
اولوالعزمی ۔۔۔۔۔۔۔ محمد حسین آزادؔ
سوال:-محمد حسین آزاد ؔ کی حیات اور شاعری پر ایک نوٹ لکھیے؟
جواب حالات ِ زندگی :-
محمد حسین آزاد ؔ کا اصلی نام محمد حسین تھا اورتخلص آزاد تھا آپ کی ولادت دہلی میں 1830ء میں ہوئی باپ کا نام محمد باقرتھا ہوش سنبھالتے ہی والد نے ذوقؔ کی شاگردی میں ڈال دیا اسی شادگردی نے آزادؔ کو ایک باکمال شاعر بنا دیا 1857ء کے ہنگامہ میں آپ کے والد انگریزوں کے ہاتھوں پھانسی دے کر مارے گئے پھرگھر بار لُٹ گیا آزاد کو بُرے دن دیکھنے پڑے آپ نے لاہور کی طرف ہجرت کی وہاں محکمہ تعلیم میں پندرہ روپے ماہوار تنخواہ پرملازمت کی ۔علمی خدمات انجام دینے کے لئے آپ نے بخارا ، کابل اور ایران کا سفر کیا کچھ مدت تک آپ پنجاب کے ایک سرکاری اخبار" اتالیق پنجاب" کے اڈیٹربھی رہے اس کے بعد آپ پھرلاہور کے سرکاری کالج میں عربی کے پروفیسرمقررہوئے1887ء میں ملکہ وکٹوریہ کی پہلی جوبلی پرآپ کو شمس العلماء کا خطاب ملا۔ اپنی بیٹی کی موت پراپنا ذہنی توازن کھو بیٹھے اورعمر کے بیس سال اسی بیماری میں بیت گئے آخرکار1910ء میں اسی بیماری کے سبب وفات پا گئے
شاعری: -
شمسُ العلماء محمد حسین آزاد کوجدید نظم کا بانی اورمجدد کہا جاتا ہے کیوں کہ عنوانی نظم نگاری اور نیچرل شاعری کی ابتداء ان ہی کے ہاتھوں ہوئی ۔آپ کی تحریک پر ہی " انجمن پنچاب " کی بنیاد پڑی اورایک نئی طرح کے مشاعروں کی بنیاد رکھی گئی ان مشاعروں میں مختلف موضوعات پر نظمیں لکھوائی جاتی تھیں آپ نے" آب حیات "جیسی کتاب لکھ کراردوادیبوںاور شاعروں کی سوانح حیات کو محفوظ کر دیا ے اس کے علاوہ " نیرنگِ خیال" "سخندانِ پارس"اور"درباراکبری "جیسی کتابیں " لکھ کر آپ نے اپنی قابلیت کا لوہا منوایا ہے
اولُوالعزمی
ہے سامنے کھلا ہوا میداں چلے چلو
باغِ مراد ہے ثمر افشاں چلے چلو
دریا ہو بیچ میں کہ بیاباں چلے چلو
ہمت یہ کہہ رہی ہے کھڑی ہاں چلے چلو
چلنا ہی مصلحت ہےمری جاں چلے چلو
باغِ مراد: - تمنا کا باغ ،خواہشات کا باغ ، ثمر:- پھل،افشاں:- چھڑکنا ،طلائی، بیاباں:- جنگل، مصلحت:- اچھا مشورہ
یہ بند محمد حسین آزادؔ کی نظم " اولوالعزمی" سے نکالا گیا ہے اس بند میں شاعر دنیا کے نوجوانوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اے نوجوانوں تمہارے سامنے پوری دینا کی منزلیں اور راہیں کھلی ہوئیں ہیں آپ ہمت کر کے آگے بڑھتےجاؤں چاہیے راستے میں کوئی دریا رکاوٹ بنے آپ بیابانوں کی را ہ لےکرمنزل تک بڑھتے جاؤں زندگی میں آگے بڑھنا ہی کامیابی کی نشانی ہے
ہمت کے شہسوار جو گھوڑے اٹھائیں گے
دشمن فلک بھی ہوں گے تو سر کو جھکائیں گے
طوفان بلبلوں کی طرح بیٹھ جائیں گے
نیکی کےروز اُٹھ کےبدی کودبائیں گے
بیٹھو نہ تم مگر کسی عنواں چلے چلو
ہمت :- حوصلہ ،شہسوار :-گھوڑے کی سواری کا خوب جاننے والا ، فلک: - آسمان
نظم کے اس بند میں آزادؔ نوجوانوں کو ہمت دے کر فرماتے ہیں دینا کے جو لوگ ہمت اور حوصلےسے کام لیتے ہیں آسمان بھی اگر دشمن ہوتو وہ با ہمت لوگوں کے آگے سرخم تسلیم کرتےہیں اور بڑے بڑے طوفان بھی پانی کے بلبلوں کی طرح چند منٹوں میں ختم ہوجاتے ہیں برائی بھی نیکیوں میں تبدیل ہوجاتی ہےاے دنیا کے نوجوانوں اپنی زندگی کا مشن زندگی میں آگے بڑھنا نناو اور کامیابی کے قلعے طے کرتے جاؤں
رکھو رفا ہِ قوم پہ اپنا مدارتم
اور ہو کبھی صلے کے نہ امید وار تم
عزت خدا جو دیوے تو پھر کیوں ہو خوار تم
دورُخ کو آپ فخر سے رنگ بہار تم
گلشن میں ہو کےبادِ بہاراں چلے چلو
رفاہِ :- آرام سے زندگی گذارنا،مدار: -جس پرکوئی چیز ٹھہری ہوانحصار، صلے :- بدلہ ، خوار: - بےعزت ،باد : -ہوا
نظم کےاس بند میں شاعرپھرانسانیت سے مخاطب ہوکرارشاد فرماتےہیں کہ اے د نیاکے نوجوانوں تم دنیا کے لوگوں کی ،انسانیت کی خدمت انجام دیتے رہو اسی میں تمہاری بھی کامیابی و کامرانی ہے مگر خدمت کے بدلے دینا کے لوگوں سے بدلا لینے کی کوئی توقعہ نہ رکھنابلکہ معاوضہ کی طلب خدائی تعالی سے ہی رکھنا کیوں عزت او ربےعزتی دینااللہ کے بس میں ہیں اچھے بنوں او راچھے ہی کی توقعہ رکھوں اسی پہ دنیاکی اجڑی بستی پھر آباد و شاداب ہوجائےگی
آؤ سفید و سیاہ کا فعل حساب ہے
چمکا یا چہرہ صبح نے با آب و تاب ہے
ظلمت پہ نورہونے لگا فتحیات ہے
اورشب کےپیچھے تیغ بہ کف آفتاب ہے
تم بھی ہو آفتاب درخشاں چلے چلو
سفید و سیا ہ :- اچھے اور برے کام ، فعل :-کام ، ظلمت : - اندھیرا ، نور: -روشنی ، فتحیات: -کامیابی ، تیغ :- شمشیر، کف:- ہاتھ کی ہتھیلی، درخشاں :-روشن
نظم کےاس بند میں شاعرفرماتےہیں کہ اچھے اور بُرے کاموں کا حساب اب دینا ہوگا صبح کی آمد نے بھی دن کو روشن اور پر نور بنایا ہےرات کی تاریکوں کو بھی سورج کی روشنی نے دورکردیااوررات کےپیچھےآفتاب روشنی کی تلوار لےکر کھڑی ہوچکی ہے اور اے دنیا اورملت کے نوجوانوں تم بھی دنیا سےجہالت کو دور کرنے کے لئے کام کرتےرہو
نیکی بدی کے دیر سے باہم تھے معرکے
اب خاتموں پہ آگئے ہیں ان کے فیصلے
قسمت کے یہ نوشتے نہیں جو نہ مٹ سکے
وہ گونجا طبلِ فتح کہ میدان کےلئے
کرنائے جنگ کی ہے یہ الحاں چلے چلو
معرکے :- لڑائیاں، نوشتے: - لکھی ہوئی تحریریں، طبل:-ڈھول، گونجا:- آواز
نظم کےاس بند میں شاعرنوجونوں کو ہمت باندھ کر فرماتے ہیں کہ دنیا میں حالات اب تیزی سے بدل رہے ہیں کیوں بہت مدت سے نیکی اور بدی کی لڑائی چل رہی ہے بہت قریب ہےکہ نیکی بدی پر کامیابی کی مہر ضبط کرے گی یہ ایسا نہیں کہ یہ باتیں ازل سے ہی تمہاری تقدیرمیں لکھی جاچکی ہیں جن کو نہ مٹایا جاسکے گا دیکھو دنیا میں جیت کے ڈھول بجنے لگلے ہیں کیوں جب انسان بدی کے خلاف لڑے گا توجیت نیکی کی ہو کے ہی رہے گی
درسی سوالات
2۔ توضیحات
1۔ الوالعزمی: - اعلیٰ،ہمتی،اعلیٰ مرتبہ ،عزت دار
2۔ باغِ مراد :- باغ مراد کے معنی تمناؤں کے باغ کے ہیں
3۔ باغ ِمراد مرکب استعارہ ہے استعارہ کے بارے میں اپنے استاد سے پوچھ لیجئے نوشتے ہوتحریریں ہیں جوکہ خدا وند کریم نے لکھی ہیں انسان کی تقدیر جس میں لکھا ہوا ہے کہ وہ آئندہ کی زندگی میں کیا پائے گا جو لوگ تقدیر میں یقین رکھتے ہیں اُ ن کانظریہ ہے کہ انسان جو چاہتا ہے وہ ہو نہیں سکتا ہے اور جو خُدا چاہتا ہے وہی ہوجاتاہےانسان مجبورِ محض ہے
4۔ نیکی اوربدی ایک مذہبی تصور ہےانسان مرنے کے بعد اپنے کرموں کی بنا پرپھل پائے گا اگر اُ س نے نیکی کی ہوتو جنت کا مستحق ہوگا اگر بدی کی ہوگی تو اس کےلئے جہنم ہوگا
5۔ سفید و سیا ہ -یہ تصور دنیاوی ہے لیں دین کا تصور ہے کاروبار میں استعمال ہوتا ہے جہاں نفع بھی ہوتا ہے اورنقصان بھی
3۔سوالات
1۔ اس نظم کا موضوع کیا ہے ؟
جواب:اس نظم کا موضوع" اولوالعزمی" ہے
2۔ اس نطم کا خلاصہ بیا ن کیجیے۔؟
جواب :- یہ نظم " اولوالعزمی "محمد حسین آزاد ؔ کی لکھی ایک بہترین نظم ہے اس نظم میں آزادؔ نوجواناں ملت سے مخاطب ہو کر لکھتے ہیں کہ اے نوجوانوں تمہارے سامنے پوری دینا کام کرنےکے لئے پڑی ہوئی ہےتمہیں صرف منزل کی جستجو میں رہنا چاہیے اگرتمہاراراستہ دریا روکے تو بیابانون میں اپنی منزل کی تلاش میں سرگرم رہو یاد رکھو جو لوگ ہمت سے کام لیتے ہیں اگران کا دشمن آسمان بھی ہو تو ان کا حوصلہ وہمت دیکھ کر آسمان بھی راستہ دے دیتا ہے اورمنزل کی راہ میں آنے والی رکاوٹیں ا پا نی کے بلبلے کیطرح چند ہی لمحات میں فناہوجاتیں ہیں بس تم اپنے قوم کی ترقی کوملحوظ نظر رکھونیکی کے بدلے دنیاکے لوگوں سے کبھی معاوضہ کی طلب نہ رکھنا بلکہ اس کا اجر اللہ تعالیٰ سے ملنےکی توقعہ رکھنا عزت و بے عزتی دینے والا اللہ تعالیٰ ہےاب زمانہ بھی بدل رہا ہے اندھیرے کی جگہ روشنی نے اپنا نور پھیلانا شروع کیا اے نوجونوں تم سورج کے مانند ہوجاؤں ہرسوں ہرطرح نور ہی نور پھیلا کراپنے اپنےمنازل کیطرف گامزن ہوجاوں دنیا میں بد ی او نیکی کے بیچ باربارتصادم ہورہے ہیں نیکی فتحیاب ہورہی ہے بدی کا خاتمہ ہورہا ہے مفلسی کوئی پھترکی لکیرنہیں جس کونہ مٹایا جاسکے تم حوصلہ،ہمت اورثابت قدم سےآگے بڑھتے رہے منزل تمہارے قدم چوم کے ہی دم لے گی
3۔ اس نظم کا کونسا شعرآپ کوپسند ہے ؟
جواب:۔
ہمت کے شہسوارجوگھوڑے اٹھائیں گے
دشمن فلک بھی ہوں گے توسرکوجھکائیں گے
4 :۔ اس نظم میں استعمال شدہ قافیہ چُن کرلکھیے
پہلے بندکے قافیے :- میداں ، افشاں، بیاباں، ہاں ، جاں ہیں
ددسرے بند کے قافیے :- اٹھائیں ، جھکائیں، جائیں ، دبائیں ، عنواں ہیں
تیسرے بندکے قافیے : -مدار، وار، خوار، بہار، بادِ بہاراں ہیں
چوتھے بندکے قافیے: -حساب ، تاب ، فتحیاب ، آفتاب ، درخشاں ہیں
پانچویں بندکے قافیے:۔معرکے، فیصلے، سکے، لئے،ہیں
0 تبصرے