ڈاکٹر سر محمد اقبال ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔جگنو



ڈاکٹرسرمحمد اقبال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جگنو
سوال: -ڈاکٹرسرمحمد اقبال کی حالاتِ زندگی اور شاعر ی پر ایک نوٹ لکھیے؟
جواب حالاتِ زندگی:-
ڈاکٹرسرمحمد اقبال کی پیدائش سیالکوٹ میں 9 نومبر1877ءمیں بروزجمعہ کوہوئی آپ کے والدصاحب کا اسمی گرامی نورمحمد تھا آپ کی والدہ محترمہ کا نامی مبارک امام بی بی تھا آپ کے آباواجدار کشمیر سےہجرت کر کےسیالکوٹ میں سکونت پزیر ہوئے آپ نے ابتدائی تعلیم ایک مکتبہ سے حاصل کی بعد میں سکاچ مشن اسکول میں داخلہ لیا جہاں میرحسن سے عربی اور فارسی کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی دسویں اور انٹرمیڈیٹ جماعتوںکےامتحانات پاس کرنےکےبعدگورنمنٹ کالج لاہورسے گریجویشن کی ڈگری حاصل کی ۔اس کے بعد پنجاب یونیورسٹی سے فلسفہ میں پوشٹ ڈگری حاصل کرکےاول پوزیشن حاصل کی۔اورنٹیل کالج لاہورمیں تاریخ اورفلسفہ پڑھانےکے پروفیسرمقرر ہوئے اس کے بعد پی ۔ایچ ۔ڈی اوربیرسٹری کی ڈگریاں جرمنی اور انگلینڈ سے حاصل کی واپس آکر لاہور میں وکالت کا پیشہ اختیار کیا حکومت نے ان کی خدمات ے عوض سر کے خطاب سے سرفراز کیا ۔عمر کےآخری ایام میں آپ کئی بیماریوں کےشکارہوگئے کافی علاج ومعالجہ کروایا لیکن مکمل صحت یاب نہ ہوسکے آخر61 سال کی عمر پا کے اس فانی دنیا سے 1938 ء میں لاہو ر میں انتقال فرماگئے شاہی مسجد لاہور کے احاطہ میں آپ کو سپرد لحد کیا گیا

شاعری :ـ
علامہ شاعرمشرق کے نام سے زبان زد عام ہے آپ ایک عالمگیر شاعر ہے آپ اردو وفارسی کے ایک عظیم شاعر تصور کئے جاتے ہیں آپنے اردو اورفارسی میں شاعر ی کو نیئ جہتوں سے آشناس کروایا آپ کی شاعری فلسفہ سےبھرپور ہے اسی طرح آپ شاعری میں مقصدیت کے قائل ہیں شاعر ی میں عمل کا پیغام عال ملتا ہے شاعر ی میں قافیہ پیمانی کو ثانوی او تاثیر کو اول درجہ دیتے ہیں شاعر ی میں داغ دہلوی سے اصلاح لیتے رہے اورمرزا غالب کی بھی پیروی کی آپ مغرب کی اندھی تقلید سے بیزار تھے اقبال کے شعری مجموعےمیں بانگِ درا، بال جبرئیل، ضرب کلیم اور ارمغان ِحجاز قابلِ ذکر ہیں
جگنو
جگنو کی روشنی ہے کاشانہ چمن میں
یا شمع جل رہی ہے پھولوں کی انجمن میں
کاشانہ:ـ آشیانہ، رسیوں کا گھر،جھوپنڑا، انجمن :- بزم ، محفل
علامہ اقبال اس نظم کے شعرمیں فرماتے ہیں کہ جگنو کی روشنی چمن کےآشیانہ میں اس طرح جل رہی ہے جیسے کہ پھولوں کے باغ میں کوئی شمع جل رہی ہے
آیا ہے آسماں سے اُڑ کر کوئی ستارہ 
یاجان پڑ گئی ہے مہتاب کی کرن میں
مہتاب :- چاند، کرن :- روشنی
اقبال اس نظم کے شعر میں ارشاد فرماتے ہیں جگنو کی کیا بات ہےلگتا ہے کہ جیسے آسمان سے کوئی روشن ستارہ اُ ڑ کے چمن میں آیا ہے یا یہ سمجھیے کہ جیسےچاند کی چاندنی میں نئی جان پڑگئی ہے
یا شب کی سلطنت میں دن کاسفیر آیا
غربت میں آکے چمکا گمنا م تھا وطن میں
شب :- رات، سفیر:- قاصد،ایلچی
اس نظم کے شعرمیں اقبال فرماتے ہیں جگنو کی مثال ایسی ہے جیسا کہ رات کی تاریکی میں کوئی دن کی خبر لانے والا کوئی ایلچی آیا ہے یہ معمولی سا کیڑا پھولوں کےچمن میں ایسے چمکنے اس سےپہلے اپنےہی وطن میں جیسے کہ کھویا ہوا تھا
تکمہ کوئی گرا ہے مہتاب کی قبا کا
ذرہ ہےیانمایاں سورج کے پیرہن میں
تکمہ:-کُھنڈی، کپڑے یا دھاگے کا وہ بٹن جس سے گریباں بند کیاجاتا ہے ، قبا :- ایک طرح کا کوٹ جو آگے سے کھلا رہتا ہے ، پیرہن : -لباس 
اقبال جگنو کے بارے میں اس شعرمیں یوں فرماتےہیں کہ جیسےجگنو چاند کے لباس کا کوئی ایک بٹن ہے یا سورج کے لباس میں کوئئ چیزچمک دمک رہی ہے
حُسن قدیم کی یہ پوشیدہ اک جھلک تھی
لے آئی جس کو قدرت خلوت سے انجمن میں
پوشیدہ :-غائب ، خلوت: - تنہائی
نظم کے اس شعر میں اقبال فرماتےہیں کہ جگنو حسنِ ازل کی ایک پوشیدہ جھلک کی مانند ہے جسے قدرت نے تنہائی سے نکا ل کر محفل میں لایا ہے
چھوٹے سےچاند میں ہے ظلمت بھی روشنی بھی
نکلا کھبی گہن سے آیا کھبی گہن میں
ظلمت: - اندھیرا، گہن:- گرہن
اقبال اس نظم کےشعرمیں جگنو کو ایک چھوٹا چاندکہ کر کہتا ہے کہ یہ چھوٹا سا چاند کھبی چمکتا ہے کھبی چھپ جاتا ہے یہی اس چھوٹے سےمخلوق کاوصف ہے
پروانہ اک پتنگا جگنو بھی اک پتنگا
وہ روشنی کا طالب یہ روشنی سراپا
طالب: - مشتاق،متلاشی
اقبال اس شعرمیں پروانہ اورجگنو کا موازنہ کرکے فرماتے ہیں اگر چہ یہ دونوں مخلوق پتنگے ہی ہیں مگر قدرت نے ان میں کتنا فرق واضح رکھا ہے پروانہ شمع کی روشنی کے ادرد گرد گھومتا رہتا ہے مگرجگنوکو روشنی کےپیچھے نہیں بھاگنا پڑتا ہے کیوں کہ اللہ نے جگنو کے اند ر ہی روشنی رکھی ہے
ہرچیز کو جہاں میں قدرت نے دلبری دی
پروانہ کو تپش دی جگنو کو روشنی دی
تپش:- گرمی، دلبری:- دل کو موہ لینے والی چیز،کشش
نظم کے اس شعرمیں اقبال فرماتے ہیں کہ قدرت نے دنیا میں ہر شے میں کوئی نہ کوئی صفت وخاصیت رکھی ہے اسی طرح جگنو کو قدرت نے روشنی اور پروانہ کے نصیب میں شمع کی روشنی سے جلناعنایت کیا ہے
رنگین نوا بنایا مُر غان ِ بے زماں کو
گُل کو زبان دےکر تعلیم خامشی دی
رنگین نوا: - رنگین، آواز یعنی دل کو خوش کرنے والی آواز،
اقبال اس نطم کے شعر میں ارشاد فرماتےہیں کہ قدرت نے بے زبان جانوروں کوکتنی کتنی خوبصورت آوازوں سے نوازا ہے اسی طرح پھولوں کومہک اور خوبصورتی عطا کر کے خاموشی سے اپنا حسن بیان کرنا سکھایا ہے
نظارہ شفق کی خوبی زوال میں تھی
چمکا کے اس پری کو تھوڑی سی زندگی دی
شفق :- غروب سورج کے وقت آسمان پرنمودار ہونے والی سرخی
اقبال اس نظم کے شعر میں فرماتےہیں کہ جب سورج غروب ہوتاہے تو یہ وقتِ شفق کا نظارہ نہایت حسین وجمیل ہوتا ہے ایسا لگتا ہے جیسے کہ کوئی پری سرخ کپڑے پہنے ہوئے دیداردے رہی ہو
رنگین کیا سحر کو بانکی دلہن کی صورت
پہنا کے لال جوڑا شبنم کی آرسی دی
بانکی:-پیاری ، سجیلی،آرسی:-وہ زیورجوعورتیں ہاتھ کے انگھوٹھے میں پہنتی ہیں اس میں شیشہ جُڑا ہوتا ہے
نظم کے اس شعرمیں اقبال فرماتےہیں کہ جگنو کی بدولت سحر اس قد رنگین اور تازہ ہوتی ہے جیسے کوئی نئی نویلی دلہن سرخ رنگ کا لباس پہنا ہوئی ہے اوراس پر شبنم کے زیور سجائے ہوئےہیں
سایہ دیا شجر کو پرواز دی ہوا کو
پانی کو دی روانی موجوں کو بے کلی دی
بےکلی:- بے قراری ، بےچینی
اس نظم کے شعرمیں اقبال فرماتے ہیں کہ اللہ نے درختوں کو چھاؤں اورہوا کو پرواز عطا کئےاسی طرح پانی کو روانی کی رفتاراور اس کی لہروں میں بے قراری رکھ کرحرکت دے دی
یہ امتیاز لیکن اک بات ہےہماری
جگنو کا دن وہی ہے جو رات ہے ہماری
امتیاز:-فرق
شاعر مشرق علامہ اقبال فرماتےہیں کہ تمام مخلوقات کے لئے دنیا کا دن، دن اور رات  رات ہوا کرتی ہے جب کہ اس کے برعکس جگنو کےلئے اس کا اُلٹ ہوتا ہے یہ سبب اس وجہ سے ہے کہ اللہ نے اسے ایک الگ چیز سے نوازا وہ اس کی روشنی ہے
حسنِ ازل کی پیدا ہرچیز میں جھلک ہے
انسان میں وہ سخن ہے غنچے میں وہ چٹک ہے
حسن :- خوبصورتی، ازل:- وہ زمانہ جس کی کوئی ابتدانہ ہو، جھلک :- پرتو ،سخن: کلام , غنچہ: - بن کھلا پھول، چٹک:چمک دمک ،پھول کھلنے سے جو آواز پیدا ہوتی ہے اسے چٹک کہتے ہیں
علامہ اقبال اس نظم کے شعرمیں ارشاد فرماتےہیں کہ اللہ پاک نے کائنات کے ہرذرے میں اپنے جھلوے رکھے ہیں اور یہ زمانہ ازل سے موجود ہیں دیکھو اللہ تعالیٰ نے انسان میں قوت گونائی رکھی ہے اسی طرح پھولوں کی کلیوں میں چمک ودمک و چٹک رکھی ہے
یہ چاند آسماں کا شاعر کا دل ہے گویا
واں چاندنی ہےجو کچھ یاں درد کی کسک ہے
کسک: - ہلکا سا درد، یاں: - یہاں ،واں :- وہاں
اس شعرمیں شاعرمشرق علامہ اقبال فرماتےہیں کہ انسان کا دل چاند جیسا ہے جس طرح چاند سے چاندنی ہے اسی طرح انسانی دل میں درد کی کسک موجودہے
اندازِ گفتگو نے دھو کے دیئے ہیں ورنہ
نغمہ ہے بوے بلبل بو پھول کی چہک ہے
اس نظم کے اس شعرمیں علامہ اقبال فرماتےہیں کہ اگرچہ بلبل اورپھول کی انداز گفتگو الگ الگ ہیں یوں تو بلبل پھول پرفریفتہ ہو کرنغمہ سے اپنی محبت کا ظہار کرتا ہے اور پھول اپنی خوشبو سے ہی اپنی محبت کا اظہار کرتا ہے
کثرت میں ہوگیا ہے وحدت کا راز مخفی
جگنو میں جو چمک ہے وہ پھول میں مہک ہے
مخفی:- پوشیدہ،
اقبال اس نظم کے شعر میں ارشاد فرماتےہیں کہ وحدت میں ہی کثرت کا راز پوشیدہ ہے جگنوکی روشنی اور پھول کی مہک دراصل ایک ہی چیز ہے
یہ اختلاف پھر کیوں ہنگاموں کا محل ہو
ہر شے میں جب کہ پنہاں خاموشی ازل ہو
پنہاں: - پوشیدہ ، ہنگامہ :- شورش ، ازل :- وہ زمانہ جس کی کوئی ابتدا نہ ہو
اس شعر میں علامہ اقبال سوالیہ انداز سے پوچھتے ہیں کہ جب ازل سے ہر شے میں اللہ تعالیٰ کی وحدنیت کا رازپوشیدہ ہےتوکیوں کریہ دنیا لڑائیوں و جھگڑوں کا مسکن بن گیا ہے 
2۔ توضیحات
اللہ تعالی نے دنیا کی ہر چھوٹی بڑی چیز کو خصو صیتوں سے نوازا ہے جگنو ہو یا پروانہ چاند ہو یا بلبل پھول ہو یا شبنم کوئی بھی چیز فضول نہیں ہے مخلوقات کو امن وامان او اخوت کےلیمے پیدا کیا گیا ہے ڈاکٹرسرمحمد اقبال کی نظم جگنو میں وحدت کا راز سمجھایا گیا ہے اس نظم میں خوبصورت مثالیں دی گئی ہیںاورقابل غور تشبیہیں بھی ہیں
3۔ سوالات نظم جگنو کا خلاصہ مختصر الفاظ میں لکھیے؟
جواب -شاعرمشرق علامہ اقبال نے اپنی "جگنو"میں کثرت کےفلسفےکوبیان کیاہے جگنو کی خوبصورتی کو بیان کرتے ہوئے اس میں مختلف چیزوں سےتشبیہ دیتا ہےکھبی  پھولوں کی محفل کی شمع ، تو کھبی سورج کے لباس کادمکتا حصہ بتاتا ہےکھبی اسے رات کی سلطنت میں دن کا سفیرکہا ہے کھبی چھوٹا سا چاند کہتا ہے پھر شاعر پروانے او ر  جگنو کا موازنہ کرتا ہے کہتے ہیں پروانہ شمع کی روشنی پر اپنی جان نچھاورکرتا ہے مگر دوسری طرف جگنومیں قدرت نےجسم کے اندرہی قدرت نے روشنی انتظام رکھا ہے خدا ہر پیدا کی ہوئی شے میں کوئی نہ کوئی تاثیر و اثر رکھا ہے جس سے اس کی اہمیت بڑھ جاتی ہے بے زبان پرندوں کومیٹھی میٹھی بولیوں سے نوازا ہے تو دوسری طرف پھولوں کو خوبصورتی اور مہک سے مالا مال کردیا ہےصبح کا منظر نہایت حسین اورشام کے وقت سورج کا ڈوبنا بھی عجیب منظر پیش کرتا ہے ہماری لئے دن دن ہےمگرجگنوکےلئے رات ہی دن ہوتا ہے یہ سب اللہ کے کرشمےہیں
کائنات کے ہرچیز میں اللہ کے حسن کی جھلک موجود ہے انسان میں اگر بولنے کی صلاحیت ہے تو کلی میں چٹک موجود ہے پھول اور بلبل بھی الگ اور جد ا نہیں ہیں ددنوں صفتیں خداوندی کااظہا ردیتی ہیں دنیا کی ہر شےاللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر ہیں  یعنی ہر چیز میں خدا کا حسن موجود ہے جس کا مطلب کثرت میں وحدت کا راز پنہاں ہےتوپھرکیوں ایسا ہوتا ہے کہ ظاہری اختلاف کی بنیادوں پرجھگڑے کئےجاتے ہیں جبکہ کثرت میں وحدت کاراز پوشیدہ ہے تو پھردینا کے لوگ کوایک ہونا چاہیے اورآپس میں اتفاق سےرہنا چاہیے
2۔ تشریح کیجئے 
رنگین نوا بنایا مُر غان ِ بے زماں کو
گُل کو زبان دےکر تعلیم خامشی دی
رنگین نوا: - رنگین، آواز یعنی دل کو خوش کرنے والی آواز،
اقبال اس نطم کے شعر میں ارشاد فرماتےہیں کہ قدرت نے بے زبان جانوروں کوکتنی کتنی خوبصورت آوازوں سے نوازا ہے اسی طرح پھولوں کومہک اور خوبصورتی عطا کر کے خاموشی سے اپنا حسن بیان کرنا سکھایا ہے
ہرچیز کو جہاں میں قدرت نے دلبری دی
پروانہ کو تپش دی جگنو کو روشنی دی
تپش:- گرمی ، دلبری :- دل کو موہ لینے والی چیز،کشش
نظم کے اس شعر میں اقبال فرماتے ہیں کہ قدرت نے دنیا میں کوئی نہ کوئی صفت و خاصیت دے دی ہیں اسی طرح جگنو کو قدرت نے روشنی اور پروانہ کے نصیب میں شمع کی روشنی سے جلنا عنایت کیا ہے
3۔ شاعر نے کیوں کہا ہے ؟
سنِ ازل کی پیدا ہرچیز میں جھلک ہے
انسان میں وہ سخن ہے غنچے میں وہ چٹک ہے
حسن:- خوبصورتی، ازل:- وہ زمانہ جس کی کوئی ابتدانہ ہو ، جھلک: - پرتو ،سخن : - کلام , غنچہ :- بن کھلا پھول، چٹک: - چمک دمک ،پھول کھلنے سے جو آواز پیدا ہوتی ہے اسے چٹک کہتے ہیں
علامہ اقبال اس نظم کے شعرمیں ارشاد فرماتےہیں کہ اللہ پاک نے کائنات کے ہرذرے میں اپنے جھلوے رکھے ہیں اور یہ زمانہ ازل سے موجود ہیں دیکھو اللہ تعالیٰ نے انسان میں قوت گونائی رکھی ہے اسی طرح پھولوں کی کلیوں میں چمک ودمک و چٹک رکھی ہے
4۔ "وحدت میں کثرت " سے کیا مُراد ہے؟
جواب : -" وحدت میں کثرت " سے مرادیہ ہے کہ دنیا کی مختلف چیزیں الگ الگ ہونےکے باوجود ان میں ایک ہی طرح کا وصف پایا جاتا ہے یعنی وہ ایک اللہ ہونے کی دلالت کرتی ہیں جس طرح باغ میں مختلف رنگ کے پھول پائے جاتے ہیں مگر یہ پھول ایک باغ کے شمار کئے جاتے ہیں
5۔ ان اشعار میں تشبیہیں تلاش کیجیے؟
تکمہ کوئی گرا ہے مہتاب کی قبا کا
ذرہ ہےیانمایاں سورج کے پیرہن میں
تکمہ:-کُھنڈی، کپڑے یا دھاگے کا وہ بٹن جس سے گریباں بند کیاجاتا ہے ، قبا :- ایک طرح کا کوٹ جو آگے سے کھلا رہتا ہے ، پیرہن : -لباس
اقبال جگنو کے بارے میں اس شعر میں یوں فرماتےہیں کہ جیسے جگنوچاند کے لباس کا  کوئی ایک بٹن ہے  یا سورج کے لباس میں کوئئ چیز چمک دمک رہی ہے
رنگین کیا سحر کو بانکی دلہن کی صورت
پہنا کے لال جوڑا شبنم کی آرسی دی
بانکی :-پیاری، سجیلی، آرسی :- وہ زیورجوعورتیں ہاتھ کے انگھوٹھے میں پہنتی ہیں اس میں شیشہ جُڑا ہوتا ہے
نظم کے اس شعرمیں اقبال فرماتےہیں کہ جگنوکی بدولت سحر اس قدررنگین اور تازہ ہوئی ہے جیسے کوئی نئی نویلی دلہن سرخ رنگ کا لباس پہنا ہوئی ہے اوراس پر شبنم کے زیورسجائے ہوئےہو

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے