۳۔ سوالات:
۱۔صالح زندگی کی تعمیرکے لیے اقبال نے کس بات کو ضرورت قرار دیا ہے؟
جواب:شاعرِمشرق علامہ اقبالؒ نے صالح انسان کی زندگی کے لیے جس بات کو ضروری قرار دیا ہے وہ تو ایک انسان خود اپنی خودی اور دوسروں کی خودی کا احترام کرے
۲۔”خودی“سے کیا مراد ہے؟
جواب:خودی سے مراد یہ ہے کہ ایک انسان اپنے وجود کو پہنچانے،دوسروں کے تئیں اپنی ذمہ داریاں سمجھے،اپنی تمام تر زندگی حق وصداقت،دیانتداری،ایمانداری و انصاف پرگزارے۔خودی انانیت،غرور وگھمنڈکا نام نہیں ہے یہی اصل خودی کے معنی ہیں
۳۔دنیا آج کس خطرے کی زد میں ہے؟
جواب: آج کل کی دنیا حسد،تنگ نظری،فریب،ذات پات،نسلی تشدد،دہشت گردی،قوم پرستی،مذہب پرستی،فرقہ پرستی وغیرہ خطرناگ تفرکات کی زد میں ہے
۴۔اقبالؒ کی شاعری کے بنیادی فکری پہلو کیا ہیں؟
جواب : علامہ اقبالؒ کی شاعری کے بنیادی فکری پہلو یہ ہیں کہ عالمی دنیا میں ہر سو انسانیت کا بول بالا ہوہر انسان دوسرے انسان کوانسان سمجھے نہ کہ حیوان۔ایک دوسرے کے سکھ دکھ کوبانٹے۔وہ چاہتے تھے ہر انسان کا دل ودماغ،تعصب،ذات پات،رنگ ونسل سے صاف وپاک ہو۔
۵۔انسان اور انسانیت کی فلاح کے لیے اقبالؒ کا پیغام کیا ہے؟
جواب:علامہ کا پیغام انسانیت کے لئے یہ ہے کہ انسانیت کی خدمت ہر سوں، ہرطرف ہو اور اس کے لئے ضروری ہے کہ انسانوں کے دل ودماغ، تعصب،ذات پات،رنگ ونسل،مشرق ومغرب،گورے وکالے و غیرہ بڑے تفرقات کی تمیزوں سے خالی ہو تب جاکے صحیح معنوں میں انسانیت کی جیت و خدمت ہوسکے گی
۶۔اس مقالے کا خلاصہ اپنے الفاظ میں لکھیے
جواب:خواجہ غلام السیدین کا یہ مقالہ بعنوانِ ”اقبال اور انسانیت“ ہماری درسی کتاب ”بہارستانِ اردو“ اردو کی دسویں کتاب کے حصے نثر میں شامل ہے اس مقالہ میں خواجہ غلام السیدین نے اقبالؒ کی اِ س فکر کو روشن کیا ہے جس میں وہ چاہتے ہیں کہ ہر طرف انسانیت کا بول بالا ہو۔اپنی مثنوی ”اسرارِ خودی“ میں لکھتے ہیں کہ میری مثنوی لکھنے کا مقصد اسلام کی وکالت کرنا نہیں ہے میں اصل میں ایک بہتر انسانی سماجی کی بقا چاہتا ہوں اقبالؒ نے اپنے کلام میں باربار ایک ایسے دل ودماغ والے انسان کی تصویر کھینچی ہے جو انسانی وحدت کی حقیقت کو سمجھ سکتا ہے اقبالؒ نے سائنس کی اہمیت کو بھی مانا ہے مگر اس کے نقصانات بھی بتائے اسی طرح ایک انسان اپنے وجود کو پہنچانے،دوسروں کے تئیں ذمہ داریاں سمجھے،اپنی تمام تر زندگی حق وصداقت،دیانتداری،ایمانداری وانصاف کے ساتھ گزارے۔یہی اصل خودی ہے علامہ اقبالؒ نے صالح انسان کی زندگی کے کیے جس چیز کو ضروری قرار دیا ہے وہ اپنی خودی کے ساتھ دوسروں کی خودی کا احترام کرے اور جس انسان میں یہ دونوں جمع ہوجائے تو پھر اس انسان میں خوداری صداقت،دیانت داری اور جرات کا مادہ پیدا ہوجاتا ہے اقبالؒکا یہ پیغام نہ نیا ہے نہ ہی انوکھا یہ باتیں پہلے دانشوروں نے بھی دہرائی ہیں الغرض اقبالؒ کا پیغام آفاقی ہے اوراس کو دنیا میں عام کرنے کی اشد ضرورت ہے کیوں کہ اقبالؒ جیسی شخصیت روز پیدا نہیں ہوتی ہے
۷۔جملوں میں استعمال کیجئے
خیال تلاش کرنا ٹھیس حامی
خیال:
ہمیں اپنی عزت کا سدا خیال رکھنا چاہیے
تلاش کرنا:
ہمیں کرونا وائرس کی دوا کی تلاش کرنی چاہیے
ٹھیس:
ہمیں کسی کے دل کو ٹھیس نہیں پہنچانی چاہیے
حامی:
ہمارا ہر حال میں اللہ ہی حامی و مدد گار ہے
۹۔ خواجہ غلام السیدین کی حالاتِ ذزندگی اور اُن کے کارناموں کا تذکرہ کیجیے
جواب: خواجہ غلام السیدین کی پیدائش پانی پت میں 16 اکتوبر1904ء کو ہوئی آپ کے والد صاحب کا اسمِ گرامی خواجہ غلام الثقلین تھا جن کا سلسلہ شجرہ نسب مولانا حامیؔ کے خاندان سے ملتا ہے اس لئے تعلیم سے لگاو ورثے میں ہی ملا تھاآپ پیدائشی ذہین اور محنتی تھے آپ میڑک سے بی اے (BA) تک امتحانات میں اپنے صوبے میں اول آئے۔ ائیسی ایس امتحان پاس کرنے کے بعد حکومت نے انگلستان بھیجااور وہاں پر آ پ نے ایم ایڈ(MED) کی ڈگری حاصل کی واپسی کے بعد ایڈمیسٹریٹر بننے سے بہتر ایک استاد بننا پسند کیا۔ علی گڑھ میں ایک انگلش اسکول کے پرنسپل مقرر ہوئے پھرٹیچرس ٹریننگ کالج کے پرنسپل کے عہدے پر اپنے مرائض انجام دیتے رہیں رام پور میں مشیر کی حیثیت کے طور پر کام کیاسرِ زمیں کشمیرمیں ڈاریکٹر تعلیم کا عہدہ بھی سنبھالا اس کے علاوہ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر اور مشیر کی حیثیت کے طور بھی کام کیا آ پ کا انتقال علی گڑھ میں 19 دسمبر 1971ء میں ہواپھرآپ کی تدفین جامعہ نگر کے قبرستان میں کی گئی
ادبی خدمات:
خواجہ غلام السیدین ایک تجربہ کار ماہرتعلیم تصور کئے جاتے ہیں آ پ جنتا اچھا لکھتے تھے اتنا ہی بہتر تقریر کر تے تھے آ ُپ کو انگریزی زبان پر زبردست دسترس حاصل تھی یہی وجہ ہے ابگریزی زبان میں زیادہ لکھا اردو میں ان کی تصنیفات ”روحِ تہذیب“ آندھی میں چراغ“”اصول ِ تعلیم“ وغیرہ قابلِ ذکر ہیں
۴۔مصنف کا حوالہ دے کر درج ذیل اقتناس کو سیاق وسباق کے ساتھ اپنے الفاظ میں لکھیے
اپنے دل اور دماغ کے دروازوں کو کھو ل دو۔تاکہ تعصب اور تنگ نظری اور نسلی حس کے جالے صاف ہو جائیں تاکہ انسان، انسان کو اس کے اصلی روپ میں دیکھ سکے تاکہ محبت،دھیمی روشنی اورٹھنڈی ہوا، بند غنچوں کو پھول بنادے،تاکہ انسان ایک دوسرے کا خون پینے کے بجائے ایک دوسرے کے دُکھ سُکھ کے ساتھی بننا سیکھیں، تاکہ علم ارو سائنس کی فتح مندوں نے انسان کو جو بے اندازقُوت بخشی ہے وہ انسان کی سیوا کے لیے تخلیقی جدوجہد کے لیے زندگی کی گود کو فراغت اور خوشحالی اور اطمینان سے بھر نے کے لئے استعمال ہوسکے۔یہی اقبال کی شاعری کا مرکزی پیغام ہے
جواب:
یہ اقتباس غلام السیدین کے مقالے ”اقبال اور انسانیت“ سے نکالا گیا ہے جو ہماری درسی کتاب”بہارستان اردو“’اردو کی دسویں کتاب‘کے حصے نثرمیں شامل ہے اس درجہ ذیل اقتباس میں اقبال کے پیغام کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ایک انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی دل کی بستی کو تعصب،تنگ نظری یعنی ہربرائی سے پاک کرے تب جاکے ایک انسان کو دوسرا انسان اُس کی اصلی شکل وصورت میں نظر آئے گا اور دنیا میں امن وسکون کی فضاقائم ہو جائیگی۔نفرتیں مٹ جائیں گی۔ایک انسان دو سرے انسان کا دکھ سکھ کا ساتھی بن جائے گا جب سائنس کی ایجادات انسان کی بربادی کے بجائے اس کی بھلائی و خوشحالی کے طو ر پرکام آئے گی اور اس طرح انسان کی اپنی ساری زندگی امن وسکون اورآ رام کے ساتھ گزر جائیں گی
۵۔صحیح جواب تلاش کیجیے
۱۔”آندھی میں چراغ“ کے مصنف کا نام ڈاکٹر اقبال،سرسید احمد خان،خواجہ غلام السیدین
جواب: خواجہ غلام السیدین
۲۔”کہکشاں“سے مراد ہے
ستاروں کا جھر مٹ
سیاروں کا مجمع
چاند کا چکر
جواب: ستاروں کا جھر مٹ
۳۔”مولانا حالی“جدید تعلیم کے مخالف تھے جدید تعلیم کے حامی تھے جدید تعلیم سے بے زار تھے
جواب:جدید تعلیم کے حامی تھے
۴۔”افسانہ“ ایسی نثری کہانی ہے جس میں
ٰٓایک یا ایک سے زیادہ کردار ہوسکتے ہیں ۔اشعار کاہونا ضروری ہے۔پلاٹ نہیں ہوتا ہے
جواب:ایک یا ایک سے زیادہ کردار ہوسکتے ہیں
۵۔”باغ وبہار“ ایک کہانی۔ ڈرامہ۔ داستان۔ ہے
جواب: داستان ہے
۶۔”خوشامد“ ایک افسانہ ۔ مقالہ ۔ انشائیہ۔ ہے
جواب: انشائیہ ہے
۶۔مضمون:
سائنس کے فائدے
سائنس کے نقصانات
سائنس کے فائدے
آج کا دور سائنس و انفامیشن ٹیکنالوجی کا دور کہلاتا ہے انسان کے ابتدائی دو ر سے نے آگ جلانا،پہیے کی ایجاد،گیہوں کے دانہ سے ز راعت وغیرہ سے اپنی ترقی کی شروعات کی جو اب تک نہ رکنے نہ تھمنے کا کہیں نام لیتی ہے ایک زمانہ وہ تھا جب ایک انسان خوابوں و خیالوں کی دنیا میں محو رہتا تھاجو پچھلے لوگوں کے خیالوں میں جو بات تھی وہ اب حقیقت بن گئی ریڈیو،ٹیلی ویژن موبائل و انٹر نیٹ نے انسان کی تو زندگی ہی بدل دی۔آج کے دور کے انسان کے لئے انٹر نیٹ کے بغیر زندگی گزارنا مشکل ہی نہیں بلکہ یہاں تک نا ممکن سی بن گئی ہے آ ئے روز سائنس کی بدولت انسان کے ذریعے ایسی ایسی ایجاداتیں و دریافتیں وجود میں آ تی رہتی ہیں کہ جن سے ایک انسان کی عقل دنگ ہو کر رہ جاتی ہے آ ج کی دنیا سائنس کی جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے گلوبل ولیج کی حیثیت اختیار کر گیا ہے دنیا کی پل پل کی خبروں وواقعات سے ایک انسان لمحہ بھر میں آگاہی حاصل کرپاتا ہے سائنس کا دعوی اب یہا ں تک بڑ ھ گیا کہ اگرایک انسان یہ بتا دے کہ دنیا میں اس کا م کے لئے کوئی مشین،اوزار یا کوئی اپلیکیشن نہیں بنی ہے تو ا یسے انسان کو انعام واقرام سے نوازا جائے گا
سائنس کے نقصات
یوں تو خالقِ ارض وسماں نے اس کائنات کو کس مقصد کے تحت تخلیق کیا ہوگا یہ انسان کے لیے صیغہ راز رہا۔مگر جوں جوں ان رازوں سے پردے اٹھتے گئے۔ انسان کی عقل وفہم دنگ ہو کر رہ جاتی ہے ربُ العالمین نے ہر چیز کے دو دو چیزیں بنائی ہیں تاکہ ایک انسان کی زندگی امن وسکون سے بسرہوجائے مثلاََ زمین و آسماں، چاند و سورج،رات ودن،مغرب ومشرق،شمال وجنوب، دائیں وبائیں، سچ و جھوٹ وغیرہ اسی طرح جہاں سائنس سے بے شمار،ان گنت فائدے و برکتیں حاصل ہوئیں ہیں وہی اس سے کائنات کو بے پناہ نقصانات سے دوچار ہونا پڑا۔آج سائنس کی ایجادات کی بدولت سے کرہ ارض کو کئی طرح کے خطرات لائق ہوئے ہیں دو ایٹم بم جو یکے بعد دیگرے ناگہ ساکی اور ہیرو شیما پر ڈالئے گئے ان کی تباکاریوں سے انسانی زندگی سنتے اور پڑھتے ہی لرز جاتی ہے پالیتھین کے بے شماراستعمال نے عالمی دنیاکو تباہی کے دہانے پر لاکے کھڑ اکردیا۔کل تک جن ندی نالوں کا پانی کھانے پینے کی چیزوں میں استعمال ہوتا تھا وہ پالیتھین کے غیر ضروری استعمال سے زہر بن گیا ہے ٹیلی ویژن، موبائل وانٹر نیٹ کے استعما ل نے جدید دور کے انسان کو فحش گوئی کی طرح دھکیل دیا ہے اب ہر انسان دوسرے انسان سے روٹھا روٹھا سا نظر آتاہے کسی میں کسی کے لئے نہ شفقت،نہ محبت،نہ ہی ہمدردی کا عنصر نظر آ تا ہے الغرض جہاں سائنس نے انسانی زندگی کو آسان سے آسان تر بنادیا وہی عالمی دنیا کو تباہی کے دہانے پر لاکے کھڑا کردیااب دنیا کے کئی ممالک کو ٹیکنالوجی یہاں تک حاصل ہوئی ہے اگر وہ چاہے تو اس دنیا کو ہی چند لمحات میں تباہ وبرباد کرسکتے ہیں
۷۔اسم تصغیر:
اسم تصغیر وہ اسم ہے جس میں چھوٹائی کے معنی پائے جائے مثلاََدیکچہ، پیالی،نالی وغیرہ
اسم تصغیر بنانے کا قاعدہ
کھبی کسی لفظ کے آخر میں، یا،ی،لی،لا،ڑا، ڑی، ط،،چی،ٹا ،ک بڑھادیتے ہیں جیسے پہاڑسے پہاڑی،
بہن سے بہنا،پاگل سے پگلا و غیرہ
اردو میں فارسی اسم تصغیر بھی مستعل ہیں جن کے آخر میں یچہ،چہ،یزہ، اور دک کی علامت موجود ہوتی ہے
مثلاََ صندوقچہ، باغیچہ ،مردک، پسرد وغیرہ
اسم تصغیر کے مختلف معنی
۱۔ چھوٹائی کے معنی میں۔ باغ سے باغیچہ، دیگ سے دیگچہ وغیرہ
۲۔ حقارت کے معنی میں ۔مرد سے مردوا، ٹٹو سے ٹٹوا وغیرہ
۳۔پیار اور محبت کے معنی میں۔ بہن سے بہنا، بھائی سے بھیا وغیرہ
مثال
لفظ لا حقہ اسم تصغیر لفظ لا حقہ اسم تصغیر
پہاڑ ی پہاڑی بہن ا بہنا
تھال ی تھالی ڈبہ ا ڈبہا
ڈال ی ڈالی انٹی ا انٹیا
نگر ی نگری بچھو ا بچھوا
مثال
کتاب چہ کتابچہ ڈول چی ڈولچی
صندوق چہ صندوقچہ دُم چی دمچی
طاق چہ طاقچہ بقچہ چی بقچی
دیگ چہ دیگچہ دیگ چی دیگچی
الگ الگ حروف کو حروف تہجی کہتے مثلاََ ا ب ت۔۔۔۔۔ے جب یہ حروف دو یا دو سے زیادہ ملتے ہیں تو لفظ بناتے ہیں اور جب دو یا دو سے زیادہ الفاظ آپس میں ملتے ہیں تو جملہ بنتا ہے
۸۔جُملہ:
دو یا دو سے زائد الفاظ کامرکب جس سے کہنے والے کا مطلب سننے والے کی سمجھ میں آ جائے جُملہ کہلاتا ہے جیسے مشتاق آیا، وغیرہ
مسند کے لحاظ سے جملے کی دو قسمیں ہیں ۱۔ جملہ اسمیہ ۲۔ جملہ فعلیہ
۱۔جملہ اسمیہ:
وہ جملہ ہے جس میں مسند اور مسند الیہ دونوں اسم ہوں جیسے احمد بیمار ہے ،راشد ڈاکٹر ہے وغیرہ
۲۔جملہ فعلیہ:
جملہ فعلیہ وہ جملہ ہوتا ہے جس میں مسند الیہ، اور مسند فعل ہو جیسے بشیر کھیلتا ہے، احمدہنستا ہے وغیرہ
کسی چیز کو کسی دوسرے کے لئے ثابت کرنا جیسے ”مشتاق آیا“ اس میں ”آیا“ مشتاق کے لیے ثابت کیا گیا ہے جسے ثابت کیا جائے وہ ”مسند“ کہلاتا ہے اور جس کے کیے ثابت کیا جائے ”مسند الیہ“ کہلاتا ہے اور اسی طرح”بشیر کھیلتاہے“ میں بشیر ”مسند الیہ“ اور کھیلتا”مسند“ ہے۔ یاد رہے مسند، اسم اور فعل دونوں ہوسکتے ہیں جبکہ مسند الیہ ہمیشہ اسم ہی ہوتاہے
اسم:
ایسے الفاظ جوکسی بھی چیز،جگہ یا جاندار کا نام بتائیں اسم کہلاتے ہیں جیسے کتاب، میز دہلی وغیرہ اسم پہنچانے کی ایک بڑ ی پہنچان یہ ہے کہ انسان جو کچھ آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے یا جسم سے چھو سکتا ہے یا محسوس کرسکتا ہے عموماََ اسم ہی ہوتے ہیں جیسے ”کتاب“” میز“ انسان اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے مگر اس کے برعکس ”سردی“ ”گرمی“ کو محسوس کرسکتا ہے یاد رہے اسم کی اپنی نوعیت کے حساب سے کئی اقسام ہیں جن کے اپنے اپنے نام ہیں
معنوں کے لحاظ سے جملے کی دو قسمیں ہیں
۱۔ جملہ انشائیہ
۲۔ جملہ خبریہ
۱۔ جملہ انشائیہ :
وہ جملہ ہوتا ہے جس میں فعل امر، فعل نہی،سوال،تعجب،انبساط،تمنا وغیرہ پائی جائے جیسے نماز پڑھ(امر)،جھوٹ نہ بھول(نہی)،آپ کا کیانام ہیں؟(استفہام یا سوال)،کاش! کرونا وائس کا علاج نکلتا(تمنا) وغیرہ
۲۔ جملہ خبریہ :
وہ جملہ جس میں کسی بات کی خبر دی جائے اور بولنے والے کے لئے سچا یا جھوٹاکہہ سکیں ۔ جملہ اسمیہ کی دوقسمیں ہیں
۱۔جملہ اسمیہ خبریہ
۲۔ جملہ فعلیہ خبریہ
۱۔جملہ اسمیہ خبریہ:
وہ جملہ ہے جس میں مسند اور مسند الیہ دونوں اسم ہوں مثلاََ شبیر چالاک ہے وغیرہ اس مثال میں شبیر ’اسم‘ مسند الیہ ہے جبکہ چالاک’اسم صفت‘ مسند ہے
جملہ اسمیہ کے اجزاء: ۱۔اسم یا مبتدا ۲۔متعلق فعل ۳۔خبر ۴۔فعل ناقص وغیرہ مثلاََمشتاق بیمار ہے مشتاق(اسم یا مبتدا) بیمار(خبر) اور۔ ہے (فاعل نقص)
جملہ فعلیہ کے اجزاء: ۱۔ فعل ۲۔ فاعل ۳۔ مفعول ۴۔متعلق فعل ۵۔ علامت فاعل ۶۔ علامت مفعول وغیرہ مثلاََ بشیر دوڈتا ہے بشیر(فاعل) ،دوڈتا(فعل) ، ہے (فعل ناقص)
جملہ فعلیہ میں مسند الیہ کو فاعل کہا جاتا ہے اور مسند میں فعل اور مفعول کا ذکر کیاجاتا ہے
ترکیب نحوی:جملے کے اجزاء کو الگ الگ کرنا اور ان کے باہمی تعلق کو ظاہر کرنا ترکیبِ نحوی کہلاتا ہے
۹۔ نیچے دیے ہوئے جملوں میں سے جملہ اسمیہ اور جملہ فعلیہ الگ الگ کریں
مقصوردوڑتا ہے حمید نادان ہے محبوب نے گانا گایا خورشید چالاک ہے اشرف کھیلتا ہے رمیش نے پانی پیا کواکالا ہے
جواب: جملہ اسمیہ:حمید نادان ہے،
خورشید چالاک ہے
کواکالا ہے جملہ فعلیہ:محبوب نے گانا گایا
اشرف کھیلتا ہے
رمیش نے پانی پیا
0 تبصرے