شبیب رضوی کی حیات و غزلوں کی تشریح


شبیب رضوی کی غزل گوئی

غزل نمبر 1

کتاب بند سہی،حرف تر کھلا رکھنا
مباحثے کا ہمیشہ ہی درکھلا رکھنا
تشریح :
یہ شعر ہماری درسی کتاب" بہارستانِ اردو" اردو کی دسویں کتاب کے حصے نظم میں ،شبیبؔ کی ایک غزل سے نکالا گیا ہے اس شعر میں شاعراپنے محبوب سے مخاطب ہوکر ارشاد فرماتے ہیں کہ اے میرے محبوب اگرچہ آپ نے مجھ سے خط وکتابت کا سلسلہ بند کیا ہے مگرعلم وآگاہی ، بحث ومباحثہ کادروازہ کبھی بند نہیں کرنا کیوں کہ اسی طریقہ سے مجھےآپ کے بارے میں واقفیت حاصل ہوتی رہتی ہے
سکوتِ شب سے بھی اکتا کے لوٹ سکتا ہوں
میں کہہ کے آیا ہوں بچو ں سے گھر کھلا رکھنا
اس غزل کے شعر میں شاعر اپنے محبوب کی بے رخی کاحال بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں اپنے محبوب کی جدائی کی وجہ سے راتوں کو گھر سے باہر بے خبری میں نکل جاتاہوں اس لئے میں نے اپنے اہل گھر سے کہہ دیا ہے کہ جب شب کی تاریکیوں میں میرے ساتھ یہ واقع پیش آئے تو تم میرے لئے میرے گھر کا دروازہ کھلا رکھنا
ہماری شرط کہ ہم پر ہو سایہ رحمت
تمہاری ضد ہےکہ کوفے میں سر کھلا رکھنا
اس شعر میں شاعر فرماتے ہیں کہ میں اپنے اللہ سے دُعا کرتا ہوں کہ مجھے ہمیشہ دکھ درد ومصیبتوں سے دور رکھنا مگر میری دعا میر ے حق میں الٹا ہوجاتی ہے یہ اسی طرح ہے جس طرح حضرت امام حسین علیہ السلام اوراس کی اہل وعیال کےساتھ اہل کوفہ نےبرا سلوک کیا اگرچہ امام حسین علیہ السلام کاپورا گھرانہ رحمت کا مستحق تھا
شکستگی ہوئی ظاہر تو موت لازم ہے
کھلی ہواؤں کے دھارے پہ پر کھلا رکھنا
اس غزل کے اس شعر میں شبیب فرماتےہیں کہ جب انسان کا جسم عمر بڑھ جانے کی وجہ سے کمزور و ناتواں ہوجاتاہے تو بس انسان کو سمجھنا چاہیے کہ اب اس جسم پر کبھی بھی موت آسکتی ہے اس لئے انسان کو اس کے لئے تیا ر رہنا چاہئے
کسی کاہاتھ بڑھے یا کھچے یہ اسکا بصیب
ہمارا فرض ہے دست ہنر کھلا رکھنا
اس شعر میں شاعر فرماتے ہیں کہ میں اپنے شعروں میں علم وہنر کی باتیں بیان کرتا ہوں یہ اب ایک قاری پر منحصر ہے کہ وہ میرے اشعار سےفائدے اُٹھاے یا نہ اُٹھائے میں نے اپنے اشعار کے ذریعےعلم وآگاہی کے دروازے کھلے رکھے ہیں
کتنی بھوکی ہے کتنی پیاسی ہے
زندگی دشتِ کربلا سی ہے
یہ شعرشبیبؔ کی ایک غزل سے نکالا گیا ہے اس شعر میں شاعر فرماتے ہیں کہ انسان کی دنیائی زندگی دُکھوں سے بھری پڑی ہے یہ ایسے ہی ہے جسے کربلا کی زمین تھی جو حضرت امام حسیں علیہ السلام و اُس کی آل کے لیے مصیبت کا سبب بنی
سب گئےشمع دل جلائے ہوئے
خیمہ خیمہ بہت اداسی ہے
اس شعرمیں شبیب ؔ کربلا میں امام حسین علیہ السلام اور اُس کی اہل عیال کی طرف سے ظلم وظالم کے خلاف اپنی اپنی جانوں کا نذرانہ کا واقعہ پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں جب امام حسین علیہ السلام اور اس کے اکثر اہل عیال والے شہید ہوگئے تو اس کے امام کے خیموں میں غم و اداسی کا منظر چھاگیا
اس نے کتنی لطیف بات کہی
خود شناسی خدا شناسی ہے
خود شناسی : خود کو پہنچاننا ،خُدا شناسی: خُدا کو پہنچاننا
یہ شعر شبیبؔ کی ایک غزل سے نکالاگیا ہےاس شعر میں شاعرایک قیمتی بات بیان کرتے ہوئے فرماتےہیں کہ جس انسان نے اپنے نفس و وجود کو پہنچانا اسی نے حقیتاََ میں ذاتِ باری تعالیٰ کو پہنچان لیا ہے
پھیل جائے تو اک کتاب بنے
بات کہنے میں جو ذرا سی ہے
یہ شعرشبیبؔ کی ایک غزل سے نکالاگیا ہےاس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ اس دنیا میں بہت بڑے دانشور و فلسفی پیداہوئے ہیں جن کو اللہ نے اتنی قدرت عطا کی وہ ایک معمولی بات کو بھی اس انداز میں بیان کرتے ہیں کہ ان کے اس بیان سے بڑی سی بڑی کتابیں چھپ سکتی ہیں
زندگی خود کشی نہ کر لے کہیں
ہرتمناخفا خفا سی ہے
خود کشی : اپنے آپ کو موت کے گھاٹ اتارنا
یہ شبیبؔ کی غزل کا ایک مطلع والا شعر ہے اس شعرمیں شاعر ارشاد فرماتےہیں کہ مجھے اب محسوس ہونے لگا ہے کہ میں بہت جلد اپنی زندگی کا خاتمہ خود کشی کے ذریعے کرجاٰوں گا کیوں اس دنیا میں رہتے ہوئے میری جائز تمنائیں پوری نہیں ہوپاتی ہیں اور نہ اُنھیں پورا ہونے کا کوئی امکان نظر آتا ہے
3 سوالات
٭اسے تین اشعار قلمبند کیجئے جن میں کربلا کی طرف اشارہ کیا گیا ہو
ہماری شرط کہ ہم پر ہو سایہ رحمت
تمہاری ضد ہےکہ کوفے میں سرکھلا رکھنا
کتنی بھوکی ہے کتنی پیاسی ہے
زندگی دشتِ کربلا سی ہے
سب گئےشمع دل جلائے ہوئے
خیمہ خیمہ بہت اداسی ہے
٭ پہلی غزل کے دوسرے شعر میں کیوں بچوں کو گھر کھلا رکھنے کے لئے کہا گیا ؟
جواب : کیوں کہ شاعر کی طبیعت رات کے وقت محبوب کی جدائی کی وجہ سے ٹھیک نہیں رہتی ہے اور وہ بے ہوشی کی وجہ سے رات کو اپنا گھر چھوڑ دیتا ہے اسی لئے وہ اپنے گھر والوں سے کہتا ہے شب کے دوران بھی گھر کا دروازہ کھلا رکھنا
٭غزل کے تیسرے شعر میں شاعر نے جس واقعہ کی طرف اشارہ کیا ہے اسے مختصر طور پرنوٹ طور پر بیان کیجئے
جواب: اس شعر میں حضرت امام حسین علیہ السلام کی بہن حضرت زینب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جب یزیدوں نے حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنھا کو کوفے کے شہر میں ننگے سرچلایا گیا
سوال: شنیب رضوی کی حالات زندگی اور شاعری پر نوٹ لکھیے؟
جواب :حالات زندگی :
آپ کی پیدائش 25جون 1935 ء کو قصبہ زیر پورضلع بارہ بنکی اتر پردیش میں ہوئی ابھی آپ کی عمر صرف پانچ سا ل کی تھی کہ والد صاحب کا انتقال ہوگیادینی تعلیم گھر پر ہی اپنی ماں سے حاصل کی عربی وفارسی میں فاصل تفسیرکامل اورصدالافاضل کی اسناد یں حاصل کیں ہندی میں پرویش اوراردومیں ادیب ماہرعلی گڑھ کے امتحانات پاس کیے1959ٰء میں طبیہ کالج لکھنو سے ایف ایم بی ایس(طب)  کی ڈگری بھی حاصل کی1993 ء میں آپ کی تعیناتی گورنمنٹ طبیہ کالج سرینگر میں ہوئی1968ء میں آپ کا نکاح سرینگر میں ہوا اوریہیں مستقل سکونت اختیارکی اور بعد میں میڈیکل آفیسر کے عہدے سے سبکدوش ہوگئے
شاعری:
شبیب رضوی ایک نثر نگار کے ساتھ ایک بہتریں شاعرہیں شاعر کا ذوق گھر کے ماحول میں پیدا ہوا.گیارہ سال کی عمر سے ہی شعر کہنے لگے شبیب نے ہراصناف سخن میں طبع آزمائی کی لیکن غزلیں، نظمیں اورقطعات ورباعیا ت خاصی تعدار میں کہیں آپ کی شاعری کا رنگ اخلاقی اور تہذیبی ہے لہجہ میں متانت اور اسلوب میں سادگی ہے آپ کے مشہورمجموعے "آتش چنار" "حروف فروزاں" " بچوں کے مشاعرے " " لہولہو غزل " شامل ہیں














ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے