سوال: مرزا محمد رفیع سوداؔ کی حیات اور شاعر ی پرنوٹ لکھیے؟
جواب : حالاتِ زندگی :
مرزامحمد رفیع سوداؔ کا اصلی نام مرزا محمد رفیع تھا اورسودا ؔتخلص تھاآپ کے والد صاحب افغانستان کابل سے بغرض تجارت ہندوستان آئے تھے اوردہلی میں مستقل قیام فرماگئےتھےاوریہی پرمرزامحمد سوداؔ کی پیدائش1713ء میں ہوئی زمانے کے دستور کے مطابق عربی اور فارسی میں تعلیم حاصل کی لیکن دہلی پر جب نادر شاہ اور مرہٹوں نے اپنے حملے تیز کئے تو سودا فرخ آباد چلے آئے جہاں پر آپ نے زندگی کےقیمتی سترہ سال گذارے۔پھرلکھنوکارخ کیا شجاع الدولہ کےدربارسےوابسطہ ہوگےجہان پرآپ کی وفات 70 سال کی عمر میں1781 ء میں ہوئی
شاعری:۔
سودا کوشاعری کا ذوق بچپن میں ہی اُجاگر ہوا تھاخان آرزو کےشاگرد ہوئےاور بہت جلد ایک با کمال شاعربن گئے سودا نے یوں تو ہر اصناف سخن میں طبع آزمائی کی لیکن مزاجاِقیصدے کا ہی فن راس آیا آپ شمالی ہند کے پہلے قصیدہ گو شاعر ہیں مصحفی نےآپ کو "تذکرہ ہند" میں نقاش اول کہا ہے اورآپ کی قصیدوں پر قصیدہ لکھنا باعث فخرسمجھے تھے آپ کے قصائد شوکتِ الفاظ،تازگی،مضامین ،بلندخیالی،بندش کی چستی اورجدت ِتراکیب کی وجہ سے فصاحت کے اعلیٰ نمونے ہیں
سوال :قصیدہ کیا ہے؟
جواب :قصیدہ عربی سے فارسی کے ذریعے اردو میں وارد ہوا لفظ قصیدہ عربی لفظ قصدسے نکلا ہے جس کے معنی گاڑے گودے کے ہیں قصیدے میں مضامیں بلند اور پرُشکوہ ہوتےہیں اس لئے تمام شعر ی اصناف میں اسے وہ بلند مقام حاصل ہےجو مغز سر کو انسانی جسم میں حاصل ہےعام راے یہ ہےکہ اسی بنیا د پر اس صنف کا نام قصیدہ پڑگیا مگر دوسری راے یہ بھی ہے چونکہ لفظ قصیدہ قصد سے نکال ہے جس کے معنی ارادہ کے ہیں اس صنف میں شاعر قصد کرتا ہے کہ اسے کسی کی تعریف یا ہجو کرنا ہے اسی لئے اس صنف کو قصیدہ کا نام پڑ گیااصطلاحی معنی میں قصیدہ اس صنف کو کہا جاتا ہے جس میں کسی کی مدح یا ہجو بیان کی جائےجہاں تک موضوع کا تعلق ہے قصیدے میں بنیادی طور پر مدح یا ہجو ،واعظ و نصیحت، یا مختلف کیفیات و حالات کا بیان ہوتا ہےقصیدے کے پہلے شعر کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں اس مطلع کہتے ہیں تعدار اشعار مقرر نہیں۔ہیئتی اعتبار سے قصیدے کی دو اقسام ،خطابیہ اور تمہیدیہ ہیں تکنیکی اعتبار سے قصیدہ کی چار اجزائے ترکیبی ہیں جن میں ،پہلاتمہید یا تشبیب،دوسراگریز،تیسرا مدح یا مذمت اور چوتھا مقطع یا خاتمہ ہیں اردو کے بڑ ے قصیدہ گو شاعروں میں سوداؔ اورذوق کے نام لیے جاتے ہیں
قصیدہ شہرآشوب
شہرآشوب سوداؔ کا تحریر کردہ ایک قصیدہ ہے جس میں سوداؔ دہلی کی وہ حالت بیان کرتا ہے جب دہلی پر مرہٹوں اور احمد شاہ ابدالی نے حملے کیے جس سے دہلی کا امن وامان تباہ وبرباد ہوگیا
اب سامنے میرے جو کوئی پیرو جواں ہے
دعوی ٰنہ کرے یہ کہ مرے منہ میں زباں ہے
قصیدہ کے اس مطلع والے شعر میں سودا ؔ اپنی شاعرانہ خوبیوں کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرماتےہیں کہ میرے سامنے کوئی چھوٹا یا بڑاانسان یا کوئی عالم یہ دعویٰ نہ کرے کہ وہ بھی میری طرح شعر کہہ یا لکھہ سکتا ہے
میں حضرتِ سوداؔ کو سنا بولتے یارو
اللہ رے اللہ رے کیا نظم ِ بیاں ہے
سوداؔ اس شعر میں اپنے بارے میں کہتے ہیں کہ میں نے اپنے اندر کے شاعر یا ضمیرکو یہ کہتے سنا ہے کہ اے سوداؔ کہ آپ کی شاعری کا کیا کہنا ہے آپ کی شاعر ی سب سے جدااور ہر طرح سے کامیا ب شاعری ہے
اتنا میں کیا عرض کہ فرمائیے حضرت
آرام سے کٹنے کی طرح کوئی بھی یاں ہے
سوداؔاس شعر میں سوالیہ انداز میں پوچھتے ہیں کہ کون ہے کہ جس کی زندگی اس دینامیں آرام سے بسر گذرجاتی ہے بلکہ ایسا ممکن نہیں ہےشاہ ہویا گدا ہر ایک کو غم کاسامنا کرنا پرتا ہے
سُن کر یہ لگے کہنے کہ خاموش ہی رہ جا
اس امر میں قاصر تو فرشتے ہی رہ جا
سوداؔ کہتے ہیں جب میں نے یہ سوال اٹھایا تومجھے کہا گیا کہ چپ ہوجا کہ آج جو دہلی یا دنیا کی حالت ہے اس سلسلے میں فرشتے بھی اپنی زبان کھولنے سے لاچار ہےیعنی بہت دہشت کا سماں ہر طرف ہے
کیا کیا میں بتاؤں کہ زمانے میں کئی شکل
ہے وجہ معاش اپنی سو جس کا یہ بیاں ہے
سوداؔ اس شعر میں فرماتے ہیں کہ اس دنیا میں روزی روٹی کمانے کے بہت سارے پیشے انسان نے اختیار کئے ہیں جن میں چند کا بیان آگے اس طرح ہے
گھوڑا لے اگر نوکری کرتے ہیں کسو کی
تنخواہ کا پھرعالم ِبالا پہ مکاں ہے
کسو: کسی، عالم بالا پہ مکاں :پہنچ اوردسترس سے دور
سودا اس شعر میں فرماتے ہیں کہ کوئی انسان گھوڑے پالنے کی نوکری کرتا ہےمگرافسوں تنخواہ مانگنے پراسے طرح طرح کے بہانے سنائے جاتے ہیں یعنی تنخواہیں وقت پر ادا نہیں کی جاتی ہے کیوں کہ نوکر ی دینے والے بھی غریب ہو چکے ہیں
گزرے ہے سدایوں علف ودانہ کی خاطر
شمشیر جو گھر میں تو ہے سپر بنیے کے ہاں ہے
سدا : ہمیشہ ،علف ودانہ:گھاس اور اناج ،مویشیوں کا چارا ، سپر:ڈھال ،بنیا:آٹا دال بیچنے والا
سوداؔ اس شعرمیں عرض کرتے ہیں کہ کوئی بھی دنیا کا انسان خود کفیل نہیں ہے انسان کی ساری کی ساری زندگی دو وقت کی روٹی کو حاصل کر نے میں گز جاتی ہےیادرکھو بادشاہ کو بھی دال و چاول لینے کے لئے نوکروںکو دوکانوں پربیجناہوتا ہے
سودا گری کیجئے تو ہے اس میں یہ مشقت
دکھن میں بکے وہ جو خرید صفہاں ہے
سودا گری:-تجارت ،مشقت :تکلیف ، دکھن:-ہندوستان کا جنوبی علاقہ ، بکے :فروخت
صفہاں:ایران کاایک شہر
سودا ؔکہتے ہیں کہ دنیا کے کسی پیشے میں اب مزہ نہیں رہا ہے تجارت کو ہی لیجیے ایک جگہ جوچیز بک جاتی ہے دوسرے شہر میں اس کی کوئی مانگ نہیں ہوتی ہے
شاعر جو سُنے جاتے ہیں مستغنی الاحوال
دیکھے جو کوئی فکرو تردد کو تویاں ہے
مستغنی الاحوال: جن کی مالی حالت بہتر ہو , تردد:پریشانی
سوداؔ اس شعرمیں فرماتے ہیں کہ جن شاعروں کی حالت پہلے بہت بہتر تھی اب وہ بھی تلاش معاش کی فکر کرنے لگے ہیں اتنی حالت دہلی اور دہلی واسیوں کی خراب ہوچکی ہے
مشتاق ملاقات انہوں نے کا کس و ناکس
ملنا انہیں اس سے جو فلاں ابن فلاں ہے
مشتاق: شوقین ، کس وناکس-:ہرخاص وعام
سوداؔ کہتے ہیں کہ ہر کسی کا یہ شوق ہوتا ہے کہ اس کی ملاقات ایک اچھے شاعر سے ہوجائے مگر دوسری طرف شعراء اس فکر میں ہوتے ہیں کہ ان کی ملاقات کسی بڑے مال دار آدمی سے ہوجائے جہاں پر اسے روپئے پیسے مل جائیں
گرعید کا مسجد میں پڑھیں جاکے دوگانہ
نیت قطعہ تہنیت خان ِزماں ہے
قطعہ تہنیت:-قطعہ جوخوشی اور مبارک باد کے موقعے پر لکھا جائے ،خانِ زماں:-بہت بڑا امیر
سودا اس شعر میں فرماتے ہیں کہ جب کوئی شاعر مسجد میں دورکعت عید کی نمازیں پڑھنے کے لئے جاتا ہے توشاعرکا دل نماز میں کم ہوتا ہے اور وہ یہ سوچتا ہے کہ کس طر ح ایک امیر انسان کے بارے میں قطعہ لکھا جائے تاکہ امیر اس قطعہ کو سن کر کچھ انعام واقرام سے نوازے
مُلائی اگر کیجئے تو مُلا کی ہے یہ قدر
ہوں دو روپے اُس کے جو کوئی مثنوی خواں ہے
سوداؔ اس شعر میں کہتے ہیں کہ اس زمانے میں ایک مولوی کی قدر اس وقت ہے جب اسے کوئی مثنوی سنانا یا پڑھانا آتاہےتب اسے دو روپئے کوئی دے دیتا ہےورنہ مولوی کی طرف آج کوئی دیکھتا بھی نہیں
اور ما حضر اخوند کا اب کیا میں بتاؤں
یک کاسئہ دال عدس وجو کی دوناں ہے
ماحضر:۔ کھانا ؛ اخوند-: استاد ، کاسئہ:-پیالہ ، دالِ عدس- :مسور کی دال ،نان:- روٹی
شاعرسودااس شعرمیں ارشاد فرماتے ہیں کہ اس دورمیں استاد کی حالت بہت بری ہے اسے مشکل سےکھانا کھانے کے لئے جوکی دوروٹیاں اور مسور کی دال کا ایک پیالہ دو وقت کے لئےمیسر ہوپاتا ہے
دن کو تو وہ بیچارہ پڑھایا کرے لڑکے
شب خرچ لکھے گھر کا اگر ہندسہ داں ہے
ہندسہ داں:- حسان جاننے والا
سودا کہتے ہیں کہ اس زمانے میں ایک استاد کی حالت بہت خراب ہے وہ بیچارہ دن کولڑکوں کو پڑھاتا ہے اور رات کے وقت اپنے گھر کے اخراجات لکھتا ہے مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ ریاضی دان ہو
اب کیجئے انصاف کہ جس کی ہو یہ اوقات
آرام جو چاہے وہ کرے وقت کہاں ہے
اوقات:- حیثیت
سودا کہتے ہیں کہ اے دنیا کے لوگوں اب آپ ہی انصاف سے کام لیجئے جس استاد کو قدر ومنزلت ملنی چاہئیں اس کو اب آرام کے لئے وقت ہی میسر نہیں ہوپاتا ہے
چاہے جو کوئی شیخ بنے بہر فراغت
چھٹتے ہی تو شعرا کا وہ مطعونِ زباں ہے
چھٹتے ہی:- چھوٹتے ہی فوراََ
سودااس شعرمیں فرماتے ہیں کہ اگرکوئی عالمِ دین بننا چاہتا ہے تو شعرا حضرات حسد کی بناپر اس پرطنز کے شعرلکھتے ہیں
تحقیق ہوعرس تو کر داڑھی کو کنگھی
لے خیل ِ مُریداں گئے وہ بزم ِ جہاں ہے
عرس:- کسی ولی خدا کی وصال کا دن ، خیل:- جماعت ، بزم:-محفل
سودا کہتے ہیں کہ جب کسی جگہ کسی ولی اللہ کا عرس منایا جاتا ہے تو ایک مولوی صاحب داڑھی میں کنگھا کرکےاپنے مریدوں کی جماعت کے ہمراہ وہاں جاتا ہے اور عرس کا دن مناتا ہے
ڈھولک جو لگی بجنے تو واں سب کو ہوا وجد
کوئی کودے کوئی رو دے کوئی نعرہ زناں ہے
وجد :- ذوق وشوق کی حا لت ' نعرہ زناں:- نعرہ لگاتے ہوئے
سودا اس شعرمیں ارشاد فرماتے ہیں کہ عر س کی مجلس جب اپنی شباب پر ہوتی ہے تو ہر کسی پر وجد کا سماں چھا جاتا ہےکوئی گھومنے لگتا ہےکوئی اچھلنے لگتا ہے کوئی نعر ہ تکبیرکہتا ہےغرض ہرانسان پر وجد کا سماں چھا جاتاہےتاکہ کوئی دوسرا انسان ترس کھا کر اند وجدیوں پر چند سکے دے دیں
بے تال ہوئے شیخ جو ٹک وجد میں آکر
سر گوشیوں میں پھر بد اصولی کا بیان ہے
بے تال :- بے سر، ٹک :-ذرا ، سر گوشیوں :-کانا پھوسی کرنا
سودا کہتے ہیں جب مجلس میں شیخ پر وجد طاری ہوجاتی ہے تووہ وجد میں گھومنے لگتا ہے تو اسے سراورتال کا فرق نہیں رکھ پاتا ہے اُس پرپاس بیٹھے لوگ باتیں کرتے ہیں دیکھو شیخ کا تال کے ساتھ سر میل نہیں کھاتا ہے
آرام سے کٹنے کا سنا تو نے کچھ احوال
جمعیتِ خاطر کوئی صورت ہو کہاں ہے
جمعیتِ خاطر:- اطمینان ،صورت : -حالت
سوداؔ اس شعرمیں سوالیہ انداز سے پوچھ کر کہتے ہیں کہ اے لوگوں تم نے مجھ سے اس شہر کا کچھ حال سنا ہے اب تم ہی بتاوں کیااس شہرمیں زندگی گذارنا آسان ہے اور یہاں زندگی گذارنے کے لئے آرام کے دو پہر میسر ہوپاتے ہیں
دنیا میں تو آسودگی رکھتی ہے فقط نام
عقبیٰ میں یہ رکھتا تھا کوئی اُس کا نشاں ہے
عقبیٰ:- مرنے کے بعد کی زندگی
سودا کہتے ہیں اب دنیا میں فقط آرام و آرائش کےمحض نام باقی رہے ہیں یہاں د نیا میں امن وسکوں نہیں ہے یہاں صرف دکھ ہی دکھ ہیں اس کے باوجو د ایک انسان کا یہ یقین ہے کہ مرنے کے بعد آخرت میں ایک بندہ مومن کو یہ چیزیں مل جائیں گی
سُو اُس پہ تیقُن کسی دل کو نہیں ہے
یہ بات بھی گویند ہ ہی کا محض گُماں ہے
تیقُن:- یقین ، گویندہ :- کہنے والا گُماں:- خیال
سودا ؔ کہتے ہیں کہ ایک انسان کا تقین ہے کہ مرنے کے بعد خد ا اچھے اعمال والے لوگوں کو جنت عطا فرمائے گا اور وہاں آرام ہی آرام ہوگا مگرمجھے لگتا ہے کہ یہ بس کہنے سنے کی باتیں ہیں شائد وہاں دینا جیسی زندگی مشکل وکٹھن ہو
یاں فکرِ معیشت ہے تو واں دغدغہ حشر
آسودگی حرفیست نہ وہ یاں ہے نہ واں ہے
فکرِ معیشت:- روزی روٹی کی فکر، واں: -وہاں دغدغہ حشر: -حساب و کتاب کے دن کا خوف ، آسودگی: -آرام
سودا اس شعر میں عرض کرتےہیں کہ اس دنیا میں ایک انسان کو روزی روٹی کی فکر دامن گیر رہتی ہے اور آخرت کے دن انسان کو اپنے اچھے اور برے اعمال کا حساب وکتا ب دینا ہوگا غرض نہ تو اس زندگی میں انسان کو سکھ حاصل ہے نہ ہی مرنے کے بعد یہ سکھ نصیب ہوگا
3 سوالات
1۔ سوداؔ نے اس قصیدہ میں جن پیشوں کا ذکر کیا ہے اُن کی فہرست بنائیے
جواب :- سودا نے اس قصیدے میں جن پیشوں کا ذکر کیا ہے وہ چند درجہ ذیل ہیں
تجارت یا سوداگری ، شاعری ،مدرسی ،ملائی ، گھوڑوں کی رکھوالی،عالم یا شیخ وغیرہ
2۔ اس نظم میں بہت سے الفاظ ایسے ہیں جن کے معنی اب بدل گئے یا جو اب استعمال نہیں ہوتے ہیں مثلاََ "تحقیق ہوا ' بہ معنی ''خبر لگی ،معلوم ہوا'' ایسے کچھ لفظ آپ بھی ڈھونڈ یے
جواب: -اس قصیدہ میں ایسے کچھ الفاظ استعمال ہوئے جن کے معنی ومطالب اب بدل گئے ہیں یا اب استعمال نہیں ہوتے ہیں
کسو کی ، انہوں کا ، واں ، یاں ، چھٹتے ،تیقُن
3۔اس قصیدہ کا خالصہ اپنےالفاظ میں لکھیے
جواب" شہرآشوب" مرزا محمد رفیع سودا کا ایک بہترین قصیدہ ہےاس قصیدہ میں شاعرنے دہلی کی تباہی وبربادی کا ذکر کیاہے جب مختلف قوموں نے یہاں اپنے سیاسی مقاصد کو پورا کرنے کے لئے دہلی کی خوشحالی کی تقدیر داؤ ں پر لگائی ۔کہتے ہیں دہلی اب وہ جگہ نہیں رہی جہان کبھی امن وسکوں کی بہاریں چلتی تھی یہاں لوگوں کے جتنے پیشے تھے وہ بہت زیادہ متاثر ہوچکے ہیں کوئی آدمی کسی نواب یا امیر کا گھوڑا پالتا تھا اور دوپیسے کماتا تھا اب حالت یہاں تک پہنچ گئی اب ان امیر زادوں کو اپنے گھوڑے پالنے کی تنخواہیں نہیں دے پاتے وہ خو د غریب ہوچکے ہیں یہی حال مدرس کو ،مشکل سے مسور کی دال اور جو سے بنی دو وقت روٹی کا اہتمام ہوپاتاہے عالموں و شیخوں کی حالت بہت زیادہ خراب ہے ان پر شعرا ء طنز کے شعر کستے ہیں مثنوی نگار دو روپیے کمالیتے ہیں مگر مولویوں کو کوئی پوچھتا بھی نہیں اسی جب کہیں کسی پیر کا عرس ہوتا ہے وہاں مولوں وجد میں آکر اپنی حالت خراب کردیتا ہے تاکہ کوئی ترس آکر چار پیسے دے دیں غرض یہ دنیا آرام سےعاری ہوچکی ہے آرام بس کہنے سننے کا ایک لفظ بن کے رہ گیا انسان سوچتا ہے کہ مرنےکے بعد آخرت میں آرام نصیب ہوگا یہ زندگی کیسی عجیب شے،دینا میں روزی روٹی کمانےکی فکر میں گذرجاتی ہے جبکہ مرنے کے اپنے اعمال کا حساب دینے کی فکر ستاتی ہے غرض انسانی زندگی مشکلات سے دوچار ہے
4۔" شہر آشوب" سے کیا مراد ہے
جواب: - "شہر آشوب" سے مراد وہ نظم ہے جس میں کسی شہر کی تباہی وبربادی کا ذکر ہو
5۔ اس قصیدے کوشاعر نے "شہر آشوب "کیوں قرار دیا ہے
جواب :- اس قصیدے کو شاعر نے شہرآشوب کا نام اسی لئے قرار دیا ہے کیوں کہ اس قصیدے میں شاعر نے ایک تاریخی شہردہلی کی تباہی وبربادی کا ذکر کیا ہے
1 تبصرے
بہت پسند کرتے ہیں ساری تحریریں
جواب دیںحذف کریں