دینے سے انکار کیااس مزکورہ مرثیہ میں اسی دردناک واقعے کا بیان ہےامام حسین علیہ السلام اپنے ایک چھوٹے بچے علی اصغر رضی اللہ تعالی عنہ کے لئے پانی مانگنا چاہتا ہے تو امام کے دل میں کئی سوال پیدا ہوجاتے ہر قدم پر اما م سوچتے ہیں کہ کس طرح یزیدیوں سے پانی مانگا جائے اما م کہتے ہیں مجھے تو دست سوال کرنا غیروں کے سامنے نہیں آتایہ دشمنان اسلام کیا جانے ہم کیا ہے جب اما م آگے بڑھتا ہے پانی مانگنے کے لئے تو شرم کے مارے سرجھک جاتا ہے اور آپ امام علیہ السلام زمیں پر نیچے گر جاتے ہیں امام کہتے ہیں ہم تو خطاکار نہیں پھر بھی ہمیں ان گناہگارشمر و یزید ی فوجیوں کے پاس جانا پڑتا ہےاے شمر تمہیں معلوم ہے کہ تم کتنا بڑا گناہ کرنے جارہے ہواے گنا ہ گاروں اگر تم ہمارے لخت جگروں کے لیےپانی دے دوں گے تو اس میں تم لوگوں کے لئے بڑا ثواب ہےامام علی اصغر کے پیاسےہونٹ چومتا ہے تاکہ بچے کو کچھ تسلی ہوجائے غرض یزیدی بڑے ظالم تھے کہ ایک ننھے بچےکو بھی پانی دینے سے انکار کر دیا
سوال: سیاق وسناق اور شاعر کا حوالے دےکر اس بند کی تشریح کیجئے؟
جواب:یہ کون بے زباں ہے تمہیں کچھ خیال ہے
در نجف ہے بانوے بے کس کا لال ہے
در:موتی ،نجف:عراق کےایک شہرکا نام جہاں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا آستانہ ہے ، بانو: بیگم، شہزادی
دبیر کہتے ہیں کہ علی اصغر ایک چھوٹا سا بچہ ہےابھی بولنےکی صلاحیت پیدا نہیں ہوئی اور اس بچے کی مثال شہر نجف کے موتی جیسے ہے اور یہ بچہ ہمار لال ہے
لو مان لو تمہیں قسم ذوالجلال ہے
یثرب کے شاہ زادے کا پہلا سوال ہے
ذوالجلال :- اللہ کا ایک صفاتی نام ،یثرب :-مدینہ پاک کا پرانا نام
اس شعر میں امام یزیدیوں سےفرماتے ہیں کہ اے یزیدیوں اس معصوم یثرب کے شہزادے کے لئے پانی دے دوں تم کو اللہ تعالی پاک کی قسم ہے اس معصوم بچے پر پانی بند کر کے ظلم نہ کروں
پوتا علی کا تم سے طلب گار آب ہے
دے دو کہ اس میں نام وری ہے ثواب ہے
نام وری: شہرت مقبولیت
دبیر ؔ کہتے ہیں جب امام علیہ السلام نےیزیدیوں سے کہا تمہیں تم سے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے لئے پانی مانگا جارہا ہےتم اگر دے دوں گے تو تمہیں اس کام پر بڑا ثواب ملے گا
(21) مفلسی۔۔۔بظیرؔ اکبر آبادی
نظم کسے کہتےہیں وضاحت کیجیے؟
جواب-یوں تو ہر کلام موزوں کو نظم کہا جا سکتا ہے لغت میں نظم کے معنی ترتیب دینا یا موتی پرونا کے ہیں لیکن عام اصطلاح میں نظم سے مراد وہ شعری اصناف اور اسالیب ہیں جن میں کسی موضوع پر ربط وتسلسل کے ساتھ اظہار خیال کیا گیا ہواس اعتبار سے غزل کے علاوہ شاعری کی بیشتر اصناف اس کے دائرے میں آجاتی ہیں نظم میں اشعار موضوع اورخیال کے اعتبار سے ایک دوسرے سے پیوست ہوتے ہیں اس کے موضوعات لا محدوداورشکلیں بے شمار ہیں ہیئت کےاعتبارسے زمانے قدیم سے ہی نظم کے کچھ مخصوص اسالیب کا رواج رہا ہے اور ان کی پابندی ہر شاعر پر لازم تھی نئے خیالات پیدا ہونے سے نظم کے مخصوص اسالیب میں تبدیلی کی ضرورت محسوس ہونے لگی اور نئے نئے موضوعات پرنظمیں لکھی گئیں اس طرح جدید نظم کا آغازہواجدید نظم تین حصوں میں منقسم ہوچکی ہےجو نظم ہیئت کے اعتبار سے روایتی اورموضوع کے لحاظ سے جدید ہواسے پابند نظم کہتے ہیں ایسی نظم جو مصرعوں کے لحاظ سے برابرہومگراس میں قافیہ نہ ہو نظم کونظم معرا کہتے ہیں اور نظم کی ایسی قسم جس میں نہ قافیے کی پابند ی کی جاتی ہے اور نہ بحر کے استعمال میں مروجہ اصولوں کی پابندی کی جاتی ہے مگر وزن کا خیال رکھا جاتا ہے آزاد نظم کہلاتی ہے
اردو نظم کا آغاز جدید دور سے ہی ہوا حالانکہ اس دور سے پہلے ہی نظیر اکبر آبادی نے نظمیں لکھیں تھی جو تقریبا زندگی کے تما م موضوعات پر تھی حالی ؔ اور آزاد نے نظم کو محدود موضوعات سے نکال کر نئے موضوعات سے ہمکنار کیا انیسویں صدی کے آخر سے اردو نظم میں ہیئت کے نئے تجربات کئے گئے 1917 کے انقلاب روس کے بعد نیا شعوراور نئے تصورات ابھرے اور نظم ہر طرح کے فکری مسائل اور سماجی تجربات کو پیش کرنے میں کامیاب ہوئی اردو نظم کے چند مشہو ر شاعروں میں جوشؔ ، دانشؔ ، مجاز ؔ ، فیض وغیرہ قابل ذکر ہیں
سوال : نظیر ؔ اکبر آبادی کی حیا ت اور شاعر ی پر نوٹ لکھیے؟
جواب حالات ِ زندگی :-
اردو نظم کو نئے موضوعات سے آراستہ کرنے والے شاعرنظیر اکبرآبادی تھےآپ کا اصلی نام ولی محمدتھا اور آپ کا تخلص نظیرؔ تھا آپ کی پیدائش دہلی میں 1724ٰء میں ہوئی آپکے والد صاحب کا نام محمد فاروق تھا آپ اپنے باپ کے اکلوتے بیٹے تھے آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم محمد کاظم اور ملا ولی سے حاصل کی فارسی اور عربی زبانوں میں اچھی مہارت حاصل کیں۔ لیکن جب احمد شاہ ابدانی نے دہلی پر زبردست حملے کئے تو آپ دہلی کو چھوڑ کر آگرہ میں اکبر آباد میں قیام حاصل کیا یہاں کی آب و ہوا اتنی پسند آئی کی نظیرؔ آبادی کے نام سے خود کو مشہور کرنے لگے آکبر آباد میں آپ کو پہل زندگی مشکلات میں گذر گئی۔یہاں مدرسی کا پیشہ اختیا ر کیا جس سے کچھ مالی حالت بہتر ہوگئی۔عام عوام کے نزدیک رہنا پسند کرتے تھے عوامی رنگ رلیوں اور تہواروں میں جانا بہت پسند تھا شطرنج ،پتنگ بازی، اور پہوانی سے بھی آپ کو لگاو تھا آ پ ایک خوش باش اور ایک زندہ دل انسا ن تھے آپ نے ایک طویل عمر پائی ۔ زندگی کے آخری ایام میں فالج کا شکا ر ہوگئے او ر پھر اسی حال میں 1830ء میں آکبر آباد میں اللہ کو پیارے ہوگے
شاعری💬-
آپ نےشاعری میں عام روش سے ہٹ کر مختلف چیزوں کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا لوگوں نے آپ کو بازاری شاعر کہہ کر نظراندازکیالیکن دھیرےدھیرے اردو شاعری میں نئے موضوعات ، اور نئے معیا ر قائم کر کے آگے بڑھتے لگے اور رفتہ رفتہ لوگوں میں آپ کو شہرت بڑھتی گئی آپ کا بیان نیچرل اور دلچسپ ہے تصنع اوربناوٹ آپ کے کلام میں نہیں ہے
آپ کی شاعری میں ہندوستان کی زندگی ،تہذیب اورروایات کا رنگ خوب خوب جھلکتا ہےآپ نے غزلیں بھی کہی لیکن نظم میں ہی آپ کا فن نکھر کر آیا ہےآ پ کی میں آدمی نامہ ،مفلسی، روٹی نامہ اورمکافات وغیرہ مشہور ہیں
مفلسی
جب آدمی کے حال پہ آتی ہے مفلسی
کس کس طرح سے اس کو ستاتی ہے مفلسی
پیاسا تمام روز بٹھاتی ہے مفلسی
بھوکا تمام رات سلاتی ہے مفلسی
یہ دکھ وہ جانے جس پہ کہ آتی ہے مفلسی
مفلسی :-غریبی
یہ نظم کا پہلا بند نظیراکبر آبادی کی ایک مشہو ر نظم "مفلسی " سے نکالا گیا ہے اس بند میں شاعرایک مفلس انسان کی حالت بیان کرتا ہے جب ایک انسان غریبی یا مفلسی میں گرفتار ہوجاتاہے تو یہ مفلسی انسان کو دن ورات بھوکا و پیاسا رکھتی ہے مفلس انسان ہی مفلسی کے درد وغم جانتا ہےخوشحال لوگ اس سے بے خبر رہتے ہیں
مفلس کی کچھ نظر نہیں رہتی ہے آن پر
دیتا ہے اپنی جان وہ ایک ایک نان پر
ہر آن ٹوٹ پڑتا ہے روٹی کے خوان پر
جس طرح کتے ٹوٹتے ہیں استخوان پر
ویسا ہی مفلسوں کو لڑاتی ہے مفلسی
آن: - شان وشوکت، لمحہ : ساعت ، نان: - روٹی ، خوان:-تھال ۔دسترخوان ،استخوان :ہڈی
نظم کے اس بند میں نظیر ؔاکبر آبادی مفلس انسان کی حالت بیا ن کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مفلس انسان کی کوئی شان سماج میں باقی نہیں رہتی ہے دو وقت کی روٹی کو پانے کے لئے اسے زبردست محنت کرنی پڑتی ہے مفلس انسان کو جب بھوک لگتی ہے اور وہ کئی دنوں کا بھوکا پیاسا ہونے کی وجہ سے جب اسے روٹی کھانے کو مل جاتی ہے و ہ روٹی پر اس طرح ٹوٹ پڑتا ہے جیسے کتے ہڈیوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں یہ حالت انسان کی مفلسی کی وجہ سے ہی ہوتی ہے
کیسا ہی آدمی ہو پر افلاس کے طفیل
کوئی گدھا کہے اسے ٹھہرا دے کوئی بیل
کپڑے پھٹے تمام بڑے بال پھیل پھیل
منہ خشک دانت زرد ندن پر جما ہے میل
سب شکل قیدیوں کی بناتی ہے مفلسی
افلاس :-غریبی ۔غربت ،طفیل :- ذریعہ ۔بدولت
نظیر اکبر آبادی نظم کے اس بند میں مفلسی کے بارے میں بیان کرتےہوئے مزید فرماتےہیں کہ ایک انسان کا اخلاق ، کردارکتنا ہی بلند کیوں نہ ہو مفلسی کی وجہ سے اسے کوئی گدھا،تو کوئی بیل کہتا ہے مفلس انسان کے کپڑے پرانے اور پھٹے ہوئے ہوتے ہیں اس کا منہ خشک ،دانت زرد اور جسم پر میل جما ہوا ہوتا ہےغرض ایک مفلس انسان کی حالت مفلسی کی وجہ سے قیدیوں جیسی ہوجاتی ہے
دُنیا میں لے شاہ سے اے یارو تا فقیر
خالق نہ مفلسی میں کسی کو کرے اسیر
اشرف کو بناتی ہے اک آن میں فقیر
کیا کیا میں مفلسی کو خرابی کہوں نظیرؔ
وہ جانے جس کے دل کو جلاتی ہےمفلسی
خالق :-پیدا کرنے والا،اسیر:- قیدی، اشراف:-شریف کی جمع ۔عزت دار لوگ ۔مہذب ،دل جلانا :- سخت ۔رنج دینا
نظم کے اس آخری بند میں نظیر اکبر آبادی مفلسی کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں اور اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ اے میرے اللہ بادشاہ سے لیکر فقیر انسان تک کسی کو مفلسی میں مبتلا نہ کرنا کیوں کہ اے اللہ یہ مفلسی شریف انسان کو ایک لمحے میں فقیر بنادیتی ہے اے اللہ میں مفلسی کی کیا کیا خرابیاں بیان کروں اس مفلسی کی کیفیت وہی لوگ جاتے ہیں جن کو اس مفلسی کی ہوا لگ چکی ہے
3۔سوالات
1۔ مفلسی آدمی کو کس کس طرح سے ستاتی ہے ؟
جواب:۔مفلسی آدمی کو ہر طرح سے ستاتی ہےمفلس انسان کو دن ورات بھوکا پیاسا رہنا پڑتا ہے اسے پرانے اورپھٹے کپڑے پہنے پڑتے ہیں لوگ اسے مفلسی کی وجہ سے کوئی بیل وغیرہ برے القاب سے پکارتے ہیں غرض مفلسی انسان کو ہر طرح سے ستاتی ہے
2.۔ مفلس کو ہر وقت کس چیز کی فکر رہتی ہے ؟
جواب : - مفلسی میں مفلس انسان کو ہر وقت صرف اور صرف دو وقت کی روٹی کی فکر رہتی ہے
3۔ اس بند کی تشریح کیجئے
کیسا ہی آدمی ہو پر افلاس کے طفیل
کوئی گدھا کہے اسے ٹھہرا دے کوئی بیل
کپڑے پھٹے تمام بڑے بال پھیل پھیل
منہ خشک دانت زرد ندن پر جما ہے میل
سب شکل قیدیوں کی بناتی ہے مفلسی
افلاس: -غریبی ۔غربت، طفیل :- ذریعہ ۔بدولت
نظیر اکبر آبادی نظم کے اس بند میں مفلسی کے بارے میں بیان کرتےہوئے مزید فرماتےہیں کہ ایک انسان کا اخلاق ، کردارکتنا ہی بلند کیوں نہ ہو مفلسی کی وجہ سے اسے کوئی گدھا،تو کوئی بیل کہتا ہے مفلس انسان کے کپڑے پرانے اور پھٹے ہوئے ہوتے ہیں اس کا منہ خشک ،دانت زرد اور جسم پر میل جما ہوا ہوتا ہےغرض ایک مفلس انسان کی حالت مفلسی کی وجہ سے قیدیوں جیسی ہوجاتی ہے
4۔ محاورہ کسے ہیں؟
جواب : - لغت میں محاورہ کے معنی بات چیت کے ہیں مگر قواعد میں دو یا دو سے زیادہ الفاظ کا وہ مجموعہ جو اپنے حقیقی معنی کے بجائےمجازی معنی دے محاورہ کہلاتا ہے مثلاََ دل جلانا
" دل " اسم ہے اور "جلانا" مصدر ، ان دونوں الفاظ کو ملا کر" دل جلانا " محاورہ وجود میں آیا جس کے معنی " سخت رنج دینا " ہے حالانکہ دونوں لفظوں کے لغوی معنی بالکل الگ ہیں
اب درج ذیل محاوروں کو اس طرح جملوں میں استعمال کریں کہ معنی خود بخودواضح ہوجائے مثلاََ دل جلانا ،
چھاتی پر مونگ دلنا ،
جان پر کھیلنا ،
نظر لگنا
جواب:- دل جلانا : -( سخت رنج دینا) اس خبر سے ہمارا دل جلنے لگا ہے
چھاتی پر مونگ دَلنا:-( عذاب دینا ، سزا دیناٗ) احمد نے اپنے دشمن کی چھاتی پر مونگ دلنا شروع کیا
جان پر کھیلنا:( ایسا کام کرنا جس میں جان جانے کا خطرہ ہو) بشیر نے جان پر کھیل کر رشید کو دریا میں ڈوبنے سے بچا لیا
نظر لگنا:( بُری نظر کا اثر ہوجانا،بھوت پریت کا سایہ ہونا) بچوں کو رات کے وقت باہر گھومنا نہیں چاہیے اس سے نظر لگ جاتی ہے
5۔ اس نظ کا خلاصہ اپنے الفاظ میں لکھیے؟
جواب:- یہ نظم "مفلسی" نظیر اکبر آبادی کی قلم کی نوک سے جنم پائی ہے اس نظم میں نظیر نے مفلسی کی کئی برائیوں کا تذکرہ کیا ہے فرماتے ہیں کہ جب مفلسی ایک انسان کو آجاتی ہے وہ اسے ہر طرح سے دکھ دیتی ہے وہ تمام دن ورات بھوکا پیاسا رہتا ہے اسے ہر پل دووقت کی روٹی کی فکر ستاتی رہتی ہے اور روٹی کو پانے کے لئےاس کو ہزاروں جتن کرنے پڑتےہیں کبھی اسے ایک وفادار کتے کی طرح کسی امیر شخص کے تلوے چانٹنے پڑتے ہیں ایک مفلس انسان کو جب کوئی چیز کھانے کو مل جاتی ہے تو وہ اُس خوان پر ایک بھوکے کتے کی مانند روٹی پر ٹوٹ پڑتا ہے جس سے اس کی شرافت مٹی میں مل جاتی ہے مفلسی کی وجہ سے اسے ہزاروں تانے سننے پڑتے ہیں کوئی اس گدھا ، تو کوئی اسے بیل کے بُرےالقابو ں سے پکاتا ہے مفلسی کی وجہ سے اسے پرانے اور پھٹے کپڑنے پہنے پڑتے ہیں اس کی حالت دنیا میں آزاد رہ کر بھی ایک قیدی جیسے ہوجاتی ہے بال بکھرے بکھرے رہتے ہیں دانت زرداورجسم پر ہمیشہ میل جمارہتا ہےشاعر آخر پر مفلسی کی برائیوں کو گنواکر اللہ سے دعا کرتا ہے کہ اے اللہ اس دنیا میں کسی کو مفلس نہ بنادینا کیوں کہ اس سے ایک بھلے بھالےکی انسان کی شبی بگڑجاتی ہے اور وہ غم والم میں مبتلاہوجاتا ہے اسےمشکل سے دووقت کی روٹی کا انتظام ہوپاتا ہے
(22)رامائن کا ایک سین۔۔برج نرائن چکبستؔ
سوال: چکبست ؔ کی حالاتِ زندگی اورشاعری پر ایک نوٹ لکھیے ؟
جواب: چکبست ؔ کی پیدائش فیض آباد لکھنو میں 1882ء میں ہوئی آپ کا پورا نام پنڈت برج نرائن اورخاندانی لقب چکبست تھاآ پ کے والد گرامی کا اسمی گرامی اودت نرائن تھا وہ بھی ایک شاعر تھے ابتدائی تعلیم لکھنو میں ہی حاصل کی 1905 ء میں ایک مقامی کالج سے بے اے کی ڈگری حاصل کر کے وکالت کا پیشہ اختیارکیا12 فروری1926ء میں ایک مقدمے کے سلسلے میں رائے بریلی آنا پڑا واپسی کے وقت ریلوے اسٹیشن پر دماغ پر فالج گرا اور اسی جگہ پر آپ کا انتقال 1926ء میں ہوا
شاعری :-
چکبست کو ابتدا سے ہی شعر گوئی کی طرف رجحان تھا صرف نو برس کی عمر میں اپنی ایک غزل لکھ ڈالی-اتفاقاََ جس دور میں آپ نے اپنی آنکھیں کھولی لکھنو میں ہر طرف شاعری کی بہاریں پھیلی ہوئی تھیں آپ نےہر شاعر کا اثر قبول کیا خصوصاََ میر انیس آپ کو زیادہ با گئے آپ کی اکثر نظمیں صاف ،سادہ اور آسان زبان میں ہیں غزلوں میں الفاظ کی بندش اورترکیب دیکھنے کے قابل ہے آپ ایک فطری شاعر تھےآپ کا بڑا کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے اپنے دور کے سیاسی ،سماجی ، اور مذہبی خیالات وجذبات کو اپنی شاعری میں جگہ دی آپ نے بڑی عمدہ قومی، اصلاحی اورتاریخی نظمیں کہی ہیں آپ کا مجموعہ کلام" صبحِ وطن" کے نام کے ساتھ شائع ہوا
رام چند جی ماں سے رخصت لیتے ہوئے
کیا جانے کس خیال میں گم تھی وہ بے گناہ
نورنظر پہ دیدہ حسر ت کی نگاہ
جنبش ہوئی لبوں کو بھری ایک سرد آہ
لی گوشہ ہائے چشم سے اشکوں نے رخ کی راہ
چہرے کا رنگ حالت ِ دل کھولنے لگا
ہرموئے تن زباں کی طرح بولنے لگ
نورنظر:- بیٹا، دید:- نظر، حسرت :- ارمان، گوشہ ہائے چشم :- آنکھ کے کونے، اشک : - آنسو ، جنبش :- حرکت، لب: -ہونٹ
یہ نظم کا پہلا بند چکبست کی ایک خوبصورت نظم " رام چند ر جی ماں سے رخصت لیتے ہوئے" سےنکالا گیا ہے اس بند میں چکبست شری رام جی بن باس جانے کی تیاری کرتا ہے اور ماں پر کیا کیفیت بیتی ہے اس کو بیان کرتاہے کہتے ہیں نہ جانے رام جی کی ماں کس حال میں کھوئی ہوئی تھی اُس نے اپنی حسرت بھری نظروں سے اپنے بیٹے کی طرف نظر دوڑائی اپنےہونٹوں کو حرکت دے کر ایک سرد آہ بھر دی اور آنکھوں سے آنسووں کی چھڑی جاری ہوگی چہرے سے ہی ماں کی دل کی حالت بیان ہوتی تھی اورجسم کاہرانگ وبال ماں کی پریشانی کا حال بیان کرتا تھا
آخراسیر یاس کا قفل دہن کھلا
وا تھا دہان ِ زخم کہ باب سخن کھلا
اک دفتر مظالم چرخ کہن کھلا
افسانہ شداید رنج وسخن کھلا
درد دل غریب جو صرف بیاں ہوا
خون جگر کا رنگ سخن سےعیاں ہوا
اسیر:- قیدی، یاس :- مایوسی، قُفل:- تالا، دہن:- منہ ، وا:- کھلا ہوا ،باب :- دروازہ ، سخن: - بات، چرخ کہن :- چرخ سے مراد آسمان اور کہن سےمراد پرانا ، شدائد :- سختیاں ، عیان :- ظاہر، رنج :-غم
رام چندر جی کی ماں کی زبان بولنے لگی تو اپنے بیٹے پر ہونے والی ظلم وزیادتیاں بیان ہونے لگی آسمان کے ڈھائے ہوئے ظلم بھی بیان ہونے لگے ہر ہرے زخموں سے درووغم کا ذکرہونے لگادل پرجو کیفیت طاری ہوئی تھی وہ بھی بیان ہونےلگی ماں کی باتوں سے خون جگر کا رنگ صاف صاف ظاہرہونے لگا
سُن کر زبان سے ماں کی فریاد درد خیز
اس خستہ جاں کے دل پہ چلی غم کی تیغ تیز
عالم یہ تھا قریب کہ آنکھیں ہوں اشک ریز
لیکن ہزار ضبط سےرونے سےکی گریز
سو چا یہی کہ جان سے بے کس گزر نہ جائے
ناشاد ہم کو دیکھ کےماں اور مرنہ جائے
دررخیز: - تکلیف دینے والا، خستہ: - خراب، تیغ :- شمشیر: تلوار، اشک ریز: - آنسو بہاتی ہوئی ، ضبط :- قابو، گریز: - پرہیز،علٰیحدگی
نظم کے اس بند میں چکبستؔ ارشادفرماتے ہیں کہ جب شری چندرکی ماں کی آہ و زاری سنی توشری رام چندرجی نےعمدہ صبر کا مظاہرہ کر کے بڑی مشکل سے اپنے آنسووں کو روک لیارام چندر جی نے سوچا اگرمیں نے صبر سے کام نہ لیا تو میر ی ماں اور روئے گی اور وہ رو رو کے مر جائے گی
کہتے تھے لوگ دیکھ کے ماں باپ کا ملال
ان بے کسوں کی جان کا بچنا ہے اب محال
ہے کبریا کی شان گزرتے ہی ماہ و سال
خود دل سے درد ہجر کا کٹتا گیا خیال
ہاں کچھ دنوں تو نوحہ ماتم ہوا کیا
آخر کو روکے بیٹھ گئے اور کیا کیا
ملال:-افسوس ،بے کس :-بے یارو۔مدرگار،محال :- مشکل ،کبریا:-بزرگی اللہ تعالیٰ کا ایک صفاتی نام ، ہجر-جدائی ، نوحہ:-گریہ وزاری
چکبستؔ اس بند میں کہتے ہیں کہ جب لوگوں نے رام چندر جی کی والدین کی حالت دیکھی تو کہنے لگے ا ب رام جی کےماں باپ کابچنا مشکل ہے مگر بھگوان کا کرم یہ ہے دن ، ہفتے ، مہینے اورسال گذرجائیں گے اور جدائی کے یہ لمحات بھی رفتہ رفتہ کم ہوجائیں گے ہاں یہ قدرتی بات ہے رام کے ماں باپ چند ایام رونا دھونا کرے گے پھر خود ہی سنبھل جائے گے
اکثرریاض کرتے ہیں پھولوں پی باغباں
ہے دن کو دھوپ رات کو شبنم انہیں گراں
لیکن جو رنگ باغ بدلتا ہے ناگہاں
وہ گل ہزاورں پر دوں میں جاتے ہیں رائیگاں
رکھتے تھے جو عزیز انہیں جاں کی طرح
ملتے ہیں دست یاس وہ برگ خزاں کی طرح
ریاض: - محنت ۔بہت سے باغ ، گراں :- بھاری، ناگہاں: - اچانک،عزیز- پیارا ، دست :ہاتھ ، یاس: - مایوسی، برگ خزاں:- موسم خزاں میں گرنے والے پتے ، رائیگاں:- ضائع
اپنی نگاہ ہے کرم کار ساز پر
صحراچمن بنے گا وہ ہے مہر باں
جنگل ہو یا پہاڑ سفر ہو کہ ہر حضر
رہنا نہیں وہ حال سے بندوں کےبے خبر
اس کا کرم شریک اگر ہے تو غم نہیں
دامانِ دشت دامنِ مادر سے کم نہیں
نگاہ :- نظر، کرم :- مہر بانی، کارساز: -کام بنانے والا، صحرا:- ویران، حضر: - پڑاو،دامانِ:- دامن ،دشت: - جنگل، مادر:- ماں
چکبست ؔ اس آخری بند میں ارشاد فرماتے ہیں کہ رام چندر جی اپنی ماں سے فرماتے ہیں کہ اے میری ماں میر ا بھروسہ کائنات کے بنانے والے پر ہے اگر وہ ساتھ رہے تو ویران بھی گلزار بن جائے گا انسان کا خالق انسان کے ہر حال سے واقف رہتا ہے چاہے جنگل ہوپہاڑہو،سفر ہو یا کسی اور پڑاو میں انسان رہے خدا ہر حال میں ایک انسان کے حال سے باخبر رہتا ہے اگر خدا، بھگوان ساتھ رہے تو کوئی غم بھی کوئی غم نہیں رہتا پھر چاہے آپ جنگل کے میں رہے یا پھر ماں کی ممتا کی چھاوں میں کوئی فکر دامن گیر نہیں رہتی
درسی سوالات
3۔سوالات
1۔ رام چند جی کو دیکھکر اسکی ماں کیوں رانے لگی ؟
جواب:-رام چندر کی ما ں اس بات پر رونے لگی جب رام جی کو بن باس جانے کاحکم ملا اُس کی ماں یہ جانتی تھی کہ اب اُس کا بیٹا چودہ سال تک جنگل میں رہے گا اور اسے اب بیٹے کی جدائی برداشت کرنا پڑے گی
2۔رام چندر جی نے ماں کا حال دیکھ کر آنسو کیوں روک لیے؟
جواب :- رام چندرنے اپنے آنسوں اسی لئے روک لیے وہ جانتا تھا اگر وہ بھی رونے لگے گا تو اُس کی ماں اور زیادہ پریشان ہوجائے گی کیوں اُس کی ماں پہلے سے بہت زیادہ دکھی و پریشان حال ہوچکی ہے
3۔ چکبست کی اس نظم کا خلاصہ لکھیے؟
جواب :" رام چندرجی ماں سے رخصت لیتے ہوئے " چکبست کی ایک لکھی ہوئی نظم ہے اس نظم میں چکبست رام جی اور اُس کی ماں کا وہ حال بیان کرتا ہے جب رام چندر جی کو بن باس چودہ برس جانے کا فرمان صادر ہوا تھا اور چکبست وہی حال بیان کرتا ہے کہ رام چندر جی اور اس کی ماں پرکیا کیفیت طاری ہوگی تھی چکبست کہتے ہیں جب رام جی ماں سے رخصت لے رہا تھا تو ماں صرف افسو س ک سدائیں بلند کر رہی تھی ما ں کی آنکھیں حسرتوں سے بھری تھی دل غم سے بھر ا تھا چہرے پر ماتم کے نشان تھے جسم لرزے سے تھرا رہا تھا رام چندر جی ماں کی حالت دیکھ کرکافی صدمے میں پڑ گے مگر کمال ہمت کر کے اپنے آنسووں کو بہنے نہ دیا یہ سمجھ کر کہ اگر میں رونے لگا تو ماں کو اور برا حال ہوجائے گا لوگ بھی رام چندر کی ماں کی حال دیکھ کر کہنے لگے کہ اب رام جی کی ماں بیٹے کی جدائی میں مرجائےگی مگر دنیا کا یہ دستور رہا کے جس طرح باغبان پھولوں کی دیکھ کرتا ہے ہاں ان پھولوں کے لئے دھوپ او شبنم کے قطرے بھی ضروری ہوتے ہیں مگر کمال شفقت کی بنا پر باغبان پر یہ چیزیں ناگوارگذرجاتی ہیں مگریہ پھولوں کی بقا کےلئے اہم ہوتی ہیں اسی طرح انسان دھوپ چھاوں برداشت کرکے ایک مکمل انسان بن جاتا ہےاورماں کوتسلی دیتا ہےماں کوئی غم نہ کر میرے ساتھ میر ا پروردگارعالم ہے جو صحرا کو گلزارمیں تبدیل کرتا ہے وہ خدا جو ہر حال میں اپنے بندے کی مدر کرتا ہے
4. شاعر کا حوالہ دے کر سیاق وسباق کے ساتھ ان اشعا ر کی وضاحت کریں
اپنی نگاہ ہے کرم کار ساز پر
صحراچمن بنے گا وہ ہے مہر باں
جنگل ہو یا پہاڑ سفر ہو کہ ہر حضر
رہنا نہیں وہ حال سے بندوں کےبے خبر
اس کا کرم شریک اگر ہے تو غم نہیں
دامانِ دشت دامنِ مادر سے کم نہیں
نگاہ :- نظر، کرم :- مہر بانی ، کار ساز : -کام بنانے والا ، صحرا : - ویران ، حضر :- پڑاو،دامانِ:- دامن ،دشت: - جنگل، مادر: - ماں
چکبست ؔ اس آخری بند میں ارشاد فرماتے ہیں کہ رام چندر جی اپنی ماں سے فرماتے ہیں کہ اے میری ماں میر ا بھروسہ کائنات کے بنانے والے پر ہے اگر وہ ساتھ رہے تو ویران بھی گلزار بن جائے گا انسان کا خالق انسان کے ہر حال سے واقف رہتا ہے چاہے جنگل ہو پہاڑ ہو یا کسی اور پڑاو میں انسان رہے خدا ہر حال میں ایک انسان کے حال سے باخبر رہتا ہے اگر خدا، بھگوان ساتھ رہے توکوئی غم بھی کوئی غم نہیں رہتا پھر چاہے آ پ جنگل کے میں رہے یا پھر ماں کی ممتا کی چھاوں میں کوئی فکر دامن گیر نہیں رہتی
5۔" ہرموے تن زبان کی طرح بولنے لگا " ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس مصرعے کے ذریعہ شاعر کیا کہنا چاہتا ہے
جواب: شاعرچکبست اس مصرعے کے ذریعے یہ کہنا چاہتا ہے جس طرح ایک انسان کی زبان دکھ درر کا بیان کرتی ہے بالکل اسی طرح رام چندر کی ماں جب بیٹے کو بن باس جانے کو رخصت دے رہی تھی اور وہ غم میں مبتلا ہونے لگی رام چندر کی ماں اور اس کے جسم کے بال بھی جیسے زبان کی طرح ہی غم ودرد بیان کررہا تھا
6۔ فارسی میں مرکبات بنانے کےلئے "زیر" اضافہ کا کام دیتی ہے ایسے مرکبات میں مضاف پہلے اور مضاف الیہ بعد میں آتا ہے مثلاََ
مرکب ۔۔۔۔۔معنی
خونِ جگر۔۔۔۔جگر کا خون
حالِ دل ۔۔۔۔دل کا حال
دامانِ مادر۔۔۔۔ماں کا دامن
دردِ ہجر۔۔۔۔۔جدائی کی تکلیف
7۔ چکبست کی نظم سے چند فارسی مرکبات تلاش کرکے ان کے معنی لکھیے
فارسی مرکبات ۔۔۔۔۔۔معنی
- بابِ سخن۔۔۔۔۔۔۔ شاعر ی کا باب
- دامانِ زخم ۔۔۔۔۔۔ماں کا دامن
- دردِ ہجر۔۔۔۔۔۔۔۔جدائی کی تکلیف
- دامنِ مادر۔۔۔۔۔۔۔ماں کا دامن
- دامانِ دشت ۔۔۔۔۔۔جنگل کا دامن
8۔ ان الفاظ کے متضاد لکھیے
لفظ ۔۔۔۔۔۔متضاد
حضر۔۔۔۔سفر
مُُحال ۔۔۔۔ممکن
قریب ۔۔۔۔بعید
صحرا ۔۔۔۔گلشن
ہجر۔۔۔۔۔وصال
تیز۔۔۔۔۔مدہم
عیاں ۔۔۔۔نہاں
(23) اولوالعزمی ۔۔۔۔۔۔۔ محمد حسین آزادؔ
سوال:-محمد حسین آزاد ؔ کی حیات اور شاعری پر ایک نوٹ لکھیے؟
جواب حالات ِ زندگی :-
محمد حسین آزاد ؔ کا اصلی نام محمد حسین تھا اورتخلص آزاد تھا آپ کی ولادت دہلی میں 1830ء میں ہوئی باپ کا نام محمد باقرتھا ہوش سنبھالتے ہی والد نے ذوقؔ کی شاگردی میں ڈال دیا اسی شادگردی نے آزادؔ کو ایک باکمال شاعر بنا دیا 1857ء کے ہنگامہ میں آپ کے والد انگریزوں کے ہاتھوں پھانسی دے کر مارے گئے پھرگھر بار لُٹ گیا آزاد کو بُرے دن دیکھنے پڑے آپ نے لاہور کی طرف ہجرت کی وہاں محکمہ تعلیم میں پندرہ روپے ماہوار تنخواہ پرملازمت کی ۔علمی خدمات انجام دینے کے لئے آپ نے بخارا ، کابل اور ایران کا سفر کیا کچھ مدت تک آپ پنجاب کے ایک سرکاری اخبار" اتالیق پنجاب" کے اڈیٹربھی رہے اس کے بعد آپ پھرلاہور کے سرکاری کالج میں عربی کے پروفیسرمقررہوئے1887ء میں ملکہ وکٹوریہ کی پہلی جوبلی پرآپ کو شمس العلماء کا خطاب ملا۔ اپنی بیٹی کی موت پراپنا ذہنی توازن کھو بیٹھے اورعمر کے بیس سال اسی بیماری میں بیت گئے آخرکار1910ء میں اسی بیماری کے سبب وفات پا گئے
شاعری: -
شمسُ العلماء محمد حسین آزاد کوجدید نظم کا بانی اورمجدد کہا جاتا ہے کیوں کہ عنوانی نظم نگاری اور نیچرل شاعری کی ابتداء ان ہی کے ہاتھوں ہوئی ۔آپ کی تحریک پر ہی " انجمن پنچاب " کی بنیاد پڑی اورایک نئی طرح کے مشاعروں کی بنیاد رکھی گئی ان مشاعروں میں مختلف موضوعات پر نظمیں لکھوائی جاتی تھیں آپ نے" آب حیات "جیسی کتاب لکھ کراردوادیبوںاور شاعروں کی سوانح حیات کو محفوظ کر دیا ے اس کے علاوہ " نیرنگِ خیال" "سخندانِ پارس"اور"درباراکبری "جیسی کتابیں " لکھ کر آپ نے اپنی قابلیت کا لوہا منوایا ہے
اولُوالعزمی
ہے سامنے کھلا ہوا میداں چلے چلو
باغِ مراد ہے ثمر افشاں چلے چلو
دریا ہو بیچ میں کہ بیاباں چلے چلو
ہمت یہ کہہ رہی ہے کھڑی ہاں چلے چلو
چلنا ہی مصلحت ہےمری جاں چلے چلو
باغِ مراد: - تمنا کا باغ ،خواہشات کا باغ ، ثمر:- پھل،افشاں:- چھڑکنا ،طلائی، بیاباں:- جنگل، مصلحت:- اچھا مشورہ
یہ بند محمد حسین آزادؔ کی نظم " اولوالعزمی" سے نکالا گیا ہے اس بند میں شاعر دنیا کے نوجوانوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اے نوجوانوں تمہارے سامنے پوری دینا کی منزلیں اور راہیں کھلی ہوئیں ہیں آپ ہمت کر کے آگے بڑھتےجاؤں چاہیے راستے میں کوئی دریا رکاوٹ بنے آپ بیابانوں کی را ہ لےکرمنزل تک بڑھتے جاؤں زندگی میں آگے بڑھنا ہی کامیابی کی نشانی ہے
ہمت کے شہسوار جو گھوڑے اٹھائیں گے
دشمن فلک بھی ہوں گے تو سر کو جھکائیں گے
طوفان بلبلوں کی طرح بیٹھ جائیں گے
نیکی کےروز اُٹھ کےبدی کودبائیں گے
بیٹھو نہ تم مگر کسی عنواں چلے چلو
ہمت :- حوصلہ ،شہسوار :-گھوڑے کی سواری کا خوب جاننے والا ، فلک: - آسمان
نظم کے اس بند میں آزادؔ نوجوانوں کو ہمت دے کر فرماتے ہیں دنیا کے جو لوگ ہمت اور حوصلےسے کام لیتے ہیں آسمان بھی اگر دشمن ہوتو وہ با ہمت لوگوں کے آگے سرخم تسلیم کرتےہیں اور بڑے بڑے طوفان بھی پانی کے بلبلوں کی طرح چند منٹوں میں ختم ہوجاتے ہیں برائی بھی نیکیوں میں تبدیل ہوجاتی ہےاے دنیا کے نوجوانوں اپنی زندگی کا مشن زندگی میں آگے بڑھنا اور کامیابی کے قلعے طے کرنا اپنی زندگی کا دائمی مقصد بناو
رکھو رفا ہِ قوم پہ اپنا مدارتم
اور ہو کبھی صلے کے نہ امید وار تم
عزت خدا جو دیوے تو پھر کیوں ہو خوار تم
دورُخ کو آپ فخر سے رنگ بہار تم
گلشن میں ہو کےبادِ بہاراں چلے چلو
رفاہِ :- آرام سے زندگی گذارنا،مدار: -جس پرکوئی چیز ٹھہری ہوانحصار، صلے :- بدلہ ، خوار: - بےعزت ،باد : -ہوا
نظم کےاس بند میں شاعرپھرانسانیت سے مخاطب ہوکرارشاد فرماتےہیں کہ اے د نیاکے نوجوانوں تم دنیا کے لوگوں کی ،انسانیت کی خدمت انجام دیتے رہو اسی میں تمہاری بھی کامیابی و کامرانی ہے مگر خدمت کے بدلے دینا کے لوگوں سے بدلا لینے کی کوئی توقع نہ رکھنابلکہ معاوضہ کی طلب اللہ تعالی سے ہی رکھنا کیوں عزت او ربےعزتی دینااللہ کے بس میں ہے اچھے بنوں او راچھے ہی کی توقعہ رکھوں اسی پہ دنیاکی اجڑی بستی پھر آباد و شاداب ہوجائےگی
آؤ سفید و سیاہ کا فعل حساب ہے
چمکا یا چہرہ صبح نے با آب و تاب ہے
ظلمت پہ نورہونے لگا فتحیات ہے
اورشب کےپیچھے تیغ بہ کف آفتاب ہے
تم بھی ہو آفتاب درخشاں چلے چلو
سفید و سیا ہ :- اچھے اور برے کام ، فعل :-کام ، ظلمت : - اندھیرا ، نور: -روشنی ، فتحیات: -کامیابی ، تیغ :- شمشیر، کف:- ہاتھ کی ہتھیلی، درخشاں :-روشن
نظم کےاس بند میں شاعرفرماتےہیں کہ اچھے اور بُرے کاموں کا حساب اب دینا ہوگا صبح کی آمد نے بھی دن کو روشن اور پر نور بنایا ہےرات کی تاریکوں کو بھی سورج کی روشنی نے دورکردیااوررات کےپیچھےآفتاب روشنی کی تلوار لےکر کھڑی ہوچکی ہے اور اے دنیا اورملت کے نوجوانوں تم بھی دنیا سےجہالت کو دور کرنے کے لئے کام کرتےرہو
نیکی بدی کے دیر سے باہم تھے معرکے
اب خاتموں پہ آگئے ہیں ان کے فیصلے
قسمت کے یہ نوشتے نہیں جو نہ مٹ سکے
وہ گونجا طبلِ فتح کہ میدان کےلئے
کرنائے جنگ کی ہے یہ الحاں چلے چلو
معرکے :- لڑائیاں، نوشتے: - لکھی ہوئی تحریریں، طبل:-ڈھول، گونجا:- آواز
نظم کےاس بند میں شاعرنوجونوں کو ہمت باندھ کر فرماتے ہیں کہ دنیا میں حالات اب تیزی سے بدل رہے ہیں کیوں بہت مدت سے نیکی اور بدی کی لڑائی چل رہی ہے بہت قریب ہےکہ نیکی بدی پر کامیابی کی مہر ضبط کرے گی یہ ایسا نہیں کہ یہ باتیں ازل سے ہی تمہاری تقدیرمیں لکھی جاچکی ہیں جن کو نہ مٹایا جاسکے گا دیکھو دنیا میں جیت کے ڈھول بجنے لگلے ہیں کیوں جب انسان بدی کے خلاف لڑے گا توجیت نیکی کی ہو کے ہی رہے گی
درسی سوالات
2۔ توضیحات
1۔ الوالعزمی: - اعلیٰ،ہمتی،اعلیٰ مرتبہ ،عزت دار
2۔ باغِ مراد :- باغ مراد کے معنی تمناؤں کے باغ کے ہیں
3۔ باغ ِمراد مرکب استعارہ ہے استعارہ کے بارے میں اپنے استاد سے پوچھ لیجئے نوشتے ہوتحریریں ہیں جوکہ خدا وند کریم نے لکھی ہیں انسان کی تقدیر جس میں لکھا ہوا ہے کہ وہ آئندہ کی زندگی میں کیا پائے گا جو لوگ تقدیر میں یقین رکھتے ہیں اُ ن کانظریہ ہے کہ انسان جو چاہتا ہے وہ ہو نہیں سکتا ہے اور جو خُدا چاہتا ہے وہی ہوجاتاہےانسان مجبورِ محض ہے
4۔ نیکی اوربدی ایک مذہبی تصور ہےانسان مرنے کے بعد اپنے کرموں کی بنا پرپھل پائے گا اگر اُ س نے نیکی کی ہوتو جنت کا مستحق ہوگا اگر بدی کی ہوگی تو اس کےلئے جہنم ہوگا
5۔ سفید و سیا ہ -یہ تصور دنیاوی ہے لیں دین کا تصور ہے کاروبار میں استعمال ہوتا ہے جہاں نفع بھی ہوتا ہے اورنقصان بھی
3۔سوالات
1۔ اس نظم کا موضوع کیا ہے ؟
جواب:اس نظم کا موضوع" اولوالعزمی" ہے
2۔ اس نطم کا خلاصہ بیا ن کیجیے۔؟
جواب :- یہ نظم " اولوالعزمی "محمد حسین آزاد ؔ کی لکھی ایک بہترین نظم ہے اس نظم میں آزادؔ نوجواناں ملت سے مخاطب ہو کر لکھتے ہیں کہ اے نوجوانوں تمہارے سامنے پوری دنیا کام کرنےکے لئے پڑی ہوئی ہےتمہیں صرف منزل کی جستجو میں رہنا چاہیے اگرتمہاراراستہ دریا روکے تو بیابانون میں اپنی منزل کی تلاش میں سرگرم رہو یاد رکھو جو لوگ ہمت سے کام لیتے ہیں اگران کا دشمن آسمان بھی ہو تو ان کا حوصلہ وہمت دیکھ کر آسمان بھی راستہ دے دیتا ہے اورمنزل کی راہ میں آنے والی رکاوٹیں ا پا نی کے بلبلے کیطرح چند ہی لمحات میں فناہوجاتیں ہیں بس تم اپنے قوم کی ترقی کوملحوظ نظر رکھونیکی کے بدلے دنیاکے لوگوں سے کبھی معاوضہ کی طلب نہ رکھنا بلکہ اس کا اجر اللہ تعالیٰ سے ملنےکی توقع رکھنا عزت و بے عزتی دینے والا اللہ تعالیٰ ہےاب زمانہ بھی بدل رہا ہے اندھیرے کی جگہ روشنی نے اپنا نور پھیلانا شروع کیا اے نوجونوں تم سورج کے مانند ہوجاؤں ہرسوں ہرطرح نور ہی نور پھیلا کراپنے اپنےمنازل کیطرف گامزن ہوجاوں دنیا میں بد ی او نیکی کے بیچ باربارتصادم ہورہے ہیں نیکی فتحیاب ہورہی ہے بدی کا خاتمہ ہورہا ہے مفلسی کوئی پتھرکی لکیرنہیں جس کونہ مٹایا جاسکے تم حوصلہ،ہمت اورثابت قدم سےآگے بڑھتے رہے منزل تمہارے قدم چوم کے ہی دم لے گی
3۔ اس نظم کا کونسا شعرآپ کوپسند ہے ؟
جواب:۔
ہمت کے شہسوارجوگھوڑے اٹھائیں گے
دشمن فلک بھی ہوں گے توسرکوجھکائیں گے
4 :۔ اس نظم میں استعمال شدہ قافیہ چُن کرلکھیے
پہلے بندکے قافیے :- میداں ، افشاں، بیاباں، ہاں ، جاں ہیں
ددسرے بند کے قافیے :- اٹھائیں ، جھکائیں، جائیں ، دبائیں ، عنواں ہیں
تیسرے بندکے قافیے : -مدار، وار، خوار، بہار، بادِ بہاراں ہیں
چوتھے بندکے قافیے: -حساب ، تاب ، فتحیاب ، آفتاب ، درخشاں ہیں
پانچویں بندکے قافیے:۔معرکے، فیصلے، سکے، لئے،ہیں
(24)جگنو۔۔۔علامہ اقبالؔ
ڈاکٹرسرمحمد اقبال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جگنو
سوال: -ڈاکٹرسرمحمد اقبال کی حالاتِ زندگی اور شاعر ی پر ایک نوٹ لکھیے؟
جواب حالاتِ زندگی:-
ڈاکٹرسرمحمد اقبال کی پیدائش سیالکوٹ میں 9 نومبر1877ءمیں بروزجمعہ کوہوئی آپ کے والدصاحب کا اسمی گرامی نورمحمد تھا آپ کی والدہ محترمہ کا نامی مبارک امام بی بی تھا آپ کے آباواجدار کشمیر سےہجرت کر کےسیالکوٹ میں سکونت پزیر ہوئے تھے آپ نے ابتدائی تعلیم ایک مکتبہ سے حاصل کی بعد میں سکاچ مشن اسکول میں داخلہ لیا جہاں میرحسن سے عربی اور فارسی کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی دسویں اور انٹرمیڈیٹ جماعتوںکےامتحانات پاس کرنےکےبعدگورنمنٹ کالج لاہورسے گریجویشن کی ڈگری حاصل کی ۔اس کے بعد پنجاب یونیورسٹی سے فلسفہ میں پوشٹ ڈگری حاصل کرکےاول پوزیشن حاصل کی۔اورنٹیل کالج لاہورمیں تاریخ اورفلسفہ پڑھانےکے پروفیسرمقرر ہوئے اس کے بعد پی ۔ایچ ۔ڈی اوربیرسٹری کی ڈگریاں جرمنی اور انگلینڈ سے حاصل کی واپس آکر لاہور میں وکالت کا پیشہ اختیار کیا حکومت نے ان کی خدمات ے عوض سر کے خطاب سے سرفراز کیا ۔عمر کےآخری ایام میں آپ کئی بیماریوں کےشکارہوگئے کافی علاج ومعالجہ کروایا لیکن مکمل صحت یاب نہ ہوسکے آخر61 سال کی عمر پا کے اس فانی دنیا سے 1938 ء میں لاہو ر میں انتقال فرماگئے شاہی مسجد لاہور کے احاطہ میں آپ کو سپرد لحد کیا گیا
شاعری :ـ
علامہ اقبال شاعرمشرق کے نام سے زبان زد عام ہے آپ ایک عالمگیر شاعر ہیں آپ اردو وفارسی کے ایک عظیم شاعر تصور کئے جاتے ہیں آپنے اردو اورفارسی میں شاعر ی کو نئی جہتوں سے آشناس کروایا آپ کی شاعری فلسفہ سےبھرپور ہے اسی طرح آپ شاعری میں مقصدیت کے قائل ہیں شاعر ی میں عمل کا پیغام عال ملتا ہے شاعر ی میں قافیہ پیمانی کو ثانوی او تاثیر کو اول درجہ دیتے ہیں شاعر ی میں داغ دہلوی سے اصلاح لیتے رہے اورمرزا غالب کی بھی پیروی کی آپ مغرب کی اندھی تقلید سے بیزار تھے اقبال کے شعری مجموعےمیں بانگِ درا، بال جبرئیل، ضرب کلیم اور ارمغان ِحجاز قابلِ ذکر ہیں
جگنو
جگنو کی روشنی ہے کاشانہ چمن میں
یا شمع جل رہی ہے پھولوں کی انجمن میں
کاشانہ:ـ آشیانہ، رسیوں کا گھر،جھوپنڑا، انجمن :- بزم ، محفل
علامہ اقبال اس نظم کے شعرمیں فرماتے ہیں کہ جگنو کی روشنی چمن کےآشیانہ میں اس طرح جل رہی ہے جیسے کہ پھولوں کے باغ میں کوئی شمع جل رہی ہے
آیا ہے آسماں سے اُڑ کر کوئی ستارہ
یاجان پڑ گئی ہے مہتاب کی کرن میں
مہتاب :- چاند، کرن :- روشنی
اقبال اس نظم کے شعر میں ارشاد فرماتے ہیں جگنو کی کیا بات ہےلگتا ہے کہ جیسے آسمان سے کوئی روشن ستارہ اُ ڑ کے چمن میں آیا ہے یا یہ سمجھیے کہ جیسےچاند کی چاندنی میں نئی جان پڑگئی ہے
یا شب کی سلطنت میں دن کاسفیر آیا
غربت میں آکے چمکا گمنا م تھا وطن میں
شب :- رات، سفیر:- قاصد،ایلچی
اس نظم کے شعرمیں اقبال فرماتے ہیں جگنو کی مثال ایسی ہے جیسے کہ رات کی تاریکی میں کوئی دن کی خبر لانے والا کوئی ایلچی آیا ہے یہ معمولی سا کیڑا پھولوں کےچمن میں ایسے چمکنے لگا ہے اس سےپہلے یہ جگنواپنےہی وطن میں جیسے کہ کھویا ہوا تھا
تکمہ کوئی گرا ہے مہتاب کی قبا کا
ذرہ ہےیانمایاں سورج کے پیرہن میں
تکمہ:-کُھنڈی، کپڑے یا دھاگے کا وہ بٹن جس سے گریباں بند کیاجاتا ہے ، قبا :- ایک طرح کا کوٹ جو آگے سے کھلا رہتا ہے ، پیرہن : -لباس
اقبال جگنو کے بارے میں اس شعرمیں یوں فرماتےہیں کہ جیسےجگنو چاند کے لباس کا کوئی ایک بٹن ہے یا سورج کے لباس میں کوئئ چیزچمک دمک رہی ہے
حُسن قدیم کی یہ پوشیدہ اک جھلک تھی
لے آئی جس کو قدرت خلوت سے انجمن میں
پوشیدہ :-غائب ، خلوت: - تنہائی
نظم کے اس شعر میں اقبال فرماتےہیں کہ جگنو حسنِ ازل کی ایک پوشیدہ جھلک کی مانند ہے جسے قدرت نے تنہائی سے نکا ل کر محفل میں لایا ہے
چھوٹے سےچاند میں ہے ظلمت بھی روشنی بھی
نکلا کھبی گہن سے آیا کھبی گہن میں
ظلمت: - اندھیرا، گہن:- گرہن
اقبال اس نظم کےشعرمیں جگنو کو ایک چھوٹا چاندکہ کر کہتا ہے کہ یہ چھوٹا سا چاند کھبی چمکتا ہے کھبی چھپ جاتا ہے یہی اس چھوٹے سےمخلوق کاوصف ہے
پروانہ اک پتنگا جگنو بھی اک پتنگا
وہ روشنی کا طالب یہ روشنی سراپا
طالب: - مشتاق،متلاشی
اقبال اس شعرمیں پروانہ اورجگنو کا موازنہ کرکے فرماتے ہیں اگر چہ یہ دونوں مخلوق پتنگے ہی ہیں مگر قدرت نے ان میں کتنا فرق واضح رکھا ہے پروانہ شمع کی روشنی کے ارد گرد گھومتا رہتا ہے مگرجگنوکو روشنی کےپیچھے نہیں بھاگنا پڑتا ہے کیوں کہ اللہ نے جگنو کے اند ر ہی روشنی رکھی ہے
ہرچیز کو جہاں میں قدرت نے دلبری دی
پروانہ کو تپش دی جگنو کو روشنی دی
تپش:- گرمی، دلبری:- دل کو موہ لینے والی چیز،کشش
نظم کے اس شعرمیں اقبال فرماتے ہیں کہ قدرت نے دنیا میں ہر شے میں کوئی نہ کوئی صفت وخاصیت رکھی ہے اسی طرح جگنو کو قدرت نے روشنی اور پروانہ کے نصیب میں شمع کی روشنی سے جلناعنایت کیا ہے
رنگین نوا بنایا مُر غان ِ بے زماں کو
گُل کو زبان دےکر تعلیم خامشی دی
رنگین نوا: - رنگین، آواز یعنی دل کو خوش کرنے والی آواز،
اقبال اس نطم کے شعر میں ارشاد فرماتےہیں کہ قدرت نے بے زبان جانوروں کوکتنی کتنی خوبصورت آوازوں سے نوازا ہے اسی طرح پھولوں کومہک اور خوبصورتی عطا کر کے خاموشی سے اپنا حسن بیان کرنا سکھایا ہے
نظارہ شفق کی خوبی زوال میں تھی
چمکا کے اس پری کو تھوڑی سی زندگی دی
شفق :- غروب سورج کے وقت آسمان پرنمودار ہونے والی سرخی
اقبال اس نظم کے شعر میں فرماتےہیں کہ جب سورج غروب ہوتاہے تو یہ وقتِ شفق کا نظارہ نہایت حسین وجمیل ہوتا ہے ایسا لگتا ہے جیسے کہ کوئی پری سرخ کپڑے پہنے ہوئے دیداردے رہی ہو
رنگین کیا سحر کو بانکی دلہن کی صورت
پہنا کے لال جوڑا شبنم کی آرسی دی
بانکی:-پیاری ، سجیلی،آرسی:-وہ زیورجوعورتیں ہاتھ کے انگوٹھے میں پہنتی ہیں اس میں شیشہ جُڑا ہوتا ہے
نظم کے اس شعرمیں اقبال فرماتےہیں کہ جگنو کی بدولت سحر اس قد رنگین اور تازہ ہوتی ہے جیسے کوئی نئی نویلی دلہن سرخ رنگ کا لباس پہنا ہوئی ہے اوراس پر شبنم کے زیور سجائے ہوئےہیں
سایہ دیا شجر کو پرواز دی ہوا کو
پانی کو دی روانی موجوں کو بے کلی دی
بےکلی:- بے قراری ، بےچینی
اس نظم کے شعرمیں اقبال فرماتے ہیں کہ اللہ نے درختوں کو چھاؤں اورہوا کو پرواز عطا کئےاسی طرح پانی کو روانی کی رفتاراور اس کی لہروں میں بے قراری رکھ کرحرکت دے دی
یہ امتیاز لیکن اک بات ہےہماری
جگنو کا دن وہی ہے جو رات ہے ہماری
امتیاز:-فرق
شاعر مشرق علامہ اقبال فرماتےہیں کہ تمام مخلوقات کے لئے دنیا کا دن، دن اور رات رات ہوا کرتی ہے مگر جب کہ اس کے برعکس جگنو کےلئے اس کا اُلٹ ہوتا ہے یہ سبب اس وجہ سے ہے کہ اللہ نے اسے ایک الگ چیز سے نوازا دیا وہ اس کی روشنی ہے
حسنِ ازل کی پیدا ہرچیز میں جھلک ہے
انسان میں وہ سخن ہے غنچے میں وہ چٹک ہے
حسن :- خوبصورتی، ازل:- وہ زمانہ جس کی کوئی ابتدانہ ہو، جھلک :- پرتو ،سخن: کلام , غنچہ: - بن کھلا پھول، چٹک:چمک دمک ،پھول کھلنے سے جو آواز پیدا ہوتی ہے اسے چٹک کہتے ہیں
علامہ اقبال اس نظم کے شعرمیں ارشاد فرماتےہیں کہ اللہ پاک نے کائنات کے ہرذرے میں اپنے جھلوے رکھے ہیں اور یہ زمانہ ازل سے موجود ہیں دیکھو اللہ تعالیٰ نے انسان میں قوت گونائی رکھی ہے اسی طرح پھولوں کی کلیوں میں چمک ودمک و چٹک رکھی ہے
یہ چاند آسماں کا شاعر کا دل ہے گویا
واں چاندنی ہےجو کچھ یاں درد کی کسک ہے
کسک: - ہلکا سا درد، یاں: - یہاں ،واں :- وہاں
اس شعرمیں شاعرمشرق علامہ اقبال فرماتےہیں کہ انسان کا دل چاند جیسا ہے جس طرح چاند سے چاندنی ہے اسی طرح انسانی دل میں درد کی کسک موجودہے
اندازِ گفتگو نے دھو کے دیئے ہیں ورنہ
نغمہ ہے بوے بلبل بو پھول کی چہک ہے
اس نظم کے اس شعرمیں علامہ اقبال فرماتےہیں کہ اگرچہ بلبل اورپھول کی انداز گفتگو الگ الگ ہیں یوں تو بلبل پھول پرفریفتہ ہو کرنغمہ سے اپنی محبت کا ظہار کرتا ہے اور پھول اپنی خوشبو سے ہی اپنی محبت کا اظہار کرتا ہے
کثرت میں ہوگیا ہے وحدت کا راز مخفی
جگنو میں جو چمک ہے وہ پھول میں مہک ہے
مخفی:- پوشیدہ،
اقبال اس نظم کے شعر میں ارشاد فرماتےہیں کہ وحدت میں ہی کثرت کا راز پوشیدہ ہے جگنوکی روشنی اور پھول کی مہک دراصل ایک ہی چیز ہے
یہ اختلاف پھر کیوں ہنگاموں کا محل ہو
ہر شے میں جب کہ پنہاں خاموشی ازل ہو
پنہاں: - پوشیدہ ، ہنگامہ :- شورش ، ازل :- وہ زمانہ جس کی کوئی ابتدا نہ ہو
اس شعر میں علامہ اقبال سوالیہ انداز سے پوچھتے ہیں کہ جب ازل سے ہر شے میں اللہ تعالیٰ کی وحدنیت کا رازپوشیدہ ہےتوکیوں کریہ دنیا لڑائیوں و جھگڑوں کا مسکن بن گیا ہے
2۔ توضیحات
اللہ تعالی نے دنیا کی ہر چھوٹی بڑی چیز کو خصو صیتوں سے نوازا ہے جگنو ہو یا پروانہ چاند ہو یا بلبل پھول ہو یا شبنم کوئی بھی چیز فضول نہیں ہے مخلوقات کو امن وامان او اخوت کےلیمے پیدا کیا گیا ہے ڈاکٹرسرمحمد اقبال کی نظم جگنو میں وحدت کا راز سمجھایا گیا ہے اس نظم میں خوبصورت مثالیں دی گئی ہیںاورقابل غور تشبیہیں بھی ہیں
3۔ سوالات نظم جگنو کا خلاصہ مختصر الفاظ میں لکھیے؟
جواب -شاعرمشرق علامہ اقبال نے اپنی "جگنو"میں کثرت کےفلسفےکوبیان کیاہے جگنو کی خوبصورتی کو بیان کرتے ہوئے اس میں مختلف چیزوں سےتشبیہ دیتا ہےکھبی پھولوں کی محفل کی شمع ، تو کھبی سورج کے لباس کادمکتا حصہ بتاتا ہےکھبی اسے رات کی سلطنت میں دن کا سفیرکہا ہے کھبی چھوٹا سا چاند کہتا ہے پھر شاعر پروانے او ر جگنو کا موازنہ کرتا ہے کہتے ہیں پروانہ شمع کی روشنی پر اپنی جان نچھاورکرتا ہے مگر دوسری طرف جگنومیں قدرت نےجسم کے اندرہی قدرت نے روشنی انتظام رکھا ہے خدا ہر پیدا کی ہوئی شے میں کوئی نہ کوئی تاثیر و اثر رکھا ہے جس سے اس کی اہمیت بڑھ جاتی ہے بے زبان پرندوں کومیٹھی میٹھی بولیوں سے نوازا ہے تو دوسری طرف پھولوں کو خوبصورتی اور مہک سے مالا مال کردیا ہےصبح کا منظر نہایت حسین اورشام کے وقت سورج کا ڈوبنا بھی عجیب منظر پیش کرتا ہے ہماری لئے دن دن ہےمگرجگنوکےلئے رات ہی دن ہوتا ہے یہ سب اللہ کے کرشمےہیں
کائنات کے ہرچیز میں اللہ کے حسن کی جھلک موجود ہے انسان میں اگر بولنے کی صلاحیت ہے تو کلی میں چٹک موجود ہے پھول اور بلبل بھی الگ اور جد ا نہیں ہیں ددنوں صفتیں خداوندی کااظہا ردیتی ہیں دنیا کی ہر شےاللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر ہیں یعنی ہر چیز میں خدا کا حسن موجود ہے جس کا مطلب کثرت میں وحدت کا راز پنہاں ہےتوپھرکیوں ایسا ہوتا ہے کہ ظاہری اختلاف کی بنیادوں پرجھگڑے کئےجاتے ہیں جبکہ کثرت میں وحدت کاراز پوشیدہ ہے تو پھردینا کے لوگ کوایک ہونا چاہیے اورآپس میں اتفاق سےرہنا چاہیے
2۔ تشریح کیجئے
رنگین نوا بنایا مُر غان ِ بے زماں کو
گُل کو زبان دےکر تعلیم خامشی دی
رنگین نوا: - رنگین، آواز یعنی دل کو خوش کرنے والی آواز،
اقبال اس نطم کے شعر میں ارشاد فرماتےہیں کہ قدرت نے بے زبان جانوروں کوکتنی کتنی خوبصورت آوازوں سے نوازا ہے اسی طرح پھولوں کومہک اور خوبصورتی عطا کر کے خاموشی سے اپنا حسن بیان کرنا سکھایا ہے
ہرچیز کو جہاں میں قدرت نے دلبری دی
پروانہ کو تپش دی جگنو کو روشنی دی
تپش:- گرمی ، دلبری :- دل کو موہ لینے والی چیز،کشش
نظم کے اس شعر میں اقبال فرماتے ہیں کہ قدرت نے دنیا کے ہرچیز میں کوئی نہ کوئی صفت و خاصیت رکھی ہے اسی طرح جگنو کو قدرت نے روشنی اور پروانہ کے نصیب میں شمع کی روشنی سے جلنا عنایت کیا ہے
3۔ شاعر نے کیوں کہا ہے ؟
سنِ ازل کی پیدا ہرچیز میں جھلک ہے
انسان میں وہ سخن ہے غنچے میں وہ چٹک ہے
حسن:- خوبصورتی، ازل:- وہ زمانہ جس کی کوئی ابتدانہ ہو ، جھلک: - پرتو ،سخن : - کلام , غنچہ :- بن کھلا پھول، چٹک: - چمک دمک ،پھول کھلنے سے جو آواز پیدا ہوتی ہے اسے چٹک کہتے ہیں
علامہ اقبال اس نظم کے شعرمیں ارشاد فرماتےہیں کہ اللہ پاک نے کائنات کے ہرذرے میں اپنے جھلوے رکھے ہیں اور یہ زمانہ ازل سے موجود ہیں دیکھو اللہ تعالیٰ نے انسان میں قوت گونائی رکھی ہے اسی طرح پھولوں کی کلیوں میں چمک ودمک و چٹک رکھی ہے
4۔ "وحدت میں کثرت " سے کیا مُراد ہے؟
جواب : -" وحدت میں کثرت " سے مرادیہ ہے کہ دنیا کی مختلف چیزیں الگ الگ ہونےکے باوجود ان میں ایک ہی طرح کا وصف پایا جاتا ہے یعنی وہ ایک اللہ ہونے کی دلالت کرتی ہیں جس طرح باغ میں مختلف رنگ کے پھول پائے جاتے ہیں مگر یہ پھول ایک باغ کے شمار کئے جاتے ہیں
5۔ ان اشعار میں تشبیہیں تلاش کیجیے؟
تکمہ کوئی گرا ہے مہتاب کی قبا کا
ذرہ ہےیانمایاں سورج کے پیرہن میں
تکمہ:-کُھنڈی، کپڑے یا دھاگے کا وہ بٹن جس سے گریباں بند کیاجاتا ہے ، قبا :- ایک طرح کا کوٹ جو آگے سے کھلا رہتا ہے ، پیرہن : -لباس
اقبال جگنو کے بارے میں اس شعر میں یوں فرماتےہیں کہ جیسے جگنوچاند کے لباس کا کوئی ایک بٹن ہے یا سورج کے لباس میں کوئئ چیز چمک دمک رہی ہے
رنگین کیا سحر کو بانکی دلہن کی صورت
پہنا کے لال جوڑا شبنم کی آرسی دی
بانکی :-پیاری، سجیلی، آرسی :- وہ زیورجوعورتیں ہاتھ کے انگھوٹھے میں پہنتی ہیں اس میں شیشہ جُڑا ہوتا ہے
نظم کے اس شعرمیں اقبال فرماتےہیں کہ جگنوکی بدولت سحر اس قدررنگین اور تازہ ہوئی ہے جیسے کوئی نئی نویلی دلہن سرخ رنگ کا لباس پہنا ہوئی ہے اوراس پر شبنم کے زیورسجائے ہوئےہو
(25)
مرزا محمد یٰسین بیگ(2008-1943ء)۔۔ شکستِ انتظار
شکست ِانتظار
گلی کے موڑ پہ مسجد کے اس مینار
خزان رسیدہ چناروں کے زرد رُو پتے
خزاں رسیدہ :- بے رونق ،پُرانا ، زرد رُو: - جس کا چہرہ پیلا ہو
اس نظم کے پہلے شعر میں مرزا محمد یٰسین بیگ فرماتےہیں جب کشمیر میں موسمِ خزاں کا موسم آتا ہے اوراس موسم میں چنار کے درخت کے پتے زرد ہوکر نیچے گر جاتے ہیں شاعر اس منظرکو بیا ن کرتاہے کہ میرے گھر کی گلی کے سامنے موڑ کے نزدیک ایک مسجد ہے اس مسجدکے مینار کےتلے بوسیدہ چناروں کے زرد پتے گرکرپڑے ہوئے ہیں
چراغ راہ کی مانند ، صبح وشام جلے
کہر میں لپٹی ہوئی ملگجی فضاؤں میں
کہر:- دُھند ، ملگجی :- کچھ اُجلی کچھ میلی فضا ، گرد وغبار سے آلود میلی فضا
محمد یٰسین بیگ اس نظم ' شکست ِ انتظار" کے اس شعر میں چنار کے پتوں کوچراغ سے تشبیہ دیتا ہے فرماتےہیں کہ جس طرح راستےکا چراغ راہ گیروں کو راہ اور منزل تک پہنچنے میں مدد دیتا ہےبا لکل اسی طرح راہ پرگرے پڑے چنار کے سرخ زردپتےجیسے جل کر چراغ راہ کا کام دے دیتے ہیں دوسری طرف یہ لمبے لمبے چنار کے درخت دھند اور گردوغبار فضا میں گرے ہوئے ہیں
نظر نواز نظاروں کے داغ تک نہ ملے
سیاہ رات کے دامن سے تیرگی نہ چھٹی
نظر نواز: - سرفراز کرنے والا ، تیرگی : - اندھیرا
بیگ اس نظم کےشعرمیں ارشاد فرماتےہیں کہ ہر طرف تاریکی پھیلی ہوئی ہے اورکئی طرح سےروشنی کی جھلک دکھائی نہیں دیتی ہے یعنی شاعر یہ بتانےکی کوشش کرتاہے کہ میرے وطنِ عزیز میں ناامیدی اوراداسی ہر طرف چھائی ہوئی ہے اور اس کے ٹل جانےکا کوئی سراغ دکھائی نہیں دیتا ہے
فلک پہ جلتے ستاروں کے داغ تک نہ ملے
گلی کے موڑ پہ ا س سامنے کی کھڑکی میں
فلک :- آسماں
بیگ اس نظم کے شعر میں فرماتےہیں کہ مجھ پہ غموں کے اتنے پہاڑ ٹوٹ پڑے ہیں کہ اس دور دراز آسمان کو بھی ہمارے غموں نے آگیر لیاہےجس کی وجہ سے ان ٹمٹماٹے ستاروں کی بھی روشنی ماند پڑگئی ہے اور وہ بھی اب نظر نہیں آرہے ہیں
وہ قیس منتظر و بے قرار بیٹھا ہے
نظر نظر میں شراروں کا اضطراب لیے
قیس:- لیلیٰ کا عاشق ،شرارہ : - چنگاری ، اضطراب :- بےچینی
اس شعرمیں بیگ ارشاد فرماتے ہیں کہ لیلیٰ کا عاشق بے قرار بیٹھا ہوا ہے اوراس کی ہر نظرمیں بے چینی کی چنگاری پیداہوئی ہے
دھڑکتے دل سے سررہ گزر بیٹھا ہے
اسے خبر نہیں شاید کہ محمل لیلیٰ
محمل :- کجاوہ ،اونٹ پر بنایا گیا ہووج ،ڈولی
اس شعرمیں مرزا یٰسین بیگ ارشاد ہوکر فرماتےہیں کہ لیلیٰ کےعاشق کو امید ہے کہ لیلیٰ کاگذر اُس کے کوچے سے ہوکر ہی رہے گا اور وہ اُ س کا دیدار کر کےہی دم لے گا کہتے ہیں دنیا امید پر قائم ہے
3۔سوالات
1۔مرزا محمد یٰسین بیگ کی حیات اور شعری خدمات پر ایک مختصر نوٹ تحریر کیجیے؟
حالاتِ زندگی: -
مرزامحمد یٰسین بیگ کی پیدائش جموں میں1943ء میں ہوئی۔گریجویشن کےبعد جموں وکشمیر اکادمی آف آرٹ کلچر اینڈ لنگویجزمیں لائبریرین کی حیثیت سے ملازم ہوئےعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی لب کا امتحان پاس کیا اس کے بعد جموں وکشمیر کے مختلف محکموں میں کام کرتے رہےُ خا ص طور پرآپ نے ڈی سی اننت ناگ ، ایڈیشنل ڈی سی جموں و ایکسائز کے اعلی ٰعہدوں پر اپنے فرائض انجام دیتے رہے آپ سپیشل سیکریٹری ٹو گورنمنٹ کے اعلیٰ ترین عہدے سے سبکداش ہوئے آپ کا انتقال جموں میں 2008 کو ہوا
شاعری :-
مرزا محمد حسین بیگ نے اپنی شاعری کا آغاز کالج کے زمانے سےہی کیا ۔کلچرل اکادمی کی ملازمت کے دوران آپ کی غزلوں کا پہلا مجموعہ "شاخِ صنوبرکے تلے" 1962ء میں شائع ہوا دوسرا نظموں کا مجموعہ "دہر آشوب"لے عنوان سے 1991ء میں شائع ہوا آپ نے ہر اصناف سخن میں طبع آزمائی کی تاہم ان کی مقبولیت صنف ِ نظم میں نکھر کر آئی۔ نظموں میں عصری مسائل کی بھر پور ترجمانی کی گئی ہے جو پڑھنے والے کو کافی متاثر کر کے چھوڑتی ہےغزلوں کا موضوع حسن وعشق رہا ہے ڈدگری وپنجابی میں بھی شعر کہے ڈدگری میں ایک نظم "شندامرت " چھپ چکی ہے الغرض مختلف زبانوں کے سنگم نے آپ کی تحریر کو رنگین اوردلکش بنا دیا ہے
2۔ نظم "شکستِ انتظار" میں کس طرح کی ذہنی کیفیت کی تصویرکشی کی گئی ہے؟
جواب:-اس نظم میں ایسی ذہنی کیفیت کی تصویر کشی کی گئ ہےجو ناامیدی اوربے بسی کے عالم میں حیران وپریشان ہے اور اپنے مقصد کےحصول میں ٹوٹی امید لئے بیٹھاہے
3۔ کھڑکی میں بیٹھے ہوئے قیس اور محمل لیلےٰ سے شاعر کی کیا مُراد ہے ؟
جواب :۔ کھڑکی میں بیٹھے ہوئے قیس سےمراد دور حاضر کے وہ نوجوان ہے جو آج کے دور میں بے روز گاری کے شکار ہیں اور محمل لیلیٰ سے مُراد وہ ذریعہ معاش ہے جو اطمینان اور خوشحال زندگی کےلئے لازمی سمجھا گیاہے
(27)۔۔رباعی جگت موہن لال رواں
(1)
دُنیا سو سو طرح سے بہلاتی ہے
سامانِ خوشی سے روح گھبراتی ہے
اب فکر فنا کھول دی ہیں آنکھیں
کلفت ہر بات میں نظر آتی ہے
کلفت :- رنج ،تکلیف
رواں اس رباعی میں فرماتےہیں کہ انسان جوانی کے دنوں بہت خوشی محسوس کرتا ہے اسے دنیا ہر طرح سے اچھی لگتی ہے مگر جب انسا ن کو بڑھاپا آتا ہے تو اسے ہر چیز سے بے زاری پیدا ہوجاتی ہے اور اسے صرف مرنے کی فکر ستاتی ہے
(2)
حرص و ہوسِ حیات ِ فانی نہ گئی
اس دل سے ہوائے کامرانی نہ گئی
ہے سنگِ مزار پر تیرا نام رواںؔ
مرکر بھی امیدِ زندگانی نہ گئی
حرص:- تمنا ، لالچ ،کامرانی: - کامیابی ،سنگِ مزار: - قبر پر رکھا گیا پتھر جس پر مرنے والے کا نام پتہ و تاریخ موت لکھی جاتی ہے
اس رباعی کے اشعار میں رواں ؔ انسان کا اس دنیا سے دل لگانے کی بات کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ دنیا بھی کیا چیز ہے ایک انسان اس دنیا سے اس قدر دل لگاتا ہے جیسے اس دنیا کو کھبی چھوڑنا نہیں ہے انسان دنیا میں خواہشات کے بازار میں گم ہوجاتاہے وہ دنیا کی ہر چھوٹی بڑی چیز کو پانےکا خواہش مند رہتا ہے اور جب ایک انسان اس دنیا سے مرکےچلا جاتاہے اس کی قبر پر اس کا نام وپتہ تاریخ موت لکھی جاتی ہے جیسے یہ لگے اس مرے ہوئے انسان کواس دنیا میں مر کے دوبارہ واپس آنا ہےغرض انسان کی ساری تمنائیں نہ زندگی میں پوری ہوتی ہے نہ ہی مر کے پوری ہوتیں ہیں
(3)
کیا تم سے بتائیں عمر فانی کیا تھی
بچپن کیا چیز تھا جوانی کیا تھی
یہ گل کی مہک تھی وہ ہوا کا جھونکا
اک موجِ فضا تھی زندگانی کیا تھی
گل :- گلاب، مہک: - خوشبو
رواں ؔ اس رباعی میں انسان زندگی کی بے ثباتی کا حال بیا ن کرتے ہوئے فرماتےہیں کہ اے دنیا والوں میں تجھے گذرے زندگی کے ایام کے بارے میں کیا کہوں بچپن پھولوں کی مہک کی مانند ہے ہر سوں بہار ہی بہار لگتی ہے اور جوانی ہوا کے جھونکےکی طرح ہے کہ ایک طرف آیا کہ دوسر جانب گذر جاتا ہے انسان کی پوری زندگی ایک موج کے مانند ہے جو پل میں گذر جاتی ہے غرض انسانی زندگی ایک حسرت کے سیوا کچھ بھی تو نہیں
1۔فرہنگ
کلفت :- رنج ، تکلیف
حرص :- لالچ ،تمنا ۔خواہش
ہوس :- لالچ
کامرانی :- کامیابی
سنگِ مزار : - سنگ تُر بت ، وہ پتھر جو قبرپر رکھا جاتا ہے
2۔پہلی رباعی میں ایک ساتھ دوخیالات بیان کئے گئے ہیں دنیا خوشی کے سامان سے لوگوں کوبہلاتی ہے لیکن فنا ہونے کی فکر سے ہر ایک سامان عیش میں کلفت نظر آنےلگتی ہے اور سامان خوشی سےروح گھبر انے لگتی ہے
" سنگ مزار" وہ پتھر ہے جس پر متوفی کا نام تاریخ وفات اورپتہ وغیرہ کندہ کروایا جاتا ہے اورمتوفی کی قبر پر رکھ دیا جاتا ہے دوسری رباعی میں شاعر نے ایک اچھوتا خیال پیدا کیا ہے کہ لوگ مرکر بھی زندہ رہنا چاہیے ہیں
سنگ مزار رکھے جاتے ہیں تاکہ مرنے والوں کے نام موجود رہیں مگر دنیا اور دنیا کی ہر چیز فانی ہے
3۔سوالات
1۔ شاعر کو ہر بات میں کلفت کیوں نظر آتی ہے ؟
جواب : شاعرکو ہر بات میں رنج و غم اور کلفت اسی لئے نظر آتی ہے کیوں اب اسے شدت سے محسوس ہونے لگا کہ بچپن ، جوانی کے دن بھی بڑی تیزی کے ساتھ گذر گئے اب بوڑھاپےکے دہلیز پرشاعر نے قدم رکھ لیا ہے اب موت یقینی ہے
2۔ تیسری رباعی میں سے تشبیہیں تلاش کریں؟
جواب:بچپن کو گُل کی مہک سے، جوانی کو ہوا کے جھونکے سے اور زندگی کو موجِ فضا سے تشبیہیں دی گئیں ہیں
3۔تیسری رباعی کا ماحصل لکھیے
کیا تم سے بتائیں عمر فانی کیا تھی
بچپن کیا چیز تھا جوانی کیا تھی
یہ گل کی مہک تھی وہ ہوا کا جھونکا
اک موجِ فضا تھی زندگانی کیا تھی
گل :- گلاب، مہک: - خوشبو
رواں ؔ اس رباعی میں انسان زندگی کی بے ثباتی کا حال بیا ن کرتے ہوئے فرماتےہیں کہ اے دنیا والوں میں تجھے گذرے زندگی کے ایام کے بارے میں کیا کہوں بچپن پھولوں کی مہک کی مانند ہے ہر سوں بہار ہی بہار لگتی ہے اور جوانی ہوا کے جھونکےکی طرح ہے کہ ایک طرف آیا کہ دوسر جانب گذر جاتا ہے انسان کی پوری زندگی ایک موج کے مانند ہے جو پل میں گذر جاتی ہے غرض انسانی زندگی ایک حسرت کے سیوا کچھ بھی تو نہیں
(26) رباعی ---------میر انیسؔ
رباعی کیا ہے؟
جواب:- رُباعی "ربع" سے مشتق ہے جس کے معنی "چار" کے ہیں لیکن اصطلاحی ادب میں رباعی سے مرادوہ شعری ہیئت ہے جوچار مصرعوں پرمبنی ہوتی ہے اورفکر وخیال کے لحاظ سے مکمل ہوتی ہےاس کا پہلا ،دوسرا،اورچھوتھا مصرعہ ہم قافیہ ہوتا ہے جبکہ تیسرا مصرعےکا قافیہ الگ ہوتا ہے کھبی چاروں مصرعے ہم قافیہ ہوتےہیں رباعی کا چھوتھا مصرعہ بہت بلند اورزوردارہوتا ہے اوریہی مصرعہ رباعی کی جان کہلاتاہے قافیہ ،بحراور وزن کی پا بندی رباعی کےلئے بہت ضروری ہے رباعی کے چوبیس اوزان مقرر ہیں رباعی میں مضامین کی کوئی قید نہیں ہے رباعی کے ددسرے نام دوبیتی ، چہار بیتی اورترانہ کے ہیں
رباعی کی ابتدا ایران میں ہوئی اس کا موجد ایرانی شاعررودکیؔ کوسمجھاجاتا ہے اردومیں رباعی فارسی سےآئی اردوکا پہلا شاعرعبدالقادکوماناجاتا ہےاردوکےہر چھوٹے بڑےشاعرنےرباعیاں لکھیں ہیں لیکن میرانیس اوردبیر نےاردورباعی کو بام ِعروج تک پہنچادیا
سوال:میرببرعلی انیسؔ کی حیات اورشاعری پر ایک نوٹ لکھیے ؟
جواب: حیات: -
اردو کے عظیم مرثیہ گو شاعرواردو رباعی کے استاد میر ببرعلی انیسؔ1804ء ،میں فیض آباد میں تولد ہوئےآپ کا اصلی نام میر ببر علی تھا پہلے حزین ؔ لیکن بعد میں انیس ؔ تخلص اختیار کیا آپ کے والد محترم کا اسمی گرامی میر خلیقؔ تھا دادا میر حسنؔ اورپردادا میرحسن ضاحکؔ تھااس طرح میرانیس ؔپشتنی شاعر تھے ابتدائی تعلیم مولوی حیدر علی سے حاصل کی اوراپنی والدہ سے بھی آپ نے خوب اچھی تعلیم وتربیت پائی مروجہ علوم کے ساتھ آپ نے گھوڑا سواری ، فنِ سپہ گری اور شمشیر زنی میں بھی کمال حاصل کیا۔ آخری عمرمیں فیض آباد سے لکھنو چلے آئے ہندوستان کے کئی شہروں کا سفر کیاجن میں عظیم آباد ،بنارس، حیدرآباد ،الہ آباد وغیرہ قابل ذکر ہیں جہاں جہاں آپ تشریف لے گے لوگوں نے خوب عزت کی ۔ عمر کے آخری ایام میں آپ کئی مہلک بیماروں کے شکار ہوگے خوب علاج ومعالجہ کروایا لیکن کچھ کام نہ آیا ۔ بالآخر10دسمبر 1874 کو آپ اپنے حقیقی مالک سے جا ملے
شاعری:-
بچپن کے دنوں سے شعرگوئی کی طرف رجحان تھا شاعری میں کمال درجہ حاصل کیا آپ اردو مرثیہ نگاری کے امام وپیشواتصورکئےجاتے ہیں شاعر ی کا آغاز صنف غزل سےکیا لیکن جلدی ہی اپنا محبوب صنف مرثیہ نگاری کو چن لیا ہمیشہ واقعیت اور اصلیت کو مد نظر رکھا ہے لفظوں کے انتخاب اوراستعمال میں آج تک ان کا دوجا ثانی پیدا نہ ہوسکا۔ آپ کے کلام میں فضاحت ،سلاست ،نازک خیالی اورسادگی ہے مرثیہ کے علاوہ رباعی کہنے میں بھی کمال درجہ حاصل تھا
رباعی
(1)
رتبہ جسے دنیا میں خدا دیتا ہے
وہ دِل فروتنی کو جا دیتا ہے
کرتے ہیں تہی مغز ثنا آپ اپنی
جو ظرف کہ خالی ہے صدادیتا ہے
فروتنی :- عاجزی ، انکساری ،تہی مغز: - بے وقوف ،احمق ، ظرف :- برتن
میرانیسؔ رباعی کےان اشعارمیں ایک حقیقت بیان کرتےہوئےفرماتےہیں کہ رُب العزت جس بندے کو دنیا میں اعلیٰ مقام عطا کر تاہےاگروہ انسان اخلاقاََ ،ادباََ اچھا ہے تو اس کے دل میں قدرتی طورپرنرمی،عاجزی وانکساری پیداہوجاتی ہےجس طر ح ایک پھلدار درخت کی شاخیں زیادہ پھل وپھول لگنے سے نیچے جھکتی ہیں اس طرح ایک اعلی خصلتاََ انسان میں نرمی آجاتی ہے مگر دوسری طرف جب ایک احمق انسان کا رتبہ ومقام اونچا ہوجاتاہےوہ اپنی ہی شان وشو کت کے گیت گانے لگتا ہے جس طرح ایک خالی برتن میں آوازیں پیدا ہوجاتی ہے جبکہ پُربھرے ہوے برتن میں کوئی آواز پیدا نہیں ہوتی ہے
(2)
ماں باپ سے بھی سوا ہے شفقت تیری
افزوں ہے تیرے غضب سے رحمت تیری
جنت انعام کر کہ دوزخ میں جلا
وہ رحم تیرا ہے یہ عدالت تیری
افزوں :- زیادہ
میر انیسؔ اس رباعی میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ایک ماں باپ سےبھی زیادہ بندے سےشفقت و الفت رکھتا ہے اللہ کی رحمت ،اللہ کے غضب سے زیادہ ہےاللہ نیک کاموں پر جنت انعام کے طوردے گا جبکہ برے کاموں کےبدلے جہنم دے گا یہی اللہ کی رحمت و حقیقی عدالت وانصاف ہوگا
(3)
آغوش لحد میں جب کہ سونا ہوگا
جُز خاک نہ تکیہ نہ نچھونا ہوگا
تنہائی میں آہ کون ہووے گا انیسؔ
ہم ہوں گے اور قبر کا کونا ہوگا
رباعی کے ان اشعار میں انیسؔ نے ایک تلخ حقیقت کو بیان کیا ہے فرماتےہیں کہ جب ہماری موت واقع ہوجا ئےگی توقبر کی لحد میں رکھ کر جب دفنایا جائے گا تو قبر میں میر ا کوئی ساتھی ومددگار نہ ہوگا وہاں صرف مٹی ہی مٹی و تنہائی ہوگی وہاں نہ سونےکے لئے بچھونااور نہ تکیہ ہوگا وہاں صرف ہم اور قبر کو کونا ہوگا
درسی سوالات
سوال: دنیا میں کون لوگ نرمی اورتواضع اختیار کرتے ہیں؟
جواب: دنیا میں وہی لوگ نرمی اورتواضع اختیار کرتےہیں جنھیں ربُ العزت نے ایسا ظرف وقلب عطا کیاہے وہ کوئی بھی مقام و مرتبہ یہاں تک ایک گھاس کا تنکا ملے پر بھی خالق وعرض و سماں کی تعریفیں بجالاتےہیں وہ اعلیٰ ہوکر بھی خود کو ادنیٰ ہی سمجھتے ہیں
2۔ دوسری رباعی کا خلاصہ اپنے الفاظ میں لکھیے؟
یہ رباعی میر انیسؔ کی لکھی ہوئی ہےاس رباعی میں انیس فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ایک ماں باپ سے بھی زیادہ رفیق وشفیق ہے اللہ کی رحمت ،اللہ کےغضب سے بڑی ہے اللہ اپنے نیک بندوں کو ان کے نیک کاموں پرجنت عطا کرے گا اور برے لوگوں کو ان کے برے کاموں کےعوض جہنم دے گا یہی اللہ تعالی کا حقیقی کرم اورعدل ہوگا
3۔ شاعر کا حوالہ دےکر ان اشعار کی وضاحت کریں
آغوش لحد میں جب کہ سونا ہوگا
جُز خاک نہ تکیہ نہ نچھونا ہوگا
تنہائی میں آہ کون ہووے گا انیسؔ
ہم ہوں گے اور قبر کا کونا ہوگا
رباعی کے ان اشعار میں انیسؔ نے ایک تلخ حقیقت کو بیان کیا ہے فرماتےہیں کہ جب ہماری موت واقع ہوجا ئےگی تو قبر کی لحد میں رکھ کر جب دفنایا جائے گا توقبر میں میر ا کوئی ساتھی ومددگارنہ ہوگا وہاں صرف مٹی ہی مٹی و تنہائی ہوگی وہاں نہ سونےکے لئے بچھونا اور نہ تکیہ ہوگا وہاں صرف ہم اور قبر کو کونا ہوگا
4۔ میر انیس کی شاعری کے بارے میں مختصر نوٹ لکھیے؟
جواب: شا عری:۔
بچپن کے دنوں سے شعرگوئی کی طرف رجحان تھاشاعری میں کمال درجہ حاصل کیا آپ اردو مرثیہ نگاری کے امام وپیشوا تصورکئےجاتے ہیں شاعر ی کا آغاز صنف غزل سےکیا لیکن جلدی ہی اپنا محبوب صنف مرثیہ نگاری کو چن لیا ہمیشہ واقعیت اور اصلیت کو مد نظر رکھا ہے لفظوں کے انتخاب اوراستعمال میں آج تک ان کا دوجا ثانی پیدا نہ ہوسکا آپ کے کلام میں فضاحت ،سلاست ،نازک خیالی اورسادگی ہے مرثیہ کے علاوہ رباعی کہنے میں بھی کمال درجہ حاصل تھا
(27) جگت موہن لال رواں۔۔رباعی
3۔ رواں ؔ اناوی کے بارے میں مختصر نوٹ لکھیے؟
جگت موہن لال رواں(1737ء 1914ء)۔
جواب حالاتِ زندگی : -
رواں ؔ کا اصلی نا م جگت موہن لال تھا اور رواںؔتخلص تھا اُناوہ میں مستقل سکونت اختیار کی اسی وجہ سے رواں اُناوی کے نام سے مشہو ر ہوئے آ پ کی پیدائش 14 جنوری 1889ء کو اُترپردیش میں ہوئی آپ کے والد صاحب کانام چودھری مُنشی گنگا پرشاد تھا نو سال کی عمر میں باپ کا سایہ سر سے اُٹھ گیا ۔ بڑے بھائی کنہیا لال کی سرپرستی میں تعلیم حاصل کی ۔ گریجویشن کے بعد ایم اے اور ایل ایل بی کی ڈگریاں حاصل کیں ۔ وکالت کا پیشہ اختیار کیا اور بہت کم عمری میں کافی شہرت پائی ۔1943ء میں جب کہ آپ کی عمر صرف پنتالیس برس کی تھی تو آپ اس جہاں فانی سے کوچ کر گئے
شاعری :-
رواں کو بچپن سے ہی شاعری کا شوق تھا آپ کے خاندان کےسبھی لوگ علم وادب سے گہری دلچسپی رکھتے تھے اسی لئے گھر کے موحول نے آپ کے اس شوق میں جِلا پیدا کی چنانچہ تعلیم کے ساتھ ساتھ آپ کی شاعرانہ قوت بڑھتی گئی 1904ء میں آپ عزیزلکھنوی شاگرد ہوئےمثنوی اوررباعی آپ کا خاص میدان تھا فلسفہ پڑھنے کی وجہ سے آ پ کے کلام میں فلسفیانہ خیالات ملتےہیں آپ کے کلام میں سلا ست ،جوش وخروش اور گہر ا تفکر ہےآپ نے نظم نگاری کی اس روایت کی بھی زندہ رکھنے کی کوشش کی جس کی ابتدا حالیؔ اور آزادؔ سے ہوئی تھی آپ کی رباعیات میں دنیا کی بے ثباتی کا موضوع چھایا رہا آپ کے کلام "روحِ رواں" کے نام سے پہلی مرتبہ 1928ء میں شائع ہوا جس میں ان کی نظمیں ، قطعات ۔غزلیں اور رباعیات شامل ہیں
5۔ رباعی پر نوٹ لکھے ؟
جواب :- رُباعی "ربع" سے مشتق ہے جس کے معنی "چار" کے ہیں لیکن اصطلاحی ادب میں رباعی سے مراد وہ شعری ہیئت ہے جوچارمصرعوں پر مبنی ہوتی ہے اورفکر وخیال کے لحاظ سے مکمل ہوتی ہے اس کا پہلا ،دوسرا، اورچھوتھا مصرعہ ہم قافیہ ہوتا ہے جبکہ تیسرا مصرعےکا قافیہ الگ ہوتا ہے کھبی چاروں مصرعے ہم قافیہ ہوتےہیں رباعی کا چھوتھا مصرعہ بہت بلند اورزوردار ہوتا ہے اوریہی مصرعہ رباعی کی جان کہلاتاہے قافیہ ،بحراور وزن کی پا بندی رباعی کےلئے بہت ضروری ہے رباعی کے چوبیس اوزان مقرر ہیں رباعی میں مضامین کی کوئی قید نہیں ہے رباعی کے ددسرے نام دوبیتی ، چہار بیتی اورترانہ کے ہیں
رباعی کی ابتدا ایران میں ہوئی اس کا موجد ایرانی شاعررودکیؔ کو سمجھا جاتا ہے اردو میں رباعی فارسی سے آئی اردو کا پہلا شاعرعبدالقادر کو مانا جاتا ہےاردو کے ہر چھوٹے بڑے شاعر نےرباعیاں لکھیں ہیں لیکن میر انیس اوردبیر نے اردورباعی کو بام ِعروج تک پہنچادیا
6۔ یہ کس قسم کےمرکبات ہیں
سامانِ خوشی، حرص وہوس ،حیات ِ فانی
جواب:۔
سامانِ خوشی۔۔۔۔ مرکب اضافی
حرص وہوس ۔۔۔۔مرکب عطفی
حیات ِ فانی ۔۔۔مرکب توصیفی
(28)نوکروں پر سخت گیری کرنے کا انجام ۔۔ مولانا الطاف حسین حالیؔ
ایک آقا تھا ہمیشہ نوکروں پر سخت گیر
درگزر تھی اورنہ ساتھ ان کے رعایت تھی کہیں
سخت گیر:-چھوٹی سی باتوں پر سزا دینے والا ، رعایت: - نرمی ، کمی
قطعہ کے اس شعر میں حالیؔ نے ایک مالک اوراس کے غلا موں کا ذکر کیا ہے فرماتے ہیں کہ ایک امیر شخص تھا جو ہمیشہ اپنے نوکر چاروں پرسختی سے پیش آتا تھا مالک کے مزا ج میں نرمی اور رعایت کسی قسم کی موجودنہ تھی
بے سزا کوئی خطا ہوئی نہ تھی اُن کی معاف
کام سےمہلت کھبی ملتی نہ تھی ان کے تئیں
تئیں: - لیے
حالی ؔفرماتے ہیں کہ مالک نوکروں کی کسی بھی غلطی کومعاف نہیں کرتا تھا بلکہ انھیں سزائیں دیتا تھا اور نوکر ہروقت کوئی نہ کوئی کام کرتے ہی رہتے تھے
حسن ِ خدمت پر اضافہ یا صلہ تو درکنار
ذکر کیا، نکلے جو پھوٹے منہ سے اس کے آفریں
پھوٹے منہ سے:- بد دلی سے ، صلہ :- انعام
حالیؔ ارشاد فرماتےہیں کہ مالک کےغلاموں کو ہر وقت کا م پر کام کرنا پڑتا تھا کھبی فرصت کے دو لمحات میسر نہیں ہوپا تے تھے اور اچھے اچھے کام اور عمدہ محنت پر بھی کوئی انعام یا اجرت میں اضافہ نہیں کیا جاتا تھا مالک دو لفظ بھی محنت کرنے والے نوکر وں کے حق میں نہیں بولتا تھا
پاتے تھے آقا کو وہ ہوتے تھے جب اس سے دوچار
نتھنے پھولے منہہ چڑھا ، ماتھے پہ بل ابرو پہ چیں
دوچارہونا:- سامنا ہونا ، ملاقات ہونا، ماتھا:-چہرا، بل: - ماتھے کی شکن
حالیؔ فرماتے ہیں کہ جب کھبی مالک کے نوکرچاکر اپنے مالک کے سامنے آجاتے تھے اور مالک اُنھیں دیکھ کر ناخوش ہوتا تھا اوراس کے چہرے پر شکن کےنشان پڑجاتے تھے
تھی نہ جُز تنخواہ نو کر کےلئے کوئی فتوح
آگے ہوجاتے تھے خاین جو کہ ہوتے تھےامیں
فتوح :- کامیابی ، بالائی آمدنی ، خاین :-خیانت کرنےوالا ، بددیانت ،امیں :-امانت دار
حالی ؔ اس شعرمیں فرماتےہیں کہ مالک کے نوکروں کے لئے تنخوا ہ کے علاوہ باقی مراعاتیں نہ تھیں البتہ ان نوکروں میں جو کچھ چاپلوسی قسم کےتھے وہیں کچھ خود کومالک کے پاس جھوٹے امانت دار دکھا کرکچھ فائدہ مالک سے حاصل کرپاتے تھے
رہتا تھا اک شرائظ نامہ ہرنوکر کےپاس
فرض جس میں نو کر اور آقا کے ہوتے تھے تعیں
حالی ؔاس قطعہ کے اس شعرمیں مالک اورنوکروں کے مابیں ہونے والے معاہدےکا تذکرہ کرتے ہوئےفرماتےہیں کہ مالک اوراس کے نوکروں کےدرمیاں جو معاہدےہوئے تھے اس پر لکھا ہوا تھا کہ مالک کانوکروں پر کیا حق ہے اور نوکروں کو کیا فرائض انجام دینے ہونگے
گر رعایت کا کھبی ہوتا تھا کوئی خواستگار
زہر کے پیتا تھا گھونٹ آخر بجائے انگبیں
خواستگار :- طلب گار ، امیدوار،انگنیں :- شہد
حالیؔ کہتے ہیں کہ جب کوئی نوکرکام میں کوئی کمی یا تخفیف کا حق مانگتا تھا تو مالک نوکروںپر کوئی نرمی نہیں کرتا تھا جس کی وجہ سے نوکر شہد کھانے کے بدلے زہر کے پیالے گھونٹ گھونٹ کے پیتا تھا
حکم ہوتا تھا شرائط نامہ دکھاؤ ہمیں
تاکہ یہ درخواست دیکھیں واجبی ہے یا نہیں
واجبی: - درست ،ضروری ،ٹھیک
حالیؔ فرماتےہیں کہ جب کوئی نوکر کوئی رعایت کی مانگ کرتا تھا تو مالک حکم دیتا تھا کہ وہ نوکری کاشرائط نامہ دکھاؤ تاکہ یہ دیکھا جائے کہ آپ لوگوں کی فرمائش جائز ہے کہ نہیں ہے
واں سوا تنخواہ کے ، تھا جس کا آقا ذمہ دار
تھیں کُریں جنتی وہ ساری نوکروں کے ذمے تھیں
کُریں :- نقصانات
حالیؔ کہتےہیں کہ جب نوکروں کے ذریعے نوکری نامہ پیش کیا جاتا تھا تو وہاں صاف صاف لکھا ہوا ہوتا تھا کہ تنخواہ کے سوا مالک کی کوئی ذمہ داری نوکروں کے تئیں درج نہ تھی البتہ کام کرتے وقت اگر کسی چیز کا نقصان ہوجاتاتو اس کی بھرپائی نوکروں کو کرنا ہوگی
دیکھ کر کاغذ کو ہوجاتے تھے نوکرلاجواب
تھے مگر وہ سب کےسب آقا کےمار آستین
مارِ آستین: - چھپا ہوا دشمن ،دوست نما دشمن
حالیؔ فرماتےہیں کہ جب نوکر اپنےنوکری نامہ دیکھتے تھے تو دیکھ کر شرمندہ اورلاجواب ہوتے تھےاو ر اندرہی اندر دل میں مالک کے دشمن بن جاتے تھے
ایک دن آقا تھا اک منہ زور گھوڑے پر سوار
تھک گئے جب زور کرتے کرتے دستِ نازنیں
دستِ نازنیں :- کمزور ہاتھ
حالیؔ کہتےہیں کہ ایک دن مالک ایک دن تیز ترار گھوڑے پر سوار ہوا مگر بدقسمتی کی وجہ سے گھوڑابے قابو ہوگیا اور مالک کےدونوں ہاتھ لگام کھینچتے کھینچتے تھک جاتے ہیں
دفعتاََ قابو سےباہر ہوکے بھا گا راہوار
اور گرا اسوار صدر زیں سے بالائے زمیں
اسوار: -سوار، بالائے، زمیں: -زمیں کے اوپر،
حالی ؔ بیان کرتےہیں کہ مالک جس گھوڑے پر سوار ہواتھا وہ اچانک بے قابو ہوجاتا ہے مالک کا پاؤں گھوڑے کے زین سے نکل جاتا ہے جس کی وجہ سے مالک نیچے زمیں پر گر جاتا ہے
کی بہت کوشش نہ چھوٹی پاؤں سےلیکن رکاب
کی نظر سائیس کی جانب کہ ہو آکر معیں
معیں :- مددگار، سائیس :- گھوڑےکی خدمت اوردیکھ بھال کرنے والا
حالیؔ اس شعرمیں فرماتےہیں کہ اس مالک نے بڑی کوشش کی۔ کہ اُس کاپاؤں رکاب سے چھوٹ جائے مگر وہ اپنے پاؤں چھڑانے سےکامیاب نہ ہو سکا آخرگھوڑوں کی دیکھ بھال کرنے والوں سےکہا کہ میر ا پاؤں چھڑانے میں میری مدر کروں
تھا مگر سائیس ایسا سنگ دل اور بےوفا
دیکھتا تھا اور ٹس سےمس نہ ہوتا تھا لعیں
ٹس سے مس :- جنبش نہ کرنا ، لعیں : -لعنتی
حالی ؔکہتے ہیں جب مالک کا پاؤں رکاب پر پھنس جاتا ہے مگر نوکر اپنے مالک کی مدد کرنے کےلئے آگے نہیں آتے ہیں لیکن وہ لعنتی نوکر اپنی آنکھوں سے سب کچھ دیکھتے رہے تھے اور وہ اپنے مالک کی کسی طرح سےمدد نہیں کرتےہیں
دور ہی سے تھا اُسے کاغذ دکھا کہ کہہ رہا
دیکھ لوسرکار اس میں شرط یہ لکھی نہیں
حالیؔ کہتے ہیں نوکر نے مالک کی پکار کی مدر پر کہا دیکھو صاحب اس ہمارے نوکر نامہ کے کاغذ کے شرائط میں آپ کی مدد اس طرح کرنا نہیں لکھا ہوا ہے
2۔ توضیحات
قطعے کے لفظی معنی" ٹکرا " کے ہیں اصطاح شعر میں قطعہ غزل کی ہیت میں کہے گئے ان دو یا دو سے زیادہ اشعار کو کہتےہیں جو معنی کے اعتبار سے باہم مربوط ہوں اکثر شعراء غزل میں دویا اس سے زیادہ معنی کےلحاظ سےاسطرح مربوط کرتے ہیں کہ قطعہ بند کہلاتے ہیں
اس قطعے میں حالیؔ نے ہمیں ماتحتوں اور نوکروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی تلقین کی ہے نوکر بھی ہماری ہی طرح انسان ہوتےہیں اگر ہم ان کے ساتھ ہمدردی سے پیش آئیں گےاوران کا خیال رکھیں گے تو وہ ہماری خدمت سچے دل سے کریں گے ہمارے صحیح معنوں میں وفادار ہوں گے ار اگر ان کی طرف ہمارارویہ غیر ہمدردانہ ہوگا رو ہمارا حشر بھی اس آقا سا ہوگا جس کا قصہ اس قطعہ میں بیان کیا گیا
3۔ سوالات
1۔ یہ کہانی بیان کرنے سے حالیؔ کاکیا مقصد ہے؟
جواب: اس کہانی کو بیان کرنے کا مقصد حالیؔ کا یہ تھا کہ ایک امیر انسان کو اپنے نوکر و چاکروں کے ساتھ ہمیشہ حسن سلوک سےپیش آنا چاہیے اگر کبھی نوکروں سے کوئی غلطی یا چوک ہوجائے تو درگذر کرنا چاہیےنہ کہ سختی کرنی چاہیے کیوں یہ لوگ بھی ہماری ہی طرح انسان ہیں آج یہ اگر ہمارے ماتحت ہے تو کل یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ بھی ہمارے کسی کام کو انجام دے گے جوہماری بس کی بات نہ ہوگی
2۔ ہمیں اپنے ماتحتوں سےکس قسم کابرتاؤ کرناچاہیے؟
جواب-ہمیں اپنے ماتحتوں سے خوش خلقی اور حسن سلوک سے پیش آنا چاہیے نہ کہ زور زبردستی سے، یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ بڑے پتھر کو بھی کھبی چھوٹے پتھر کی ضرورت پڑجاتی ہے
3۔ اس قطعے میں جو کہانی بیان کی گئی ہے اسے اپنے الفاظ میں لکھیں؟
جواب : یہ شاندار وجاندار قطعہ"نوکروں پرسخت گیری کرنے کا انجام" مولانا الطاف حسین کی قلم کی نوک سےجنم پایاہےاس قطعہ میں شاعرایک مالک اوراُس کے نوکر وں کے احوال بیان کرتا ہے کہی ایک مالک رہتا تھا جس کےکئی نوکر چاکر تھے دن ورات محنت کرنا ،نوکروں کےنصیب میں خدا نے ازل میں ہی لکھا تھا مگر ددوسری طرف اُن کی اِس اَن تھک محنت کومالک ہمیشہ نظر انداز کرتا تھا اچھے اورکٹھن کاموں میں انعام تو دور ، دد بول بھی خوشی کے ان کے حق میں نہ بولتا تھاکھبی جب نوکرمالک سے کرم کے واسطےکچھ مراعاتیں مانگتے تھے اُنھیں اُن کا نوکری کا وہ شرائط نامہ مانگا جاتا تھا جس پرصاف صاف اوربڑے بڑےحروف میں یہ لکھا ہوا درج تھا کہ مالک کی محض نوکروں کے واسطے صرف اتنی دمہ داری ہوگی کہ نوکروں کو صرف چندروپئے تنخوا ہ کے طور ادا کی جائےگی باقی اگر کھبی نوکروں کے ذریعے کام کرتے وقت مالک کا کچھ نقصان ہوجاتا تو اس کو سود سمیت بھرپائی نوکرکوکرنی ہوگی اتفاقاََ مالک ایک دن ایک شرارتی گھوڑے پر سوار ہوجاتا ہے جومالک سےبےقابو ہوجاتا ہے اور مالک کا پیر گھوڑے کی زین میں پھنس جاتا ہے جس پرمالک نوکروں کو چلاکرکہتا ہے کہ میرا پیر زین سے باہر نکالو اُس پرنوکرکہتے سرکار اِس کام کا معاہدہ نوکری کےشرائط نامہ کے کاغذپر نہیں لکھا ہواہےغرض جیسا بوئےگے ویسا ہی کاٹو گے
4۔ مندرجہ ذیل اشعار کرنثر میں بدل دیں
کی بہت کوشش نہ چھوٹی پاؤں سےلیکن رکاب
جواب (نثر)مالک نےبڑی کوشش کی ۔ کہ کسی طرح سے اُ س کے پاؤں رکاب سےچھوٹ جائیں
کی نظر سائیس کی جانب کہ وہ ہوتا معیں
جواب:(نثر) مالک نے سائیس کی طرف نظرکی کہ وہ اُ س کی مدد کرے
تھا مگر سائیس ایسا سنگ دل اور بے وفا
جواب(نثر) مگر سائیس بہت بڑا بے وفا اورسنگ دل قسم کا انسان تھا
دیکھتا تھا اور ٹس سے مس نہ ہوتا تھا لعیں
جواب (نثر) وہ لعنتی نوکر مالک کا یہ حال دیکھ کر ٹس سے مس نہیں ہوا تھا
5۔ اُردو شاعری کی ایک صنف "قطعہ " پر نوٹ لکھیے؟
جواب : قطعہ کے لغوی معنی ٹکرےکےہیں لیکن ادبی اصطلاح میں قطعہ اس مسلسل نظم کو کہتےہیں جس میں ایک خیال یا ایک واقعہ دویا دوسےزیادہ اشعار میں اس طرح موزوں کیا گیا ہو کہ ہر شعر کا مطلب دوسرےشعر پرموقوف ہو قطعہ غزل کی ہیئت میں لکھےجاتے ہیں قطعہ کے اشعار کی تعدار کم از کم دو ہوتی ہے اورزیادہ سے زیادہ اشعار کی کوئی حد مقر ر نہیں ہے مطلع نہیں ہوتا البتہ قافیہ اور ردیف کاخیال بہرحال رکھا جاتا ہے قطعہ میں ہر قسم کے مضامیں بیان کئےجاتےہیں البتہ قطعہ کے اشعار مسلسل بیان ہونا لازمی ہےبقول ِ اختر انصاری " یہ ایک سمٹی ہوئی نظم ہے"
قطعہ کو پہلے پہل ایک الگ صنف کی طرح نہیں برتا گیا مگر غالبؔ، اکبرؔ 'اقبال وکئی اوردوسرے شعراء نے اس میں چارچاند لگائے تویہ صنف سنور کر نکھر کر سامنے آگئی اور اردوادب سے شوق رکھنے والوں کی پیاس آج بڑی شدت کےبجھا رہی ہے
6۔ حالیؔ کی حیات کاتذکرہ کیجئے
جواب
حیات: ـ مولانا الطاف حسین حالی اردو کے پہلے باقاعدہ نقاد اور سوانح نگا ر ہیںآپ کی پیدائش سرزمیں پانی پت میں 1837ء میں ہوئی آپ کےوالد صاحب کا اسمی گرامی خواجہ ایزد بخش تھا نو برس کی ہی عمر میں باپ کاسایہ سر سے اُٹھ گیاتعلیم تربیت کی ساری ذمہ داری بڑےبھائی کےکندھوں پرپڑی عربی وفارسی میں اعلیٰ تعلیم آن پڑی۔حفظِ قرآن مجید سےبھی سرفراز ہوئے ۔ 1883ء مین شادی کے بندھن میں بند گے شادی کے چند مہینے کےبعد مزیداپنی تعلیم پیاس بجھانےکےلےدہلی چلے آئے 1855ءمیں پھر پانی پت لوٹ آئے آکربچوں کوپڑھانےکاکام کیا 1857ء غدر کی لڑائی میں جب حالات خراب ہوگے تو آپ نےگوشہ نشینی اختیارکی اور1861ء تقدیر نےپھردہلی کارخ کروایا جہاں قسمت نے آپ کوشیفتہؔ اورمرزاغالبؔ سےملوایا ان دونوں شاعروں کی وفات کے بعد آپ لاہور چلے آئے وہاں گورنمنت بک ڈپو میں ملازم ہوئے سرسید سے ملاقات ہوئی اس کی تحریک سے وابسط ہوئے آخری عمر میں حیدر آباد سے ادبی وظیفہ مقرر ہوا سرکاری ملازمت کو خیرآباد کہہ دیا پانی پت پھر لوٹ آئے ادبی سفر میں دل وجان سے مشغول رہے یہی پر ہی 31دسمبر 1914ء کو آپ اللہ کو پیارےہوگے
سوال: حالیؔ کےادبی خدمات کا جائزہ لیتے ہوئے اُن کا مقام متعین کیجیے؟
جواب :-مولانا الطاف حسین حالیؔ اُردُو کے پہلے باقاعدہ سوانح نگاراورنقاد تسلیم کئے جاتے ہیں آپ اردو کے بڑے شاعر ہی نہیں بلکہ ایک بڑے ادیب بھی تھے جس نے مقصدی شاعری کے فن کو برتا اورعروج تک پہیچایا۔آپکے کلام کا مقصد قوم کی اصلاح تھا اس لئے آپ نے سادہ اورآسان الفاظ کا استعمال کیا آپ کا کلام تاثیر سےبھر پور ہے آپ پہلے شاعر ہیں جنہوں نے ادب کو زندگی اوراس کے مسائل سےموڑاآپ کی نظموں میں سادگی ، روانی، یک رنگی اور تسلسل موجود ہے آپ مطری شاعر ی کے بڑے حامی تھے آپ کی نثر نگاری آپ کی نظم نگاری پر سبقت رکھتی ہےآپ نےغالبؔ کامرثیہ لکھ کر شخصی مرثیہ نگاری کو رواج دیا سرسید تحریک نے آپ کی ادبی زندگی کو ایک نئی جلا عطا کی اردو شاعر ی میں نئے راہیں متعین کیں۔"حیاتِ سعدی " یادگارِغالب" اور"حیات جاوید"لکھ کر آپ نے اردو میں سوانح نگاری کی باقاعدہ بنیاد ڈالی ۔اسی طرح" مقدمہ شعروشاعر ی" لکھ کرارود زبان وادب میں مکمل تنقید نگاری کی داغ بیل ڈالی الغرض حالیؔ اردو کا بہتریں شاعر ہونے کے ساتھ کافی بلند پایہ نثر نگارہیں
درخواست لکھنے کے لئے مندرجہ ذیل قواعد کو ملحوظ رکھنا لازمی ہے
- پہلی سطر میں آفیسر کا عہدہ اور پتہ لکھنا ضروری ہے
- دوسری سطر کے درمیان میں "جنابِ عالی" لکھا جاتا ہے
- تیسری سطر میں دو تین الفاظ کی جگہ چھوڑ کرمودبانہ انداز میں مقصد تحریر کیجئے جیسے کہ "گذارش ہے کہ" مودبانہ التماس ہے کہ " نیائت ادب سے گذارش ہے کہ" گذارش بحضوریہ ہے کہ"
- درخواست مختصر اور سادہ آسان الفاظ میں لکھیےجس آفسرکولکھیے اس کے عہدے کا پورا پورا احترام رکھیں
- درخواست کے خاتمے پرکوئی دعائیہ جملہ یامودبانہ الفاظ ضرور لکھنے چاہیے مثلاََ زیادہ آداب ، شکریہ، شکرگذاررہوں گا، ممنوں ہوں گا/ہوں گی
- درخواست کے آخر پردوسطروں کے برابر جگہ چھوڑ کر درمیاں الفاظ میں "العارض" یا درخواست گذار " لکھیےاور پھر اس کے نیچے اپنا نام اورپتہ ضرور لکھیے
تاریخ لکھنے کے انداز ہیں
بتاریخ: 29ستمبر2020ء
مورخہ: 29ستمبر 2020ٰٰء
اپنے ہیڈماسٹر یا اپنے پرنسپل کے نام اپنی ڈسچارج سرٹیفیکٹ اجراء کرنے کے لئے ایک درخواست لکھیے
بخدمت جناب ہیڈ ماسٹر صاحب گورنمنٹ ہائی اسکول ا،ب،ج
جناب عالی!
گزارش بخدمت یہ ہے کہ میں آپ صاحب کا دھیان اس جانب مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ میرے والد صاحب کاتبادلہ ضلع اننت ناگ سے بارہ مولہ ہوگیا ہے جس کی بنا پر میرے باپ نے یہ فاصلہ کیا ہے کہ وہ ہمیں بھی اپنے ساتھ لے جائے گا
اسلئے جنابِ والا سے التماس کی جاتی ہے کہ میرے حق میں میری اسکول ڈسچارچ سرٹیفیکٹ اجراء کی جائے تاکہ میں اُس دوسرے ضلع میں اپنی تعلیم جاری رکھ سکوں۔اسکول ھذا کی میں نے ساری فیں ادا کی ہے
شکریہ
مورخہ27.02.2020
عرضی نیازمند
ا ب ج
رول نمبر 11
میونسپل کمیٹی کے سربراہ کے نام ایک درخواست قلمنبد کیجئے جس میں یہ شکائت درج ہو کہ آپ کے علاقے میں صفائی کاکوئی معقول انتظار نہیں ہے
بخدمت جناب ایگزیکیٹیوآفیسر اچھہ بل
جنابِ عالی!
گذارش بخدمت یہ ہے میں آپ صاحب کی توجہ اس امر کی طرف دلانا چاہتا ہوں کہ کئی روز سے بارش کا سلسلہ لگاتار جاری ہے جس کی وجہ سے ہمارے وارڈ کی سبھی گلی کوچوں کی سڑکیں پانی سے بھر گئیں ہیں اوربہت ساری جگہوں پر گٹرکے ڈکھن اٹھ گئے ہیں جس کی وجہ سے عوام کافی تکلیفات میں ہیں اور دوسری طرف آپکے صفائی کرمچاری بہت کم یہاں کی صفائی کی طرف دھیان دیتے ہیں اور کھبی کھبار ہی یہاں کا رخ کرتے ہیں
اسلئے جنابِ والا سے التماس کی جاتی ہے کہ ہمارے وارلڈ نمبر ٹو کی صفائی روزانہ کی بنیادوں پر ہونے کے احکامات صادرفرمائیں جائیں۔تاکہ ہمارے دکھوں کا مداوا ہوسکے
ہم امیدِ محکم رکھتے ہیں کہ جناب والااولیں فرصت میں ہماری فریاد پر اپنی توجہ ضرور فرمائیں گے
مورخہ16.08.2020
عرضی نیاز مندان
باشندگان اچھہ بل وارڈنمبر ٹو
بعذریعہ اب ج
اپنے ہیڈ ماسٹر کے نام فیس معاف کرنے کی ایک درخواست لکھیے
جنابِ عالی!
گزارشبحضوریہ ہےمیں آپ کی توجہ اس امر کی اورراغب کروانا چاہتا ہوں میں آپ کے اسکول میں کلاس دسویں جماعت کا ایک طالب علم ہوں میرے والد صاحب کی آمدنی نہ ہونے کے برابر ہے کثیر گھریلوں اخراجات ہونے کی وجہ سے میرا باپ اس سال کی میری سالانہ فیس ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتا ہے اس لئے آپ صاحب سے التجا کی جاتی ہے کہ اس سال کی میری سالانہ فیس انسانی ہمدرری کے ناطے معاف فرمائی جائیں تاکہ میں اپنی مزید تعلیمی سرگمیاں بنا کسی رکاوٹ کے جاری وساری رکھ سکوں
عرضی نیازمند
مورخہ24.08.2020
ا ب ج
جماعت دسویں
رول نمبر 14
خط لکھنے سے پہلے چند اہم بانوں کو یاد رکھنا لازمی ہے
- خط کے شروع میں خط لکھنے والے کا اپنا نام اور پتہ اور تاریخ دائیں جانب مختصراََ لکھیے
- نئی سطر کے پر مخاطب کے القاب اور اسلام علیکم یا آداب تحریر کیجئے
- پھر نئی سطر سے خط کا مضمون شروع کیجئے
- مضمون کے خاتمے پر الوداعی کلمات لکھیے
- آخرپر خط لکھنے والا اپنا نام لکھے
- کوشش کریں کہ خط میں کوئی غیر ضروری بات نہ لکھیی جائے جوکچھ بھی لکھے صاف صاف اورغلطیوں سے پاک اورخوشخط ہو
- خط مکمل لکھنے کے بعد ایک بار اس کوضرور پڑھ لیں تاکہ غلطی کا ازالہ ممکن ہوسکے
دوست کے نام خط( امتحان میں کامیابی پرمبارک باد)سرنل اننت ناگ
مورخہ:29ستمبر2020ء
میرے پیارے دوست!
اسلام علیکم!
امید ہے کہ صاحب کے مزاجِ گرامی ٹھیک ہوگے کل انٹرنیٹ پر آپ کےدسویں جماعت کا ریزلٹ دیکھا نہانت شادمانی ہوئی ممی پاپا بھی بہت زیادہ خوش ہوئےمیری طرف سے دل کی گہرائیوں سے مبارک بادی قبول کرلینا میں بہت جلد آپ کے گھر آپ کومبادک بادی دینے کے لئے پہنچ رہا ہوں میرے ساتھ میرے ممی پاپا بھی ہونگے
میری طرف سے پھر ایک بار بار پاس ہونے پر بہت بہت مبارک باد
29ستمبر2020ء
آپ کا اپنا دوست
ا ب ج
ساکینہ ل
وقت کی پاپندی
اس کائنات میں جس چیز کی سب سے زیادہ اہمیت و افادیت ہے وہ وقت کی پاپندی ہے یوں تو اس دنیا کی ہر چھوٹی بڑی چیز ،زر اور جنس سے خریدی جاسکتی ہے مگر وقت دنیا کی ایک ایسی واحد چیز ہے جس کو نہ تو کسی دنیا کے بازارمیں بھیجا یا خریدا جاسکتا ہے وقت ہی دنیا کی ایک ایسی چیز ہے جس کو دنیا کا کوئی بڑا سے بڑا بادشاہ یا کوئی معمولی غلام خرید نہیں سکتا ہے وقت ہی ایک ایسی واحد شے ہے جو ایک بار گزر جائے تو یہ کبھی واپس لوٹ کر نہیں آتی ہے دنیا میں وہی انسان اور وہی قوم کامیاب وکامران ہوجاتی ہے جو وقت کی حقیقی معنوں میں قدر کرتی ہیں جو طالبہ علم اپنے وقت کاصحیح استعمال کرتے ہیں وہی اپنے زندگی میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیتے ہیں جوانسان وقت کی قدر کرتا ہے وقت بھی اس کی قدر کرتی ہے وہی کسان اچھے پھل پھول پاتا ہے جو صحیح وقتوں میں اپنے فصلوں کی بوائی و کٹائی کرتا ہے
الغرض دنیا کے ہر فرد کو وقت کی قدر کرنی چاہئے تب جا کے یہ دنیا ترقی کی حقیقی راہوں پر گامزن ہوسکتی ہے
اتفاق
انسانی زندگی بُرے واچھے کاموں کا نام ہے یوں توخالقِ کائنات نے ہر چیزمیں اچھائی وبُرائی ازل سے رکھی ہے اور ساتھ ہی ساتھ خداوند کریم نے وقت وقت پراس درتی کی جانب اپنے نبی ،پیغمبر، مرسل ورسول بھیجے ہیں اور اُن کےذریعے عام انسانیت تک یہ پیغام پہیچادیا ہے کہ اے لوگوں تم برائی کے بدے اچھائی کادامن کبھی نہیں چھوڑنا۔اسی سے اس کائنات کی دائمی بقا قائم رہ سکتی ہے
انسانی زندگی میں اتفاق کی اہمیت کو کوئی فرد فراموش نہیں کرسکتا یہ ایک اسی لازوال نعمت ہے کہ جس قوم وملت میں یہ عنصر پیداہوجائے تو اُس قوم وملت کو کوئی ہرانہیں سکتا۔ہیرو شیما و ناگہ ساکی پردوایٹم بموں نے لاکھوں بے گنا ہ انسانوں کی قیمتی جانیں لے لیں یہ بھی قوموں میں نہ اتفاقی کی وجہ سے ہوا یہ مقولہ مشہور ہے کسی باپ کے سات بیٹے تھے نا اتفاقی کی وجہ سےہمیشہ آپس میں لڑتے جھگڑتے تھے باپ نے بہت سمجھا مگر بیٹے سمجھنے کا نام نہیں لیتے تھے ایک روز باپ نےبیٹوں کو ایک گھٹے کی لکڑیا ں الگ الگ توڑنےکو دی تو وہ اُنھیں آرام سے توڑ گئے مگر جوں ہی باپ نے لکڑیوں کا گٹھا سب بیٹوں کو اکھٹا کرکے توڑنے کو دیا وہ سب باری باری اور اکٹھا بھی لکڑی کے گٹھے کو توڑ نہ پائے اس طرح با پ نے اپنے بیٹوں کو ساتھ ساتھ رہنے اور اتفاق سے رہنے کی افادیت کو سمجھایا
اس سے اور اس لئے ہمیں آپس میں اتفاق سے رہنا چاہئے اور آپسی رنجس،نفرت بھید بھاو کو پیار و محبت کے ساتھ سلجھانا چاہے ناکہ لڑائی جھگڑے سے
ہمیں یہ بھی کبھی نہیں بولنا چاہیے کہ اتفاق سے ہی یہ دنیا قائم ودائم ہے
1 تبصرے
بہت ہی فایدہ مند ماشاءاللہ
جواب دیںحذف کریں