نظم کسے کہتےہیں وضاحت کیجیے؟
جواب-یوں تو ہر کلام موزوں کو نظم کہا جا سکتا ہے لغت میں نظم کے معنی ترتیب دینا یا موتی پرونا کے ہیں لیکن عام اصطلاح میں نظم سے مراد وہ شعری اصناف اور اسالیب ہیں جن میں کسی موضوع پر ربط وتسلسل کے ساتھ اظہار خیال کیا گیا ہواس اعتبار سے غزل کے علاوہ شاعری کی بیشتر اصناف اس کے دائرے میں آجاتی ہیں نظم میں اشعار موضوع اورخیال کے اعتبار سے ایک دوسرے سے پیوست ہوتے ہیں اس کے موضوعات لا محدوداورشکلیں بے شمار ہیں ہیئت کےاعتبارسے زمانے قدیم سے ہی نظم کے کچھ مخصوص اسالیب کا رواج رہا ہے اور ان کی پابندی ہر شاعر پر لازم تھی نئے خیالات پیدا ہونے سے نظم کے مخصوص اسالیب میں تبدیلی کی ضرورت محسوس ہونے لگی اور نئے نئے موضوعات پرنظمیں لکھی گئیں اس طرح جدید نظم کا آغازہواجدید نظم تین حصوں میں منقسم ہوچکی ہےجو نظم ہیئت کے اعتبار سے روایتی اورموضوع کے لحاظ سے جدید ہواسے پابند نظم کہتے ہیں ایسی نظم جو مصرعوں کے لحاظ سے برابرہومگراس میں قافیہ نہ ہو نظم کونظم معرا کہتے ہیں اور نظم کی ایسی قسم جس میں نہ قافیے کی پابند ی کی جاتی ہے اور نہ بحر کے استعمال میں مروجہ اصولوں کی پابندی کی جاتی ہے مگر وزن کا خیال رکھا جاتا ہے آزاد نظم کہلاتی ہے
اردو نظم کا آغاز جدید دور سے ہی ہوا حالانکہ اس دور سے پہلے ہی نظیر اکبر آبادی نے نظمیں لکھیں تھی جو تقریبا زندگی کے تما م موضوعات پر تھی حالی ؔ اور آزاد نے نظم کو محدود موضوعات سے نکال کر نئے موضوعات سے ہمکنار کیا انیسویں صدی کے آخر سے اردو نظم میں ہیئت کے نئے تجربات کئے گئے 1917 کے انقلاب روس کے بعد نیا شعوراور نئے تصورات ابھرے اور نظم ہر طرح کے فکری مسائل اور سماجی تجربات کو پیش کرنے میں کامیاب ہوئی اردو نظم کے چند مشہو ر شاعروں میں جوشؔ ، دانشؔ ، مجاز ؔ ، فیض وغیرہ قابل ذکر ہیں
سوال : نظیر ؔ اکبر آبادی کی حیا ت اور شاعر ی پر نوٹ لکھیے؟
جواب حالات ِ زندگی :-
اردو نظم کو نئے موضوعات سے آراستہ کرنے والے شاعرنظیر اکبرآبادی تھےآپ کا اصلی نام ولی محمدتھا اور آپ کا تخلص نظیرؔ تھا آپ کی پیدائش دہلی میں 1724ٰء میں ہوئی آپکے والد صاحب کا نام محمد فاروق تھا آپ اپنے باپ کے اکلوتے بیٹے تھے آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم محمد کاظم اور ملا ولی سے حاصل کی فارسی اور عربی زبانوں میں اچھی مہارت حاصل کیں۔ لیکن جب احمد شاہ ابدانی نے دہلی پر زبردست حملے کئے تو آپ دہلی کو چھوڑ کر آگرہ میں اکبر آباد میں قیام حاصل کیا یہاں کی آب و ہوا اتنی پسند آئی کی نظیرؔ آبادی کے نام سے خود کو مشہور کرنے لگے آکبر آباد میں آپ کو پہل زندگی مشکلات میں گذر گئی۔یہاں مدرسی کا پیشہ اختیا ر کیا جس سے کچھ مالی حالت بہتر ہوگئی۔عام عوام کے نزدیک رہنا پسند کرتے تھے عوامی رنگ رلیوں اور تہواروں میں جانا بہت پسند تھا شطرنج ،پتنگ بازی، اور پہوانی سے بھی آپ کو لگاو تھا آ پ ایک خوش باش اور ایک زندہ دل انسا ن تھے آپ نے ایک طویل عمر پائی ۔ زندگی کے آخری ایام میں فالج کا شکا ر ہوگئے او ر پھر اسی حال میں 1830ء میں آکبر آباد میں اللہ کو پیارے ہوگے
شاعری💬-
آپ نےشاعری میں عام روش سے ہٹ کر مختلف چیزوں کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا لوگوں نے آپ کو بازاری شاعر کہہ کر نظراندازکیالیکن دھیرےدھیرے اردو شاعری میں نئے موضوعات ، اور نئے معیا ر قائم کر کے آگے بڑھتے لگے اور رفتہ رفتہ لوگوں میں آپ کو شہرت بڑھتی گئی آپ کا بیان نیچرل اور دلچسپ ہے تصنع اوربناوٹ آپ کے کلام میں نہیں ہے
آپ کی شاعری میں ہندوستان کی زندگی ،تہذیب اورروایات کا رنگ خوب خوب جھلکتا ہےآپ نے غزلیں بھی کہی لیکن نظم میں ہی آپ کا فن نکھر کر آیا ہےآ پ کی میں آدمی نامہ ،مفلسی، روٹی نامہ اورمکافات وغیرہ مشہور ہیں
مفلسی
جب آدمی کے حال پہ آتی ہے مفلسی
کس کس طرح سے اس کو ستاتی ہے مفلسی
پیاسا تمام روز بٹھاتی ہے مفلسی
بھوکا تمام رات سلاتی ہے مفلسی
یہ دکھ وہ جانے جس پہ کہ آتی ہے مفلسی
مفلسی :-غریبی
یہ نظم کا پہلا بند نظیراکبر آبادی کی ایک مشہو ر نظم "مفلسی " سے نکالا گیا ہے اس بند میں شاعرایک مفلس انسان کی حالت بیان کرتا ہے جب ایک انسان غریبی یا مفلسی میں گرفتار ہوجاتاہے تو یہ مفلسی انسان کو دن ورات بھوکا و پیاسا رکھتی ہے مفلس انسان ہی مفلسی کے درد وغم جانتا ہےخوشحال لوگ اس سے بے خبر رہتے ہیں
مفلس کی کچھ نظر نہیں رہتی ہے آن پر
دیتا ہے اپنی جان وہ ایک ایک نان پر
ہر آن ٹوٹ پڑتا ہے روٹی کے خوان پر
جس طرح کتے ٹوٹتے ہیں استخوان پر
ویسا ہی مفلسوں کو لڑاتی ہے مفلسی
آن: - شان وشوکت، لمحہ : ساعت ، نان: - روٹی ، خوان:-تھال ۔دسترخوان ،استخوان :ہڈی
نظم کے اس بند میں نظیر ؔاکبر آبادی مفلس انسان کی حالت بیا ن کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مفلس انسان کی کوئی شان سماج میں باقی نہیں رہتی ہے دو وقت کی روٹی کو پانے کے لئے اسے زبردست محنت کرنی پڑتی ہے مفلس انسان کو جب بھوک لگتی ہے اور وہ کئی دنوں کا بھوکا پیاسا ہونے کی وجہ سے جب اسے روٹی کھانے کو مل جاتی ہے و ہ روٹی پر اس طرح ٹوٹ پڑتا ہے جیسے کتے ہڈیوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں یہ حالت انسان کی مفلسی کی وجہ سے ہی ہوتی ہے
کیسا ہی آدمی ہو پر افلاس کے طفیل
کوئی گدھا کہے اسے ٹھہرا دے کوئی بیل
کپڑے پھٹے تمام بڑے بال پھیل پھیل
منہ خشک دانت زرد ندن پر جما ہے میل
سب شکل قیدیوں کی بناتی ہے مفلسی
افلاس :-غریبی ۔غربت ،طفیل :- ذریعہ ۔بدولت
نظیر اکبر آبادی نظم کے اس بند میں مفلسی کے بارے میں بیان کرتےہوئے مزید فرماتےہیں کہ ایک انسان کا اخلاق ، کردارکتنا ہی بلند کیوں نہ ہو مفلسی کی وجہ سے اسے کوئی گدھا،تو کوئی بیل کہتا ہے مفلس انسان کے کپڑے پرانے اور پھٹے ہوئے ہوتے ہیں اس کا منہ خشک ،دانت زرد اور جسم پر میل جما ہوا ہوتا ہےغرض ایک مفلس انسان کی حالت مفلسی کی وجہ سے قیدیوں جیسی ہوجاتی ہے
دُنیا میں لے شاہ سے اے یارو تا فقیر
خالق نہ مفلسی میں کسی کو کرے اسیر
اشرف کو بناتی ہے اک آن میں فقیر
کیا کیا میں مفلسی کو خرابی کہوں نظیرؔ
وہ جانے جس کے دل کو جلاتی ہےمفلسی
خالق :-پیدا کرنے والا،اسیر:- قیدی، اشراف:-شریف کی جمع ۔عزت دار لوگ ۔مہذب ،دل جلانا :- سخت ۔رنج دینا
نظم کے اس آخری بند میں نظیر اکبر آبادی مفلسی کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں اور اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ اے میرے اللہ بادشاہ سے لیکر فقیر انسان تک کسی کو مفلسی میں مبتلا نہ کرنا کیوں کہ اے اللہ یہ مفلسی شریف انسان کو ایک لمحے میں فقیر بنادیتی ہے اے اللہ میں مفلسی کی کیا کیا خرابیاں بیان کروں اس مفلسی کی کیفیت وہی لوگ جاتے ہیں جن کو اس مفلسی کی ہوا لگ چکی ہے
3۔سوالات
1۔ مفلسی آدمی کو کس کس طرح سے ستاتی ہے ؟
جواب:۔مفلسی آدمی کو ہر طرح سے ستاتی ہےمفلس انسان کو دن ورات بھوکا پیاسا رہنا پڑتا ہے اسے پرانے اورپھٹے کپڑے پہنے پڑتے ہیں لوگ اسے مفلسی کی وجہ سے کوئی بیل وغیرہ برے القاب سے پکارتے ہیں غرض مفلسی انسان کو ہر طرح سے ستاتی ہے
2.۔ مفلس کو ہر وقت کس چیز کی فکر رہتی ہے ؟
جواب : - مفلسی میں مفلس انسان کو ہر وقت صرف اور صرف دو وقت کی روٹی کی فکر رہتی ہے
3۔ اس بند کی تشریح کیجئے
کیسا ہی آدمی ہو پر افلاس کے طفیل
کوئی گدھا کہے اسے ٹھہرا دے کوئی بیل
کپڑے پھٹے تمام بڑے بال پھیل پھیل
منہ خشک دانت زرد ندن پر جما ہے میل
سب شکل قیدیوں کی بناتی ہے مفلسی
افلاس: -غریبی ۔غربت، طفیل :- ذریعہ ۔بدولت
نظیر اکبر آبادی نظم کے اس بند میں مفلسی کے بارے میں بیان کرتےہوئے مزید فرماتےہیں کہ ایک انسان کا اخلاق ، کردارکتنا ہی بلند کیوں نہ ہو مفلسی کی وجہ سے اسے کوئی گدھا،تو کوئی بیل کہتا ہے مفلس انسان کے کپڑے پرانے اور پھٹے ہوئے ہوتے ہیں اس کا منہ خشک ،دانت زرد اور جسم پر میل جما ہوا ہوتا ہےغرض ایک مفلس انسان کی حالت مفلسی کی وجہ سے قیدیوں جیسی ہوجاتی ہے
4۔ محاورہ کسے ہیں؟
جواب : - لغت میں محاورہ کے معنی بات چیت کے ہیں مگر قواعد میں دو یا دو سے زیادہ الفاظ کا وہ مجموعہ جو اپنے حقیقی معنی کے بجائےمجازی معنی دے محاورہ کہلاتا ہے مثلاََ دل جلانا
" دل " اسم ہے اور "جلانا" مصدر ، ان دونوں الفاظ کو ملا کر" دل جلانا " محاورہ وجود میں آیا جس کے معنی " سخت رنج دینا " ہے حالانکہ دونوں لفظوں کے لغوی معنی بالکل الگ ہیں
اب درج ذیل محاوروں کو اس طرح جملوں میں استعمال کریں کہ معنی خود بخودواضح ہوجائے مثلاََ دل جلانا ،
چھاتی پر مونگ دلنا ،
جان پر کھیلنا ،
نظر لگنا
جواب:- دل جلانا : -( سخت رنج دینا) اس خبر سے ہمارا دل جلنے لگا ہے
چھاتی پر مونگ دَلنا:-( عذاب دینا ، سزا دیناٗ) احمد نے اپنے دشمن کی چھاتی پر مونگ دلنا شروع کیا
جان پر کھیلنا:( ایسا کام کرنا جس میں جان جانے کا خطرہ ہو) بشیر نے جان پر کھیل کر رشید کو دریا میں ڈوبنے سے بچا لیا
نظر لگنا:( بُری نظر کا اثر ہوجانا،بھوت پریت کا سایہ ہونا) بچوں کو رات کے وقت باہر گھومنا نہیں چاہیے اس سے نظر لگ جاتی ہے
5۔ اس نظ کا خلاصہ اپنے الفاظ میں لکھیے؟
جواب:- یہ نظم "مفلسی" نظیر اکبر آبادی کی قلم کی نوک سے جنم پائی ہے اس نظم میں نظیر نے مفلسی کی کئی برائیوں کا تذکرہ کیا ہے فرماتے ہیں کہ جب مفلسی ایک انسان کو آجاتی ہے وہ اسے ہر طرح سے دکھ دیتی ہے وہ تمام دن ورات بھوکا پیاسا رہتا ہے اسے ہر پل دووقت کی روٹی کی فکر ستاتی رہتی ہے اور روٹی کو پانے کے لئےاس کو ہزاروں جتن کرنے پڑتےہیں کبھی اسے ایک وفادار کتے کی طرح کسی امیر شخص کے تلوے چانٹنے پڑتے ہیں ایک مفلس انسان کو جب کوئی چیز کھانے کو مل جاتی ہے تو وہ اُس خوان پر ایک بھوکے کتے کی مانند روٹی پر ٹوٹ پڑتا ہے جس سے اس کی شرافت مٹی میں مل جاتی ہے مفلسی کی وجہ سے اسے ہزاروں تانے سننے پڑتے ہیں کوئی اس گدھا ، تو کوئی اسے بیل کے بُرےالقابو ں سے پکاتا ہے مفلسی کی وجہ سے اسے پرانے اور پھٹے کپڑنے پہنے پڑتے ہیں اس کی حالت دنیا میں آزاد رہ کر بھی ایک قیدی جیسے ہوجاتی ہے بال بکھرے بکھرے رہتے ہیں دانت زرداورجسم پر ہمیشہ میل جمارہتا ہےشاعر آخر پر مفلسی کی برائیوں کو گنواکر اللہ سے دعا کرتا ہے کہ اے اللہ اس دنیا میں کسی کو مفلس نہ بنادینا کیوں کہ اس سے ایک بھلے بھالےکی انسان کی شبی بگڑجاتی ہے اور وہ غم والم میں مبتلاہوجاتا ہے اسےمشکل سے دووقت کی روٹی کا انتظام ہوپاتا ہے
1 تبصرے
ماشا اللہ
جواب دیںحذف کریں