میرتقی میرکی غزل نمبر1
ہمارے آگے تراجب کسو نے نام لیا
دلِ ستم زدہ کو ہم نے تھام تھام لیا
کسوۤ۔۔ـ کسی، ترا۔۔ـ تیرا ، دل ستم زدہ ۔۔ ـوہ دل جس پر ظلم ڈھایا گیا ہو 'تھام لیا۔۔ پکڑ لیا
یہ شعرمیرتقی میرؔ کی ایک غزل سے نکالا گیا ہے اور یہ غزل ہماری درسی کتاب "بہارستانِ اردو" 'اُردوکی دسویں کتاب' کے حصے نظم میں شامل ہے اس مطلع والے شعر میں میرؔ اپنے محبوب سے مخاطب ہوکر ارشاد فرماتے ہیں کہ اے میرے محبوب جب کسی انجان بندے نے تیرا نام میرے سامنےلیا۔میر ا دل تڑپنے لگا ،بے قرار ہونے لگا اور میں نےہمت کرکے اپنے بےچین وبےقرار دل کو اپنےدوہاتھوں کے سہارے تھام لیا
وہ کج روش نہ ملا راستی میں مجھ سے کبھو
نہ سیدھی طرح سے اُن نےمیرا اسلام لیا
کج روش :ـ ٹیرھی راہ چلنے والا،راستی: ایمانداری۔۔صداقت۔۔سچائی۔۔درست۔۔روش ورفتاریاچال چلن کے لحاظ سے درست، کبھو:کبھی
یہ شعر میرؔ کی ایک غزل سےماخوذ ہےاس شعر میں میرؔ اپنے محبوب کی بے رخی کا اظہار کرتے فرماتے ہیں کہ جب بھی میں کھبی اپنے محبوب سےملا۔انھوں نے ظلم وستم کی انتہا یہاں تک کی ۔کہ کبھی بھی میری سلام کا مکمل وبھرپورجواب نہ دیا یعنی وعلیکم السلام بھی نہ کیا
میرے سلیقے سے میری نبھی محبت میں
تمام عمرمیں ناکامیوں سے کام لیا
سلیقے: تمیز۔۔۔ ہنر۔۔۔صلاحیت۔۔انداز۔۔خوش اسلوبی۔۔شعور۔۔ذوق، نبھی :کامیابی
یہ شعر میر تقی میرؔ کی ایک غزل سے نکالا گیا ہے اس شعر میں شاعر اپنے آپ کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں کہ مجھے محبت کے سیوا کسی بھی کام میں کامیابی نہیں ملی ۔کیوں کہ میں محبت واُلفت کے طورطریقوں سےخوب آشنا ہوں باقی دوسرے دنیاکے کاموں میں مجھے مایوسی ہی ہاتھ لگی ہے
اگرچہ گوشئہ گزیں ہوں میں شاعروں میں میرؔ
پہ میرے وشعر نے روئے زمیں تمام لیا
گوشئہ گزیں:تنہائی میں بیٹھنے والا،خلوت نشین،سب سے الگ رہنےوالا،تارک الدنیا روئے زمین:-زمین کی سطح
یہ شعرمیرتقی میرؔ کی ایک غزل کاآخری شعر ہےاس مقطع والےشعر میں میرؔفرماتے ہیں کہ اگرچہ مجھے دنیا ،ودنیا بھر کی شاعری و شاعروں میں زیادہ اونچا مقام اب تک نہیں ملا پھر بھی میرے اشعار پوری دنیا میں کافی مقبولیت حاصل کرچکے ہیں اور اِن اشعار کی بدولت سے میری شہرت بھی آگے بڑھ رہی ہے
غزل (2)
ہنگامہ گرم کُن جو دل ناصبور تھا
پیدا ہر ایک نالے سے شورِ نشور تھ
ہنگامہگرم کن ـ فتنہ وفساد کوبڑھانے والا۔۔پرہجوم۔۔چہل پہل والا۔۔پررونق۔۔ہنگانہ کرنے والا۔۔بہت شور۔غُل مچانے والا۔۔ہنگامہ خیز، ناصبور:ـ بے صبر،نالہ:-فریاد۔۔نوحہ۔۔گریہ۔۔آہ وبکا۔۔عاشق کی دُعا۔۔عاشق کی وہ مناجات جومعشوق کی طرف ہو،
شورِ نشور:ـ قیامت کاشور
یہ شعرمیرتقی میرؔ کی ایک غزل کا مطلع والا شعر ہے اس شعرمیں میرؔاپنے محبوب کے ظلم وستم کا بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میرا دل محبوب کے ظلموں کی وجہ سے اب بے صبر ہوگیا ہے اور میرے دل سے ہراٹھتا ہوا آہ فریاد سے اب ایک قسم کی قیامت برپا ہوتی ہے
پہنچا جو آپ کو تو میں پہنچا جدا تئیں
معلوم اب ہو ا کہ بہت میں دور تھا پہلے
تئیں:-تک،تلک،
تشریح:
یہ شعرمیرؔ کی ایک غزل سے نکالا گیا ہے اس شعر میں شاعر اپنے آپ کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں کہ جب میں نے اپنے پیر ومرشد کا ہاتھ تھا ما اور اس کی بیعت اختیا ر کی۔تواُ س نے مجھے خدا کے بارے میں پوری واقفیت و آگاہی عطاکی۔ اور جس سے میں اپنے حقیقی معبودِ برحق کو پہنچان گیا ورنہ میں اپنے پیر ومرشدکا ہاتھ تھامنے سے پہلے خداکی ربوبیت سے بالکل نہ واقف تھا
آتش بلند دل کی نہ تھی ورنہ اے کلیم
یک شعلہ برقِ خرمن صد کوہِ طورتھا
آتش:آگ، یک:ایک، برق:۔بجلی،خرمن: ـوہ روشنی جو آفتاب کے اردگرد دکھائی دیتی ہے۔۔غلے کا ڈھیر۔۔ جس سے بُھس الگ نہ کیا گیا ہو۔۔۔ذخیرہ،انبار۔۔آگ کی لپیٹ،آنچ، صد: سو، کلیم: حضرت موسٰی علیہ السلام کا لقب یعنی آ پ علیہ السلام رُب العالمین سے کلام کرتے تھے اسی بنا پر آ پ علیہ السلام کو کلیم کہا جاتا ہے،کلام کرنے والا،ہم سخن، بات کرنے والا
تشریح:
یہ شعر میرؔ کی ایک غزل سے موخوذ ہے اس طلمیح والے شعر میں شاعرفرماتے ہیں کہ جب موسٰی علیہ السلام نے اللہ سے اپنا دیدار طلب کرنے کی دعاکی اس پراللہ تعالٰی نے موسی علیہ السلام سے کہاکہ آپ علیہ السلام مجھے ہرگز دیکھ نہیں سکتے ہیں جوں ہی اللہ نے کوہ طور پر اپنی نور کی ایک تجلی ڈالی ۔حضرتِ موسی علیہ السلام اس کو دیکھ کر بے ہوش ہوگے دراصل حضرت موسی علیہ السلام کے دل میں محبوب کو دیکھنے کی انتہا عشق کی حد تک نہ تھی اگرایسا ہوتا تو عشق کی بدولت ہزار ہا ہزار کوہ ِطور جل کے راکھ ہوجاتے مگر افسوس ایسا نہ تھا
کل پاؤں ایک کاسئہ سر پہ جو آگیا
یکسر وہ استخواں شکستوں سے چور تھا
کاسئہ سر ــ کھونپڑی ، استخواںــ:- ہڈی
تشریح:
یہ شعر میر تقی میرؔ کی ایک غزل سے لیا گیا ہے اس شعر میں شاعر فرماتے ہیں کہ جب میں کل ایک راہ سے گزر رہا تھا تو میرا پاؤں اچانک ایک مرے ہوئے انسان کی کھونپڑ ی پر پڑ ا۔اور وہ کھونپڑ ی میرے پاؤں کے نیچے آنے سے چکنا چور ہوگئی
کہنے لگا کہ دیکھ کے چل راہ بے خبر
میں بھی کبھو کسی ک سرِ پُرغرور تھا
کبھو:ـکبھی
تشریح:
یہ شعر میر تقی میرؔ کی ایک غزل سے نکالا گیا ہے اس شعر میں میرؔ فرماتے ہیں کہ جب میر ا پاؤں ایک مرئے ہوئے انسان کی کھونپڑی پر پڑ گیا تو کھوپڑ ی نے مجھ سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ اے بے خبر انسان ذرا سنبھل کرچل اور پاؤں رکھ میں تمہارے پاؤں کےنیچے آنے سے چکنا چور ہوگئی ہوں یاد رکھ میں بھی تمہار ی طرح ایک زمانہ میں کھی کسی مٖغرور انسان کے جسم کا تا ج تھی
تھاوہ رشکِ حورِ بہشتی ہمیں میں میرؔ
سمجھنے نہ ہم تو فہم کا اپنی قصور تھا
حورِ بہشتی: جنت کی حور، فہم :عقل سمجھ ، قصور: خطا
تشریح:
یہ میرؔ کی ایک غزل کا آخری مطلع والا شعر ہے اس شعر میں شاعر فرماتے ہیں کہ جب میرا محبوب میرے سامنے تھا تو میں نے اُس کی قدوقیمت نہ کی میرا محبوب جنت کی حوروں سےبڑھ کرخوبصورت ہے مگر یہ میری نادانی تھی میں اُس حسین وجمیل محبوب کے ہوتے ہوئے جنت کی حوروں کا طلب گار بن بیٹھا
سوالات:
٭شاعر نے دل ستم زدہ کو کیوں تھا م لیا ؟
جواب: کیوں کہ جب کسی نے شاعر کے سامنےاُس کے پیارے محبوب کانام لیا جس کی وجہ سے شاعر کا دل تڑپنے لگا اور اُس نے تب اپنے بے چین و بے قرار ہوئے دل کو اپنے دونوں ہاتھوں کے سہارے تھا م لیا یعنی صبر و استقلال کا مظاہرہ کیا
٭دونوں غزلوں میں سے ایسا شعر تلاش کیجئے جس میں شاعرانہ تعلی موجود ہو؟
جواب:
اگرچہ گوشئہ گزیں ہوں میں شاعروں میں میرؔ
پہ میرے وشعر نے روئے زمیں تمام لیا
٭کھونپڑی نے کون سی پتے کی بات بتائی؟
جواب:
کھونپڑی نے یہ پتے کی بات بتائی ۔کہ وہ بھی کبھی کسی زمانے میں ،کسی غروری، گھمنڈی انسان کی جاہ وجلال،عزت اور زندگی تھی مگر اب زمیں کے اندر سڑ رہی ہے
دوسری غزل کےتیسرے شعر میں حضرت موسیٰ سے متعلق تلمیح کو بیان کیجیے
جواب :تلمیح وہ ہے جس میں شاعر کسی ماضی کےکسی واقعےکواپنے شعر میں بیان کرے۔ اس شعر میں جس تلمیح کا ذکر کیا گیا ہے وہ اس طرح سے ہےکہ جب حضرتِ موسیٰ کوہ ِ طور پر اللہ تعالیٰ سے کلام کرنے کی غرض سے گیا اور ہاتھ اٹھاکے دل سے دعا کی ۔کہ اے میرے رب میں نے جب چاہا آپ سےکلام کیا مگر اے میرے رب آج یہ تیرا بندہ ورسول دعا کرتا ہے مجھے اپنے دیدار سے سرفراز فرما۔جوں ہی رُب العالمین نے حضرت موسیٰ کی دعا کو قبول کیا اور کوہِ پر اپنی نور کی ایک تجلی ڈالی حضرتِ موسیٰ علیہ السلام نورِ تجلی کودیکھ کر بے ہوش ہوگئے
سوال میر تقی میرؔکی زندگی اورشاعری کے بارے میں ایک مختصر نوٹ لکھیے
میر تقی میر ؔ
جواب : شہنشاہ غزل میر تقی میرؔ کی پیدائش آگر ہ میں 1722ء میں ہوئی۔ آ پ کا اصلی نام محمد تقی اور تخلص میرؔ تھا آپ کے والدِ محتر م کامیرعلی متقی تھاابتدائی تعلیم اپنے والد سے ہی حاصل کی ابھی گیارہ سال کےہی تھے والد صاحب اللہ کو پیارے ہوگئے میر کا ایک بڑا سوتیلا بھائی تھا جنھوں نے میر پر بڑے ظلم ڈھائے میر مجبوراََ آگرہ چھوڑکردہلی اپنےماموں کے پاس رہنے کو چلے آئے یہاں دہلی میں خانہ جنگی کی وجہ سے حالات ابتر ہوگئے میر نے دہلی کو بھی خیر باد کہہ کر لکھنو میں چلے آئے یہی پراپنی باقی تمام تر زندگی کے دن گذاردیئے بالآ خر اس فانی دنیا کو لکھنو میں1810ء میں خیر باد کہہ کر چلے گئے
ادبی خدمات:
میرتقی میرؔ کو شاعر غم کہا جاتا ہے میر کی زندگی جس ظلم ستم و کرب میں گزری اس کا اثر ان کے کلام پربھی پڑا ،میر نے یوں تو ہر صنف میں طبع آزمائی کی مگر غزل کو انھوں نے اپنی فکر سے ترقی کی بلندیوں تک پہنچایا میر کا کلیات چھ دواین پر مشتمل ہے غزلوں کے علاوہ کئی مثنویاں اور مرثیے بھی تحریر کئے ہیں اردو شعرا ء کا پہلا تذکرہ "نکات الشعراء" اور خود نوشت "ذکر میر" بھی ان کی یادگار ہیں
0 تبصرے