حضرت علی اصغر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے پانی مانگنا


مرثیہ کسے کہتے ہیں ؟
جواب:مرثیہ عربی لفظ "رثا" سے مشتق ہے جس کےمعنی ہیں رونا یا ماتم کے ہیں اصطلاحی اد ب میں مرثیہ سے مراد ایسی نظم ہوتی ہے جس میں کسی مرنے والے کے اوصاف بیان کرکے اس کی موت پر رنج و غم کا اظہا ر کیا جائےابتدائی مرثیے مختصر ہوا کرتے تھے جن کی کوئی ہیئت مقررنہ تھی شروع میں مرثیے غزل کی ہیئت میں لکھے گئےتین،چارپانچ اورچھ مصرعوں کے بند میں مرثیے کہے گئےسودا پہلے شاعر تھے جنھوں نے مرثیہ کے لئے مسدس کی ہیئت استعمال کی اوربعد میں یہی ہیئت مرثیہ کےلئےمقررہوئی مرثیہ کےاجزائےترکیبی میں چہرہ،سراپا، رخصت، آمد، رجز، جنگ، شہادت اوربین شامل ہیں
عالمی ادب میں شاعری کا آغازمرثیہ سے ہواجب قابیل نے ہابیل کو قتل کیا اور حضرت آدم علیہ السلام کو اس کی خبرجب لگی تودل پرزبردست چوٹ لگی اور اس اثر سے کہیں اشعار کہے یہی سے شاعری اور مرثیہ صنف کا آغاز ہوا اردو میں مرثیہ عربی سے فارسی کے راستے آئی میر خلیق اور ضمیر نےاردو مرثیے کونیا موڑ اوراجزائے ترکیبیں عطا کیں مرزا انیس ودبیرنے مرثیے میں نئی تبلیاں پیدا کیں اوراس صنف میں چارچاند لگا دئے
سوال: مرزا سلامت علی دبیرکی حیا ت اورشاعری پر نوت لکھیے؟
جواب حیات: -
آپ کا اصلی نام مرزا سلامت علی تھا اور دبیر تخلص تھا آپ کی پیدائش 19 اگست 1803ء میں دہلی میں ہوئی آپ کے والد صاحب کا نام مرزا غلام حسین تھا آپ کا خاندان ایران سے ہجرت کرکے ہندوستان میں مقیم ہوا جب دہلی تباہ وبرباد ہوئی تو آپ کے والد لکھنو چلے آئے یہی پر دبیر نے ابتدائئ تعلیم حاصل کی طالب علمی کےزمانے سے شعر گوئی کی طرف مائل ہوئےاور میرمظفر حسین ضمیرؔ کے شاگرد ہوئے بعد میں استاد سےزیادہ شہرت پاگئے 1857ء میں جب پورا ہندوستان جل رہا تھا توآپ سکونِ قلب کی تلاش میں پٹنہ، مرشد آباداورعظیم آباد کا سفرکیا لیکن ہرجگہ مایوسی ہی ہاتھا لگی آخری عمر میں آنکھوں کی روشنی چلی گئی آپ اس فانی جہاں سے 1858 ء میں اللہ کو پیارےہوگئے
شاعری:-
 دبیر کو شاعری کی طرف رجحان بچپن کے ایام سے ہی تھا اچھے اساتذہ کی رہنمائی نصیب ہوئی کم و پیش تین ہزارمرثیے لکھے آپ کی شاعری پر مذہبیت کا رنگ خاص طور پر جھلک رہا ہے مرثیہ کے علاوہ مثنویاں ، قصائد ، رباعیات ، اور قطعات ،سلام، نوحے وغیرہ اصناف میں طبع آزمائی کیں آپ کی تصانیف میں "دفتر ماتم" "رباعیات دبیر" ابواب المصائب" اور رسالہ مرزا دبیر " قابل ِذکر ہیں

حضرت علی اصغر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے پانی مانگنا

ہراک قدم پہ سوچتے تھے سبط مصطفیٰ ﷺ
لے تو چلا ہوں فوج عمر سے کہوں گا کیا
سبط-: بیٹے، بیٹی کی اولاد،پوتا،نواسا،حضرت محمدﷺ کی بیٹی کا بیٹا،التجا:فریاد،عدو:-دشمن، آبرو:عزت
دبیر مرثیہ کے اس شعرمیں ارشاد فرماتے ہیں کہ میدان ِ کربلا میں جب یزیدوں نے امام حسین علیہ السلام کی پانی کی رسد دریائے فرات پر پہرہ بچھاکر بند کردی تو نواسا رسول ﷺ یعنی امام حسین علیہ السلام قدم قدم پر سوچنے لگے کہ میں فوجِ عمر کو ساتھ لئے ہوں مگر دوسری طرف عمر کے سوالات کے کیا جوابات عنائت کروں گا
نے مانگنا ہی آتا ہے مجھ کو نہ التجا
منت بھی گر کروں گا تو کیا دیں گے وہ بھلا
دبیرؔاس شعر میں ارشادفرماتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام نے جب پانی مانگنا چاہا توامام حسین علیہ السلام یہ سوچنے لگا کہ اگر میں یزیدیوں سے پانی علی اصغر رضی اللہ تعالی کے لیے مانگو تو کس طرح۔ کیوں کہ میرا ضمیر اجازت نہیں دیتا کہ غیروں اور ظالموں سے فریاد کروں اگر مانگا بھی جائے تو کیا یزیدی پانی دےدیں گے
پانی کے واسطے نہ سنیں گے عدو مری
پیاسے کی جان جائے گی اورآبرومری
آبرو :-عزت، مری : - میری
دبیر ؔ فرماتے ہیں امام حسین علیہ السلام کہتےہیں کہ ہماری فریاد پر یزیدی پانی نہیں دے گے اور پھر پانی نہ ملنے کی وجہ سے ، پیاس کی شدت سے علی اصغر رضی اللہ تعالی عنہ کی جان چلی جائیں گی اور میر ی عزت بھی خاک میں مل جائیں گی
پہنچے قریب فوج تو گھبر ا کے رہ گئے
چاہا کریں سوال پہ شرما کے رہ گئے
دبیرارشاد فرماتے ہیں جب امام حسین علیہ السلام نے دل بنا لیا کہ یزیدوں سے شیر خوار بچے کے لئے پانی مانگ لیا جائے تو اسی اثنا میں یزیدی فوج قریب پہنچ جاتی ہے اور امام حسین علیہ السلام سوچتے ہی رہ جاتے ہیں
غیرت سے رنگ فق ہوا تھرا کے رہ گئے
چادر پسر کےچہرے سے سرکا کے رہ گئے
فق :- خوف یاحیرت سے چہرے کی رنگت سفید پڑجانا ، پسر:- بیٹا
دبیر ؔ کہتے ہیں جب امام حسین علیہ السلام پانی مانگنے کےلیےآگے بڑھنے لگے تو کمال کی غیرت اور حوصلہ بندی کی وجہ سے پانی کی فریاد نہ کرسکے جب اپنے بیٹے علی اصغر رضی اللہ تعالی عنہ کے چہرے سےپردہ اُٹھایا تو پیاس سے نڈھال بچے کو دیکھ کر دیکھتے ہی رہ گئے 
آنکھیں جھکا کے بولے کہ یہ ہم کو لائے ہیں
اصغر تمہارے پاس غرض لے کے آئے ہیں
اس شعر میں دبیر کہتے ہیں کہ جب امام حسین علیہ السلام کو یزیدی فوج کے پاس پانی مانگنے کے لئے جانا پڑا مگراے یزیدیوں یہ کیا آپ ہمارے نانا جان کا کلمہ پڑھنے والے ہو اورہمیں دعوت دے کر یہاں بلایا اور اوپر سے یہ ظلم ستم ڈھائے میر ی آنکھیں شرم کے مارےجھک رہی ہیں آپ کے اس وطیرے سے اور ہمیں اپنے بچے کے لئے پانی مانگنے کےلئے تم سے فریاد کرنےپڑتی ہے
گر میں بقول عمر و شمر ہوں گناہ گار
یہ تو نہیں کسی کے بھی آگے قصور وار
دبیرؔ اس شعر میں امام حسین علیہ السلام اپنی عاجزی اور بڑھے پن کا اظہار کر تے ہیں کہ اے یزیدی فوج کے سرداروں عمروشمراگرچہ میں علیہ السلام آپ کے مطابق خطا کار ہوں مگر تم میرے نانا جان کا کلمہ پڑھنے والے کسی کے آگے جواب دے نہیں ہوں
شش ماہ بے زبان نبی زادہ شیر خوار
ہفتم سے سب کے ساتھ یہ پیاسا ہے بے قرار
شش ماہ :- چھ مہینے ہفتم :- سات دن ، ہفتہ
دبیر ؔ اس شعر میں فرماتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام عرض گذار ہوئے حضرت علی اصغر رضی اللہ تعالیٰ عنہ میرا بچہ صرف چھ مہینوں کا ہے یہ بچہ نبی زادہ ہے ابھی بولنے کی صلاحیت پیدا نہیں ہوئی اور یہی بچہ ایک ہفتہ سے پیاسا ہےاے یزیدیوں اس بچہ کی کیا خطا ہے
سن ہے جو کم تو پیاس کا صدمہ زیادہ ہے
مظلوم خود ہے اور یہ مظلوم زادہ ہے
صدمہ :- غم ، پریشانی
دبیرؔ اس مرثیہ کے شعر میں کہتے ہیں کہ امام فرماتے ہیں کہ میر ی آل یہاں کربلا کے میدان میں زبردست غم وپریشانی کے عالم میں مبتلا ہے یہاں اس کربلا کے میدان ہم سب آل رسول ﷺ کے افرادہر چھوٹا بڑا مظلوم بن چکے ہیں
یہ کون بے زباں ہے تمہیں کچھ خیال ہے
در نجف ہے بانوے بے کس کا لال ہے
در:موتی،نجف: عراق کےایک شہر کا نام جہاں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا آستانہ ہے ، بانو: بیگم ، شہزادی
دبیر کہتے ہیں کہ علی اصغر ایک چھوٹا سا بچہ ہےابھی بولنےکی صلاحیت پیدا نہیں ہوئی اور اس بچے مثال شہر نجف کے موتی جیسے ہے اور یہ بچہ ہمار لال ہے
لو مان لو تمہیں قسم ذوالجلال ہے 
یثرب کے شاہ زادے کا پہلا سوال ہے
ذوالجلال : اللہ کا ایک صفاتی نام ،یثرب :-مدینہ پاک کا پرانا نام
اس شعر میں امام یزیدیوں سے فرماتے ہیں کہ اے یزیدیوں اس معصوم یثرب کے شہزادے کے لئے پانی دے دوں تم کو اللہ تعالی پاک کی قسم ہے اس معصوم بچے پر پانی بند کر کے ظلم نہ کروں
پوتا علی کا تم سے طلب گار آب ہے
دے دو کہ اس میں نام وری ہے ثواب ہے
نام وری :- شہرت ۔مقبولیت
دبیر ؔ کہتے ہیں جب امام علیہ السلام نےیزیدیوں سے کہا تمہیں تم سے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے لئے پانی مانگا جارہا ہےتم اگر دے دوں گے تو تمہیں اس کام پر بڑا ثواب ملے گا
پھر ہونٹ بے زبان کے چومے جھکاکے سر
رو کر کہا جو کہنا تھا وہ کہہ چکا پدر
پدر:-باپ، پتا ،والد
دبیرؔ کہتے ہیں جب اما م علیہ السلام نے یزیدیوں سے پانی مانگا اور انھوں نے پانی دینے سے انکا ر کیا تواس کے بعد امام نے اپنا سر جھاکر اپنے بچوں کے ہونٹو ں کو چوم کر کہا کہ تمہارے باپ نے یزیدیوں سے التجا بھی کی تھی مگر انھوں نے نہیں مانی
باقی رہی نہ کوئی بات اے مرے جگر
سوکھی زبان تم بھی دکھا دونکال کر
اس شعر میں دبیرؔ کہتے ہیں کہ جب یزیدیوں نے پانی دینے سے انکا ر کیا اب امام کہتے ہیں کہ اے میرے لخت جگر بچے اب فریا د کرنےکی کیا بات رہ گئی اے میرے لخت جگر ذرا اپنی زبانیں اپنے باپ کو دکھا دے تاکہ دیکھ لو زبانیں کتنی خشک ہوگئی
پھیری زباں لبوں پہ جو اس نورِعین نے
تھرا کے آسمان کو دیکھا حسیں نے
اس شعر میں دبیر ؔ میدان کربلا کا منظر پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جب امام کے بچے نے اپنے پیاسے ہونٹوں پراپنی زبان پھیر ی تو اس کیفیت سے زمین سے دور آسمان بھی خوف اور لرز نے لگا
سوال: حضرت امام علیہ السلام نے یزیدی فوج سے کیا سوال کیا ؟
جواب:حضرت امام علیہ السلام نے یزیدی فوج سے پانی مانگنے کا سوال کیا تھا
سوال:-اس مرثیہ حضرت علی اصغررضی اللہ تعالی عنہ کے لئے پانی مانگنا کا خلاصہ لکھیے
جواب:-کربلا کے میدان میں جب یزیدی فوجیوں نے فرات پر پہرہ بٹھایااور امام حسین علیہ السلام کی آل اور دیگر ساتھیوں کے لئے پانی بند کیا یہاں تک ایک چھوٹے بچے علی اصغر رضی اللہ تعالی عنہ جس کی عمر صر ف چھ ماہ کی تھی اس کو بھی یزیدیوں نے پانی دینے سے انکار کیااس مزکورہ مرثیہ میں اسی دردناک واقعے کا بیان ہےامام حسین علیہ السلام اپنے ایک چھوٹے بچے علی اصغر رضی اللہ تعالی عنہ کے لئے پانی مانگنا چاہتا ہے تو امام کے دل میں کئی سوال پیدا ہوجاتے ہر قدم پر اما م سوچتے ہیں کہ کس طرح یزیدیوں سے پانی مانگا جائے اما م کہتے ہیں مجھے تو دست سوال کرنا غیروں کے سامنے نہیں آتایہ دشمنان اسلام کیا جانے ہم کیا ہے جب اما م آگے بڑھتا ہے پانی مانگنے کے لئے تو شرم کے مارے سرجک جاتا ہے اور آپ امام علیہ السلام زمیں پر نیچے گر جاتے ہیں امام کہتے ہیں ہم تو خطاکار نہیں پھر بھی ہمیں ان گناہگارشمر و یزید ی فوجیوں کے پاس جانا پڑتا ہےاے شمر تمہیں معلوم ہے کہ تم کتنا بڑا گناہ کرنے جارہے ہواے گنا ہ گاروں اگر تم ہمارے لخت جگروں کے لیےپانی دے دوں گے تو اس میں تم لوگوں کے لئے بڑا ثواب ہےامام علی اصغر کے پیاسےہونٹ چومتا ہے تاکہ بچے کو کچھ تسلی ہوجائے غرض یزیدی بڑے ظالم تھے کہ ایک ننھے بچےکو بھی پانی دینے سے انکار کر دیا
سوال: سیاق وسناق اور شاعر کا حوالے دےکر اس بند کی تشریح کیجئے؟
جواب:یہ کون بے زباں ہے تمہیں کچھ خیال ہے
در نجف ہے بانوے بے کس کا لال ہے
در:موتی ،نجف:عراق کےایک شہرکا نام جہاں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا آستانہ ہے ، بانو: بیگم، شہزادی
دبیر کہتے ہیں کہ علی اصغر ایک چھوٹا سا بچہ ہےابھی بولنےکی صلاحیت پیدا نہیں ہوئی اور اس بچے مثال شہر نجف کے موتی جیسے ہے اور یہ بچہ ہمار لال ہے
لو مان لو تمہیں قسم ذوالجلال ہے 
یثرب کے شاہ زادے کا پہلا سوال ہے
ذوالجلال :- اللہ کا ایک صفاتی نام ،یثرب :-مدینہ پاک کا پرانا نام
اس شعر میں امام یزیدیوں سےفرماتے ہیں کہ اے یزیدیوں اس معصوم یثرب کے شہزادے کے لئے پانی دے دوں تم کو اللہ تعالی پاک کی قسم ہے انس معصوم بچے پر پانی بند کر کے ظلم نہ کروں
پوتا علی کا تم سے طلب گار آب ہے
دے دو کہ اس میں نام وری ہے ثواب ہے
نام وری: شہرت مقبولیت
دبیر ؔ کہتے ہیں جب امام علیہ السلام نےیزیدیوں سے کہا تمہیں تم سے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے لئے پانی مانگا جارہا ہےتم اگر دے دوں گے تو تمہیں اس کام پر بڑا ثواب ملے گا


ایک تبصرہ شائع کریں

1 تبصرے