(عبرت)منشی پریم چند
سوال نمبر1۔ پنڈت چندر در جی اپنے پیشے سے کیوں بے زار تھے؟
جواب:پنڈت چندرجی اپنے پیشے سے اسی لئے بیزار تھے کیوں کہ اُن کی ماہانہ آمدنی صرف پندرہ روپئے کی تھی مشکل سے دووقت کی روٹی کا انتظام ہو پاتا تھا مگر دوسری طرف اس کی ہمسائیگی میں دو اور سرکاری ملازم ،ٹھاکر اتی سنگھ ہیڈ کانسٹیبل اورمنشی بیج ناتھ سیاہیہ نویس تھے جورشوت لیکر عیش وعشرت کی زندگی گزارتے تھے
۲۔ دروغہ جی کا پنڈت چندر دھر کے ساتھ کیسا برتاوُ تھا؟
جواب:د روغہ جی کا پنڈت چندر دھر کے ساتھ حاکمانہ سابرتاو تھا کیوں کہ دروغہ جی خود غرضی کی بنا پر کھبی کبھا رپنڈت چندر دھرکے یہاں دودھ بھیجا کرتاتھا اور پنڈت جی کوا س کے بدلے داروغہ جی اور ٹھاکر اتی سنگھ کے بچے پڑھانے پڑھتے تھے
۳۔دورانِ سفر داروغہ جی کے ساتھ پیش آیا واقعہ اپنے الفاظ میں لکھیے؟
جواب داروغہ جی ریل کے جس ڈبہ میں اجودھیا کے لیے چڑھ جاتا ہے وہاں پہلے سے ہی دو آدمی لیٹ چکے ہوئے ہوتے ہیں اور داروغہ جی نے ان سے کچھ جگہ چھوڑنے کو کہتا ہے مگر اس پر وہ دونوں مسافر بھڑک جاتے ہیں ان میں ایک کہتا ہے کہ آپ تو وہی داروغہ ہوجس نے مجھے بلیک مارکیٹنگ کے الزام میں پھنسا کر مجھ سے پچیس روپے رشوت لئے تھے جبکہ دوسرے مسافر نے کہا کہ آپ نے مجھے میلے میں دوسرے پولیس والوں کے ہمراہ زبردست مارپیٹ کروائی۔اسی اثنا میں ٹرین گاڑی جوں ہی تیسرے ا سٹیشن پر پہنچ جاتی ہے وہاں یہ دونوں داروغہ کا سامان باہر پھنکنے کے بعد اس کو بھی دھکا دیکر باہر پھینک دیتے ہیں
۴۔کر پا شنکر نے پنڈت جی، داروغہ جی اور منشی جی کے ساتھ کیسا سلوک کیا؟
جواب:اجودھیا پہنچ کر جب ان تینوں کو ٹھہر نے کے لئے کوئی جگہ نہ ملی تو کرپا شنکر نے اپنے اُستاد کو ندی کے کنارے پر پہنچان لیا اور ان تینوں کو اپنے گھر لے آیا اور ان کی خوب خاطرداری و مہمان نوازی کی
۵۔پنڈت چندر دھر کو اپنے پیشے کی عظمت کا احساس کس طرح ہوا؟
جواب:ریل گاڑی میں ٹھاکر اتی سنگھ اور اسپتال میں منشی بیچ ناتھ کے ساتھ جو واقعات پیش آئے اور اجودھیا میں کرپا شنکر نے جو احترام وعزت اور مہمان نوازی کا ثبوت پیش کیا اس سے پنڈت چندر دھر کو اپنے پیشے کی عظمت و قار کا احساس دل سے ہوجاتا ہے
۶۔اس افسانے کا نام عبرت کیوں رکھا گیا ہے؟
جواب: ایک معلم یا استاد کا پیشہ ہمیشہ سے پیغمبروں،ریشی منیوں اور اچھے بھلے لوگوں کا رہا ہے اس لئے ہمیں اس پیشے سے کھبی بھی بیزار نہیں ہونا چاہیے رشوت خوری سے ایک انسان کو بے عزت جبکہ حق وانصاف سے کام کرنے سے وقار ملتاہے موجودہ افسانہ اس بات کو اُجاگر کرتا ہے اس مناسبت سے اس افسانہ کا نام ”عبرت“ موضوع ومناسب عنوان ہے
۴۔ درجہ ذیل اقتباس پڑھکر سوالات کے جوابات لکھیے؟
دروغہ جی نے منشاین سے روپے مانگے تب اُسے بکس کی یاد آئی۔چھاتی پیٹ لی، روپے اُسی میں رکھے تھے۔دروغہ جی واجبی خرچ لے کر چلے تھے کسی طرح دس روپے نکال کر چوکھے لال کی نذر کیے انھوں نے دوادی۔دن بھر کچھ افاقہ نہ ہوا۔مگر رات کو کچھ طبیعت سنھبلی۔دوسرے دن پھر دوا کی ضرورت ہوئی۔داروغہ نے بہت منت کی۔لیکن چوکھے لال نے ایک نہ سنی۔آخر منشائن کا ایک زیور جو چوبیس روپے سے کم کا نہ تھا بازار میں بیچا گیا تب چوکھے لال نے دوادی۔شام تک منشی جی چنگے ہوگئے
۱۔منشائن کیوں چھاتی پیٹنے لگی؟
جواب:جب داروغہ جی نے منشائن سے ڈاکٹر صاحب کی فیس ادا کر نے کے لیے روپئے مانگے تب منشائن کو وہ بکس یاد آیا جو ریل گاڑی سے اُتر تے وقت ریل گاڑی میں ہی رہ گیا تھااسی وجہ سے وہ چھاتی پیٹنے لگی
۲۔منشائن کا زیور کیوں بیچا گیا؟
جواب:منشائن نے اپنے شوہر منشی بیج ناتھ کی دوا خریدنے کے لئے اپنا زیور بیچ دیا۔
۵۔اوپری دی ہوئی عبارت میں یہ الفاظ مذکر استعمال ہوئے ہیں مونث یاد،نذر،دوا، منت
جواب: یہ چاروں الفاظ مذکر استعمال ہوئے ہیں
۶۔اقتباس میں موجود درجِ ذیل محاوروں کے معنی لکھیے:
محاوروں کے معنی: نذر کرنا=پیش کرنا،حوالہ کرناایک نہ سننا=بات نہ ماننا چھاتی پیٹنا=دکھ اور ماتم کا اظہار کرنا افاقہ ہونا=مرض کم ہونا
یہ اقتباس منشی پریم چند کے ایک افسانہ ”عبرت“ سے نکالا گیا ہے مصنف رقمطراز ہیں کہ جب منشی جی کو شفاخانہ پہنچایا گیا اور داروغہ جی نے جب منشی جی کی بیوی سے کمپونڈر کی فیس ادا کرنے کے لئے پیسے مانگے جس پر منشاین کو وہ بکسا یادآیا جس میں پیسے رکھے ہوئے تھے اور وہ ریل گاڑی میں چھوٹ گیا تھا منشائن رونے دھونے لگی داروغہ جی کو مجبورا اپنے ہی جیب سے دس روپئے دینے پڑے جس پر چوکھے لال نے دوا دے کر کہا دن بھر کھانے سے پرہیز کرنا رات کو منشی جی کو آرام ہوا دوسرے دن دوا کی پھر ضرورت ہوئی داروغہ جی نے چوکھے لال سے بہت ہاتھ جوڑ ے۔ دوا میں کچھ تخفیف کی جائے مگر چوکھے لال نے ان کی ایک بات بھی نہ مانی۔آ خر منشائن کو اپنا زیور بیچ کر منشی جی کے لئے دوا لانا پڑااور اس سے منشی جی شام تک بالکل ٹھیک ہوگئے
۸۔عبرت افسانہ پڑھنے کے دوران آپ کو کس مو قعہ پر
۱۔دُکھ محسوس ہوا؟
۲۔ہمدردی پیدا ہوگی؟
۳۔ ہنسی آگئی؟
دُکھ محسوس ہوا:افسانہ کے شروع میں جب پنڈت چندر دھر معلم کے پیشے سے بیزار ی کا اظہار کرتا ہے تو اُس کو پڑھنے سے بڑا دُکھ محسوس ہوتا ہے
۲۔ہمدردی پیدا ہوگی:جب منشائن اپنے شوہر کے لئے دوا لانا چاہتی ہے مگر اس کے پاس اتنے پیسے نہیں ہوتے ہیں جس سے وہ دوا خرید سکے اور مجبور اََ پھراُسے اپنا ایک زیور بیچنا پڑتا ہے اس موقعے پر ہمدردی پیدا ہوجاتی ہے
۳۔ہنسی آگئی:جب داروغہ جی ٹرین میں لیٹے ہوئے ایک مسافر سے کہتاہے ہمیں بھی بیٹھنے کی کچھ جگہ دے دو اس پر ایک مسافر کہتا ہے کیوں اٹھ بیٹھیں جی۔کچھ تمہارے بیٹھنے کا ٹھیکا لیاہے اس کو پڑھنے سے ہنسی آجاتی ہے
۹۔آپ کو کون سا کردار زیادہ پسند آیا اور کیوں؟
(۱) داروغہ یا منشی جی
(۲) داروغہ یا پنڈت جی
(۱) داروغہ یا منشی جی:افسانہ پڑھنے کے بعدداروغہ اور منشی جی ایسے دونوں کردار محسوس ہوتے ہیں کہ جن کو کوئی بھی قاری پسند نہیں کرے گاکیوں کہ یہ دونوں اپنے پیشے سے دغا کرتے ہیں اور لوگوں سے رشوت لیتے ہیں اس لئے میں ان دونوں کو نا پسند کرتا ہوں
۲۔داروغہ یا پنڈت جی:میں داروغہ جی کے مقابلے میں پنڈ ت جی کو ہی پسند کرتا ہوں کیوں کہ افسانہ میں وہ ایسا کردار نظر آتا ہے جو ہر وقت اپنے پیشے سے ہمیشہ سے انصاف کر تا ہوا دکھتا ہے اور جس کا پھل اُسے اجودھیا میں اپنے شاگرد کے ذریعے ملتا ہے
10۔ ان کرداروں کے بارے میں پانچ پانچ جملے لکھیے؟ کرپا شنکر ۔چوکھے لال۔ پنڈت جی
کرپا شنکر!(i)کرپا شنکر آٹھ نو سال کی عمر میں بلہور اپنے باپ کے ساتھ آ یا ہوا تھا
(۲) پنڈت جی کی شاگردی حاصل کی ہوئی تھی
(۳)اجودھیا میں میونسپلٹی میں نوکری کرتا تھا
(۴) پنڈت جی کو ندی کے کنارے پہنچانتا ہے
(۵)گھر بلا کر اُس کی اور اُس کے دوستوں کی زبر دست مہمان نوازی کرتا ہے
چوکھے لال:(۱)چوکھے لال بھی بلہور کا رہنے والا ہوتا ہے
(۲)اجودھیا میں ایک سرکاری اسپتال میں ایک کمپونڈر کی نوکری کرتا ہے
(۳)بلہور میں اس کی زمینیں ہوتی ہیں
(۴)منشی جی کا اسے لگان لیتے وقت رشوت کی فرمائش کرنا اُسے یادآتا ہے
(۵)داروغہ جی سے دس روپئے کی فیس وصول کر تا ہے
پنڈت جی:(۱)پنڈت جی پیشے سے ایک اُستاد ہوتا ہے
(۲)پہلے اپنے پیشے سے خفا نظرآتے ہیں
(۳)اجودھیا جاتے وقت اُس کا رویہ مثبت رہتا ہے
(۴) بچوں کو ہمیشہ دل وجان سے پڑھاتے نظرآتے ہیں
(۵)افسانہ کے خاتمے پر اُسے اپنے پیشے پر ناز ہوتا ہے
۱۱۔ ”عبرت“ افسانے کا خلاصہ تحریر کریں
افسانہ ”عبرت“منشی پریم چندر جی کا لکھا ہوا ایک بہترین افسانہ ہے اس افسانے میں پریم چندر نے معلم کے پیشے کو اُجاگر کیا ہے اس افسانہ میں تین بڑے کردار نظر آ تے ہیں جن میں پہلا مرکزی کردار، پنڈت چندر دھرمعلم، دوسراٹھاکر اتی سنگھ ہیڈکانسٹیبل(داروغہ)تیسرا منشی بیج ناتھ سیاہیہ نویس کا ہوتا ہے اس کے علاوہ چوکھے لال،کرپا سنگھ اور دو انجان مسافروں کے کردار نظر آتے ہیں پنڈت جی شروع میں اپنے پیشے سے بیزار نظر آتے ہیں جبکہ اس کے یہ دو پڑوسی داروغہ جی اور منشی جی رشوت لے کر خوب عیش وعشرت کرتے ہیں ایک دن یہ تینوں اجودھیا جانے کا من بنالیتے ہیں دورانِ سفر داروغہ جی ریل کے ایک ڈبہ میں گھس جاتے ہیں جہاں پر دو مسافر اِن کے ساتھ زبردست بدتمیزی سے پیش آتے ہیں جب داروغہ جی انہیں کچھ جگہ دینے کو کہتا ہے جس پر ایک کہتا ہے یہ تھانہ نہیں ہے تم نے مجھ سے ایک روز پچیس روپئے رشوت لیے تھے دوسرا کہتا ہے تم نے مجھے میلے میں زبردست مارا تھا۔ادھر منشی ریل میں بہت شراب پی کر بیمار ہوتا ہے دوسرے سٹیشن پر اُسے مجبورا علاج معالجہ کے لے اُتارنا پڑا۔چوکھے لال دس روپئے لیکرعلاج کرتا ہے یہاں تک منشائن کو اپنا ایک زیور بھی بیجنا پڑا
گرامر:
وہ لفظ جس سے کسی کی بُرائی،بھلائی،خاصیت یا کیفیت ظاہر ہوجائے صفت کہلاتا ہے اور جس اسم کی بُرائی،بھلائی وغیرہ بیان کی جائے موصوف کہلاتا ہے مثلاََ۔خوبصورت پھول،اچھا آدمی،محنتی لڑکا۔ان تینوں، خوبصورت،اچھا،محنتی صفت ہیں جبکہ پھول،آدمی اور لڑکا موصوف ہیں
مرکب توصیفی :وہ مرکب جو صفت اور موصوف سے مل کر بنے مرکب توصیفی کہلاتا ہے فارسی اور عربی میں موصوف پہلے اور صفت بعد میں آ تی ہے جبکہ اردو میں صفت پہلے اور موصوف بعد میں آتا ہے
۲۱۔مثال دیکھ کر مرکب توصیفی بنائیے:
چالاکؔؔ + کوا=چالاک کوا
سفید + گھوڑا=سفیدگھوڑا
سُرخ + اونٹ=سرخ اونٹ
اونچا + درخت=اونچا دخت
ٹھنڈا +پانی= ٹھنڈا پانی
کورا +کا غذ=کورا کاغذ
سوال : افسانہ کیا ہے؟
جواب: لفظ افسانہ ’فسوں‘ نے نکلا ہوا لفظ ہے جس کے معنی من گھڑت بات کے ہیں افسانہ بھی ناول کی طرح مغربی ادب کی دین ہے اردو میں شارٹ سٹوری((SHORT STORYکوافسانہ کہا گیا ہے افسانے سے مراد اُس نثری کہانی سے ہے جس میں کوئی واقعہ یا بہت چھوٹے واقعات منظم طریقے سے بیان کئے گئے ہوں کہ جن کی ابتدا ہو،ارتقاء ہو،خاتمہ ہو اور زندگی کی بصیرت میں اضافہ کریں
ؓؓHG WELLمختصر افسانہ کے بارے میں یوں لکھتے ہیں ”قصے کی ایسی طوالت ہو۔جسے آدھہ گھنٹہ میں پڑھا جاسکے“
عالمی ادب کا پہلا افسانہ امریکہ کے ایک مصنف واشنگٹن ارون نے انیسویں صدی کے بالکل آغازمیں ”ا سکیچ بک“ لکھ کر اس کو بنیا د ڈالی اردو کا پہلا افسانہ ”دنیا کا سب سے انمول رتن“ پریم چند ر نے لکھایہ افسانہ”رسالہ زمانہ“کانپور میں شائع ہوااردو کے دوسرے مشہور افسانہ نگاروں میں سجاد حیدر،سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی، کرشن چندر وغیرہ قابلِ ذکر ہیں اردو کے مشہور ترین افسانوں میں کفن،سوتیلی ماں،بڑے گھر کی بیٹی،ٹھنڈا گوشت،دو ہاتھ وغیرہ قابل ذ کر ہیں
سوال:منشی پریم چندر کی حالات زندگی اور ادبی خدمات پر روشنی ڈالیئے؟
جواب:حالات زندگی:پریم چند کا اصلی نام دھنپت رائے تھا آپ کو پیدائش 1880 ء میں بنارس کے ایک گاؤں میں ہوئی آ پ کے باپ کا نام منشی عجائب لال تھاجو کہ حکمہ ڈاکخانے میں ایک ملازم تھے پانچ سال کی عمر میں ایک مولوی صاحب سے اردو اور فارسی پڑھنا شروع کیاآٹھ سال کی عمر میں ماں کا انتقال ہوگیاچودہ سال کی عمر میں گورکھپور میں ایک مشن اسکول میں داخلہ لیامیٹرک کا امتحان امتیازی نمبرات سے پاس کیااساتذہ کا پیشہ اختیا ر کیاملازمت کے دوران بی اے تک پڑھائی حاصل کی1905ء میں کانپور میں تبادلہ ہوگیایہاں چار سال گذارنے کے بعدضلع ہمیر پور میں ڈپٹی انسپکٹرکے عہدے پر کام کیا1921ءمیں سرکاری نوکری سے استعفی دے دیامسلسل صحت خراب رہنے کی وجہ سے آ ُ پ کاانتقال 1936ٰءمیں ہوگیا
ادبی خدمات:پریم چندر کا شمار اردو میں بحیثیت ناول و افسانہ نگار کے طور ہوتا ہے آ ُ پ اردو کے پہلے افسانہ نگار ہیں آ پ نے اردو کا پہلا افسانہ ”دنیا کا سب سے انمول رتن“لکھاآ ُ ُپ نے اپنے افسانوں وناولوں میں دیہاتی زندگی کو شدت سے اجاگر کیا ہے آ ُپ کی تحریر سادہ اور پر اثر ہے”اسرار معابد“ آپ کا پہلا ناول ہے لیکن ”گؤدان آ پ کا شاہکار ناول تصور کیا جاتا ہے کفن آپ کا مشہور ترین اٖفسانہ ہے آ ُپ کے افسانوی مجموعوں میں پریم بتیسی،پریم چالیسی،زادرہ، دودھ کی قیمت اور واردات وغیرہ کافی مشہور ہیں
1 تبصرے
بہت ہی عمدہ نوٹس ہیں۔۔۔
جواب دیںحذف کریں