اکبر جےؔ پوری کی غزل گوئی
کس کو معلوم ملے خاک میں منظر کتنے
اپنے آینے چھپائے ہیں سکندر کتنے
تشریح:
یہ شعراکبرؔ کی ایک بہتریں غزل سے نکالا گیا ہے اس شعر میں شاعر دنیا کی حقیقت کو بیا ن کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ دنیافانی ہے یہاں ہرچیز کے لئے موت اور فنا لازمی ہےاب تک اس جہاں میں کتنے لوگ آئے اور آئیں گےان سب کوایک دن موت کے آغوش میں چلے جانا ہے یہاں بادشاہ سکندر نے بھی اس دنیا میں اپنی حکومت کے گہرے چھاپ چھوڑے ہیں مگر بہرحال اس کو بھی اس دنیا کو الوداع کہنا پڑا
تشنہ لب تر ساکئے پیاس لئے آنکھوں میں
اورمحلوں میں چھلکتے رہے ساغرکتنے
تشنہ لب:پیاسے ہونٹ ،ساغر : پیالہ
تشریح:
اکبرؔاس شعرمیں فرماتے ہیں کہ یہ دنیا بھی عجیب قسم کی جگہ ہے کہیں لوگ دووقت کی روٹی کے لئےتگ ودو کررہے ہیں انھیں پانی تک میسرنہیں ہوپا تاہے دوسری طرف امیر لوگوں کے محل خانوں میں مے کے جام کے ساغرلبا لب بھر کےچھلک رہے ہیں
پرچم امن لئے پھرتے ہیں شہروں شہروں
آستینوں میں چھپائے ہوئے خنجر کتنے
آستین : کُرتے یا قمیض وغیرہ کی بانہہ
تشریح :
اکبرؔ اس غزل کے شعر میں ارشاد فرماتے ہیں کہ آج ہمارے ملک کی حا لت بہت خراب ہوچکی ہے جو ملک کے رکھوالے ہیں وہیں در اصل ملک کو خراب کرنے پر تلے ہوئے ہیں یہ لوگ گھر گھر، بستی بستی امن کا جھنڈا اُٹھائے گھومتے پھرتے ہیں دراصل یہی لوگ امن وامان کو بگاڑ دیتے ہیں یہی ملک کے چھپے دشمن ہیں
کس طرح دیتا صدا مجھ کو پتہ یاد نہ تھا
یوں تو بستی میں نظر آئے کُھلے در کتنے
صدا : آواز،بستی: آبادی
تشریح :یہ شعر اکبرؔ کی ایک غزل سے نکالا گیا ہے اس شعر میں شاعر فرماتے ہیں کہ اے میرےمحبوب آج میں تمہار ے شہر میں آیا تھا تجھے ڈھونڈنے کے لئے تا کہ تجھ سے ملاقات کر سکو مگر اس تیرے شہر کے ہر گھر کا دروازہ ہم نے کھلا پایا جس کی وجہ سے میں کسی گھر کے دروازے پر دستک نہ دے سکا اور تجھے بلابھی نہ سکا
دیکھ کر تشنہ لبی میری تعجب نہ کرو
میں نے صحراؤں کو بخشے ہیں سمندر کتنے
تشریح:
اکبرؔ اس شعرمیں فرماتے ہیں کہ اے دنیا کے لوگوں آپ میرے خشک ہونٹوں کو دیکھ کر حیران وپریشان ہر گز مت ہونا کیوں میں ایسا بندہ ہوں جس نے صحراؤں کو پانی کی بہتات سے سیراب کیا یعنی میں نے زندگی میں خود تکلفیں اُٹھا ئے مگر دوسروں کو ہمیشہ فائدہ ہی پہنچایا ہے
3سوالات:
٭امن کا پرچار کرنے والوں کی آستینوں میں کیا چھپا ہوا ہے ؟
جواب :امن کا پرچار کرنے والوں کی آستینوں میں خنجر چھپے ہوئے ہیں
٭تشریح کریں
کس طرح دیتا صدا مجھ کو پتہ یاد نہ تھا
یوں تو بستی میں نظر آئے کُھلے در کتنے
تشریح:
یہ شعر اکبرؔ کی ایک غزل سے نکالا گیا ہے اس شعر میں شاعر فرماتے ہیں کہ اے میرےمحبوب آج میں تمہار ے شہر میں آیا تھا تجھے ڈھونڈنے کے لئے تا کہ تجھ سے ملاقات کر سکو مگر اس تیرے شہر کے ہر گھر کا دروازہ ہم نے کھلا پایا جس کی وجہ سے میں کسی گھر کے دروازے پر دستک نہ دے سکا اور تجھے بلابھی نہ سکا
4۔ اکبر جے پوری پر ایک مختصرنوٹ لکھیں
حالاتِ زندگی:
کبر جے پوری کا اصلی نام سید محمد اکبر تھا اور تخلص اکبرؔ تھا لیکن ادبی حلقوں میں اکبرجے پوری کے نا م سے جانے جاتے ہیں آپ کی ولادت 23 اکتوبر 1928ء کو جے پور راجستھان میں ہوئی تھی آ پ کے والد محترم کا نام آغا سید علی عابدی تھا اکبر جے پوری پیشے سے ایک استا د تھے آپ نے اپنی ادبی سفر کاآغاذ 1930ءکے آس پاس سے شروع کیا ۔جے پور سے کشمیر کا رخ کیا اور یہی 4 مارچ 1997 ء شہر سرینگر میں انتقال کرگئے
ادبی خدمات:
اکبرؔ جے پوری نے یوں تو ہر اصناف سخن میں طبع آزمائی کی لیکن غزل ان کا اہم میدان رہا ۔اکبر بنیادی طورپرایک رومانی شخص کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں آ پ کے مجموعوں میں "چمن زار" اور بچوں کے "شگوفے " شائع خاصی مشہور ہوئےہیں
0 تبصرے